
گزشتہ دنوں ’’وقف املاک بِل ۲۰۲۰ء‘‘ پارلیمان کے مشترکہ اجلاس میں پیش کیا گیا اور پارلیمانی روایات اور طے شدہ طریقہ کار کے برعکس بڑی عجلت میں پاس کرالیا گیا اور اسے ایکٹ بنادیا گیا۔ اس ایکٹ کے حوالے سے بہت کچھ کہا سنا جارہا ہے اور ہمیشہ نہ صرف یہ کہ کہا سنا جائے گا بلکہ اس کے اثرات پاکستان کے مستقبل، نئی نسل، خاص طور پر دینی اور رفاہی وفلاحی خدمات سرانجام دینے والوں کو ہمیشہ بھگتنے پڑیں گے۔
اس ایکٹ کے حوالے سے چند اہم امور درج ذیل ہیں:
اس ایکٹ کی تیاری سے لے کر منظوری تک کے جملہ مراحل میں نہ اسلامی تعلیمات کو پیش نظر رکھا گیا، نہ پاکستان کے آئین کی رعایت برتی گئی، نہ ہمارے معاشرے، ثقافت اور تہذیب کو خاطر میں لایا گیا اور نہ ہی پاکستان کے مستقبل پر پڑنے والے اثرات کو مدنظر رکھا گیا، اور سب سے اہم یہ کہ پاکستان کی خود مختاری، حریت و آزادی اور قومی سلامتی کو اس بل کے ذریعے اور ایف اے ٹی ایف کے حوالے سے بننے والے دیگر قوانین کے ذریعے جس طرح نظرانداز کیا گیا، وہ ہم سب پاکستانیوں کے لیے لمحۂ فکریہ ہے۔ اس کے مقاصد اور وجوہات میں باقاعدہ لکھا گیا ہے کہ ہم ایف اے ٹی ایف کی ہدایات پر یہ ایکٹ بنا رہے ہیں، یعنی قانون سازی کا اختیار پارلیمان کے بجائے ایف اے ٹی ایف کو قرار دیا گیا، لیکن قابل غور امر یہ ہے کہ اگر آج ایف اے ٹی ایف یا بیرونی قوتوں کے ایما پر ہم نے اپنی اسلامی تعلیمات، مدتوں سے جاری روایات کو جس طرح پامال کیا ہمارے پاس کیا گارنٹی ہے کہ کل ’’ڈومور‘‘ کا تقاضا نہیں کیا جائے گا؟ سچ پوچھیے تو ہمارا معاملہ وہی ہے کہ ہم ازخود اپنے وطن کو کٹہرے میں کھڑا کرتے ہیں، بھارتی لابی کی جانب سے لگائے جانے والے الزامات کا توڑ کرنے کے بجائے اور ان کی سفارتی کوششوں اور لابنگ کو کاؤنٹر کرنے کے بجائے سراسیمگی کے عالم میں ایسے اقدامات اٹھاتے ہیں، جو بلاوجہ ہمیں مشکوک ٹھہراتے ہیں اور اقوامِ عالم کو اپنے طرزِ عمل سے ہم یہ باور کرواتے ہیں کہ ہاں ہمارے ہاں آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے… دہشت گردی کی مالی معاونت یا منی لانڈرنگ کی روک تھام ایک اصولی بات ہے اور اس سے کوئی پاکستانی بھی اختلاف نہیں کرتا، خاص طور پر موجودہ عالمی حالات میں اس قسم کے معاملات کی روک تھام اور مالی معاملات کو جتنا شفاف بنایا جاسکتا ہے ضرور بنانا چاہیے، لیکن اس معمولی سی بات کی آڑ میں وقف کے پورے نظام کو منہدم کردینا، شخصی آزادیوں کو سلب کر لینا اور پاکستان کے آئین کے منافی قانون سازی کرلینا اور پاکستان میں مدتوں سے جاری تعلیمی، رفاہی، دینی کاموں کا ناطقہ بند کر دینا، حیران کن اور ناقابل فہم ہے۔
وقف ایکٹ ہے کیا؟
