جب ہم مصر میں اخوان المسلمین کی متواتر گرفتاریوں پر صہیونی منصوبے کی خدمت کی حیثیت سے گفتگو کرتے ہیں تو بعض لوگوں کو حیرت ہوتی ہے اور وہ اس کو پروپیگنڈا یا سازش کے نظریے میں گم رہنے کی بات سمجھتے ہیں، لیکن میں ان سے تاریخ کے دوبارہ مطالعے کی گزارش کرتا ہوں جس سے ان کو امت کے مسائل کے دفاع کے لیے اخوانی منصوبہ (جس میں بنیادی مسئلہ فلسطین کا ہے) اور صہیونی منصوبہ جس کو اخوانی منصوبہ کی پیشرفت سے لاحق خطرات کی بات آفی دیختر نے نومبر ۲۰۰۸ء میں ’’صہیونی قومی امن و امان کی اسٹریٹجیز‘‘ پر لیکچر کے دوران اٹھائی تھی اور جس کو روکنے کے لیے غزہ کے خلاف جنگ کے دوران زیفی لیفنی نے جنوری ۲۰۰۹ء کو پیرس کی ایک کانفرنس میں عالمی برادری کو اکسایا تھا درج ذیل تاریخی واقعات سے اخوان المسلمین کے خلاف کارروائیوں میں صہیونی منصوبہ کی تنفیذ و تطبیق صفائی سے دکھائی دے گی۔
کیا اخوان المسلمین اور اس کے تمام شعبوں و سرگرمیوں کو فوجی حاکم کی طرف سے ۸ دسمبر ۱۹۴۸ء کو ممنوع قرار دینے کے حکم اور ۱۹۴۷ء سے ۱۹۴۸ء میں فلسطینی سرزمین پر اخوان کی درج ذیل مزاحمتی و جہادی سرگرمیوں کو ایک دوسرے سے الگ کیا جا سکتا ہے؟
(۱) اکتوبر ۱۹۴۷ء کو حیفا میں اخوان کی کانفرنس جس میں اس نے اعلان کیا: ’’فلسطین کی آزادی کی جدوجہد کے مصارف میں اخوان المسلمین اپنا پورا حصہ ادا کرے گی‘‘۔
(۲) نومبر ۱۹۴۷ء میں شیخ محمد فرغلی اور محمود لبیب کی قیادت میں مجاہدین کے ایک دستے کا فلسطین کا سفر، پھر جب مصری حکومت نے اندھا دھند پریشان کرنا شروع کیا تو اخوان نے سیفاء میں ایک علمی سفر کی اجازت حاصل کی، وہاں سے بعض مجاہدین خاموشی سے فلسطین میں داخل ہو کر النصیرات فوجی کیمپ میں جمع ہوئے۔
(۳) عوامی دبائو کے ذریعہ اخوان نے مصری حکومت کو اس بات کی اجازت دینے پر مجبور کیا کہ عرب لیگ کے جھنڈے تلے رضاکاروں کو فوجی تربیت دی جائے۔
(۴) جہاد کے لیے بیداری اور تیاری کا کام عبدالرحمن الساعاتی، کامل الشریف، سعید رمضان، مصطفیٰ السباعی اور زہیر الشادیش نے، صہیونیوں کے خلاف سخت جہاد و قتال کا کام فوجی افسران محمود لبیب، عبدالمنعم، عبدالرئوف اور احمد عبدالعزیز نے اور مجاہدین کی مدد و تعاون کا کام شیخ محمد فرغلی، یوسف طلعت اور ابراہیم الطیب نے انجام دیا۔
فلسطین میں اخوان کے بہادرانہ کارنامے: التبۃ ۸۶، تبۃ الیمن جو تبۃ الاخوان المسلمین کے نام سے بھی معروف ہوا اور کفار دیروم، القدس، بیت لحم، الخلیل، صور اور حصار الفالوجتہ وغیرہ مقامات پر اخوان کے شرف و عزت کے بہادرانہ معرکوں کی داستانیں پھیلی ہوئی ہیں۔
