ہر معاشرے میں متوسط طبقہ چند اصولوں اور اقدار کے حوالے سے اپنے آپ کو بندھا ہوا اور پابند محسوس کرتا ہے۔ وہ بعض امور میں اپنی اخلاقی ذمہ داریوں کو محسوس کرتا ہے اور اسے اچھی طرح اندازہ ہوتا ہے کہ کس سمت جانا ہے۔ یہ ضابطۂ اخلاق بہت حد تک خود ہی تیار کیا ہوا ہوتا ہے۔ ہر معاشرے کے متوسط طبقے کو اس بات کا شدت سے احساس رہتا ہے کہ اسے کس طور دیکھا جارہا ہے۔ اس کی معاشی، سیاسی اور معاشرتی حالت پر اثر انداز ہونے والے عوامل ہی اس کی اخلاقی اقدار اور پیمانوں کا تعین کرتے ہیں۔
معاشرے کی اقدار کو آگے بڑھانے کی ذمہ داری کا احساس متوسط طبقے کو بہت حد تک قوم پرست بناتا ہے اور اس میں مہم جوئی کی خُو بھی پیدا کرتا ہے۔ عام طور پر متوسط طبقہ خود کو چند معاملات تک محدود رکھتا ہے مثلاً ٹرینیں وقت پر آ رہی ہیں یا نہیں، کرپشن، بجلی، بنیادی سہولتیں میسر ہیں یا نہیں۔ اور یہ کہ بچوں کے لیے بہترین زندگی کا امکان باقی ہے یا نہیں۔
دوسرے بہت سے ممالک کی طرح پاکستان کا متوسط طبقہ بھی بنیادی سہولتوں کی فراہمی یقینی بنائے رکھنے کے حوالے سے حساس ہے۔ اور یہی سبب ہے کہ اس میں حب الوطنی اور قوم پرستی بہ درجہ اتم ہے۔ پاکستانی متوسط طبقے کا بڑا حصہ چونکہ سرکاری اسکولوں کا تعلیم و تربیت یافتہ ہے اس لیے تین دہائیوں کے دوران اس کی ایک مخصوص نظریاتی اساس بنائی گئی ہے۔ اس کے نتیجے میں دنیا کو دیکھنے کا اس کا نظریہ مختلف ہے اور یہی سبب ہے کہ بہت سے دوسرے ممالک کے متوسط طبقے کے مقابلے میں پاکستان کا متوسط طبقہ ردعمل پر زیادہ یقین رکھتا دکھائی دیتا ہے۔
پاکستان میں متوسط طبقے کے لوگوں کو اپنی پارسائی کا احساس زیادہ ہے، وہ عفو و درگزر پر کم یقین رکھتے ہیں اور دنیا سے برتنے کے معاملے میں زیادہ جنونی ہیں۔ دنیا بھر میں متوسط طبقے کی ایک خصوصیت مشترک ہے اور پاکستانی متوسط طبقے میں یہ بنیادی حیثیت رکھتی ہے۔ یعنی منافقت۔ وحیدہ شاہ کا معاملہ اس کی ایک واضح مثال ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ جو کچھ وحیدہ شاہ نے کیا اسے معاف نہیں کیا جاسکتا اور اسی لیے عدالت نے انہیں دو سال کے لیے نا اہل قرار دیا۔ میں وکالت کے پیشے سے وابستہ ہوں۔ مجھے ایسے بہت سے معاملات یاد ہیں جن میں وکلا نے، جو متوسط طبقے کے مفادات کے محافظ تصور کیے جاتے ہیں، تشدد کا راستہ اختیار کیا اور اس سے کہیں زیادہ تشدد کیا جو وحیدہ شاہ نے کیا۔ مدعیان اور مدعا علیہان کا تو ذکر ہی کیا، سول اور سیشن ججوں سے بھی ان کے کمروں میں بدتمیزی کی جاتی ہے۔ وکلاء خود کو تعلیم یافتہ گردانتے ہیں۔ اور جب بات تشدد کی آئے تو وہ جانوروں کی سطح پر اتر آتے ہیں۔ یہ کوئی غیر معمولی رویہ نہیں بلکہ معاشرے کی عمومی روش ہے۔ اس معاملے پر از خود کارروائی کی روایت کہاں ہے؟
