لیبیا سے شام تک جنگ ایک گورکھ دھندا ہے، سازش ہے، مفادات کے لیے رچایا جانے والا ڈرامہ ہے۔ جنگ کو گورکھ دھندا، ۱۹۳۰ء کے عشرے میں مشہور امریکی میرین میجر جنرل اسمیڈلے بٹلر نے کہا تھا۔ وہ اس امر کی تحقیق کر رہے تھے کہ دنیا بھر میں وہ کون سے گروہ ہیں جو اپنے مفادات کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے امریکی عسکری قوت کو استعمال کرتے ہیں۔ ہیٹی میں نیشنل سٹی بینک کے مفادات سے ہونڈراس کے یونائٹیڈ فروٹ پلانٹیشنز تک، چین کے اسٹینڈرڈ آئل ایکسیس سے نکارا گوا کے براؤن برادرز تک بیشتر امور کا جائزہ لے کر میجر جنرل اسمیڈلے بٹلر نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ امریکی فوج چند بڑے کاروباری اداروں کے مفادات کو تحفظ فراہم کرنے کی غرض سے کام کرتی ہے اور جس قدر بھی نقصان ہوتا ہے اس کا ازالہ امریکی عوام کی جیب سے کیا جاتا ہے۔ ان کی محنت کی کمائی پر بڑے کاروباری ادارے سیاسی سیٹ اَپ کے ساتھ مل کر ڈاکے ڈالتے ہیں۔ وقت اور حالات بدل چکے ہیں مگر پرانی کہاوت اب بھی مؤثر ہے کہ چیزیں جتنی زیادہ بدلتی ہیں اسی قدر وہ یکساں رہتی ہیں۔
کرنل معمر قذافی کے بعد لیبیا کا نظم و نسق سنبھالنے والی قومی عبوری کونسل نے گزشتہ ہفتے اعلان کیا کہ وہ قذافی کے دور میں ان کے بیٹے سیف الاسلام کی جانب سے کیے جانے والے تیل نکالنے اور فروخت کرنے کے معاہدوں کا جائزہ لے گی تاکہ ان میں بدانتظامی اور بے قاعدگی کا پتا چلایا جاسکے۔ افریقا میں تیل کے سب سے بڑے ذخائر جن ممالک میں ہیں ان میں لیبیا نمایاں ہے۔ گزشتہ برس جب نیٹو افواج نے لیبیا پر حملے کیے تب منحرفین بہت سی تیل برآمد کرنے کے لیے استعمال ہونے والی بندر گاہوں پر قابض ہوگئے اور انہوں نے تیل کی برآمد کے لیے نئے معاہدے کرنا شروع کردیے۔ کہا تو یہ جارہا ہے کہ تیل کے معاہدوں پر نظر ثانی کا بنیادی مقصد کرپشن کی راہ مسدود کرنا ہے مگر لگتا یہ ہے کہ گزشتہ برس جن ممالک نے لیبیا کے منحرفین کی مدد کی تھی انہیں نوازنے کی تیاری کی جارہی ہے اور ساتھ ہی ان ممالک کو کسی نہ کسی حد تک سزا دینا ہے جو معمر قذافی کے اقتدار کو ختم کرنے کی تحریک کی راہ میں دیوار بنے۔
فرانس اور اٹلی کی آئل کمپنیوں کو ملنے والے تیل کے معاہدے سب سے پہلے نشانہ بنتے دکھائی دیتے ہیں۔ فرانس پہلا ملک تھا جس نے قومی عبوری کونسل کو قانونی حکومت کی حیثیت سے تسلیم کیا۔ ان ممالک کی آئل کمپنیوں سے کیے جانے والے معاہدوں کا جائزہ لیا جائے تاکہ کسی بھی بے قاعدگی کا راستہ روکا جاسکے۔ ان کمپنیوں کے حوالے سے ان کے اپنے ممالک میں بھی فارن کرپٹ پریکٹسز ایکٹ کے تحت تحقیقات کی جارہی ہیں۔ لیبیا کی آئل مارکیٹ میں یورپ کی چند بڑی کمپنیوں کا شیئر گھٹنا اس اعتبار سے شدید منفی اثرات کا حامل ہوگا کہ ایران سے تیل کی درآمدات کے معاملے میں یونان، اسپین اور اٹلی کو پہلے ہی دباؤ کا سامنا ہے۔ اگر لیبیا نے تیل کی پیداوار کو معمر قذافی کے دور کی سطح پر رکھا تو فرانس اور اٹلی کی آئل کمپنیوں کو نقصان کا سامنا کرنا پڑے گا اور ان کے حصے کا تیل امریکا اور برطانیہ کی آئل کمپنیوں کو ملنے لگے گا۔