اس سوال کے جواب میں سادہ لفظوں میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ ’وقف‘ کا تصور ختم کرنے کی کوشش، وقف کے تصور پر قائم اداروں کو سرکاری تحویل میں لینے کے لیے شکنجہ اور معاشرے کی فلاح وبہبود اور دینی خدمات میں مصروفِ عمل لوگوں کے لیے صرف کام ہی نہیں بلکہ زندگی اور جینے تک کو مشکل بنانے کی ایک کوشش ہے۔ بظاہر تو آج ایف اے ٹی ایف کا بہانہ بنا کر یا دیگر عوامل کا عذر پیش کرکے ایک قانون بنا لیا گیا، صرف ایک قانون نہیں بلکہ تسلسل کے ساتھ ایسے قوانین بڑی منصوبہ بندی اور ہوشیاری سے بنوائے جارہے ہیں، جنہیں وقت آنے پر پاکستان میں جاری دینی کاموں اور رفاہی وفلاحی سرگرمیوں کا گلا گھونٹنے کے لیے استعمال کیا جائے گا۔
آپ دیکھیے! ہمارے ہاں دینی مدارس لاکھوں بچوں کی کفالت کی ذمہ داری نبھا رہے ہیں، ہمارے رفاہی ادارے اور خدمت خلق کا عوامی جذبہ ۲۰۰۵ء کے زلزلے اور سیلابوں سمیت تمام آفات کے موقع پر بحرانوں میں گھرے ملک وقوم کو سنبھالا دیتے ہیں اور ہماری سرکار اپنی نااہلی کے باعث مساجد اور دینی کاموں کو اپنا کام ہی نہیں سمجھتی اور وزارتِ اوقاف تو چند مساجد کے بل ادا نہیں کرپاتی جبکہ عوام الناس اپنی مدد آپ کے تحت سارے دینی سلسلوں کو جاری رکھے ہوئے ہیں، لیکن وقف ایکٹ اور اس سے ملتے جلتے قوانین کے ذریعے ان تمام سلسلوں کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کی کوشش کی جارہی ہے، تاکہ کل پاکستان پر کوئی مشکل وقت آئے تو اس ملک اور اس کے عوام کو سنبھالا دینے والا کوئی نہ ہو، دینی کام کرنے والے اور مفت تعلیم اور مفت کفالت کرنے والوں کو اس طرح الجھا کر رکھ دیا جائے کہ وہ اپنے ملک اور اپنی قوم کے لیے کچھ نہ کرسکیں۔ یاد رہے کہ یہ وقف ایکٹ صرف وفاقی دارالحکومت کے لیے ہی منظور نہیں کیا گیا بلکہ یہ اس سے قبل پنجاب سے پاس اور لاگو کیے گئے چیرٹی ایکٹ کا چربہ اور ملغوبہ ہے۔
اس ایکٹ میں ہے کیا؟ اس کا خلاصہ آسان انداز سے سمجھیے! ایکٹ میں کوئی بھی چیز وقف کرنے سے پہلے رجسٹریشن کی شرط عائد کردی گئی ہے، دوسرے لفظوں میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ آئندہ کے لیے وقف کا دروازہ بند کرنے کا پورا اہتمام کرلیا گیا ہے۔ آپ جانتے ہیں کہ برسوں سے دینی مدارس کی رجسٹریشن نہیں ہو پائی، رجسٹریشن کا عمل کتنا مشکل اور پیچیدہ بنا دیا گیا ہے۔ اول تو تاحال رجسٹریشن کا کوئی نظام وضع نہیں کیا جاسکا لیکن اگر رجسٹریشن کا کوئی نظام بن بھی جاتا ہے تو ہمارے دفاتر اور بیورو کریسی کے روایتی نظام کے تحت وقف کرنے سے پہلے کے مراحل جنہیں رجسٹریشن کے سادہ اور خوشنما لفظ سے تعبیر کیا گیا وہ کبھی بھی پورے نہیں ہوپائیں گے، اور رجسٹریشن کا دریا عبور کرنا ہی ممکن نہیں ہوگا چہ جائے کہ وقف کی نوبت آئے۔