گزشتہ ماہ لاہور بار ایسوسی ایشن نے ختم نبوت لائر فورم کے دباؤ کے تحت نچلی عدالتوں کے بار رومز میں شیزان کی مصنوعات پر پابندی عائد کردی۔ آئین اور قانون کی رُو سے یہ غلط ہے کیونکہ بظاہر اس کا مقصد شہریوں کے ایک طبقے کا مقاطعہ ہے۔ کسی بھی مہذب معاشرے میں اعلیٰ عدلیہ اس اقدام کو یکستر مسترد کردیتی۔ متوسط طبقے کے مفادات کی علمبردار لاہور بار ایسوسی ایشن میں یہ پابندی اب تک برقرار ہے۔
حال ہی میں احمدیوں کو جمعہ کے دن عبادت سے روک دیا گیا۔ پولیس نے یہ اقدام اس لیے کیا کہ احمدیوں کو عبادت سے نہ روکے جانے کی صورت میں تصادم کا خطرہ تھا۔ المیہ یہ ہے کہ ریاست جن بنیادی حقوق کے تحفظ کی ضمانت فراہم کرتی ہے ان میں سے ایک یعنی مذہبی آزادی کو حکومتی مشینری غیر تعلیم یافتہ اور بے شعور لوگوں کے اشتعال سے بچنے کے لیے داؤ پر لگارہی ہے۔ اور افسوس کی بات یہ ہے کہ اکثریت شعور سے محروم ہے۔ احمدیوں کے خلاف احتجاج کے لیے فنڈنگ چھوٹے اور درمیانی تاجروں نے کی جو متوسط طبقے کے نمائندے تصور کیے جاتے ہیں۔ یہ کس طرح ممکن ہے کہ ایک بنیادی حق کو اس واضح انداز سے پامال کرنے پر سپریم کورٹ خاموش ہے؟
یہ تمام واقعات متوسط طبقے میں بے حد مقبول ہیں اور سپریم کورٹ اسی طبقے کو اپنے لیے طاقت کا ذریعہ سمجھتی ہے۔ جو معصوم لوگ محض مختلف انداز سے سوچنے کی پاداش میں قتل کردیے جاتے ہیں ان کی چیخوں سے زیادہ چیختی ہوئی واردات ایک جنونی خاتون امیدوار کی تھی۔ ایک صوبے کا گورنر اور اقلیتوں کے امور کا ایک وزیر مارا گیا مگر سپریم کورٹ ٹس سے مس نہ ہوئی کیونکہ ان دونوں معاملات کا تعلق متوسط طبقے سے نہ تھا۔
ہم معاشرے کو جنونی کیفیت سے دوچار کرنے کے معاملات کو نظر انداز کرنے پر اشرافیہ کو اکثر تنقید کا نشانہ بناتے ہیں اور یہ تنقید ایسی بے جا بھی نہیں۔ اب وقت آگیا ہے کہ تمام معاملات کا جائزہ لیا جائے۔ سندھ کلب، جمخانہ اور رائل پام میں بیٹھ کر وہسکی کی چسکیاں لینے والوں نے اس ملک کو اپنی مرضی کے سانچے میں ڈھالا ہے۔ اشرافیہ کے لوگ اس نتیجے پر پہنچتے دکھائی دیتے ہیں کہ ملک کی اکثریت اور بالخصوص متوسط طبقے کے ذہن میں جو نظریات تین چار عشروں سے ٹھونسے گئے ہیں انہیں نکالنا آسان نہیں۔ معاملات کو درست کرنے کے بجائے اشرافیہ نے خود کو الگ تھلگ کرلیا ہے اور معاشرے کے دیگر طبقوں کو باہم متصادم رہنے اور موت کے گھاٹ اترنے کے لیے میدان میں چھوڑ دیا ہے۔ جب تک اشرافیہ کے دھندے چل رہے ہیں اور وہسکی کا دور بھی چل رہا ہے تب تک اسے اس بات سے کچھ غرض نہیں کہ یہ ملک جہنم میں جارہا ہے۔
سوال یہ ہے آج پاکستانیوں کی اکثریت جس جہالت اور تنگ نظری کا شکار ہے اس کی فکر اشرافیہ کو کیوں ہو؟ اور جہاں تک معاشرے کے پس ماندہ طبقوں کا سوال ہے، بقول فیضؔ، ان کا دم ساز اب کوئی بھی نہیں۔
(“The Warped Morality of Middle Class”)
Leave a Reply