کرۂ ارض پر انسانی زندگی کے ارتقا کے بارے میں کئی عشروں سے بحث و تحقیق جاری ہے۔ سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ انسان نے کرۂ ارض پر اب تک زیادہ عرصہ شکاری اور کسان یعنی Hunter-Gatherers کے طور پر گزارا ہے۔ کم ز کم ۸۵ ہزار سال قبل سے لے کر ۷۳ ہزار سال بعد زراعت کے آغاز سے اب تک انسان نے اپنا پیٹ بھرنے کے لیے دونوں کام کیے ہیں یعنی شکار بھی کیا ہے اور سبزیاں وغیرہ بھی پیدا کیں۔ بعض انسان جیسے بحراینڈیمان کے جزائر سینٹینل کے باسی اب بھی یہی کام کرتے ہیں۔ اس جزیرے کے لوگ اب بھی صرف شکار اور کاشت کاری پر گزارا کرتے ہیں اور باقی دنیا سے رابطہ نہیں رکھتے۔ صحت مند اور چمکدار تانبے نما سیاہ رنگت رکھنے والے اور کسرتی، مضبوط اور توانا جسموں کے مالک یہ لوگ تقریباً بالکل برہنہ ہوتے ہیں اور ان کے جسم پر واحد پردہ درختوں کی چھال سے بنی ہوئی ایک پٹی ہوتی ہے جو کمر کے گرد بندھی ہوتی ہی اور اسے بھی یہ لوگ پردے سے زیادہ ایک ’’آرائشی زیور‘‘ کے طور پر استعمال کرتے ہیں اور یوں یہ لوگ ’’نوبل سیویجز‘‘ یعنی ’’شریف وحشی‘‘ کی بھرپور اور شاندار مثال ہیں۔ ماہرینِ جینیات کا کہنا ہے کہ جزائر اینڈیمان کے یہ باسی ۶۰ ہزار سال قبل افریقہ کی ابتدائی توسیع کے زمانے سے لے کر اب تک دنیا سے کٹے ہوئے ہیں اور ایک قسم کی ’’عالمی تنہائی‘‘ کی زندگی گزار رہے ہیں۔
بارہ ہزار سال قبل جب انسان نے زراعت کا آغاز کیا تو ماہرین کے مطابق اس کے بعد سے زمین اور اس کے باسی سنبھل نہیں سکے۔ زراعت کی وجہ سے دنیا میں آبادی کا بم پھٹ گیا۔ پروٹین اور وٹامن کی کمی درپیش ہوئی۔ نئی بیماریاں پیدا ہوئیں اور جنگلوں کے خاتمے کا آغاز ہوا۔ مشرقِ قریب یعنی Near East میں زراعت کے باقاعدہ آغاز کے بعد انسانی قد اوسطاً چھ انچ گھٹ گیا۔ تو پھر ارتقائی حیاتیات کے ماہر اور لاس اینجلس کی یونیورسٹی آف کیلی فورنیا کے پروفیسر آف جیوگرافی جیرڈ ڈائمنڈ کے بقول کیا زراعت کا آغاز نسلِ انسانی کی تاریخ کی ایک بدترین غلطی تھی؟
۱۵ ہزار سال قبل کی پرانی دنیا کا ایک مختصر سا جائزہ لیا جائے تو پتا چلتا ہے کہ سوائے سائیبیریا کے ایک چھوٹے سے حصے کے یہاں پر ایک نئی اور چالاک قسم کی نسلِ انسانی کی ’’حکومت‘‘ قائم ہو چکی تھی جس کی جڑیں افریقہ میں پائی جاتی تھیں۔ اس نسل نے سب سے پہلے تو اپنے ہی براعظم پر قبضہ جمایا اور رہائش اختیار کی اور اس کے بعد ایشیا، آسٹریلیا اور یورپ کی طرف بھی پائوں پھیلائے۔ اسی دور میں یہ لوگ براعظم امریکا کو بھی پہنچنے کے بالکل قریب تھے۔ یہ لوگ تیرکمان استعمال کرتے تھے۔ کشتیاں، سوئیاں، جال اور دیگر قسم کے اوزار تیار کرنے لگے تھے۔ روحوں پر یقین رکھتے تھے۔ خوراک، شیلز، خام مال اور آئیڈیاز کا بیوپار کرتے تھے۔ گیت گاتے اور کہانیاں سناتے تھے اور نباتاتی ادویات تیار کرتے تھے۔ یہ تھے گوشت و سبزی خور انسان Hunter-gatherers یعنی شکاری اور کسان۔
یہ تبدیلی کیوں آئی؟ ۱۹۷۰ کے عشرے کے اواخر میں آثارِ قدیمہ کے ماہر مارک کوہن نے خیال ظاہر کیا تھا کہ زراعت کا آغاز قوتِ تخلیق سے زیادہ شدتِ مایوسی کا نتیجہ تھا۔ فرٹائل کریسنٹ سے ملنے والے شواہد سے بھی اس نظریے کو تقویت ملتی ہے۔ بڑھتی ہوئی انسانی آبادی اور سرد اور خشک موسم کے باعث ’’نیچوفیان‘‘ Natufian دور کے شکاری اور کسان انسانوں کو نباتاتی اور حیوانی خوراک کی قلت کا سامنا ہونے لگا جس پر انھوں نے زراعت کا تجربہ کیا اور کچھ بیج بوئے اور پھر ان سے پیدا ہونے والی فصل سے مزید بیج بوئے اور یوں زراعت کا سلسلہ چل پڑا جو ارتقائی منازل طے کرتا ہوا آج جدید زراعت کی صورت میں ہمارے سامنے ہے۔
کہا جاتا ہے کہ اس کے بعد اگلے چند ہزار سال کے دوران دنیا کے دیگر چھ حصوں میں بھی زراعت کا آغاز ہو گیا جن میں وادی یانگ زی، نیوگنی کی وسطی وادی، میکسیکو، انڈیز اور مغربی افریقہ اور ایمزون کی وادی شامل ہیں اور پھر یوں دکھائی دیتا ہے کہ یہ دنیا جنت کا مقام کھو بیٹھی۔ ہزاروں سال قبل جب شکار کر کے پیٹ بھرنے والے انسان نے زراعت کا آغاز کیا تو نہ صرف اس کی خوراک میں پروٹین کی کمی ہوئی بلکہ چکنائی اور دیگر ضروری وٹامنز بھی کم ہو گئے۔ اس کے علاوہ اب انھوں نے محنت بھی کم شروع کر دی۔ تنزانیہ کے ’’ہیڈزا‘‘ قبائل اب ایک ہفتے میں صرف ۱۴ گھنٹے کام کرتے جبکہ بوٹسوانا کے ’’کونگ‘‘ اس سے بھی کم۔
’’شکاری و کسان انسان‘‘ پروٹین اور وٹامنز کی کمی کے علاوہ وہ اپنے مویشیوں کی وجہ سے بیماریوں میں بھی مبتلا ہو جاتے تھے۔ مویشیوں کی وجہ سے وہ خسرہ، بطخوں کی وجہ سے فلو اور چوہوں کی وجہ سے طاعون میں مبتلا ہو جاتے تھے۔ جب اپنے فضلے کو کھاد کے طور پر استعمال کرتے تو اس دوران بھی وہ کیڑوں اور جراثیموں کی وجہ سے بیمار پڑ جاتے تھے۔
