
ایران کی سرد جنگ ،اس کے راکٹ اور اسرائیل:
داعش کو دی جانے والی شکست کی خوشی نے ایران کو حاصل ہونے والی تزویراتی کامیابی کو نظروں سے اوجھل کر دیا ہے۔تہران اور اس کی شیعہ ملیشیا کے پاس اب اس راہداری کا مکمل کنٹرول ہے جو ایران سے شروع ہو تی ہے اور عراق، شام سے گزرتے ہوئے لبنان میں بحیرہ روم کے ساحلوں پر ختم ہوتی ہے۔
تہران اپنے معاشی، سیاسی اور فوجی اثرورسوخ کو استعمال کرتے ہوئے جب چاہے بغداد،بیروت اور دمشق کی حکومتوں کے فیصلوں پر اثر انداز ہو سکتا ہے ۔ان میں سے کوئی اتنی ہمت نہیں رکھتا کہ وہ تہران کے احکامات کو نظر انداز کر کے ملک میں تشدد اورسیاسی عدم استحکام کو دعوت دے۔گزشتہ چھ برسوں کے دوران ایران نے دمشق میں موجود اپنے اتحادی کی مدد کے لیے ہزاروں نوجوانوں کو بھرتی کیا، انھیں فوجی تربیت دی اور پھراپنی نگرانی میں انھیں لڑنے کے لیے شام بھیجا۔امریکا کی قومی سلامتی کے مشیر میک ماسٹر کا کہنا ہے کہ بشارالاسد کی حمایت میں لڑنے والوں میں ۸۰فیصد نوجوان وہ ہیں جنھوں نے ایران سے تربیت حاصل کی ہے اور ایران انھیں بحیرہ روم تک زمینی راستہ بنانے کے لیے استعمال کر رہا ہے، ان نوجوانوں کا تعلق افغانستان، بحرین، عراق اور دیگر ممالک کی شیعہ آبادیوں سے ہے۔ ان کی تربیت اور شام میں لڑائی کے دوران ان کی نگرانی ایران کے ’’پاسداران انقلاب‘‘ کی ’’القدس فورس‘‘ کے ذمے ہے۔ اور یہ اسرائیلی سرحدکے بہت نزدیک پہنچ چکے ہیں۔
ایران نے لبنانی تنظیم حزب اللہ کو ہزاروں کے حساب سے راکٹ فراہم کیے ہیں، جنھیں اسرائیل کے سرحدی علاقوں میں نصب کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ ایران نے اب حزب اللہ کو زیادہ فاصلے اور بہترین نشانے کی صلاحیت رکھنے والے میزائلوں کی سپلائی کا بھی آغاز کر دیا گیا ہے۔ اسرائیل ان دو تزویراتی تبدیلیوں کو ہرگز برداشت نہیں کرے گا۔ پہلی یہ کہ ایران کے زیر اثر بین الا قوامی فوج شام کا کنٹرول سنبھالے اور دوسری یہ کہ کوئی فوجی قوت اس کی سرحد پر میزائلوں کی تنصیب کرے، جن کا نشانہ اسرائیل کی ائیربیس اور دیگر تنصیبات ہوں ۔سال ۲۰۱۸ء میں اس بات کا قوی امکان ہے کہ اسرائیل ایران کے زیر اثر ملیشیا کو تباہ کرنے کے لیے لبنان اور شام پر حملہ کر دے۔اور اگر ایسا ہوتا ہے تو اس بات کا بھی خطرہ رہے گا کہ ایران،سعودی عرب اور دیگر ممالک کے ساتھ امریکا بھی اس جنگ کا حصہ بن جائے۔
یمن کی جنگ:
یمن کی جنگ سال ۲۰۱۷ء میں بھی جاری رہی اور اس کے خاتمے کے امکانات ابھی بھی کم ہی دکھائی دیتے ہیں۔حوثی باغیوں کے زیر قبضہ علاقوں میں ہیضہ کی وبا پھیلنے سے ہزاوں کی تعداد میں لوگ مارے گئے ،صنعا اور آس پاس کے علاقوں میں انفراسٹرکچر تباہ ہو کر رہ گیا ۔نومبر ۲۰۱۷ء میں حوثی باغیوں نے ایک میزائل داغا جو کہ ریاض ہوائی اڈے کے قرب جا گرا۔حوثیوں نے سعودی اور اس کے اتحادی ممالک کو دھمکی دی ہے کہ ہم اس طرح کے مزید حملے ان کے مرکزی شہروں پر بھی کریں گے۔اس بارے میں اطلاعات ہیں کہ ابو ظہبی اور متحدہ عرب امارات کے ایٹمی ریکٹر پر بھی حملے کی منصوبہ بندی کی گئی ہے۔
