اسرائیلی لیڈروں نے جون ۱۹۶۷ء میں جب توسیع پسندانہ جنگ شروع کی تو ان کے وہم و گمان میں بھی نہیں ہو گا کہ ۴۰ برس بعد تک اس کے خوفناک نتائج ان کا پیچھا نہیں چھوڑیں گے۔ اس وقت صرف ایک تزویراتی ہدف ان کے پیش نظر تھا کہ بچے کھچے پورے فلسطین پر قبضہ کر کے تصادم ختم اور ۱۹۴۸ء میں شروع کردہ نسل کشی کا عمل مکمل کر لیا جائے۔
انھیں اس بات کا احساس نہیں تھا کہ تصادم کا یہ حل فوجی بالادستی سے نکل کر کہیں زیادہ خطرناک رخ اختیار کر لے گا۔ دریائے اردن کے مغربی کنارے، غزہ کی پٹی، جولان کی پہاڑیوں اور صحرائے سینا پر قبضے کو بہت بڑی کامیابی سمجھا گیا۔ اگلے ۲۰ برس فلسطینیوں کو جس تلخ تجربے سے گزرنا پڑا وہ اسرائیلی جیت کے شور و غوغا میں دبا رہا۔ دنیا نے فلسطینی سر زمین کی واپسی پر کوئی توجہ نہ دی جس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے غاصب نسل پرست حکومت نے قدم جما لیے اور فلسطینیوں کی بنیادی ضروریاتِ زندگی کا نظام منظم طریقے سے تباہ کر دیا گیا۔
کہیں ۱۹۸۷ء میں جا کر دنیا نے فلسطینیوں کی مقبول تحریک انتفاضہ کو ایک حقیقت کے طور پر دیکھا۔ اس وقت تک ایک نئی فلسطینی نسل پروان چڑھ چکی تھی جو اپنی سر زمین میں آزادی اور امن کی پیاسی تھی۔ اگلے دو عشروں کے دوران میرے عوم نے ثابت کر دیا کہ وہ ۱۹۴۸ء والی غلطیاں نہیں دہرائیں گے وہ اپنی سر زمین پر ہی رہیں گے خواہ انہیں اس کی کوئی بھی قیمت ادا کرنی پڑے اور وہ کسی بھی صورت میں غاصبانہ تسلط کے خلاف اپنی مزاحمت کے جائز حق سے دستبردار نہیں ہوں گے۔
اس حق کو دوسری چیزوں کے علاوہ اقوام متحدہ کی قرارداد نمبر ۲۹۵۵ اور ۳۰۳۴ کی بھی حمایت حاصل ہے جن میں اس امر کی توثیق کی گئی ہے کہ تمام لوگوں کو اپنے مقدر کا خود فیصلہ کرنے اور غیر ملکی تسلط کے خلاف تمام دستیاب وسائل سے جدوجہد کرنے کا ناقابل تنسیخ حق حاصل ہے۔
اسرائیل نے فلسطینیوں کے عزم و ہمت کا غلط اندازہ لگا کر فاش غلطی کی۔ اسرائیلی فوج ۱۹۶۷ء کے بعد لاکھوں فلسطینیوں کو قتل اور زخمی کر چکی ہے۔ صرف ۲۰۰۶ء میں مقتول فلسطینیوں کی تعداد ۶۵۰ تک پہنچ گئی۔ ۱۹۶۷ء میں اسرائیلی تسلط کے آغاز سے اب تک ساڑھے چھ لاکھ سے زائد فلسطینیوں کو صیہونی حراست میں لیا جا چکا ہے، یہ تعداد فلسطینیوں کی کل مردانہ آبادی کا ۴۰ فیصد ہے۔ آج تین چوتھائی فلسطینی عوام بے گھر ہیں، پچاس لاکھ فلسطینی مہاجرین دنیا بھر میں عسرت کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔
۱۹۹۳ء میں معاہدہ اوسلو پر دستخط ہونے کے وقت ہم سے کہا گیا تھا کہ اب حالات بہتر ہونا شروع ہو جائیں گے لیکن اسرائیل کی جانب سے صیہونی بستیاں بسانے اور ہماری زمین پر قبضے کرنے سے فلسطینیوں کی زندگی پہلے سے بڑھ کر جہنم بن گئی اس دوران دنیا کو اس فریب میں مبتلا رکھا گیا کہ اسرائیل اپنے وجود کو لاحق خطرے کا دفاع کر رہا ہے۔ اس کے برعکس حقیت یہ ہے کہ خود اسرائیل نے نوآبادیاتی جنگ کی طرزپرعمل کرتے ہوئے فلسطینیوں کو اپنی سر زمین پر امن و سکون سے رہنے کے حق سے محروم کر رکھا ہے۔ اس نے اس سرزمین کے باسیوں پر زمین تنگ کر دی ہے۔ ان کی عورتیں اور بچے خوف و ہراس کی زندگی بسر کر رہے ہیں، کسی بھی وقت صیہونی بمبار طیارے اور جدید اسلحے سے لیس فوجی ان کا خون بہانے لگ جاتے ہیں حتیٰ کہ وہ پناہ گزین کیمپوں میں بھی محفوط نہیں۔ فلسطینی لوگ اپنی سر زمین پر آزادانہ نقل وحرکت نہیں کر پاتے۔ بیرونی دنیا تک ان کی رسائی کے راستے مسدود کیے جا چکے ہیں، جفاکش فلسطینی اپنی زمین پر روزی کمانے کے حق سے بھی محروم کر دیے گئے ہیں۔