انسان کسان بنا تو اس سے عدم مساوات نے بھی جنم لیا۔ جب انسان شکار اور کاشت کاری دونوں کام کرتا تھا تو وہ جو بھی کچھ شکار کرتے اس کو آپس میں بانٹ کر کھاتے تھے اور ایک اجتماعیت سے بھرپور زندگی گزارتے تھے جو مساوات کی شاندار مثال ہوتی لیکن اس کے مقابلے میں کسان جب کامیاب ہوتا تو وہ اپنے پاس کام کے لیے ملازمین (غلام) بھی رکھ لیتا۔ آج بھی جب کسان ایسا کرتے ہیں تو وہ مزید کامیابی حاصل کرتے ہیں، خاص طور پر اگر وہ ایسے علاقے میں ہوں جو دریائی علاقہ ہو اور دریائی پانی سے آب پاشی ہوتی ہو جہاں پانی پر بھی اس کا کنٹرول ہوتا ہے اور یوں اپنے اس اختیار کی بدولت وہ ’’شہنشاہ‘‘ بن سکتا ہے اور دوسرے لوگوں پر اپنی مطلق العنانیت بھی لاگو کر سکتا ہے۔ فریڈرک اینجلز کی یہ بات سولہ آنے درست معلوم ہوتی ہے کہ زراعت کی وجہ سے سیاسی معصومیت ختم ہو گئی اور انسان چالاک اور مکار ہوتے چلے گئے۔
زراعت کی وجہ سے جنسی عدم مساوات نے بھی شدت اختیار کی۔ اب بھی کئی زرعی معاشروں میں عورت مردوں سے زیادہ کام کرتی ہے یا مرد عورت سے زیادہ کام کراتا ہے۔ قدیم دور میں جب انسان شکاری اور کسان بن چکا تھا تو مرد عام طور پر بڑے اور نایاب شکار کرتا تاکہ فخر سے اپنے شکار کا ذکر کر سکے، بجائے اس کے کہ چھوٹا شکار کرے جسے خراب ہونے سے پہلے کھایا جاسکے۔ حال ہی میں اگرچہ بشریاتی ماہرین نے اپنے اس نظریے پر نظرِثانی کی ہے کہ زراعت کی دریافت کے نتیجے میں انسانی وقار میں کمی آئی ہے لیکن انھیں شکاری انسان کے دور کے ایسے ’’مکار انسان‘‘ کا سراغ ملا ہے جو ’’شریف وحشی‘‘ انسانوں میں ایک وحشی تھا۔
انسانی آبادی کو زمین کی وسعت کے حوالے سے تقسیم کی صحت مند شرح فی ایک مربع میل فی انسان بتائی جاتی ہے۔ یہ شرح برقرار رکھنے کے لیے جنگوں کا سلسلہ جاری رہتا تھا۔ دوسری طرف کسان اس سے سو گنا بدتر صورتِ حال میں بھی زندگی گزار سکتا ہے۔ ’’شکاری کسان‘‘ دور کے انسان بہت ہٹے کٹے اور صحت مند ہوتے تھے کیونکہ ان میں کمزور مر جاتے تھے۔ زراعت کی دریافت اور انسانی آبادی کاری کے آغاز نے شرحِ اموات میں کمی لیکن مریضوں اور بیماروں کے تناسب میں اضافہ کر دیا اور یوں کسی حد تک انسانوں کی جنگوں سے جان چھڑا دی۔
زراعت کے بعد جب صنعتی انقلاب کا دور آیا۔ اب زراعت کے ساتھ صنعت بھی متوازی چل رہی تھی۔ جب دیہاتوں میں رہنے والے ہاریوں اور بے زمین کسانوں نے اپنے جھونپڑے چھوڑ کر لنکاشائر کی ٹیکسٹائل ملوں میں ملازمت اختیار کی تو کیا اس سے کوئی بہتری ہوئی؟ ڈکنسن کے مطابق فیکٹریوں نے دیہاتی منظر کو شہری مصائب، غربت، آلودگی اور بیماری میں تبدیل کر دیا۔ یہ فیکٹریاں بھی کھیتوں کی طرح استحصال کے اڈے تھیں جہاں غریب شہری کم معاوضوں اور کم خوراک کے عوض کام کی زیادتی کا شکار تھے لیکن اس کے باوجود وہ دھڑا دھڑ ان فیکٹریوں میں ملازمتیں اختیار کر رہے تھے تاکہ دیہاتوں کے سرد اور مٹی دھول والے ماحول میں کام کرنے اور اس کے باوجود بھوکوں مرنے سے نجات حاصل کر سکیں۔