یوں پہلے تو ہر کوئی وقف کرنے سے پہلے رجسٹریشن کے بکھیڑوں میں پڑنے سے کترائے گا، لیکن اگر کسی نے ہمت کرہی لی تو اسے رجسٹریشن کی بھول بھلیوں میں اتنا تھکایا جائے گا کہ وہ رجسٹریشن کا بھاری پتھر چوم کر ہی لوٹ جائے گا اور کوئی چیز بھی وقف کرنے کا حوصلہ نہیں کرپائے گا، یوں اس بل میں وقف سے پہلے رجسٹریشن کی شرط لگا کر وقف کے عمل پر ایک ایسا تالا ڈال دیا گیا ہے، جس کے ذریعے وقف کا دروازہ ہی بند ہوجائے گا…
یہ تو تھا نئے وقف کا معاملہ، اب ملاحظہ کیجیے کہ پہلے سے وقف شدہ املاک اور پہلے سے موجود دینی اداروں اور مساجد و مدارس اور رفاہی اداروں اور ان کے اثاثوں کے ساتھ کیا سلوک کیا جائے گا؟
ناظم اعلیٰ کا تقرر
اس ایکٹ کے پیرا نمبر ۳ میں درج ہے کہ ’’چیف کمشنر اسلام آباد و دارالحکومت علاقہ جات (آئی سی ٹی) کے لیے ناظم اعلیٰ اوقاف کا تقرر کرے گا اور بذریعہ حکم ایسی تمام وقف املاک جو آئی سی ٹی کی حدود کے اندر واقع ہیں بشمول اس سے متعلق تمام حقوق، اثاثہ جات، قرضہ جات، واجبات اور ذمہ داریاں اس کے زیر اختیار دے سکتا ہے۔ ناظم اعلیٰ اوقاف آئی سی ٹی کے ناظم اعلیٰ کے نام سے ایک واحد کارپوریٹ ادارہ ہوگا، جو دوامی تسلسل اور مخصوص مہر کا حامل ہوگا‘‘۔
اس پیراگراف کا خلاصہ یہ ہے کہ سرکار کی طرف سے مقرر کردہ ناظم اعلیٰ جملہ اوقاف کے سیاہ وسفید کا مالک ہوجائے گا اور صرف اوقاف ہی نہیں بلکہ متعلقہ جملہ امور اس کے زیر تصرف و زیر اختیار آجائیں گے اور وہ ایک کارپوریٹ ادارے کے طور پر ان اوقاف کا جو حشر کرنا چاہے اس کو کلی اختیارات ہوں گے۔
اس ایکٹ کے پیرانمبر۸ میں کیا لکھا ہے… ملاحظہ کیجیے:
وقف املاک زیراختیار لینا۔ (۱) باوجود اس کے کہ کوئی بھی شے اس کے یاکسی دیگر فی الوقتی نافذالعمل قانون یا اس میں شامل یا کسی رسم ورواج یا کسی عدالت یا دیگر اتھارٹی کی کسی ڈگری، فیصلہ یا حکم یا کسی عدالت میں زیر سماعت کسی کارروائی میں اس کے برعکس کچھ درج ہو، کے منافی نہ ہو، ناظم اعلیٰ بذریعہ اعلامیہ کسی وقف املاک کا قبضہ، اس کا انتظام وانصرام، کنٹرول اور دیکھ بھال اپنے زیراختیار لے سکتاہے، بشرطیکہ ناظم اعلیٰ جائیداد وقف کرنے والے شخص کی زندگی کے دوران ایسے شخص یا اشخاص کی مرضی کے بغیر ایسی وقف جائیداد کا انتظام وانصرام، دیکھ بھال اور کنڑول نہیں سنبھالے گا۔
وضاحت… اس دفعہ کے مقاصد کے لیے ’’کنٹرول اور انتظام‘‘ میں وقف جائیداد کی مذہبی، روحانی، ثقافتی اور دیگر خدمات اور تقریبات (رسومات) کی ادائیگی اور انتظام پر کنڑول شامل ہوگا۔