یہ وہ بہادرانہ کارنامے تھے جن کی وجہ سے مشرق وسطیٰ میں برطانوی افواج کی اعلیٰ قیادت نے مصری حکومت پر فوری دبائو بڑھانے کے لیے اقدام کیا اور اطمینان دلانے کے لیے برطانوی سفارت خانے کو یہ تار بھیجا: ’’(افواج کی اعلیٰ) قیادت نے قریب ترین ممکن وقت میں اخوان المسلمین کو ممنوع قرار دینے کے لیے ان اقدامات کی سرکاری طور پر اطلاع دے دی ہے جو مصری حکومت کو قائل کرنے کے لیے اٹھائے گئے ہیں‘‘۔
پھر کیا تھا؟ اخوان کو ممنوع قرار دینے کا اعلان ہوا، مجاہدین کو واپسی کے لیے مجبور کیا گیا اور وہاں سے الطور اور ہایکستب جیلوں و قید خانوں میں بند کر دیا گیا۔
اسی طرح ۱۲ فروری ۱۹۴۹ء کو استاذ حسن البنا شہید کے رمسیس روڈ پر دن دھاڑے سنگدلانہ قتل کو (جس میں شاہ فاروق کے ساتھ امیر الائے محمد وصفی، وزیراعظم ابراہیم الہادی، داخلی عام امن و امان کے سیکریٹری عبدالرحمن بک عمار، خبائی، خفیہ سروس کے ڈائریکٹر محمود بک عبدالحمید وغیرہ اپنے اپنے عہدے کے لحاظ سے شریک تھے) کیا اخوان کے مذکورہ بالا عسکری ریکارڈ سے یا اکتوبر ۱۹۴۷ء میں لبنان میں منعقدہ مجلس عرب لیگ کے نام استاذ حسن البناء شہید کے درج ذیل خط کو مذکورہ سازش سے الگ کیا جا سکتا تھا؟ اس خط میں یہ لکھا تھا: ’’میں اخوان المسلمین کے دس ہزار مجاہدین کا پہلا دستہ بھیجنے کے لیے تیار ہوں‘‘ یا مارچ ۱۹۴۸ء میں استاذ البناء کے مجاہدین کے ایک دستے کو پورٹ سعید بندرگاہ پر رخصت کرنے کے سفر، یا فلسطین جانے والے مجاہدین کی ہمت و حوصلہ بڑھانے کے لیے دمشق کے سفر کو مذکورہ سازش سے الگ کیا جا سکتا ہے؟ اور اس سے اہم بات یہ کہ ۱۲ فروری ۱۹۴۹ء کو مذکورہ بالا مجرمانہ تدبیر سے امام حسن البناء کے قتل اور ۲۴ فروری ۱۹۴۹ء کو مصر اور صہیونی وجود کے مابین صلح معاہدے کو کیا ایک دوسرے سے الگ تصور کیا جا سکتا ہے؟ جس کے فوراً بعد لگاتار باقی عرب ممالک اور صہیونی وجود کے درمیان صلح معاہدوں پر دستخط ہوئے: لبنان ۲۳ مارچ، اردن ۳ اپریل اور شام ۲۰ جولائی۔
کیا ۱۹۵۴ء میں محمد فرغلی، یوسف طلعت اور ابراہیم الطیب کے سولی کے پھندوں پر لٹکانے کو ان کے صہیونیوں کے خلاف جہاد اور سرزمینِ فلسطین پر جنگ میں ان کی تائید و مدد سے الگ کیا جا سکتا ہے؟
کیا انور السادات کے دور میں تحریک اسلامی اور خاص طور سے اخوان المسلمین کو الفتاح کی پالیسی کے تحت جماعتی کام اور دعوتی سرگرمی کا موقع فراہم کرنے کے بعد ان کو تنگ کرنے بلکہ مقابلے کی پالیسی اختیار کرنے کا کوئی سبب تھا جس کے نتیجے میں ستمبر ۱۹۸۱ء کی گرفتاریوں میں اپوزیشن اور اخوان المسلمین کے ڈیڑھ ہزار رہنما قید ہوئے؟ اس اچانک تبدیلی یا پلٹ کر وار کرنے کا سبب مسئلہ فلسطین کے انفرادی تصفیہ اور صہیونیوں کے ساتھ معمول کے حالات بنانے کے کارواں میں مصر کی شمولیت بلکہ سبقت (قدس شریف کا دورہ، کیمپ ڈیوڈ اور مصری۔ اسرائیلی معاہدہ) کے خلاف عوامی انکار کے علاوہ اور کیا ہو سکتا ہے؟۔