اٹھارہویں صدی کے دیہاتی برطانیہ پر نظر دوڑائی جائے تو پتا چلتا ہے کہ یہ ایک ایسی جگہ تھی جہاں سردیوں میں جمع کیا گیا راشن اور دوسرا سامان ختم ہونے پر موسمِ بہار میں لوگ قحط کا شکار ہو جاتے تھے۔ جہاں کھیتوں میں اگر بدقت تمام کوئی کام مل بھی جاتا تو سخت جان توڑ محنت کے بعد ملنے والا معاوضہ اتنا کم ہوتا کہ اس سے بمشکل ہی روح اور جسم کے رشتے کو قائم رکھا جاسکتا تھا۔ اٹھارہویں صدی کا دیہی برطانیہ وہ جگہ تھی کہ جہاں ٹیکسٹائل فیکٹریاں لوگوں کو ان کے گھروں میں بھی کام مہیا کرتی تھی لیکن اس میں اور بھی زیادہ محنت کے ساتھ اور بھی کم معاوضہ دیا جاتا تھا۔ (زیمبیا کے لوگوں سے پوچھ کر دیکھیں کہ وہ کم معاوضوں پر چینی مالکان کی کانوں میں کام کیوں کرتے ہیں یا ویت نامیوں سے پوچھیں کہ وہ ملٹی نیشنل فیکٹریوں میں کم معاوضے پر شرٹس کی سلائی کا کام کیوں انجام دیتے ہیں)۔ زراعت کے بعد صنعتی انقلاب سے آبادی کا بم پھٹا کیونکہ اس سے شرحِ اموات کم ہوئی اور زیادہ بچے پیدائش کے بعد زندہ رہنے کے قابل بنے، یہ اور بات ہے کہ اس زندگی کا معیار کیسا تھا لیکن بہرحال وہ زندہ تو رہتے تھے۔
اب ہم دوبارہ قبل از تاریخ یعنی شکاری انسان کے دور کی طرف آتے ہیں۔ مسٹر لی بلانک اپنی کتاب ’’مسلسل جنگ‘‘ میں کہتے ہیں کہ ایکالوجی یعنی ماحولیات کے حوالے سے دیکھا جائے تو سب اچھا نہیں۔ زمانہ قبل از تاریخ کے انسانوں یعنی ’’ہومواریکٹس‘‘ نے ماحولیات کو اتنا نقصان نہیں پہنچایا جتنا اس کے بعد کے انسان یعنی ’’ہوموسیپی این‘‘ نے پہنچایا۔ اب اس بات میں کوئی شبہ نہیں رہا کہ براعظم امریکا کے انسانوں نے اپنے علاقے کی جنگلی حیات کو گیارہ ہزار سال قبل اور آسٹریلیا کے باسیوں نے اس سے بھی ۳۰ ہزار سال پہلے ختم کر دیا تھا۔ دیوقامت قدیم ہاتھی اور کینگرو ان انسانوں کے گھات لگا کر کیے جانے والے حملوں کی تاب نہ لاسکے اور ان کی نسل ختم ہو گئی۔
یوریشیا میں بھی ایسا ہی تھا۔ جنوبی فرانس میں شائووے سے دریافت شدہ عظیم غاروں میں ۳۲ ہزار سال قبل بنائی گئی تصاویر میں مصور گینڈوں سے متاثر دکھائی دیتے ہیں۔ اس طرح لاسکائو کے غاروں میں دریافت ہونے والی پندرہ ہزار سال پرانی تصاویر میں ارنے بھینسے، بیل اور گھوڑوں کی شکلیں بنائی گئی ہیں اور یوں لگتا ہے کہ اس وقت تک گینڈے ناپید ہونے کے قریب پہنچ چکے تھے۔
