سات اکتوبر ۲۰۱۲ء کو افغانستان پر امریکا اور اس کے اتحادیوں کی لشکر کشی کو گیارہ سال مکمل ہوگئے۔ اب تک یہ سوال کروڑوں ذہنوں میں گردش کر رہا ہے کہ کیا امریکا اور اس کے اتحادیوں نے افغانستان پر لشکر کشی سے کچھ پایا ہے؟ کیا واقعی افغانستان پر حملہ امریکا اور یورپ کے مفاد میں تھا؟
۱۱؍ ستمبر ۲۰۰۱ء کو نیو یارک کے ٹوئن ٹاورز پر حملے میں ۲۹۷۷ افراد ہلاک ہوئے۔ صرف ایک فرم Cantor Fitzgerald کے ۷۰۰ ملازمین ہلاک ہوئے۔ ۳۴۳ فائر فائٹرز مارے گئے۔ ۶۰ پولیس افسران بھی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ صرف ۲۹۱ لاشیں شناخت کیے جانے کے قابل تھیں۔ جن خاندانوں نے اپنے پیاروں کو کھویا، ان میں نصف ایسے تھے جنہیں دفنانے کے لیے کچھ بھی نہ ملا۔ جن لوگوں نے اس سانحے کے رونما ہوتے ہی امدادی کارروائیوں میں حصہ لیا ان میں ایک ہزار مختلف بیماریوں میں مبتلا ہوکر جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔
نائن الیون کے بعد وال اسٹریٹ چھ دن بند رہی۔ اس سانحے کے براہِ راست اثر کے تحت ایک لاکھ ۴۶ ہزار سے زائد افراد ملازمت سے محروم ہوئے۔ سانحے کے بعد صرف ایک ماہ میں نیو یارک کو ۱۰۵؍ارب ڈالر سے زیادہ نقصان برداشت کرنا پڑا۔
نائن الیون کے بعد امریکا نے جنگ چھیڑی مگر صرف عراق یا افغانستان کے خلاف نہیں بلکہ پاکستان، یمن اور صومالیہ کو بھی نشانہ بنایا گیا اور خود امریکی شہری بھی اس جنگ کے اثرات سے بچ نہیں پائے۔ ان کی بہت سی آزادیاں سلب ہوکر رہ گئی ہیں۔ قومی سلامتی یقینی بنانے کے نام پر امریکی شہریوں کی بہت سی سہولتیں ختم کردی گئی ہیں۔ آپریشن عراقی فریڈم سرکاری طور پر آٹھ سال آٹھ ماہ چلا۔ اس دوران ۴۴۸۶ فوجی اور ۳۱۸ سویلین امریکی مارے گئے۔ یہ تعداد نائن الیون میں مارے جانے والے افراد سے ۱۸۰۰؍زیادہ ہے۔ ’’نیو یارک ٹائمز‘‘ کا کہنا ہے کہ عراق میں جنگی کارروائیاں باضابطہ طور پر ختم کیے جانے کے صرف ایک سال بعد سے امریکی خفیہ اداروں کے اہلکار اور ایجنٹ عراقی حکومت کی ایما پر عراق میں داخل ہو رہے ہیں۔
دوسری طرف افغانستان میں آپریشن اینڈ یورنگ فریڈم کے نام سے جنگ اب تک جاری ہے۔ ۲۰۱۴ء میں جنگ مکمل طور پر ختم ہوگی اور اتحادی افواج انخلا مکمل کرلیں گی۔ یورپ کے متعدد ممالک نے اپنے فوجیوں کو اس ڈیڈ لائن سے کہیں پہلے نکالنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ افغانستان میں اب تک ۲۱۳۰؍امریکی، ۴۳۳ برطانوی اور ۱۵۸؍کینیڈین فوجی مارے جاچکے ہیں۔ نائن الیون میں جو جانی نقصان ہوا، اس سے کم از کم پانچ ہزار زائد ہلاکتیں دو جنگوں میں ہوچکی ہیں یعنی ۹۷۷,۲ کے مقابل ۸۰۰۰ ہلاکتیں۔