امریکا اور سعودی عرب کے حکام کا کہنا ہے کہ ریاض کے ہوائی اڈے پر داغا جانے والا میزائل یمنی فوج کے اسلحہ ڈپو میں موجود نہیں تھا، جس پر حوثیوں نے قبضہ کیا ۔ان کا کہنا ہے کہ یہ میزائل ایران کا تیار کردہ ہے اور وہاں سے اسمگل کر کے یمن پہنچایا گیا۔سعودی عرب اور اس کے اتحادی ممالک پراس طرح کے مزید میزائل حملے انھیں اس بات پر مجبور کریں گے کہ وہ ایران کے خلاف کوئی بڑا قدم اٹھائیں۔ جیسا کہ اس کے جواب میں سعودی عرب کی جانب سے میزائل حملہ کیا جائے یا پھر متحدہ عرب امارات اپنے طیاروں سے بمباری کرے۔اسرائیل اور یمن کی صورتحال کو سامنے رکھتے ہوئے کسی قسم کا حادثہ بھی بڑی جنگ کا باعث بن سکتا ہے، جس سے خلیج فارس سے تیل کی فراہمی میں بھی تعطل آسکتا ہے۔
القاعدہ اور داعش:
دو برس قبل سنی دہشت گرد گروہوں نے چارممالک کے مختلف شہرو ں پر قبضہ کر لیا تھا۔پھر ۲۰۱۶ء میں یمنی اور اماراتی فوج نے یمن کے شہر المکلا سے القاعدہ کاخاتمہ کر دیا۔ دسمبر ۲۰۱۶ء میں لیبیا کی ملیشیا اور بین الاقوامی فوج نے لیبیا کے شہر ’’سرت‘‘میں داعش کو شکست دی۔۲۰۱۷ء میں عراقی اور امریکی فوج نے مل کر داعش کو موصل اور عراق کے دیگر شہروں سے پسپائی پر مجبور کر دیا۔اس کے بعد شام میں کرد فوج اور امریکی مشیروں کی قیادت میں اتحادی فوج نے داعش کو شامی شہر رقعہ میں شکست دی۔ اور سال کے اختتام پر داعش کو اس کے آخری شہری علاقے،دریائے فرات کے کنارے واقعے ’’شہر ابوکمال‘‘ میں بھی پسپائی اختیار کرنی پڑی۔
امریکا اور اس کے اتحادیوں نے اس بات کا دعویٰ کیا ہے کہ انھوں نے داعش پر تیس ہزار فضائی حملے کیے۔امریکا کے خصوصی آپریشن کمانڈر جنرل ریمنڈ تھامس کا کہنا تھا کہ گزشتہ تین برسوں میں داعش کے ساٹھ سے ستر ہزار جنگجوؤں کو ہلاک کیا گیا۔اگر اس دعوے کو مبالغہ آرائی بھی کہا جائے تو بھی اس حقیقت کو کوئی نہیں جھٹلاسکتا کہ ان حملوں میں داعش کی بانی قیادت کا تقریباً خاتمہ ہو چکا ہے۔ ان سب حالات کو سامنے رکھا جائے تو اس بات کا امکان ہے کہ ۲۰۱۸ء میں القاعدہ اور داعش کی جانب سے کچھ مسائل کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ اگر چہ دونوں دہشت گرد گروہ اپنی پرانی روش پر لوٹ گئے ہیں ،یعنی چھوٹے چھوٹے گروہوں کی صورت میں دیہی علاقوں کی طرف پلٹ گئے ہیں۔لیکن ہو سکتا ہے کہ ان کے بقیہ رہ جانے والے لوگوں میں وہ لوگ شامل ہوں جو بم بنانے کے ماہر ہیں۔ اور وہ اس بات کی منصوبہ بندی کر رہے ہوں کہ مسافر طیاروں کو نشانہ بنایا جائے۔ امریکی حکام نے اسی خطرے کے پیش نظر ملک میں آنے والی پروازوں کی سیکیورٹی انتہائی سخت کر دی ہے۔ان دونوں دہشت گرد تنظیموں کو اپنے حامیان میں اپنی موجودگی اور فعالیت کا یقین دلانے کے لیے ایسے حملے انتہائی ضروری ہیں۔ایسے حملوں کا زیادہ فوکس مسافر طیارے ہی ہوں گے ،خاص کر امریکی مسافر طیارے۔
حادثاتی جنگ:
اگرچہ امریکی حکام کی جانب سے متعدد بار جنگ کے بارے میں بیانات دیے جا رہے ہیں،لیکن میرے خیال میں سال ۲۰۱۸ء میں شمالی کوریا کے میزائل اور ایٹمی پروگرام کے خاتمے کے لیے امریکی حملہ نہ ہونے کی دو بڑی وجوہات ہوں گی۔
پہلی یہ کہ امریکی حکام اس بات سے اچھی طرح واقف ہیں کہ شمالی کوریا کے میزائل اور ایٹمی ہتھیار نہ صرف پورے ملک میں پھیلے ہوئے ہیں بلکہ پہاڑوں کے اندر بنائے خفیہ تہہ خانوں میں چھپائے گئے ہیں۔شمالی کوریا پچھلے پچاس سالوں سے زیر زمین اور پہاڑوں میں مضبوط بنکر اور ٹنلز کا نیٹ ورک بنانے میں مصروف ہے تاکہ ایٹمی ہتھیاروں کو نہ صرف محفوظ بلکہ خفیہ بھی رکھا جاسکے۔ کسی بھی قسم کا امریکی حملہ ان تمام ہتھیاروں کو بیک وقت تباہ نہیں کرسکتا، جس کی وجہ سے جنوبی کوریا اور امریکا کو جوابی حملوں کا سامنا کرنا ہوگا۔