پہلے پہل بحرِ احمر کے آس پاس رہنے والے جدید انسان گوشت کے لیے بڑی جسامت کے ممالیہ جانوروں پر انحصار کرتے تھے۔ چھوٹے جانوروں کا شکار وہ صرف اس وقت کرتے تھے جب یہ جانور بہت سست رفتار اور آہستہ دوڑنے والا ہو اور اس سلسلے میں کچھوے اور گھونگے ان میں مقبول تھے۔ پھر مشرقِ وسطیٰ میں بتدریج اور بے رحمی کے ساتھ انسان کی توجہ چھوٹے اور بالخصوص گرم خون والے جانوروں پر مرکوز ہونے لگی اور انھیں ان کا گوشت مزیدار لگنے لگا۔ یہ وہ جانور تھے جو بہت بہتات سے پیدا ہوتے ہیں مثلاً خرگوش، تیتر اور چھوٹے ہرن شامل ہیں۔ اسرائیل، ترکی اور اٹلی سے ملنے والے آثارِ قدیمہ سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے۔
یونیورسٹی آف ایری زونا کی میری اسٹنر اور اسٹیون کوہن کے مطابق اس کی وجہ یہ تھی کہ انسانی آبادی بہت تیزی سے بڑھ رہی تھی اور کم تعداد میں پیدا ہونے والے جانور مثلاً کچھوے، گھوڑے اور گینڈے ان کی خوراک کی ضروریات کو پورا کرنے سے قاصر تھے۔ صرف کثیر تعداد میں اور بہتات سے پیدا ہونے والے جانور خرگوش، تیتر اور بعض اقسام کے چھوٹے ہرن ہی ان کی خوراک کی بڑھتی ہوئی طلب کو پورا کرنے کے قابل تھے۔ پندرہ ہزار سال قبل یہ رجحان مزید تیز ہو گیا جب بڑی جسامت کے جانور اور کچھوے بحرِ احمر سے مکمل طور پر ناپید ہو گئے اور انسانوں کے ہاتھوں ان کی نسل خاتمے کے دہانے پر جاپہنچی۔
شکار کی کمی کے دور میں دیگر شکاریوں کی طرح قدیم انسان یعنی ’’ہومواریکٹس‘‘ کو بھی مقامی سطح پر کئی نسلوں کے شکار ناپید ہونے کا سامنا تھا۔ یہ نئے نئے انسان اپنی اس مشکل کو دور کرنے کے لیے کوئی ترکیب کر سکتے تھے اور کوئی اختراع کرنے کے قابل تھے تاکہ اپنے لیے کوئی متبادل ذریعہ پیدا کر سکیں۔ آبادی کے بڑھتے ہوئے دبائو کے جواب میں انھوں نے ایسے ہتھیار تیار کرنے میں کامیابی حاصل کر لی جس سے وہ چھوٹے اور تیز رفتار شکار کو پکڑ سکیں جس کے باعث ان انسانوں کی بقا کی شرح میں اضافہ ہو گیا اور آبادی مزید بڑھ گئی لیکن ان کی یہ بقا دیگر کئی اقسام کے بڑے اور سست رفتاری سے پیدا ہونے والے جانوروں کی قیمت پر تھی۔ اسی نظریے کے تحت ۱۸ ہزار سال قبل تیر کمان ایجاد ہوئی تاکہ اس وقت پیدا ہونے والے مالتھوزین بحران (انگریز ماہرِ معاشیات ٹی آرمالتھوس کا نظریہ جس کے مطابق آبادی ہندسی نسبت سے اور خوراک کے وسائل ریاضی کی نسبت سے بڑھتے ہیں) کا مقابلہ کیا جاسکے۔