لبنان کے نئے حکمراں سیٹ اپ سے بہتر تعلقات کے حوالے سے چین کو بھی شدید مشکلات کا سامنا ہوسکتا ہے۔ معمر قذافی کے آخری برسوں میں چین اور لیبیا کے تعلقات غیرمعمولی حد تک پروان چڑھ گئے تھے۔ ۲۰۱۰ء میں دونوں ممالک کے درمیان تجارت کا حجم ۶ء۶ ارب ڈالر سے زائد رہا تھا۔ ۲۰۰۷ء میں جب امریکا نے افریقا پر توجہ دینا شروع کی تب معمر قذافی نے آکسفورڈ یونیورسٹی میں طلبہ سے خطاب کرتے ہوئے بتایا کہ چین سے تعلقات بہتر رکھنا بہت سودمند ثابت ہوا ہے۔ انہوں نے افریقا میں چین کی سرمایہ کاری کو کھل کر سراہا۔ ساتھ ہی ساتھ انہوں نے یہ بھی کہا کہ علاقائی سیاست سے دور رہ کر چینیوں نے افریقا میں کروڑوں افراد کے دل جیت لیے ہیں۔ اب صورت حال بدل چکی ہے۔ عبوری سیٹ اپ نے چین سے تعلقات کو سرد خانے میں رکھ دیا ہے۔ قومی عبوری کونسل کے عہدیداروں نے یہ بھی کہا ہے کہ لیبیا میں تعمیر نو کے ٹھیکوں کی تقسیم میں چین کو اس بات کی سزا دی جائے گی کہ اس نے انقلابی قوتوں کو تسلیم کرنے میں دیر لگائی۔ بعد میں اس بیان کی تردید بھی کی گئی مگر ساتھ ہی یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ بہت سی چینی کمپنیاں اب بھی لیبیا میں منجمد اور پھنسے ہوئے اثاثوں کی بحالی اور وصولی کا انتظار کر رہی ہیں۔ ان اثاثوں کی مالیت ۱۸ء۸ ارب ڈالر سے زائد ہے۔ مگر خیر ایسا نہیں ہے کہ سب کچھ ختم ہوگیا ہے۔ عبوری قومی کونسل نے اعلان کیا ہے کہ چینی کمپنیوں سے جون میں انتخابات کے بعد بات چیت کی جائے گی تاکہ معاملات کو درست رکھا جاسکے۔
قومی عبوری کونسل نے چند ماہ کے دوران اپنے بارے میں تاثر درست کرنے کی کوشش کی ہے اور یہ ثابت کرنا چاہا ہے کہ وہ حکومت کی طرح کام کر رہی ہے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ مسلح گروپ اب بھی ایک دوسرے پر حملوں میں مشغول ہیں۔ ملک کے کئی حصوں میں صورت حال اطمینان بخش قرار نہیں دی جاسکتی۔ ڈیڑھ ماہ کے دوران ۲۰۰ سے زائد افراد باہمی لڑائی کی نذر ہوچکے ہیں۔ بعض علاقوں میں ملیشیا والے بدمعاشی پر اترے ہوئے ہیں۔ ٹریپولی میں ایک ہوٹل پر ملیشیا کے ارکان نے حملہ کردیا۔ انہوں نے ہوٹل کے منیجر کو صرف اس لیے اغوا کرلیا کہ اس نے ملیشیا کے ایک رکن سے ہوٹل میں ٹھہرنے پر بل مانگ لیا تھا۔ گزشتہ ہفتے بن غازی میں ہزاروں افراد نے مارچ کرتے ہوئے مطالبہ کیا کہ مسلح گروہوں کے درمیان لڑائی بند کرائی جائے۔ لیبیا اب بھی قبائل کی بنیاد پر بٹا ہوا ہے اور مسلح گروپوں نے بہت سی سرکاری عمارتوں پر قبضہ کرکے سابق حکومت کے طے کردہ امور کے تحت کام کرنا جاری رکھا ہے۔ ملک میں بظاہر کسی کی حکومت نہیں۔ قومی عبوری کونسل کے بارے میں یہ تاثر دیا جارہا ہے کہ وہ حکومت کر رہی ہے جبکہ درحقیقت ایسا کچھ نہیں مگر جب تک امریکا اور اس کے اتحادیوں کے (تیل سے متعلق) مفادات کو تحفظ حاصل رہے گا، لیبیا میں قومی عبوری کونسل کو اختیارات حاصل رہیں گے اور اسمیڈلے بٹلر یہ سب دیکھ کر ذرا بھی حیران نہ ہوتے۔