(۲) کوئی شخص ناظم اعلیٰ سے پیشگی اجازت اور اس کی دی گئی ہدایات کی مطابقت کے بغیر ذیلی دفعہ (۱) میں حوالہ دی گئی خدمات یا تقریبات سرانجام نہیں دے گا۔
(۳) ناظم اعلیٰ ذیلی دفعہ (۶) یا ایسی انتظامیہ جس پر قبضہ لیاگیا ہے یا دفعہ (۷) کے تحت سنبھالا گیا ہے، اپنے پاس اندراج شدہ تمام املاک کو ایسے طریق میں مرکزی ریکارڈ کو ایسے طریق پر تیار کرے گا اور بنائے گا جیسا کہ صراحت کیا گیا ہو یا سرکاری جریدے میں مشتہر کیا گیا ہو، کو سنبھالے گا۔
(۴) ہر مالی سال کے اختتام پر ناظم اعلیٰ ذیلی دفعہ (۶) یا ایسی انتظامیہ جس پر قبضہ لیا گیا ہو یا دفعہ (۷) کے تحت سنبھالا گیا ہو، اندراج شدہ تمام املاک کی رپورٹ تیار کرے گا اور وفاقی حکومت کو جمع کروائے گا‘‘۔
اس عبارت کو بار بار پڑھ کر اندازہ کیجیے کہ یہ محض ایک ایکٹ نہیں بلکہ جس طرح ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں ملیں اور کارخانے قومیائے گئے اور سب کا ستیاناس کر دیا گیا، اسی طرح تمام مساجد ومدارس اور رفاہی وفلاحی اداروں کو قومیانے اور سرکاری تحویل میں لینے کی منصوبہ بندی اور تیاری کی جارہی ہے اور اللہ نہ کرے ان اداروں کا بھی وہی حشر ہونے کا خدشہ ہے، جو بھٹو دور میں ملوں اور کارخانوں کے ساتھ ہوا۔
یہاں یہ امر بھی پیش نظر رہے کہ یہ قانون صرف وقف املاک کو تحویل میں لینے کی کوشش نہیں بلکہ اس میں سزا وجزا کا جو نظام تشکیل دیا گیا ہے وہ انتہائی خطرناک ہے۔چنانچہ جزا وسزا سے متعلق ایکٹ کا حصہ دیکھیے:
’’جرائم (۱) جو کوئی درج ذیل کو روکتا، مزاحمت کرتا ہے، یا حائل ہوتا ہے یا بصورت دیگر مداخلت کرتا ہے (الف) کسی اتھارٹی، افسر یا کسی شخص کو جو اس ایکٹ کے ذریعے یا اس کی تعمیل میں اس کو سونپا گیا، عائد کیا گیا، کوئی اختیار استعمال کررہا ہے یا کوئی فرض سرانجام دے رہا ہے یا بصورت دیگر اس ایکٹ کے تحت کوئی قانونی کام سرانجام دے رہا ہے یا
(ب) کسی شخص کو جو مذکورہ بالاکسی ایسی اتھارٹی، افسر یا شخص کے احکام کی بجاآوری کررہا ہے یا جو بصورتِ دیگر اس ایکٹ کے تحت اپنی ذمہ داری کے مطابق کام کررہا ہے اسے پانچ سال تک کی قید یا جرمانہ یا دونوں کی سزا ہوگی۔
(۲) کوئی شخص جو دفعہ ۲۱ کے تحت کسی مطلوب جواب دہی میں مرضی سے قاصر رہے تو اسے قید کی سزا دی جائے گی، جو ایک سال سے کم نہ ہوگی مگر پانچ سال تک ہوسکتی ہے اور جرمانہ ادا کرنے کا پابند ہوگا، جو کہ وقف املاک سے حاصل کردہ افادیت سے کم نہ ہوگا مگر املاک سے حاصل شدہ آمدن کی رقم کے تین گنا تک ہوسکتا ہے۔
