
ایرانی جنگی جہازوں کا ایک بحری بیڑہ گزشتہ دنوں نہر سوئز پار کر کے شامی بندرگاہ تارطس پہنچا۔ ایرانی وزیر دفاع احمد واحدی کا کہنا ہے کہ اس مہم سے ایران کی قوت کا اظہار ہوتا ہے۔ تیس سال کی جابرانہ متواتر پابندیوں کے باوجود پچھلے سال تہران اور دمشق کے درمیان ہونے والے معاہدے کے مطابق ایرانی بحریہ کا یہ اٹھارواں بیڑہ شامی بحریہ کے ساتھ مشقیں کر کے ان کی تربیت کرے گا۔
خارجہ کمیٹی برائے فارن پالیسی اور مجلس کے نائب سربراہ اور بااثر مذہبی رہنما حسین ابراہیمی نے کہا کہ ’’ایرانی بحریہ کا روسی بحریہ کے ساتھ شام کے ساحل پر موجود ہونا صاف پیغام دے رہا ہے کہ اگر امریکا شام کے خلاف کوئی اقدام اٹھاتا ہے تو ایران اور روس کے علاوہ کچھ دوسرے ممالک بھی زبردست مزاحمت کریں گے‘‘۔ ایران کے بحری جہازوں کی کارروائیوں (تارطس کی بندرگاہ پر جہاں روسی بحریہ بھی موجود ہے) پر پڑوسی علاقائی ممالک نے بھی گہری نظر رکھی ہوئی ہے۔ اس میں ترکی، اردن، قطر اور خاص کر سعودی عرب شامل ہیں۔
غیر تصدیق شدہ اطلاعات ہیں کہ شامی حکومت کی مدد کے لیے تجربہ کار ایرانی القدس گارڈ شام روانہ کیے جائیں گے، یہ پاسدارانِ اسلامی انقلاب کا ایک دستہ ہے۔ ایران کا اپنے ترک بھائیوں اور ان کے عرب اتحادیوں کو سادہ سا اشارہ ہے کہ ’’جو آپ کریں گے وہ ہم کریں گے‘‘۔ آنے والے اتوار کو تیونس میں ’’شام کے دوستوں‘‘ کے نام سے یہ لوگ جمع ہو رہے ہیں، ان جمع ہونے والوں میں تیل پیدا کرنے والی سلطنتیں خاص ہیں۔ یہ لوگ شام کی حزب اختلاف کی شامی حکومت کے خلاف اسلحہ اور رقم سے مدد کر رہے ہیں۔
ترکی کی نظر میں ایرانی جنگی بیڑہ بے وقت شام پہنچا ہے۔ اسرائیل کا ایک اخبار (Ha’aretz) ’’حائیریطز‘‘ نے روداد بیان کی ہے کہ شامی فوج نے ترک جاسوسی ادارہ کے چالیس جاسوس پکڑے ہیں جو تخریبی سرگرمیوں میں ملوث تھے۔ ان لوگوں کو چھڑانے کے لیے انقرہ اور دمشق میں مذاکرات چل رہے ہیں مگر اس معاملے میں ایران کو حَکم کی حیثیت سے شامل کرنا چاہتا ہے۔
مغربی حکام کو خوف ہے کہ شام کی اندرونی کشمکش، ایرانی اور روسی فوج کی موجودگی کی وجہ سے عالمی تنازعہ نہ بن جائے۔ ان کو خوف ہے کہ شامی حکومت کو زیر کرنے کے اقدامات کہیں ایران و روس کے اتحاد کے ہتھے نہ چڑھ جائیں اور ترکی اور یورپ کو نکال باہر نہ کریں۔
آزمائشی اوقات
بہرحال تہران اپنی بحری قوت کی آزمائش کر رہا ہے۔ عالمی قوانین کے مطابق اس کو حق ہے کہ وہ اپنے جنگی بیڑے کو بحر احمر اور نہر سوئز سے گزار سکے۔ مگر مصر ایران تعلقات عجب دوراہے پر ہیں۔