مزید براں یہ کہ ’’شکاری کسانوں‘‘ کا گروہ جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ اس قدر خوشحال ہو گئے تھے کہ آگ کے آس پاس بیٹھ کر اپنے شکار شدہ گوشت اور زرعی اجناس کے بارے میں گپ شپ کرتے تھے محض ایک دیومالائی داستان یا جدید دور کے آرٹ کے شاہکار کے سوا کچھ نہیں۔ اصل میں وہ اس قابل ہو گئے تھے کہ اپنی خوراک کو خراب ہونے سے بچا سکیں اور کئی روز تک اس کو استعمال میں لاسکیں جس کے باعث ان کے پاس کافی فالتو وقت گپ شپ کرنے کے لیے بچ جاتا تھا۔
زراعت کا آغاز بھی بڑھتی ہوئی آبادی کے دبائو کا ردِعمل تھا۔ ۱۳ ہزار سال قبل خشک سالی اور سردی کے باعث قحط کے نئے خطرے کے پیشِ نظر لیوان میں قدیم انسان مزید سبزی خوری کی طرف مائل ہونے لگے۔ زراعت کے باقاعدہ آغاز کے بعد جلد ہی انسان کی خوراک میں پروٹین اور وٹامنز کی کمی ہو گئی لیکن کیلوریز کی مقدار میں زبردست اضافہ ہو گیا اور یوں بقا اور شرحِ پیدائش بھی بڑھ گئی۔
حقیقت یہ ہے کہ انسان تاریخ میں اگلے چند ہزار سال کے دوران اس قسم کی صورتِ حال مزید ۶ مرتبہ پیدا ہوئی اور دنیا کے ۶ علاقے اس سے متاثر ہوئے ان میں ایک علاقہ ایشیا میں نیو گنی کا تھا جبکہ براعظم امریکا میں ۳ خطے، افریقہ میں ایک مقام پر یہ صورتِ حال وقوع پذیر ہوئی جس سے اس موقف کو تقویت ملتی ہے کہ ایجاد آبادی کی بڑھتی ہوئی ضروریات کا ردِعمل ہے۔
ہر معاملے میں ابتدائی دور کا کسان چھوٹے قد، بیماری اور استحصال کے باوجود یہ سمجھتا تھا کہ کم از کم وہ زندہ تو رہ سکتا ہے اور افزائشِ نسل تو کر سکتا ہے اور یوں اپنے اپنے براعظموں میں شکار کرنے اور فصلیں پیدا کرنے والے اس انسان کی آبادی بڑھتی گئی۔
اب یہ بات خارج از بحث ہے کہ آیا شکاری انسان کے طور پر ہم لوگ اچھے طریقے سے گزارا کر سکتے ہیں۔ وقت کے ساتھ تبدیل ہونے والی نسل کے طور پر ہم نے ہر صورت آگے بڑھنا ہے، خواہ ہم چاہیں یا نہ چاہیں۔ ’’ضرورت ایجاد کی ماں ہے‘‘ کے مصداق اور عادات کی مسلسل تبدیلیوں کے ساتھ انسان نے ۵۰ ہزار سال قبل اس شاہراہ پر چلنا شروع کیا جسے ’’شاہراہِ ترقی‘‘ کہتے ہیں۔ یہاں تک کہ ۴۰ ہزار سال قبل بالخصوص مغربی یوریشیا میں ٹیکنالوجی اور لائف اسٹائل مسلسل تغیر کی حالت میں تھا۔ ۳۴ ہزار سال قبل انسان نے نوکدار ہڈیوں کی مدد سے تیر بنانے شروع کر دیے، ۲۶ ہزار سال قبل وہ سوئیاں بنانے لگا تھا جبکہ ۱۸ ہزار سال قبل وہ ہڈیوں کے ساتھ تیر اور چھرے بنانے کے علاوہ نیزے اور مچھلیاں پکڑنے کا دوسرا سامان بھی بنانے لگا۔ اس کے علاوہ انسان نے تاروں کی مدد سے خرگوش پکڑنے میں بھی کامیابی حاصل کر لی تھی۔ جالوں اور پھندوں کے بغیر آپ خرگوش کو کیسے پکڑ سکتے ہیں؟