(۳) کوئی شخص جو دفعہ ۷ کے احکامات کے مطابق جواب دہی کے لیے نیت سے قاصر رہے یا ارادتاً کوئی معلومات چھپائے یا ناظم اعلیٰ کو نامکمل یا غلط معلومات فراہم کرے جیسا کہ ایکٹ کے تحت مطلوب ہو تو ایسی رقم ادا کرنے کا متقاضی ہوگا، جس کا تخمینہ متعلقہ ضلعی کلیکٹر یا ناظم اعلیٰ کی جانب سے وقف املاک کے امور تنقیح طلب کے عرصے یا پانچ سال قید، یا دونوں کے لیے، کوئی دیگر باضابطہ مجاز اتھارٹی لگائے گی‘‘ اور جرمانے اور سزا میں صرف اسی پر اکتفا نہیں کیا گیا بلکہ ڈھائی کروڑ کی خطیر رقم بطور جرمانہ عائد کرنے کی تلوار بھی لٹکائی گئی ہے۔ چنانچہ ایکٹ میں درج ہے کہ ’’کوئی شخص اس ایکٹ کے احکامات کی مطابقت میں یا کسی دیگر وجوہات کے لیے تعمیل کرنے میں ناکام رہے تو سزاکا مستوجب ہوگا، جس کی رقم ۲۵ ملین تک ہوگی‘‘۔
اس ایکٹ کے پیرا نمبر ۴۲ میں درج ہے کہ ناظم اعلیٰ اوقاف کا حکم اور فیصلہ کسی دیوانی، ریونیو عدالت یا کسی دیگر اتھارٹی کو زیر سماعت نہیں ہوگا‘‘۔
یہ چیز آئین کے آرٹیکل ۱۹۹ کے خلاف ہے۔ اس ایکٹ میں اوقاف کی رقم کی نیلامی اور فروخت کے پورے نظام کا ذکر کیا گیا، حتیٰ کہ فصلیں تک ضبط کرنے اور عمارتیں منہدم کرنے کی بات کی گئی جبکہ شرعی طور پر وقف چیز کی خرید وفروخت یا نیلامی جائز نہیں، اسی طرح شرعی طور پر وقف چیز جن مقاصد کے لیے وقف کی جائے انہیں پیش نظر رکھنا ضروری ہے جبکہ اس ایکٹ کے ذریعے وقف کی رقم کو اسکول، سڑکیں وغیرہ بنانے اور دیگر مقاصد کے استعمال کرنے کا دروازہ کھولنے کی کوشش کی گئی ہے۔
آئین کے آرٹیکل ۱۹میں جو آزادیٔ اظہار کی ضمانت دی گئی، اس ایکٹ کے ذریعے وہ بھی سلب کر لی جائے گی اور حکومت کی طرف سے سیاسی تقاریر کا بہانہ بنا کر کسی قسم کے وعظ پر پابندی عائد کر دی جائے گی اور من مانی اور لکھی لکھائی تقاریر کروائی جائیں گی۔
اس ایکٹ کے ذریعے صرف وقف غیر منقولہ اشیا ہی نہیں بلکہ چندہ بکسوں میں ڈالے جانے والے چندے تک بھی سرکار کی رسائی ہوگی اور اسے بھی وقف تصور کیا جائے گا، چناچہ ایکٹ میں مزاروں کا نام لکھا گیا، اگرچہ مدارس و مساجد کا تذکرہ تو نہیں کیا گیا لیکن عملی طورپر کل کلاں سب کو ایک لاٹھی سے ہی ہانکا جائے گا۔
الغرض اوقاف ایکٹ ۲۰۲۰ء کی جس دفعہ، جس پیرے کو پڑھیے حیرت ہوتی ہے۔ افسوس ہوتا ہے۔ سمجھ نہیں آتا کہ ہم اپنے دین، اپنی قوم، اپنے ملک، اپنی نسلِ نو اور اپنے مستقبل کے ساتھ کیا کرنا چاہ رہے اور اس ملک وقوم کو کدھر لے جانا چاہ رہے ہیں۔ اگر کوئی اس ملک کا خیر خواہ ہے… کسی میں ذرا بھی خداخوفی موجود ہے… کسی میں ذرا بھی احساس کی کوئی رمق باقی ہے تو خدارا اس بل کو واپس لیجیے… اس کو واپس کروانے میں کردار ادا کیجیے… اس تلوار کو… اس شکنجے کو اپنے مستقبل سے ہٹا لیجیے… نہیں تو یاد رکھیے:
لمحوں نے خطا کی تھی صدیوں نے سز ا پائی۔
Leave a Reply