مصر میں حسنی مبارک کے زوال سے پہلے کبھی ایرانی جنگی جہازوں کو نہر سوئز پار کرنے نہیں دیا گیا تھا۔ امریکا کی جانب سے سفارتی دباؤ اور اسرائیل کی دھمکیوں کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے مصر نے ایران کے جنگی بیڑے کو نہر سوئز سے گزرنے دیا، جس پر اسرائیل نے کہاکہ یہ اس کو مشتعل کرنا ہے۔ مگر مصر اس وقت بے چینی اور اضطراب کی حالت میں ہے اور ایران کے ساتھ تعلقات کو معتدل کرنے کا جوش و خروش کم ہو رہا ہے۔ شاید اس کی وجہ مصر کا سعودی عرب اور خلیج کے دیگر سنی عرب حکومتوں کا معاشی طور پر دست نگر ہونا ہے۔
مگر مصر کا ایران کو اپنا بحری بیڑہ نہر سوئز سے گزرنے کی اجازت دینا ایک اشارہ دے رہا ہے کہ مصر ایران کی طرف راغب ہو رہا ہے، یہ اس وجہ سے بھی ہے کہ مصر کے تعلقات امریکا کے ساتھ پیچیدہ اور غیر یقینی کا شکار ہو رہے ہیں۔ مصری حکام کی طرف سے کئی درجن غیر حکومتی اداروں (NGOs) کے خلاف اقدامات کیے گئے جن میں ۱۹ امریکی قومی ادارے بھی تھے، بہت سے امریکی شہری قاہرہ کے امریکی سفارت خانے میں پناہ لیے ہوئے ہیں جن کی تعداد نہیں بتائی گئی ہے۔
قاہرہ کے حکام کی طرف سے اعلان کے مطابق مشکوک افراد میں سے جو ۴۳ افراد گرفتار ہوئے ان میں غیرملکی ملوث پائے گئے ہیں۔ یہ امریکی، سرب، جرمن، نارویجن، اردنی اور فلسطینی شہری ہیں۔ مصری حکام ان کو عدالتوں میں پیش کریں گے ان پر الزامات ہیں کہ انہوں نے بغیر اجازت غیر قانونی ادارے کھولے، بیرونی امداد وصول کی اور مصر کے اقتدار اعلیٰ کو نقصان پہنچایا۔
امریکا نے مصر کو خبردار کیا ہے کہ یہ اقدامات دوطرفہ تعلقات کو نقصان میں ڈال دیں گے، اور اشارہ دیا ہے کہ اس کی وجہ سے ۳ء۱ ارب ڈالر سالانہ امداد کاٹی جاسکتی ہے، اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ کھلی عدالتی کارروائی سے خدشہ ہے کہ امریکا کا مصر کے اندرونی معاملات میں مداخلت کا حال کھل کر سامنے آجائے۔ مصر میں کام کرنے والی سول سوسائٹی کے دس اداروں پر شبِ خون مارا گیا جس میں نیشنل ڈیموکریٹس انسٹی ٹیوٹ (NDI)، انٹرنیشنل ریپبلکن انسٹی ٹیوٹ (IRI) اور فریڈم ہاؤس (FH) شامل ہیں، جن کو امریکی حکومت سے امداد ملتی ہے۔
مصر کی مقتدر سپریم کونسل نے الزام لگایا ہے کہ بیرونی مداخلت کے سبب اب تک امن نہیں ہو رہا ہے۔ خارجہ تعلقات کی خاتون وزیر فائزہ عبدالنافع (جو حسنی مبارک دور سے اب تک کابینہ کی کرسی پر براجمان ہے) بیرونی امداد حاصل کرنے والے ان اداروں کے خلاف اقدامات کی سربراہی کر رہی ہے۔
اخوان المسلمون نے دھمکی دی ہے کہ اگر امریکا نے امداد میں کٹوتی کی تو ہم بھی اسرائیل کے ساتھ ۱۹۷۹ء کے امن معاہدے پر نظرثانی کریں گے۔
علانیہ تزویری نافرمانی
