شام میں مغرب کی مشکلات

اگر آپ کی حامی جماعت اپنا کنٹرول کھونا شروع کردے، تو کیا کیا جائے؟

یہ وہ سوال ہے جس کا شامی قومی اتحاد کے مغربی حامیوں کو سامنا ہے۔ مغربی حامیوں کا دعویٰ ہے کہ وہ مرکزی سیاسی حزبِ اختلاف اور اس کے مسلح ونگ کے حامی ہیں۔ یہ مسلح ونگ Free Syrian Army کے نام سے جانا جاتا ہے۔خاص کر شام کے پس منظر میں، یہ معتدل گروپ دیگر گروپوں خاص طور پر جہادی گروپوں پر سے اپنا کنٹرول کھورہا ہے۔ چنانچہ امریکی انتظامیہ اور یورپی حکومتیں اس پر گٹھ جوڑ کر چکی ہیں۔

جہادیوں کی قوت بڑھنے سے بعض مغربی ادارے خاموشی سے شام کے صدر بشارالاسد سے رابطہ کررہے ہیں، جبکہ باقیوں کا خیال ہے کہ مذہبی اسلام پسندوں کے ساتھ کام کرنا چاہیے، جو شدت پسندوں کو مسترد کرچکے ہیں۔ لیکن مغربی پشت پناہی اتحاد کا حصہ بننے کو تیار نہیں ہیں۔ اس ضمن میں ۲۲ جنوری کو جنیوا میں مذاکرات شروع ہونے کا امکان ہے، اور مغربی حکومتیں اب تک اس شش و پنج میں مبتلا ہیں کہ کس مسلح گروپ کی حمایت کی جائے۔ مذکورہ کانفرنس کی تیاریوں میں مصروف ایک مغربی ڈپلومیٹ کا کہنا ہے کہ ہمیں نہیں پتا کہ ہم اس وقت کہاں ہیں۔

اس مخمصے کی اصل وجہ شام میں القاعدہ کی بڑھوتری ہے۔ عراق کی اسلامی حکومت اور ’’الشام‘‘ (عظیم شام) جو ISIS کے نام سے جانے جاتے ہیں، انتہائی شدت پسند گروپ ہیں، شمالی او ر مشرقی شام میں بڑھ رہے ہیں جبکہ القاعدہ کی دوسری شاخ ’’جبت النصرہ‘‘ اب بھی اپنا وجود رکھتی ہے۔

یہ چیز مغربی حکومتوں کے لیے فکر کا باعث ہے، اور شامیوں کا خیال ہے کہ شہریوں کے خلاف فائٹر جیٹ، بم اور کیمیائی ہتھیار استعمال کرنے والی حکومت سے زیادہ خطرناک یہ شدت پسند ہیں۔ روس اور ایران کی مدد کے ساتھ بشار الاسد ان کے خلاف محاذ آرا ہے۔

یوں صرف ایک غیر القاعدہ حزبِ اختلاف صحیح معنوں میں باقی رہ گئی ہے، جو سات مؤثر اسلام پسند گروپوں پر مشتمل ایک جماعت ہے جس کا نام ’’اسلامک فرنٹ‘‘ ہے۔ اس فرنٹ میں احرار الشام، ایک بڑا سلفی گروپ اور آرمی آف اسلام (دمشق کے قریب کئی گروپوں کا مجموعہ) شامل ہیں۔ فرنٹ نے خود کو اتحاد کے ملٹری ونگ سے دور رکھا ہے، جس کی سربراہی ایک بریگیڈیئر سلیم ادریس کے سپرد ہے جو ISIS سے بھی ہے۔

لیکن مغربی پالیسی ساز اس شش و پنج میں مبتلا ہیں کہ فرنٹ سے کیسے مربوط رہا جائے۔ اتحاد کے ارکان نے اس کی مذمت کی ہے کہ ایسا اقدام انتہائی دقیانوسی اور غیر جمہوری ہوگا، اگرچہ اس سے روابط کی کوشش جاری ہے۔ امریکی ڈپلومیٹس اس سے رابطے میں ہیں، لیکن مغرب عموماً اس قربت کے بارے میں پشیمان ہے کیوں کہ اس کے فوجیوں کو بشارالاسد گروپ کے علاقے میں شامی ساحل کے قریب علوی شہریوں پر ہلاکت خیز حملے پر شرمندگی ہے۔