اس طرح یہ افعال صرف ضرورت اور عملیات تک ہی محدود نہ تھے۔ ۳۲ ہزار سال قبل جرمنی میں ہاتھی دانت سے گھڑے گئے گھوڑے کو زیور کے طور پر استعمال کیا جاتا تھا۔ ۲۸ ہزار سال قبل سانگر کے دور میں ماسکو کے قریب واقع ولادی میر شہر میں ایک مقام پر لوگ کھلے آسمان تلے آباد تھے جہاں مردے کو ہزاروں کی تعداد میں ہاتھی دانت سے بنے موتیوں اور ہڈی سے بنے پہیے کی شکل کے جیسے گول گول دانوں کے ساتھ دفن کیا جاتا تھا۔
مسلسل اختراع کرتے رہنا انسان کی خصوصیات کا مرکزی جز ہے۔ زراعت کا آغاز، گھروں میں جانور پالنے اور پودے اُگانے کی ابتدا کو بھی اسی ترقی پسند اختراع اور تبدیلی کی خصوصیات کا حصہ سمجھا جانا چاہیے۔ یہ محض ایک اور قدم تھا۔ ۸۰ ہزار سال قبل جب انسان نے آگ کا استعمال شروع کیا تو جڑدار پودوں (شلجم، مولی، گاجر، شکرقندی اور آلو وغیرہ) کی پیداوار بھی بڑھ گئی۔ ۱۵ ہزار سال قبل لوگوں نے ایک اور جانور کو پالتو بنا لیا تھا جو بھیڑیا تھا (ممکن ہے کہ اس کے لیے پہلا قدم بھیڑیے ہی نے اٹھایا ہو)۔ ۱۲ ہزار سال قبل انسان نے باقاعدہ فصلیں اُگانا شروع کیں۔ اس طرح ایک مبہم سی سوچ کے ساتھ کہا جاسکتا ہے کہ انٹرنیٹ اور موبائل فون کی بنیاد ۵۰ ہزار سال قبل ہی رکھ دی گئی تھی۔
اس تمام کہانی سے ہمیں ایک جدید اخلاقی سبق بھی ملتا ہے۔ ہم ہزاروں سال سے اپنے اور اپنے ماحول کے لیے بحران پیدا کر رہے ہیں اور خود ہی اس بحران کو حل کرنے کے لیے بھی کوشاں ہیں۔ قنوطیت پسند کہتے ہیں کہ ہر بحران کا حل ہمارے لیے ایک نیا بحران پیدا کرتا ہے جبکہ رجائیت پسند کہتے ہیں کہ دنیا میں کوئی ایسا بحران نہیں جس کا کوئی حل نہ ہو۔ جس طرح قدیم جنگلی حیات کے خاتمے سے انسان کی آبادی بڑھی اور اب اس قدر بڑھ چکی ہے کہ کوئی شمار ہی نہیں لہٰذا بیسویں صدی کے آغاز میں جب انسانی آبادی ایک ارب تھی تو کھاد کی کمی کے باعث قحط نے جنم لیا لیکن کیا ہم نے اس وقت کے بارے میں سوچا ہے جب عالمی آبادی دس ارب سے بھی بڑھ جائے گی جب کہ مصنوعی نائٹروجن کھاد، جینیاتی طور پر فصلوں کی پیداوار بڑھا کر اور ٹریکٹروں کے استعمال میں اضافہ کرنے کے باوجود اتنی بڑی آبادی کا پیٹ بھرنے کے لیے زمین کم پڑ جائے گی۔ تب آخرکار کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اضافے کی شرح کو الٹا دیا جائے گا اور پھر ایک اور مسئلہ ہمارا انتظار کر رہا ہو گا۔
(بشکریہ: ’’سنڈے ایکسپریس‘‘۔ شمارہ: ۲۳ مارچ ۲۰۰۸ء)
Leave a Reply