اتنا کہنا کافی ہے کہ تہران نے گہرائی سے مصری دماغ کو پڑھنے کے لیے موزوں وقت کا انتخاب کیا ہے۔ قاہرہ کا ایرانی بیڑے کو نہر سوئز سے گزرنے دینے کے فیصلے سے اس بات کا اظہار ہورہا ہے کہ مصر ایران کے ساتھ پھر سے رشتہ استوار کرنے کا تزویری اختیار رکھتا ہے۔ ایرانی وزیر خارجہ علی اکبر صالحی نے بلاجھجک صاف صاف اس فیصلے کو سراہا ہے۔ یہ بات امریکا کے لیے اشارے سے بھی زیادہ واضح ہے۔
مصر اور ایران دونوں توجہ دلا رہے ہیں کہ مشرق وسطیٰ کے حالات بدل چکے ہیں اور معاملات دوبارہ پہلے کی طرح نہیں ہو سکتے۔ مگر چونکا دینے والی حقیقت یہ ہے کہ دونوں شام کے مسئلہ کو ایک طرح نہیں دیکھ رہے پھر بھی مصر نے بحری بیڑے کو شام کی بندرگاہ تاطس کی طرف جانے دیا۔
ایران اپنی طرف سے جو اہم پیغام دے سکتا ہے وہ یہ ہے کہ اس کوامریکا کی طرف سے اکیلا کرنے کا عمل یا اسرائیلی دھمکیوں کا افتاد دونوں اس کو شامی دوستوں کی مدد سے نہیں روک سکتے۔
بہرحال شام کے مسئلہ پر امریکا ایران مخاصمت کی توقع نہیں ہے اور ایران نے اس کا اندازہ بھی نہیں لگایا ہے کہ شام میں لیبیا کی طرح فوجی مداخلت ہو سکتی ہے، ایران کو یقین ہے کہ بشارالاسد خطرے میں نہیں ہیں۔
پھر بھی ایرانی قوت کا اظہار مشرقی بحرقلزم میں علاقائی سیاست پر ضرور اثرات مرتب کرے گا۔ لبنان کی ’’حزب اللہ‘‘ اور ’’تحریک عمل‘‘ نے مشترکہ بیان میں ایران کے ساتھ مضبوط تعلق کا دوبارہ اعلان کیا۔ ایک بیان میں انہوں نے کہاکہ شام میں حالات کی خرابی کی وجہ سے دشمن کی طرف سے مایوسانہ اور متشددانہ کارروائیاں ہیں جو ملک کو غیر مستحکم، اس کی قومی یکجہتی کو ختم کرنا اور مقصد سازشوں کے ذریعہ فلسطین کو شامی حمایت سے محروم کرنا ہے۔
حزب اللہ کے سربراہ سید حسن نصراللہ نے اس ماہ کہاکہ ۱۹۸۲ء سے اب تک ایران کی اخلاقی، سیاسی اور مالی حمایت تحریک کو حاصل رہی ہے۔ انہوں نے کہاکہ حزب اللہ نے اسرائیل پر عربوں کے لیے واضح برتری حاصل کی ہے، یہ کامیابی ایران کی حمایت کے بغیر ممکن نہیں تھی اور شام کا بھی اس فتح میں بہت بڑا کردار ہے۔
کسی بھی قیمت پر بحرقلزم میں مشرق کی قوت کا اظہار جو ابھی تک مغرب کا علاقہ تھا اندرونی طور پر ایران میں بھی ارتعاش پیدا کرے گا۔ یہ اظہار ایرانی عوام میں قومی تفاخر ابھارنے کا ذریعہ بنے گا اور اس پر عوام کی رائے قائم کرنے میں مدد دے گا۔ یہ سب معاملہ موجود حکومت کے لیے اہم ہے اس لیے کہ مارچ میں پارلیمانی انتخابات ہونے والے ہیں، خیال ہے کہ ان انتخابات میں مرکز اقتدار واضح طور پر تبدیل ہوگا اور مجلس کی حیثیت میں بنیادی تغیرات ہوں گی۔
(ترجمہ: قاضی طارق)
(“Warship Sail to Syria”. “Asia Times Online”. Feb. 22nd, 2012)
Leave a Reply