جب امریکی و برطانوی ارکان نے شام کے انقلابیوں کی غیر فوجی امداد بند کیے جانے کی توثیق کی، تو مغرب نے گیارہ دسمبر کو اپنی پریشانی کا اظہارکیا۔ یہ بندش اس وقت کی گئی کہ جب اسلامک فرنٹ نے ترک سرحد کے قریب اتحاد سے تعلق رکھنے والے انقلابیوں کے کئی اڈوں اور گوداموں کو بند کردیا۔ دو دن پہلے، دو سال قبل حکومت کے خلاف پُر امن مظاہرہ کرنے والی سیکولر قانون داں رازان زیٹونا کو اس کے دفتر سے اغوا کرلیا گیا۔ اس بارے میں گمان ہے کہ غالباً یہ فرنٹ کے کسی گروپ کی کارروائی ہے۔

اب مغربی حکومتیں بشارالاسد اور اس کی حکومت کے مقابلے میں جہادیوں کے دبائو میں زیادہ ہیں۔ تاہم، ایک خیال جس کا اظہار امریکی ڈپلومیٹ ریان کروکر نے حالیہ دورے میں کیا، وہ یہ ہے کہ ’’سب سے کم بُرا یہ ہوگا کہ صدر اسد سے بات کی جائے‘‘۔ مغرب پہلے ہی سے بشارالاسد سے کیمیائی ہتھیاروں کے خاتمے پر مدد لے رہا ہے۔

اب تک یہ واضح نہیں ہے کہ جنیوا میں ہونے والے مذاکرات میں کون شام کی حزبِ اختلاف کی نمائندگی کرے گا۔ روس کی تجویز ہے کہ یہ اتحاد سے باہر کے گروپ ہوں، تب ہی وہ اور امریکی مذاکرات کی میز پر بیٹھیں گے۔ تاہم، یہ واضح نہیں ہے کہ ایران اور سعودی عرب کہ جنہوں نے اسلامک فرنٹ کی فنڈنگ کی ہے، کیا وہاں ہوں گے؟ ان دونوں کے بغیر کوئی ٹھوس معاہدہ کرنا درکنار معلوم ہوگا۔

شام کے کرب میں مزید اضافہ اُس وقت ہوا، جب لبنان کی سرحد کے قریب ۱۷؍ دسمبر کو ایک بڑا کار بم دھماکا ہوا۔ غالباً اس دھماکے کا ہدف حزب اللہ تھی، جو لبنان کی ایک بڑی مذہبی شیعہ ملیشیا ہے اور صدر اسد کی پشت پناہی کررہی ہے۔

شام سے لگ بھگ ایک ملین (دس لاکھ) پناہ گزین لبنان آچکے ہیں، جن میں سے اکثر انتہائی غریب ہیں اور لبنان کی چار ملین آبادی کے لیے انتہائی سنگین مسئلہ بن چکے ہیں۔ ان میں سے کچھ فلیٹوں میں زندگی بسر کررہے ہیں اور بعض پُلوں کے نیچے سو تے ہیں۔ دیگر پہلے سے بھرے ہوئے فلسطینی پناہ گزین کیمپوں میں چلے گئے ہیں یا شامی سرحد کے قریب بکہ وادی میں خیموں میں زندگی گزاررہے ہیں۔ اقوام متحدہ کے مطابق، اگلے سال کے آخرتک شامی پناہ گزینوں کی تعداد چار ملین سے بڑھ جانے کا خدشہ ہے۔ ۳ء۲ ملین تو پہلے ہی ملک چھوڑ چکے ہیں اور ساڑھے چھ ملین لاپتا ہیں۔ اس ہفتے اقوام متحدہ نے شام کے لیے ساڑھے چھ ارب ڈالر کی امداد شروع کی ہے، جو اَب تک کی سب سے بڑی امداد ہے۔

(“War and peace in Syria: Where are the good guys?”… “The Economist”. Dec. 21, 2013)

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*