۱۹۷۱ء کے جنگی جرائم اور جماعت اسلامی بنگلا دیش

الزامات سے جماعت اسلامی کا اعلانِ لاتعلقی:

ان حالات میں ہم وثوق کے ساتھ یہ کہہ سکتے ہیں کہ جماعت اسلامی کا کوئی بھی رہنما ۱۹۷۱ء کی جنگِ آزادی کے دوران لوٹ مار، قتل و غارت، جنسی تشدد اور آتش زنی جیسے جنگی جرائم میں ملوث نہیں رہا۔ جماعت اسلامی کے وہ رہنما جنہیں بدنام کرنے کے لیے یہ مہم چلائی جا رہی ہے ان پر بھی Collaborators Act کے تحت کبھی الزام نہیں عائد کیے گئے۔ اور نہ ہی کوئی اور رہنما ان ۱۹۵ جنگی مجرموں کی فہرست میں شامل تھا جو کہ بنگلا دیش حکومت نے باقاعدہ تفتیش کے بعد شائع کی تھی۔ لہٰذا کس طرح سے ان پر جنگی جرائم کے الزامات عائد کیے جا سکتے ہیں جبکہ انہوں نے جنگِ آزادی میں حصہ لیا ہی نہیں۔

جماعت اسلامی کے رہنما اپنے متعلقہ امور سے وابستہ کاموں میں مصروف ہیں یا پھر سیاست اور بغیر کسی مفاد کے ایمانداری کے ساتھ سماجی بہبود کے کاموں میں مصروف ہیں۔ ان میں سے کئی رہنمائوں نے جنرل الیکشن میں بھی حصہ لیا اور پارلیمنٹ کے ممبر بھی منتخب ہوئے۔ انہوں نے ایمانداری اور خلوص کے ساتھ ممبر اور منسٹر کی حیثیت سے اپنی ذمہ داریاں ادا کیں۔ یہاں تک کہ جماعت اسلامی کے دو وزیروں کو اندرون ملک اور بیرون ملک اپنے متعلقہ سرکاری دفاتر میں ایمانداری اور بہترین کارکردگی کے حوالے سے پہچانا جاتا رہا ہے۔

ترمیم شدہ ’’پیوپل آرڈر‘‘ کے مطابق جنگی مجرم کو عام انتخابات ۲۰۰۹ء میں امیدواران کی فہرست سے خارج کر دیا گیا تھا لہٰذا اگر جماعت اسلامی جنگی جرائم میں ملوث ہوتی تو اسے بھی آخری عام انتخابات میں حصہ نہیں لینے دیا جاتا۔ جبکہ جماعت اسلامی نے بڑی تعداد میں ووٹ حاصل کیے ، اگر جماعت اسلامی کے رہنما واقعی ان سنگین جرائم میں ملوث ہوتے تو ایسا کبھی نہ ہوتا۔

اسلامی سیاست حدف میں:

سچائی تو یہ ہے کہ ایک خاص طبقہ نے اس جنگی جرائم کے معاملے کو دوبارہ سے اٹھایا ہے تاکہ جماعت اسلامی اور اس کے رہنمائوں کو بدنام کیا جا سکے اور اسلامی سیاست کو دبایا جا سکے۔ صرف جماعت اسلامی ہی نہیں بلکہ دیگر اسلامی جماعتیں اور ان کے رہنمائوں کو یہ خاص گروہ نشانہ بنا رہا ہے۔ بہرحال یہ لوگ جماعت اسلامی کو بدنام کرنے اور اسے کرپشن، دہشت گردی اور فسادات کی سیاست میں ملوث کرنے کے مذموم مقاصد میں ناکام ہو چکے ہیں۔ درحقیقت جماعت اسلامی وہ تنظیم ہے جو کہ اسلام اور جمہوریت سے مخلص ہے۔ اللہ تعالیٰ کی مدد سے اور بنگلا دیش کی امن پسند عوام کی ہم آہنگی سے اسلامی عنصر اب بنگلا دیش کی سیاست کا لازمی جزو بن چکا ہے۔

اس ملک کے عوام یہ بات اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ سابق امیر جماعت اسلامی پروفیسر غلام اعظم کی شہریت کے مقدمے میں اس وقت کے اٹارنی جنرل نے حکومت کی جانب سے ہائی کورٹ کے سامنے کاغذوں کا ڈھیر پیش کیا تھا جس کا مقصد جماعت اسلامی کے سربراہ کا تعلق ۱۹۷۱ء میں پاکستان آرمی کی طرف سے کیے گئے اقدامات کے ساتھ جوڑنا تھا۔ اس مقدمہ میں پاکستان آرمی کی جانب سے کی جانے والی قتل و غارت، آتش زنی اور لوٹ مار کو سامنے لایا گیا۔