دوسری وجہ ایک ’’کیلکولیشن‘‘ ہے جو امریکی حکام کو پیشگی حملے سے روکے ہوئے ہے۔کچھ برس قبل شمالی کوریا نے امریکا اور جنوبی کوریا کے ممکنہ حملوں سے بچنے کے لیے ایٹمی ہتھیاروں کو استعمال میں لائے بغیر ایک دفاعی حصار قائم کیا تھا۔ جنوبی کوریا کے دارلحکومت سیول کو نشانے پر رکھ کر تقریباً بیس ہزار توپیں اور راکٹ لانچر نصب کیے ۔شمالی کوریا یہ اہلیت رکھتا ہے کہ وہ سیول کی اینٹ سے اینٹ بجادے۔
’’کیلکولیشن‘‘ یہ ہے کہ امریکا اور جنوبی کوریا کوایٹمی ہتھیاروں کے استعمال کیے بغیر جتنا وقت اس توپ خانے اور راکٹ لانچروں کو تباہ کرنے میں لگے گا، شمالی کوریا اس سے پہلے ہی سیول کو تباہ کر چکا ہو گا۔
امریکی حکام کو اس بات کا یقین ہے کہ اگر امریکا شمالی کوریا کے ایٹمی ہتھیاروں کو تباہ کرنے کے لیے کوئی پیشگی حملہ کرتا ہے تو شمالی کوریا بغیر کسی وارننگ کے سیول پر بمباری شروع کر دے گا۔ کیوں کہ اس بمباری کے لیے شمالی کوریا کی فوج کو ہائی کمانڈ سے اجازت بھی درکار نہیں ہوگی۔اس لیے امریکا کی طرف سے کسی بھی قسم کے پیشگی حملے کی صورت میں سیول تباہی و بربادی کا شکار ہو جائے گاجوکہ ایسے اتحادی ملک کا دارالحکومت ہے، جس کے امریکا کے ساتھ بہت سے معاہدے ہیں۔
امریکی سیکرٹری دفاع جیمس میٹس ان دو حقائق کو اچھی طرح سمجھتے ہیں ،یہی وجہ ہے کہ وہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو شمالی کوریا پر حملے کے فیصلے سے روکے ہوئے ہیں۔ تو پھر سوال یہ ہے کہ امریکی حکام اپنے بیانات سے ایسا کیوں باور کروانا چاہتے ہیں جیسے کہ انھوں نے شمالی کوریا پر حملے کی تمام تیاریاں مکمل کر لی ہیں؟
مسئلہ دراصل یہ ہے کہ امریکا کے پاس ’’آپشنز ‘‘بہت محدود ہیں،اس لیے وہ اپنے جارحانہ بیانات اور معاشی پابندیوں سے شمالی کوریا کو مذاکرات کی میز پر لانا چاہتا ہے۔ تاکہ مذاکرات کے ذریعے وہ شمالی کوریا کو اپنے ایٹمی اور میزائل پروگرام پر جاری پیشرفت روکنے پر مجبور کر دے۔ لیکن امریکا کی اس کوشش کے ساتھ دو مسئلے ہیں ۔پہلا یہ کہ امریکا کے بیانات اور تیاری کو حقیقت کے اتنا قریب لانا ہو گا کہ شمالی کوریا کو یقین ہو جائے کہ امریکا واقعی اس پر حملہ کر دے گا۔ دوسرا یہ کہ اگر شمالی کوریا کو یہ یقین ہو گیا کہ امریکا اس پر حملہ کرنے والا ہے تو جواب میں مذاکرات کی میز پر آنے کے بجائے وہ جنگ کی طرف جانے کو ترجیح دیں گے۔
فوج کو زیادہ عرصے تک ’’ہائی الرٹ ‘‘پر رکھنا خطر ناک ثابت ہو سکتا ہے۔ کیونکہ ایسے ماحول میں غلطیوں کی گنجائش بڑھ جاتی ہے، اور فوجیوں کے اعصاب جواب دینے لگتے ہیں۔ کوریا کی فوج، امریکی فوج کی کسی بھی سرگرمی کو حملے کی تیاری سمجھ کر جوابی حملہ کر سکتی ہے۔اس طرح دونوں ممالک کی فوج جب آمنے سامنے ہوئیں تو حادثاتی جنگ کے امکا نات میں خطر ناک حد تک اضافہ ہو جاتا ہے۔اور مجھے خدشہ ہے کہ سال ۲۰۱۸ء میں کورین جزیرے پر حادثاتی ایٹمی جنگ نہ چھڑ جائے۔
(ترجمہ: حافظ محمد نوید نون)
“Warnings for 2018”. (“mei.edu”. Dec.18,2017)
Leave a Reply