کیا دسمبر ۲۰۰۶ء میں انجینئر خیرت الشاطر اور ان کے ساتھیوں کی گرفتاری اور ان کے خلاف جھوٹے مقدمے کو (جس میں فوجی عدالت نے ان کو تین سے دس برس قید کی سزا سنائی ہے) جنوبی لبنان پر ۱۲ جولائی ۲۰۰۶ء کے صہیونی حملے کے خلاف مصری عوام میں شدید ناراضی اور حزب اللہ کی عوامی تائید کی حالت سے علیحدہ تصور کیا جا سکتا ہے؟ جبکہ عرب نظام ہائے حکومت صہیونی بربری حملے کے جواز فراہم کرنے کے لیے حزب اللہ کو نتائج کا خیال کیے بغیر طالع آزمائی کے طعنے دے رہے تھے، اس وقت اخوان نے کانفرنسوں، مظاہروں اور کاروانوں بلکہ پارلیمنٹ مارچ کا اہتمام کر کے مصر کے سرکاری مؤقف کے خلاف رائے عامہ ہموار کی! کیا الشاطر اور ان کے ساتھیوں کے خلاف فوجی مقدمہ صہیونی وجود اور اس کے ساتھ تعاون کرنے والوں کے خلاف اخوانی مساعی کا سرکاری ردعمل نہیں ہے؟ خاص طور پر اس لیے کہ یہ واقعات اخوان کی ۲۰۰۵ء کے اور حماس کی ۲۰۰۶ء کے انتخابات میں بڑی کامیابی کے بعد پیش آئے جن کی وجہ سے خطے میں مزاحمت کی اہمیت، افادیت اور ضرورت دوبالا ہوئی۔
غزہ کے خلاف محاصرہ اور پھر وحشیانہ حملے کو رد کرنے کی پاداش میں اخوان کی لگاتار فوج در فوج گرفتاریوں کا معمول ۲۰۰۸ء سے ۲۰۰۹ء میں برابر جاری ہے جس میں ان کی تعداد تقریباً تین ہزار ہو چکی ہے، اس وقت سے جبکہ اہلِ غزہ کے خلاف ظالمانہ محاصرے کی مخالفت میں جنوری ۲۰۰۸ء سے اخوانی مظاہرے شروع ہوئے پھر غزہ کی مدد کے لیے معروف خلیہ (ڈاکٹر عبدالحئی الفرماوی، ڈاکٹر محمد عماد، ڈاکٹر محمد وھدان) کے مسئلے سے گزرتے ہوئے ڈاکٹر جمال عبدالسلام کی غزہ کی فریاد رسی کی مہم کا مسئلہ، نیز غزہ کے محاصرے کو توڑنے کی مہموں کے سرگرم کارکنوں کے خلاف اقدام، پھر محاصرے کی ناکامی کے بعد اہلِ غزہ کی ہمت و حوصلہ اور ثابت قدمی و استقلال کو زیر و زبر کرنے کے لیے سنگدلانہ صہیونی حملہ ہوا تو اخوان کی قیادت میں مزاحمتی عناصر کی مدد کے لیے ہر جگہ مظاہرین نکلے، اس کے جواب میں سرکار نے گرفتاریوں کا نیا سلسلہ شروع کیا جس میں سیکڑوں اخوانی قید ہوئے۔ عوام کے پرسکون ہونے کے بعد بھی ان اخوانی رہنمائوں کے خلاف کارروائیاں جاری ہیں جو صہیونیوں کے خلاف مظاہروں کی کی پشت پر تھے جیسے ڈاکٹر مصطفی غنیمی اور ان کے ساتھی، اور محمد خالد البلتاجی اور ان کے ساتھی جو اب تک قید ہیں۔