افغانستان اور عراق میں جنگی کارروائیوں کے دوران فوجیوں پر جو کچھ بیتی ہے، اس کے نتیجے میں ان کی نفسیاتی کیفیت بری طرح غیر متوازن رہی ہے۔ میدان جنگ سے واپس آنے والے فوجیوں میں خود کشی کا رجحان تیزی سے پروان چڑھ رہا ہے۔ افغانستان میں جان سے ہاتھ دھونے والے ایک فوجی کے عوض امریکا میں پچیس فوجی خود کشی کے گھاٹ اترتے ہیں۔ رواں سال کے صرف پہلے چھ ماہ کے دوران ۱۸۷؍امریکی فوجیوں نے خود کشی کے ذریعے دنیا سے جانے کو ترجیح دی ہے۔ ان میں فضائیہ کے ۵۵، بحریہ کے ۳۹، میرین کور کے ۳۲ ؍اور کوسٹ گارڈ کے ۵؍ اہلکار شامل ہیں۔ افغانستان اور عراق میں تعیناتی کے دوران امریکی فوجیوں کو غیر معمولی دباؤ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ وطن واپسی کے بعد بھی یہ فوجی شدید پریشانی کی حالت میں رہتے ہیں۔ انہیں گھر والوں اور دوستوں سے تعلقات متوازن رکھنے میں مشکلات پیش آتی ہیں۔ وہ معاشرتی اعتبار سے اچھی زندگی بسر کرنے کے قابل نہیں رہتے۔ اپنے ہی لوگوں میں دوبارہ نارمل زندگی بسر کرنا ان کے لیے ممکن نہیں ہوتا۔
ہر سال ۶۵۰۰ سے زائد سابق امریکی فوجی خود کشی کرتے ہیں۔ یعنی ہر ۸۰ منٹ کے بعد ایک سابق امریکی فوجی دنیا سے رخصت ہونے کا فیصلہ کرتا ہے۔ امریکی فوج یہ اعداد و شمار جاری کرتی ہے اور یہ وضاحت نہیں کرتی کہ خود کشی کرنے والوں میں افغانستان اور عراق میں خدمات انجام دینے والے شامل ہیں یا دیگر جنگوں میں شرکت کرنے والے۔ پہلی اور دوسری جنگِ عظیم کے دوران امریکی فوج کو جتنی ہلاکتوں کا سامنا کرنا پڑا اس کے مقابلے میں افغانستان اور عراق میں ان کے مقابلے میں خاصا کم جانی نقصان برداشت کرنا پڑا۔ اب علاج کے طریقے بہت ترقی کرچکے ہیں۔ بہت سی موثر ادویہ استعمال کی جارہی ہیں۔ پہلے معمولی زخم سے بھی فوجی مر جایا کرتے تھے۔ اب شدید زخمی فوجیوں کو بھی بر وقت علاج سے بچایا جاسکتا ہے۔ مگر ایک بڑا مسئلہ یہ ہے کہ جن فوجیوں کو شدید زخمی ہونے پر بھی بچا لیا جاتا ہے وہ زندگی بھر مختلف نفسیاتی پیچیدگیوں میں مبتلا رہتے ہیں۔ مبصرین اور ماہرین کہتے ہیں کہ سابق امریکی فوجیوں یا میدان جنگ میں خدمات انجام دینے والے فوجیوں میں مایوسی کا گراف بلند ہوتا جارہا ہے۔ اس کامطلب یہ ہے کہ خود کشی کرنے والے فوجیوں کی تعداد میں اضافہ ہوسکتا ہے۔