جو عناصر جنگ کے ذریعے معاملات کو اپنے حق میں کرنے کا ہنر جانتے ہیں وہ اب شام میں بھی لیبیا کی کہانی دہرانے کے لیے سرگرم ہیں۔ گزشتہ ماہ فرینڈز آف سیریا کا اجلاس ہوا جس میں شام کے باغیوں کو لاکھوں ڈالر کی فنڈنگ کی منظوری دی گئی۔ کوفی عنان نے جس جنگ بندی کی راہ ہموار کی ہے اس کی بھرپور ناکامی کے لیے جو کچھ بھی ہوگا وہ پہلے سے طے شدہ اسکرپٹ کے مطابق ہوگا۔ غیر ملکی میڈیا کو رپورٹس دینے کا سلسلہ بھی شروع ہوچکا ہے جن میں بڑے پیمانے پر ہلاکتوں کے دعوے کیے جارہے ہیں۔ روس کے وزیر خارجہ سرگرئی لیوروف نے درست کہا ہے کہ دوسروں کی آنکھ کے تنکے تلاش کیے جارہے ہیں مگر اپنی آنکھ کا شہتیر نہیں دیکھا جارہا۔ جب تک شام میں حکومت کے مخالفین کو ہتھیاروں اور مالی وسائل کی فراہمی کا سلسلہ جاری رہے گا تب تک کسی بھی طور یہ سوچا نہیں جاسکتا کہ لڑائی رک سکے گی۔ روسی وزیر خارجہ کا واویلہ لاحاصل ہے۔ اس وقت شام میں سب کچھ طے شدہ ہے یعنی ڈرامے کی طرح ہے۔ جنگ بندی سے لڑائی بند کرنا مقصود ہی نہیں تھا۔ اب شام میں کہیں سے بھی لڑائی کی اطلاع ملے گی تو بشارالاسد کی حکومت کو گرانے کے لیے روس اور چین پر دباؤ بڑھ جائے گا۔
شام میں لیبیا کی کہانی پوری کی پوری نہیں دہرائی جاسکتی۔ وہاں نیٹو افواج کے حملے نہیں ہوسکتے۔ شام کی فوج کے پاس روس کے دیے ہوئے زمین سے فضا میں مار کرنے والے میزائل ہیں اور ان میزائلوں کو استعمال کرنے سے بشارالاسد انتظامیہ ذرا بھی نہیں ہچکچائے گی۔ سب سے خطرناک بات یہ ہے کہ مغربی ممالک یا روس اور چین میں سے کسی نے بھی نہیں سوچا کہ شام کے معاملے میں کسی نہ کسی فریق کو اپنی ساکھ داؤ پر لگانا پڑے گی اور پھر عزت بچانا دشوار ہو جائے گا۔ سب سے زیادہ نقصان میں شاید ایران رہے گا۔ اگر معاملات جوں کے توں رہیں تو ایران مزید مضبوط بن کر ابھرے گا۔ مگر حالات جوں کے توں نہیں رہیں گے۔ اس کی تیل کی برآمدات پر پابندیاں عائد کی جارہی ہیں، معاشی پابندیاں بھی سخت کی جارہی ہیں۔ اس صورت حال سے ایران کے لیے مشکلات میں اضافہ ہو رہا ہے اور اگر اس کا ایک اہم اتحادی (بشارالاسد) اقتدار میں نہ رہا تو خطے میں اس کی پوزیشن مزید کمزور ہوجائے گی۔