غلام اعظم کی شہریت کا فیصلہ:

۱۹۷۱ء کی جنگِ آزادی کے دوران پاکستان آرمی کے سنگدل اور بے رحم اقدامات کے ساتھ غلام اعظم کی شہریت کے تعلق کو ثابت کرنے والے تمام ثبوت کو ہائی کورٹ نے مسترد کر دیا۔ یہاں تک کہ جناب جسٹس عمر اسماعیل الدین سرکر وہ واحد جج تھے جنہوں نے مختلف فیصلہ دیا کہ ’’غلام اعظم بنگلا دیش کے شہری نہیں تھے‘‘۔ انہوں نے بھی اپنے فیصلہ میں یہ کہا کہ ’’جبکہ اٹارنی جنرل کا یہ دعویٰ کہ غلام اعظم کا تعلق پاکستان آرمی کے اقدامات سے تھا کسی طرح ثابت نہیں ہو سکا‘‘۔ معزز جج اپنے فیصلہ میں لکھتے ہیں: ’’کچھ خبری تبصروں اور بیانات و تصاویر سے ظاہر ہوتا ہے کہ مدعی پروفیسر غلام اعظم نے جنرل ٹکا خان اور جنرل یحییٰ خان سے ملاقات کی ہے۔ لیکن اس کے علاوہ ملزم کا پاکستان آرمی اور اس کے رضاکار البدر و الشمس وغیرہ کے ساتھ تعلق کا کوئی واضح ثبوت نہیں ملتا۔ مدعی صرف قابض فوج کے ماتحت عوام کی حیثیت سے رہا ہے اس کے علاوہ دیئے گئے ثبوت میں ایسا کچھ واضح نہیں ہوتا کہ ملزم کو جنگی جرائم کا مرتکب ٹھہرایا جا سکے‘‘۔ (Vide Dhaka Law Report 45, High Court Division pg433)۔ واضح رہے کہ پروفیسر غلام اعظم نے ہائی کورٹ ڈویژن کے فیصلے کے مطابق بنگلا دیش کی شہریت حاصل کر لی تھی جس پر سپریم کورٹ کے اپیلٹ ڈویژن کے تحت عمل درآمد ہوا۔

قانون کی خلاف ورزی:

جماعت اسلامی کے رہنمائوں پر جنگی جرائم کے مقدمے کا مطالبہ قانون اور آئین کی روشنی میں قابل اعتراض ہے۔ جنہوں نے نسل کشی، جنسی تشدد، آتش زنی اور لوٹ مار کی وہ قابلِ الزام ہیں کہ انہیں جنگی مجرم کہا جا سکے اور ان جرائم کا ارتکاب دونوں اطراف کے لوگ کر سکتے ہیں کہ جنہوں نے جنگ میں حصہ لیا لیکن جماعت اسلامی اور اس کے رہنما کا جنگ سے کوئی تعلق نہیں۔ لہٰذا ان کو جنگی مجرم قرار دینے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔پاکستان آرمی کا ساتھ پولیس، رضاکار، البدر اور الشمس نے دیا تھا جو کہ اس وقت کی مشرقی پاکستان کی حکومت کے ماتحت تھے۔ جماعت اسلامی کا ان سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ ۲ اگست ۱۹۷۱ء کو مشرقی پاکستان کی حکومت نے ایک رضاکار فورس بنائی جسے ایک آرڈیننس کے تحت پولیس کے ماتحت کر دیا تھا۔ لہٰذا جماعت اسلامی ممکنہ طور پر بھی اس فورس کے ساتھ کچھ نہیں کر سکتی تھی۔ ہم ثابت قدمی کے ساتھ یہ موقف رکھتے ہیں کہ جماعت اسلامی بحیثیت تنظیم اجتماعی اور انفرادی طور پر کسی بھی جنگی جرائم میں ملوث نہیں۔

تاریخی ریکارڈ:

جماعت اسلامی اور عوامی لیگ کے رہنمائوں کے درمیان بہت گہرا باہمی تعاون رہا ہے۔ آمریت کے دورِ حکومت کے خلاف ’’لایسن کمیٹی‘‘ کے تحت تحریک ۱۹۸۰ء میں تاریخ کا حصہ رہی ہے۔ دونوں کے باہمی رضامندی پر سیاسی اقدامات اور پروگرامات تشکیل دیئے جاتے تھے۔ اس ملک کے باشندوں کو یہ بھی یاد ہے کہ کس طرح جماعت اسلامی اور عوامی لیگ کی اعلیٰ قیادت نے ۱۹۹۴ء، ۱۹۹۵ء اور ۱۹۹۶ء میں عبوری حکومت کی تحریک میں باہمی تعاون کیا ہے۔ عوامی لیگ نے اس وقت جنگی جرائم کی بات نہیں کی کہ جب جماعت اسلامی نے ان کا ساتھ دیا اور عبوری حکومت کے لیے آمریت کے خلاف مہم کا حصہ بنی۔ ۱۹۹۱ء کے عام انتخابات میں کسی پارٹی کے پاس بھی اتنی نشستیں نہیں تھیں کہ حکومت بنا سکے۔ BNP نے ۱۴۰ نشستیں حاصل کیں، عوامی لیگ نے ۸۸ اورجماعت اسلامی نے ۱۸ نشستیں حاصل کیں۔ لہٰذا حکومت بنانے کے لیے جماعت اسلامی نے BNP کا ساتھ دیا جس پر عوامی لیگ نے شدید غصہ کا اظہار کیا۔

۱۹۹۱ء سے ۱۹۹۶ء تک BNP اور جماعت اسلامی کی مشترکہ حکومت کے دوران عوامی لیگ نے اس وقت کے امیر جماعت اسلامی پروفیسر غلام اعظم کے خلاف ایک نام نہاد ’’گھتگ دلال نرمل کمیٹی‘‘ کے تحت غیر جمہوری اعتراضات اٹھائے۔ یہ اعتراضات جماعت اسلامی اور BNP کے درمیان دراڑ ڈالنے میں کامیاب رہے۔ لیکن بعد میں عوامی لیگ سیاسی حکمت عملی کے تحت تحریک چلانے کے لیے جماعت اسلامی کا اتحادی بنی یہاں تک کہ تحریک کو زور دینے کے لیے جماعت اسلامی، عوامی لیگ اور جتیا پارٹی نے ایک ساتھ اپنی نشستوں سے استعفے دیے۔ ۱۹۹۴ء، ۱۹۹۵ء اور ۱۹۹۶ء کے دوران جماعت اسلامی، عوامی لیگ اور جتیا پارٹی کے قائدین نے BNP کی حکومت (جو کہ صرف خواتین کی مخصوص نشستوں پر کھڑی تھی) کے خلاف کئی اجلاس اور پریس کانفرنس کیں۔ موجودہ وزیراعظم شیخ حسینہ اور موجودہ امیر جماعت اسلامی مولانا مطیع الرحمن نے اس وقت ایک جوائنٹ پریس کانفرنس بھی کی جو کہ اس تحریک کا حصہ تھی۔ عباس علی خان کی وفات سے پہلے جب وہ قائم مقام امیر جماعت اسلامی تھے، شیخ حسینہ نے خود جماعت اسلامی کی اعلیٰ قیادت کو جس میں عباس علی خان، مولانا مطیع الرحمن اور موجودہ سیکریٹری جنرل علی احسن محمد مجاہد شامل تھے اپنے گھر پر مشاورتی اجلاس کی دعوت دی۔ اس کے علاوہ جماعت اسلامی، عوامی لیگ اور جتیا پارٹی کے درمیان کئی اجلاس اور نشستیں اس وقت کی اپوزیشن لیڈر شیخ حسینہ کے سرکاری آفس، عبدالصمد آزاد کی رہائش گاہ اور ساجدہ چوہدری کے گھر پر منعقد ہوئیں۔

عوامی لیگ کا پینترا بدلنا:

۱۹۹۱ء کے عام انتخابات میں عوامی لیگ کے صدارتی نمائندے جسٹس بدرالحیدر چوہدری نے جماعت اسلامی کے ووٹ اور اس کی حمایت کے حوالے سے اس وقت کے امیر جماعت اسلامی پروفیسر غلام اعظم سے اپنی رہائش گاہ پر ملاقات کی۔ ۱۹۹۶ء کے عام انتخابات میں پروفیسر غلام اعظم نے جماعت اسلامی کے پلیٹ فارم پر پورے ملک میں انتخابی مہم چلائی لیکن اس وقت تمام انتخابی کارکردگی کے دوران جماعت اسلامی پر کوئی الزام عائد نہیں کیا گیا۔ بہرحال عوامی لیگ نے جون ۱۹۹۶ء کے عام انتخابات میں اکثریت حاصل کی کیونکہ جماعت اسلامی نے تمام حلقوں سے علیحدہ نمائندے کھڑے کیے تھے۔ ۱۹۹۱ء میں عوامی لیگ کے اہم رکن نے شیخ حسینہ کی طرف سے جماعت اسلامی کو مشترکہ حکومت بنانے کی پیشکش کی جس میں تین وزیر اور سات خواتین کی مخصوص نشستیں دینے کا وعدہ کیا۔ لیکن جماعت اسلامی نے اس پیشکش کا جواب نہیں دیا۔ یہاں تک کہ عوامی لیگ کو انتخابات کی سیاست سے تنہا کر دیا گیا۔ بہرکیف ۱۹۹۶ء میں عوامی لیگ کے منتخب حکومت کے بعد جماعت اسلامی نے BNP کے ساتھ عوامی لیگ کے غیر جمہوری اور غلط اقدامات کے خلاف ۴ پارٹی الائنس بنایا۔ عوامی لیگ بھی یہ سمجھتی تھی کہ ۴ پارٹی الائنس کے لیے جماعت اسلامی کی شمولیت کے بغیر عوامی لیگ کے خلاف بڑی عوامی تحریک کھڑی کرنا ممکن نہیں۔ لہٰذا ۲۰۰۱ء کے عام انتخابات میں BNP اور جماعت اسلامی نے الیکٹرول الائنس کے تحت نمائندے کھڑے کیے اور اس اتحاد نے ۳/۲ سے زیادہ اکثریت حاصل کی۔ لہٰذا اس اتحاد کو توڑنے کے مقصد کے حصول کے لیے جنگی جرائم کے معاملے کو اچھالا جا رہا ہے اور جماعت اسلامی کے خلاف ایک تلخ مہم شروع کی گئی ہے۔

پروپیگنڈے کی جنگ:

’’سیکٹر کمانڈرز فورم‘‘ کی تشکیل دے کر ایک بھرپور پروپیگنڈا مہم چلائی جا رہی ہے جس کے تحت کروڑوں ٹَکا خرچ کیا جا چکا ہے اس کے علاوہ اخباری اور سیٹلائٹ ٹی وی کی سطح پر بھی پروپیگنڈا جاری ہے۔ عوامی لیگ کی حامی قوتیں قومی سیاست میں اپنا اہم کردار ادا کرنے کے لیے اپنا تمام اشتعال جماعت اسلامی پر نکال رہی ہیں۔ ریاستی سطح پر حل شدہ معاملے کو دوبارہ زندہ کیا جا رہا ہے تاکہ جماعت اسلامی کے قائدین پر جنگی جرائم کا داغ لگا کر انہیں بے عزت اور بدنام کیا جا سکے۔ کچھ لوگوں کا یہ مشورہ ہے کہ جنگی جرائم کے مقدمات کو ۱۹۷۳ء ایکٹ کے مطابق نئے سرے سے چلایا جا سکتا ہے لیکن تذلیل کرنے والے مقدمات کے لیے اس قانون کا استعمال اور سیاسی مخالفین کو سزا دینے کے لیے ٹریبونل کا قیام انسانی حقوق اور انسانیت کے خلاف ایک گھٹیا اور حقارت آمیز عمل ہو گا۔ لہٰذا الزام عائد کرنے والوں ہی کی طرف سے تقرر کیے گئے ٹریبونل سے انصاف کا تقاضا نہیں کیا جا سکتا۔

پہلے بھی جماعت اسلامی نے ایسی تمام مخالفانہ اور دشمنانہ کارروائیوں کا مقابلہ اللہ تعالیٰ کی مدد اور اس ملک کے عوام کی حمایت کے ساتھ ڈٹ کر کیا ہے اور اب بھی جماعت اسلامی ان تمام الزامات کا مقابلہ اپنی عوام کے ساتھ سیاسی اور قانونی سطح پر کرے گی جو کہ جنگی جرائم کے نام پر صرف سیاسی انتقام لینے کے لیے عائد کیے جا رہے ہیں۔

جماعت اسلامی کی پکار:

ایک انتہائی گہری اور شر انگیز سازش قومی اور بین الاقوامی سطح پر اسلام اور اسلامی سیاست کے خلاف جاری ہے۔ سازش کرنے والوں میں ہمت نہیں کہ وہ اسلام کا مقابلہ سامنے آکر کریں اسی لیے وہ اسلام کو دبانے کے لیے تمام پُرفریب اقدامات کر رہے ہیں۔ لہٰذا مرکزی مجلس شوریٰ جماعت اسلامی دعوت دیتی ہے تمام مذہبی تنظیموں، علماء و مشائخ، مذہبی اسکالرز، طلباء، مزدور، اساتذہ، وکلاء، تاجر اور ہر شعبہ سے تعلق رکھنے والے عوام کو کہ وہ اپنی سیاسی وابستگی اور ہر قسم کی تفریق سے قطع نظر ہو کر آگے بڑھیں اور اس سازش کو ناکام بنائیں۔

(ترجمہ: فرقان انصاری)

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*