اب تک ہم امریکا اور یورپ کے جانی نقصان کا جائزہ لیتے آئے ہیں۔ عراق اور افغانستان میں لاکھوں شہری بھی مارے گئے ہیں۔ برطانیہ نے سرکاری طور پر تسلیم کیا ہے کہ عراق میں ۲۰۰۴ء تک ایک لاکھ سے زائد شہری مارے گئے۔ اس کے بعد کے اعداد و شمار جاری کرنے کی زحمت اب تک گوارا نہیں کی گئی۔ دوسری طرف ۲۰۰۷ء کے برٹش اوپینین ریسرچ بزنس سروے کے مطابق پندرہ لاکھ تک عراقی شہری ہلاک ہوئے۔ لانسیٹ کے ایک سروے نے تصدیق کی کہ عراق میں ساڑھے چھ لاکھ سے دس لاکھ کے درمیان شہری ہلاکتیں ہوئیں۔
افغانستان میں ہلاکتوں کا شمار کرنا دشوار ہے کیونکہ اس حوالے سے بنیادی ڈھانچا میسر ہی نہیں۔ ہیومن رائٹس واچ نے بتایا تھا کہ ۲۰۰۶ء میں ایک ہزار افغان باشندے ہلاک ہوئے۔ اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ ۲۰۰۷ء سے اب تک افغانستان میں ۱۲؍ہزار افراد مارے جاچکے ہیں۔
پاکستان، صومالیہ اور یمن میں امریکا نے ڈرون حملوں کا سہارا لیا ہے۔ ۲۰۰۲ سے اب تک یمن میں ڈرون حملوں میں کم از کم ۳۴ بچوں اور سیکڑوں خواتین سمیت ۱۰۲۶؍افراد موت کے گھاٹ اتارے جاچکے ہیں۔ امریکیوں کو تو شاید یاد بھی نہ ہو کہ صومالیہ بھی ان کے ذہنوں کے اسکرین پر کہیں ہے مگر ڈرون حملے باقاعدگی سے ہوتے رہے ہیں۔ ۲۰۰۷ء سے اب تک صومالیہ میں ڈرون حملوں سے ۱۷۰؍افراد مارے جاچکے ہیں۔ پاکستان میں ڈرون حملوں سے ۱۳۶؍بچوں سمیت کم و بیش ۳۳۴۱؍افراد موت کے گھاٹ اتارے جاچکے ہیں۔ ان حملوں میں زخمی ہونے والوں کی تعداد ۱۳۶۶؍ہے۔ ہلاکتوں کی تعداد سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ڈرون حملوں میں ہدف کس قدر قطعیت کے ساتھ حاصل کیا جاتا ہے اور ہلاکتیں بڑھتی جاتی ہیں۔
امریکا نے دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر گرفتاریاں بھی کی ہیں اور بہتوں کو تشدد کا نشانہ بھی بنایا ہے۔ گوانتا نامو بے جیل میں ایک قیدی کو رکھنے پر سالانہ آٹھ لاکھ ڈالر خرچ ہوتے ہیں۔ عراق میں ایک لاکھ سے زائد افراد کو گرفتار کرکے مختلف جیلوں اور حراستی مراکز میں رکھا گیا۔ عراق کی ابو غریب جیل اور افغانستان میں بگرام ایئر بیس کا حراستی مرکز قیدیوں پر ڈھائے جانے والے انسانیت سوز مظالم کے حوالے سے دنیا بھر میں بدنام ہوئے ہیں۔ امریکی فوجی افسران نے قیدیوں کو ان مراکز سے دنیا بھر میں موجود امریکی جیلوں اور حراستی مراکز میں منتقل کرنے سے قبل شدید جسمانی، نفسیاتی اور جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا۔