اس صورتحال کے باوجود دنیا کے طاقتور ترین ممالک انہیں یہ یقین دہانی کرانے پر آمادہ نہیں کہ وہ طاقت کے زور پر کسی کی سر زمین پر قبضے کی ممانعت سے متعلق بین الاقوامی قانون کا احترام کرائیں گے۔ بااثر ممالک حقائق سے آنکھیں چرا رہے ہیں۔ وہ مظلوموں کو بنیادی حقوق دلوانے میں پس و پیش سے کام لے رہے ہیں۔ اقوام متحدہ کی قراردادیں اور خود انہی کے توسط سے طیٔ پانے والے معاہدوں کی کھلم کھلا خلاف ورزی کی جا رہی ہے لیکن وہ ٹس سے مس نہیں ہوتے۔ ادھر اسرائیل بین الاقوامی برادری کی خواہش کے برعکس مغربی کنارے پر نسلی عصبیت کی دیوار تعمیر کرنے میں مصروف ہے۔ کیا مغربی دنیا کا کوئی ملک اکیسویں صدی میں یہ برداشت کرے گا کہ اس کے عوام کو ایک بڑے قید خانے میں محصور کر دیا جائے؟
اس ظلم و جبر سے غیر متزلزل میرے عوام نے اپنی جدوجہد آزادی اور حکمرانی کے لیے جمہوریت کا راستہ اختیار کر رکھا ہے۔ اس کے باوجود دنیا کی طاقتور ترین جمہوریتوں نے میرے عوام پر اقتصادی مقاطعہ مسلط کر دیا ہے جب کہ اسرائیل بد ستور کھلم کھلا فلسطینیوں کا خون بہانے، انہیں بے گھر کرنے اور ہر ممکن طریقے سے تباہ و برباد کرنے میں مصروف ہے۔ مقبوضہ مغربی کنارے اور غزہ میں جو انسانی المیے ظہور پذر ہوئے ان کا واضح مقصد منتخب حکومت کو کمزور کرنا اور اسے غاصب ریاست کی خواہشات کے تابع بنانا ہے۔ لیکن جب تک پابندیاں نہیں اٹھائی جاتیں اور اسرائیل ہمارے وہ لاکھوں ڈالر واپس نہیں کرتا جو اس نے زبردستی دبا رکھے ہیں یہ بحران ختم نہیں ہوگا۔
۱۹۶۷ء کی جنگ میں اسرائیل نے فلسطینی زمین تو فتح کر لی لیکن وہ فلسطینی عوام کے دل نہ جیت سکا۔ دراصل اسرائیل نے میرے عوام کو بے گھر اور ذلیل کرنے کی کوشش میں اپنے آپ کو اقوام کی برادری کے سامنے رسوا کر لیا ہے۔ ۱۹۶۷ء کی جنگ کے بعد ۴۰ برس کے عرصے میں کئی جنگیں ہوئیں جن سے مشرق وسطیٰ عدم استحکام کا شکار ہو گیا۔ آج عرب مسلمان عوام اور مغربی دنیا کے مابین جو عدم اعتماد نظر آرہاہے اس کی بنیاد فلسطینی تصادم ہی ہے۔
اس اندوہناک صورتحال کو تبدیل کرنے کے لیے مغرب کو پہلے قدم کے طورپر فلسطین کی قومی اتحاد پر مبنی حکومت کے ساتھ بات چیت شروع کرنی چاہیے جس سے اس فلسطینی ریاست کے قیام کی راہ ہموار ہو گی جو ان تمام علاقوں پر مشتمل ہو گی جن پر اسرائیل نے ۱۹۶۷ء میں قبضہ کیا تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ مغربی کنارے پر تمام یہودی بستیاں مسمار کر دی جائیں ، اسرائیلی جیلوں میں بند گیارہ ہزار فلسطینیوں کو رہا کیا جائے اور تمام فلسطینی مہاجرین کو اپنے گھر واپس آنے کا حق دیا جائے۔
اگر اسرائیل امن کے بارے میں سنجیدہ ہے تو اسے ہمارے لوگوں کے یہ تمام بنیادی حقوق تسلیم کرنا ہوں گے۔ ۱۹۶۷ء کی جنگ ہنوز ایک نا مکمل باب ہے۔ کوئی چیز ہماری جدوجہد آزادی کی راہ میں حائل نہیں ہو سکتی، یہ جدوجہد اس وقت تک جاری رہے گی جب تک ہمارے تمام بچے ایک بار پھر اس متحدہ فلسطینی ریاست میں یکجا نہیں ہوجاتے جس کا دارالحکومت بیت المقدس ہو گا۔
مضمون نگار فلسطین کے وزیراعظم ہیں۔
(بشکریہ: روزنامہ ’’ڈان‘‘ کراچی۔ شمارہ: ۷ جون ۲۰۰۷ء)
Leave a Reply