شام کے بعد اب پاکستان کی باری ہے۔ بلوچستان میں علیحدگی کی تحریک کے حوالے سے امریکی کانگریس میں قرارداد بھی پیش کی گئی ہے جس میں پاکستان کی حکومت پر زور دیا گیا ہے کہ بلوچوں کا حق خود ارادیت تسلیم کرے۔ قرارداد پیش کرنے کے ساتھ ساتھ ایوان نمائندگان کے ری پبلکن رکن روہر بیکر نے امریکی اخبارات میں مضامین بھی لکھے ہیں جن میں بلوچوں کے حق خود ارادیت کی حمایت کی گئی ہے اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا سوال اٹھایا گیا ہے۔ انہوں نے یہ بھی بتایا ہے کہ بلوچستان معدنی وسائل سے مالا مال ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ روس نے پاکستان میں گیس کی پائپ لائن کے لیے ڈیڑھ ارب ڈالر کی سرمایہ کاری پر آمادگی ظاہر کی ہے۔ یہ پائپ لائن ایران کے اسالویہ انرجی زون (Assalouyeh Energy Zone) سے شروع ہوکر مغربی ایران سے بلوچستان میں داخل ہوگی۔ اس منصوبے میں بھارت بھی شریک رہا ہے۔ بعد میں اس نے خود کو الگ کرلیا مگر اب تک منصوبے کو ترک کرنے کا اس نے باضابطہ اعلان نہیں کیا۔ اس منصوبے میں چین بھی دلچسپی لیتا رہا ہے۔ گوادر کی بندرگاہ سے اپنے شمال مغربی صوبے سنکیانگ تک پائپ لائن بچھانا اس کا بھی خواب رہا ہے تاکہ گیس کی فراہمی کسی تعطل کے بغیر جاری رہے۔ اب جبکہ روس نے سرمایہ کاری پر آمادگی ظاہر کردی ہے، پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ حقیقت کے بہت قریب دکھائی دے رہا ہے۔
پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبے کے حوالے سے امریکا ابتدا ہی سے شدید دباؤ ڈالتا رہا ہے۔ روس، چین اور بھارت پر غیر معمولی دباؤ رہا ہے۔ اب ایسا لگتا ہے کہ بھارت اور چین نے دباؤ قبول کرلیا ہے اور منصوبے سے بظاہر دور ہوچکے ہیں۔ امریکا نے ترکمانستان سے افغانستان اور پاکستان ہوتی ہوئی بھارت تک پہنچنے والے گیس پائپ لائن کا منصوبہ متبادل کی حیثیت سے پیش کیا ہے مگر یہ اب تک قابل عمل دکھائی نہیں دیا۔ ایران نے گیس پائپ لائن میں اپنے حصے کا کام مکمل کرلیا ہے مگر پاکستان بظاہر ہچکچاہٹ میں مبتلا ہے۔ اب جنگ کے ذریعے مفادات کی آگ بھڑکانے والے عناصر میدان میں ہیں۔ آزاد بلوچستان کا شوشہ چھوڑ کر گیس پائپ لائن کے منصوبے کو ٹھکانے لگانے کی تیاری کی جارہی ہے۔
اسمیڈلے بٹلر کی رائے درست تھی۔ مگر اب مسئلہ یہ ہے کہ امریکی فوج سے بھی بڑھ کر ایسے عناصر جنگ پسند لوگوں کے لیے آلہ کار ہیں جنہیں رقوم، ہتھیار اور تربیت دے کر کہیں بھی حالات خراب کیے جاسکتے ہیں۔ تزویراتی فوائد حاصل کرنے کی یہی ایک قابل عمل صورت دکھائی دیتی ہے۔ لیبیا میں باغیوں نے معمر قذافی کے اقتدار کو کمزور کرکے تیل کی پیداوار اور برآمدات پر کنٹرول حاصل کیا۔ شام میں حکومت کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے والے عناصر ایک اہم اتحادی کو کمزور کرکے ایران کی پوزیشن مزید کمزور کرنے کے لیے بے تاب ہیں۔ امریکی حمایت سے بلوچستان میں باغی یقینی طور پر پاک ایران گیس پائپ لائن کو بھی کامیابی سے ہمکنار ہونے نہ دیں گے۔
(From Libya To Syria- “War is a Racket. It always has been”… “Global Research”. April 14th, 2012)
Leave a Reply