امریکا نے دہشت گردی ختم کرنے کے نام پر افغانستان اور عراق میں جو کچھ کیا ہے اس کا نتائج بھی بھگتے ہیں۔ جو لوگ مارے گئے ان کے اہل خانہ اور دیگر رشتہ دار اس زخم کے ساتھ زندہ ہیں۔ جن کے پیارے دنیا سے چلے گئے انہوں نے انتقام کی راہ اپنائی ہے اور وہ امریکا اور امریکیوں کو نقصان پہنچانے کے درپے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ افغانستان اور امریکا میں ایسے ہزاروں افراد ہیں جو امریکا سے کسی نہ کسی شکل میں بدلہ لینے کے لیے بے قرار ہیں۔ دنیا بھر میں امریکا مخالف جذبات توانا ہوتے جارہے ہیں۔ یہ سب کچھ دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر ڈھائے جانے والے مظالم کی کوکھ سے پیدا ہوا ہے۔
ایک اہم سوال یہ ہے کہ ان جنگوں نے امریکی معیشت کو کس حد تک نقصان پہنچایا ہے۔ ۲۰۰۳ء میں اس وقت کے امریکی صدر جارج واکر بش نے کہا تھا کہ دونوں جنگیں مجموعی طور پر پچاس سے ساٹھ ارب ڈالر کے اخراجات کی حامل ہوں گی۔ ۲۰۱۱ء میں براؤن یونیورسٹی کے واٹسن انسٹی ٹیوٹ آف انٹر نیشنل اسٹڈیز نے بتایا کہ افغانستان اور عراق میں جنگوں پر امریکا کے اخراجات تقریباً ۴۴۰۰؍ارب ڈالر کے ہیں۔ اس میں زخمیوں کے علاج اور افغانستان کی تعمیر نو کے اخراجات شامل نہیں ہیں۔ ماہر معاشیات جوزف اسٹگلٹز کا کہنا ہے کہ صرف افغانستان میں امریکا کو جنگ پر تقریباً ۲۲۰۰؍ارب ڈالر خرچ کرنے پڑے ہیں۔ یہ سب کچھ حقیقی آمدنی سے نہیں ہو رہا بلکہ امریکا پر قرضوں کا بوجھ بڑھتا ہی جارہا ہے۔ یکم اکتوبر ۲۰۱۲ء تک امریکا پر قرضوں کا بوجھ ۱۶؍ہزار ارب ڈالر سے زائد ہوچکا تھا!
ویت نام کی جنگ میں بھی امریکا نے وسائل آگ میں جھونکے اور اس وقت کے نائب وزیر خارجہ جارج بال نے لکھا کہ اگر امریکا کا وقار بچتا ہے تو کوئی بھی قیمت کچھ نہیں اور اس کے لیے جنگ کو طول دینے میں بھی کوئی ہرج نہیں! نیشنل سکیورٹی ایڈوائزر مک جارج بنڈی نے تو یہ بھی لکھا کہ اگر بہت کچھ خرچ کرکے بھی ناکامی ہاتھ آئے تو افسوس کی کوئی بات نہیں کیونکہ سب کچھ عزت بچانے کے لیے تو کیا گیا ہے!
اس وقت امریکا میں بے روزگار افراد کی تعداد سوا دو کروڑ سے زائد ہے۔ یہ لوگ اچھی طرح جانتے ہیں کہ کسی بھی جنگ کی پوری قوم کو کیا قیمت ادا کرنا پڑتی ہے۔ اگر امریکی کانگریس میں دور اندیشی ہوتی اور وہ دیکھتی کہ جتنے لوگ نائن الیون کی نذر ہوئے، ان سے کہیں زیادہ امریکی فوجی جنگ کی چوکھٹ پہ بھینٹ چڑھیں گے تو یقیناً جنگ سے دور رہنے کے بارے میں سوچا جاسکتا تھا۔ امریکا سے نفرت کرنے اور انتقام لینے کے لیے بے تاب افراد کی تعداد میں کئی گنا اضافہ ہوچکا ہے۔ کیا یہ سب کچھ نظر میں ہوتا تب بھی امریکا جنگ کی طرف جاتا؟ ہمیں سوچنا ہوگا کہ کیا یہ جنگ اپنے مقاصد حاصل کرنے میں کامیاب رہی ہے؟ جو کچھ گنوایا گیا ہے اُس کے عوض وہ سب کچھ حاصل ہوا ہے جس کی تمنا تھی؟
(“Was it worth it? Afghanistan 11 years later”… “Global Research”. October 8th, 2012)
Leave a Reply