بنگلا دیش میں ایک بار پھر جنگی جرائم کے مقدمے کا بازار گرم ہے۔ عوامی لیگ کی حکومت ہے۔ بنگلا دیش کے قیام کی ذمہ دار یہ جماعت چاہتی ہے کہ صورتحال کا فائدہ اٹھاتے ہوئے جنگی جرائم کی تفتیش کے نام پر تمام اہم سیاسی مخالفین کو ٹھکانے لگا دیا جائے یا اس قدر خاموش کر دیا جائے کہ ان میں کچھ کہنے اور کرنے کی سکت نہ رہے۔
یاد رہے کہ ۲۶ مارچ ۲۰۱۰ء کو عوامی لیگ کی حکومت نے جنگی جرائم کی تفتیش کے لیے خصوصی ٹریبونل قائم کرنے کا اعلان کیا۔ یہ ٹریبونل اس پارٹی کے ہمدرد ارکان پر مشتمل ہے۔ ابتدائی مرحلے میں قائم کی جانے والی ’’فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی‘‘ نے ۲۵ مشتبہ ’’جنگی مجرمان‘‘ کی فہرست تیار کی ہے‘ جس میں صرف بنگلا دیش جماعت اسلامی سے تعلق رکھنے والے سرکردہ ارکان کی تعداد ۲۳ ہے ، جبکہ ۲ مشتبہ جنگی مجرمان بیگم خالدہ ضیاء کی بی این پی سے تعلق رکھتے ہیں۔ ’’سیکٹرز کمانڈرز فورم‘‘ نے جنگی مجرمان کی ابتدائی فہرست میں ۵۰ نام پیش کیے تھے۔ اس فہرست میں وہ تمام نام بھی شامل ہیں جو ’’فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی‘‘ نے پیش کیے ہیں۔
جنگی جرائم میں ملوث قرار دیے جانے کی کوششوں پر جماعتِ اسلامی بنگلا دیش نے اخباری بیانات و اعلانات کے محاذ پر خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ اسے جو کچھ بھی کہنا ہے وکلاء کے ذریعے عدالت میں کہا جائے گا۔ بیگم خالدہ ضیاء کی جماعت ’’بنگلا دیش نیشنلسٹ پارٹی‘‘ (بی این پی) کے لیڈر صلاح الدین قادر چوہدری کو بھی جنگی مجرموں کی فہرست میں شامل کیا گیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ حکومت اس مقدمے کی آڑ میں سیاسی مخالفین کا صفایا چاہتی ہے۔
’’انٹرنیشنل کرائسز گروپ‘‘ میں ایشیائی امور کے تجزیہ نگار مائیکل شیخ نے جیانگ مائی (تھائی لینڈ) میں کہا کہ جنگی جرائم کا مقدمہ سیاسی حریفوں کو ہراساں کرنے کے لیے استعمال ہو سکتا ہے۔ جبکہ بی این پی کے سیکریٹری جنرل خوندکار دلاور حسین کا بھی کہنا ہے کہ جنگی جرائم کا مقدمہ سیاسی انتقام کا مؤثر آلہ بن سکتا ہے۔ ’’دی ڈیلی اسٹار‘‘ سے انٹرویو میں دلاور حسین نے کہا کہ جنگی جرائم کے مرتکب افراد کے خلاف کارروائی کے نام پر صرف ایک جماعت کا نام لیا جا رہا ہے۔
بنگلا دیش جماعتِ اسلامی کے موجودہ امیر مطیع الرحمن نظامی اور ۸۴ سالہ سابق امیر پروفیسر غلام اعظم کے علاوہ بنگلا دیش جماعت اسلامی کے موجودہ سیکرٹری جنرل علی احسن محمد مجاہد کو بھی جنگی جرائم کا مرتکب قرار دینے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ یہ کوئی پہلی کوشش نہیں۔ حکمراں ’’عوامی لیگ‘‘ نے مختلف مواقع پر اپنے حریفوں کو جنگی جرائم کے نام پر دبوچنے کی کوشش کی ہے اور ناکامی کا منہ دیکھا ہے۔ اب جنگی جرائم کا ٹریبونل قائم کر کے بڑے پیمانے پر ازسرِ نو یہ کوشش کی جا رہی ہے۔