اخوان کی بین الاقوامی تنظیم کے نام سے معروف مسئلہ مقامی طور پر غزہ کی مدد کے لیے عوامی تحریک کے صفایا سے گزرتے ہوئے عالمی طور پر ان لوگوں کو سزا دینے کے لیے استعمال ہو رہا ہے جو فلسطین کی مدد کے لیے سرگرداں ہیں تاکہ مستقبل میں دوبارہ صہیونیوں اور ان کے ساتھ تعاون کرنے والے نظامہائے حکومت کے خلاف کوئی آواز اٹھانے کی کوشش نہ کرے۔ یہ پیغام جتنا سابق حسابات کو چکانے کے لیے ہے اتنا ہی صہیونی وجود کے ساتھ آئندہ مرحلے میں بغیر عوض متوقع کلی تصفیہ کے لیے عام ماحول اور بین الاقوامی میدان تیار کرنے کے لیے بھی ہے، اس لیے اخوان کی بین الاقوامی تنظیم کا مسئلہ اٹھا کر اس میں ایسی شخصیات اور اداروں کے نام ٹھونس دیئے گئے جن کے خلاف مصری خفیہ سروس اور عدالتی تحقیقات پر سب کو حیرت و تعجب ہے۔ اس مسئلے کے اٹھانے کے وقت سے بھی صاف معلوم ہوتا ہے کہ یہ فلسطین کی مدد اور غزہ پر صہیونی وحشیانہ حملے کے خلاف عالمی سرگرمی کے ردعمل میں سامنے آیا ہے۔ چنانچہ کیا مرشد عام مہدی عاکف کی طرف سے المیہ کی یاد کے دن ۱۵ مئی ۲۰۰۹ء کو ’’قدس کی مدد کے لیے عالمی غضب کے دن‘‘ کے طور پر منانے کی اپیل سے صرف ایک دن قبل ۱۴ مئی ۲۰۰۹ء کو اس تنظیم کے نام پر لوگوں کی گرفتاری کو ایک دوسرے سے الگ کیا جا سکتا ہے؟ یہ گرفتاریاں صرف اس لیے ہوئیں کہ ’’قدس کی مدد‘‘ کے نام پر بھی ویسا ہی عظیم عالمی انسانی مظاہرہ نہ ہو سکے جیسا کہ ’’غزہ کی مدد‘‘ کے نام پر ہوا تھا۔ پھر اسی سیاق میں ۲۸ جون ۲۰۰۹ء کو اخوان کے متعدد رہنمائوں کے ساتھ ڈاکٹر عبدالمنعم ابوالفتوح (رکن مکتب ارشاد اور عرب اطباء ایسوسی ایشن کے جنرل سیکریٹری) کی گرفتاری ہوئی۔
یہ تاریخی ریکارڈ خود بولتا ہے کہ صہیونی منصوبہ کی تنفیذ، پیش رفت اور استحکام کی فضا ہموار کرنے اور خطے کا مستقبل اس سے مربوط کرنے اور اخوان کی ناجائز ظالمانہ گرفتاریوں کے درمیان ابتدا سے اب تک مضبوط رشتہ رہا ہے اور تاریخی واقعات اس بات کی بھی گواہی دیتے ہیں کہ اخوان کے خلاف مصائب و پریشانیوں کے پہاڑ توڑے جانے کا بڑا حصہ ان کی طرف سے صہیونی منصوبے کے مقابلے کے لیے امت کو تیار کرنے کی پاداش میں واقع ہوا ہے۔ میرا خیال ہے کہ جب تک اخوان کا وجود ہے اور جب تک ناجائز صہیونی قبضہ جاری ہے اخوان کو یہ ٹیکس ادا کرتے رہنا پڑے گا تاآنکہ اسلامی تہذیبی منصوبے کے قیام میں کامیابی ہو جو حقیقی ترقی کی راہ پر امت کی رہنمائی کرے، جس کے نتیجے میں ناجائز قبضہ زائل ہو، اس ترقی کے عوامل میں سے ایک ضروری عامل عرب۔ مسلم نظامہائے حکومت کے لیے یہ سمجھنا بھی ضروری ہے کہ صہیونی وجود ہی اصل دشمن ہے اور اخوان کا منصوبہ خطے میں صہیونی خطرات کے مقابلے کے لیے امت کی طاقت کا ایک لازمی عنصر ہے۔
(بحوالہ: ہفت روزہ المجتمع ، کویت۔ترجمہ: مسعود الرحمن خان ندوی)
Leave a Reply