بنگلا دیش میں جنگی جرائم کی تفتیش کے حوالے سے حکومتِ پاکستان کا مؤقف اچانک تبدیل ہوا ہے۔ ۷؍اپریل کو ڈھاکا میں پاکستانی ہائی کمشنر اشرف قریشی نے وزیر قانون بیرسٹر شفیق احمد سے ملاقات کی اور یقین دلایا کہ پاکستان اس مقدمے میں مداخلت نہیں کرے گا۔ انہوں نے اس تاثر کی تردید کی کہ پاکستان بنگلا دیش میں جنگی جرائم کے مقدمے کے خلاف سفارتی سطح پر کوئی مہم چلانا چاہتا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ بنگلا دیش خود مختار ملک ہے جس کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہیں کی جائے گی۔ اب تک خیال کیا جارہا تھا کہ پاکستان اس مقدمے کو رکوانے کے لیے امریکا سے دبائو ڈلوائے گا۔
یاد رہے کہ ۱۶ مارچ ۲۰۱۰ء کو اشرف قریشی نے ڈھاکا ہی میں کہا تھا کہ شملہ معاہدے کے تحت جنگی جرائم کا معاملہ طے پا چکا ہے۔ لہٰذا اب بنگلا دیش میں کوئی مقدمہ نہیں چلایا جا سکتا۔ اس کے جواب میں کہا گیا تھا کہ روانڈا، سابق یوگوسلاویہ، کمبوڈیا اور لبنان میں جنگی جرائم کے مرتکب افراد کے خلاف انفرادی مقدمات قائم کیے گئے اور بنگلا دیش میں بھی اسی نوعیت کی کارروائی کی جائے گی۔ یاد رہے کہ شملہ معاہدے کے تحت پاکستانی فوج کے ان ۱۹۵؍افسران کو بنگلا دیش سے پاکستان منتقل کر دیا گیا تھا جن پر جنگی جرائم میں ملوث ہونے کے الزامات عائد تھے۔
بنگلا دیش کے وزیر قانون بیرسٹر شفیق احمد سے ۷؍اپریل ۲۰۱۰ء کو ’’انٹرنیشنل فیڈریشن آف ہیومن رائٹس‘‘ کے وفد نے بھی ملاقات کی اور سزائے موت کے مسئلے پر بات کی۔ شفیق احمد نے انہیں جنگی جرائم کے مقدمے میں سزائے موت کی اہمیت سے آگاہ کیا۔ واضح رہے کہ وزیراعظم حسینہ واجد کے والد‘ بنگلا دیش کے قیام کی تحریک کے ہیرو اور عوامی لیگ کے سربراہ شیخ مجیب الرحمن اور ان کے دیگر اہلِ خانہ کے قتل میں ملوث افراد کو بیرون ملک سے لانے اور موت کی سزا دینے کے لیے ٹاسک فورس قائم کی گئی تھی۔ شیخ مجیب الرحمن کے بعض مبینہ قاتل غیر ملکی شہریت حاصل کر چکے ہیں۔ جبکہ ان میں سے پانچ افراد کو حال ہی میں ڈھاکا جیل میں پھانسی پر چڑھایا جاچکا ہے۔ ان کی عمریں ۷۰ سال کے قریب یا اس سے زائد تھیں۔
اقوام متحدہ نے جنگی جرائم کے مقدمے میں بنگلا دیشی حکومت کو تکنیکی معاونت کی پیشکش کی ہے۔ بنگلا دیش میں یو این مشن کی سربراہ رینات لوک ڈیسیلین نے کہا ہے کہ جنگی جرائم کا مقدمہ غیر معمولی احتیاط کا طالب ہوتا ہے۔ اس سلسلے میں غیر معمولی نفاست کے ساتھ شواہد جمع کیے جاسکتے ہیں۔ تمام الزامات کے تحت تفتیش بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ قوانین کے تحت کی جانی چاہیے۔ یو این مشن نے اس سلسلے میں چند ماہرین کے نام بھی تجویز کیے ہیں۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے بھی اقوام متحدہ کی جانب سے تکنیکی معاونت کی پیشکش کا خیرمقدم کیا ہے۔ ایمنسٹی کی سیکریٹری جنرل آئرین خان بنگلا دیشی نژاد ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اس مقدمے سے بہت سے زخم مندمل ہوں گے۔ بنگلا دیش نے اقوام متحدہ کی جانب سے تکنیکی معاونت کی پیشکش کو خوش آئند قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ بنگلا دیش کی حکومت اس امر کو یقینی بنانے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کرے گی۔
مگر معاملہ صرف یہیں ختم نہیں ہو جاتا۔ بین الاقوامی سطح پر اس مقدمے کے حوالے سے شکوک کا بھی اظہار کیا جا رہا ہے۔ ۹ جولائی ۲۰۰۹ء کو ’’ہیومن رائٹس واچ‘‘ نے بنگلا دیشی وزیراعظم شیخ حسینہ واجد کے نام خط میں لکھا ہے کہ جنگی جرائم کے مقدمے کے لیے ۱۹۷۳ء میں بنگلا دیشی حکومت کی جانب سے منظور کیا جانے والا قانون سخت ناکافی ہے۔ ’’ہیومن رائٹس واچ ایشیا‘‘ کے ڈائریکٹر ایڈم بریڈی کا کہنا تھا کہ بنگلا دیش کے قیام کو ۴۰ سال ہونے والے ہیں۔ اس دور کے جنگی جرائم کے شواہد تلاش کرنا اب جوئے شیر لانے سے کم نہیں۔ اس مقدمے پر سیاسی مقاصد اور بدنیتی کے غالب آنے کا قوی امکان ہے۔ خدشہ یہ ہے کہ بہت سے بے قصور افراد بھی مقدمہ کی لپیٹ میں آ جائیں گے۔ اگر جنگی جرائم کے مقدمے کی آڑ میں بڑے پیمانے پر ناانصافی ہوئی تو معاشرے میں بگاڑ پیدا ہو گا۔ خدشہ یہ ہے کہ یہ پورا عمل سیاسی نوعیت اختیار کر لے گا اور ساکھ کھو بیٹھے گا۔ موجودہ قوانین اور طریق کار کے تحت اپیل کرنا آسان ہو گا۔
جنگی جرائم کا مقدمہ بنگلا دیشی حکومت کے لیے ایک بڑا چیلنج ہے۔ کارروائی غیر جانبدارانہ نہ ہوئی تو اس کی ساکھ دائو پر لگ جائے گی۔ شواہد جمع کرنا بہت مشکل کام ہے اور اس سے بھی مشکل۔۔۔ بلکہ ناممکن کام مقدمے کو سیاسی انتقام کی راہ پر گامزن ہونے سے روکنا ہے۔
اس مرحلے پر یہ یاد دلانا بھی ناگزیر اور مفید ہے کہ بنگلا دیش کا قیام بھارت کے کُھلے اور چُھپے تعاون سے اور ننگی جارحیت اور حملہ کے ذریعہ پاکستان کو توڑ کر عمل میں لایا گیا تھا۔ اس دوران وہاں آباد لاکھوں غیربنگالی اور اَن گنت محبِ وطن بنگالی شہری بھی ’’عوامی لیگ‘‘ کی گوریلا فورس مُکتی باہینی کی درندگی کا شکار ہوئے تھے۔ پورے کے پورے خاندان۔۔۔ جوان مرد ہی نہیں‘ بوڑھے‘ بچے اور عورتیں بھی اذیتیںدے دے کر ہلاک کی گئیں۔ اربوں روپے کی املاک لوٹ لی گئیں۔ اجتماعی قتل گاہیں بنا کر زندہ انسانوں کو بھیڑ بکریوں کی طرح ذبح کیا گیا‘ ان کی رگوں سے سرنجیں لگا کر خون نچوڑا گیا اور ان کے بدن کے ٹکڑے کیے گئے۔ لیکن حیران کُن بات یہ ہے کہ اس خونِ کثیر و ناحق کا آج نہ کوئی مدعی ہے‘ نہ منصف۔۔۔ کسی عدالتی چارہ جوئی کے لیے ان لاکھوں غیربنگالیوں اور اَن گنت بنگالیوں کا شمار ہی نہیں کیا جاتا۔ عوامی لیگی حکومت نے اپنے ہاں تاریخ کے ان دردناک سانحات کا انکار کرنے اور ان کا تذکرہ کسی تحریر میں نہ آنے دینے کی پالیسی اپنائی ہے اور اس کے لیے منصوبہ بند اقدامات کیے ہیں۔ جبکہ پاکستان پر قابض سول اور ملٹری اسٹیبلشمنٹ‘ سیاستدانوں اور حکومتی اداروں نے پاکستان کی قربان گاہ پر نذر ہونے والے لاکھوں انسانوں کا خون بُھلا دیا ہے اور تاریخ سے اپنی آنکھیں بند کر لی ہیں۔ اب اس سوال کا جواب ملنا مشکل ہے کہ اس معاملہ میں انصاف کرنے والا ٹریبیونل کب بنے گا؟ کون بنائے گا؟ شاید اب یومِ حشر کا خصوصی ٹریبیونل ہی اس کا فیصلہ کرے۔
[][][]
Leave a Reply