مینگورہ، سوات سے تعلق رکھنے والی ۱۵؍سالہ طالبہ ملالہ یوسف زئی پر حملہ ہوا تو پوری دنیا میں شور مچ گیا۔ سوال یہ ہے کہ سوات اور اس سے ملحق علاقوں میں دوسری بہت سی لڑکیوں پر بھی تو حملے ہوتے رہے ہیں۔ ان حملوں کے حوالے سے شور کیوں نہیں مچایا گیا؟ امریکی صدر براک اوباما، امریکی وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن، اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون اور برطانیہ کے سابق وزیر اعظم گورڈن براؤن نے حملے کی شدید مذمت کی اور پھر تو جیسے پوری دنیا میں مذمت کا سیلاب آگیا۔ ہالی وڈ کی اداکارہ انجلینا جولی نے تجویز پیش کی کہ ملالہ یوسف زئی کو امن کا نوبل انعام دیا جائے۔ معروف گلوکارہ میڈونا نے ملالہ کا نام اپنی برہنہ پشت پر لکھوایا!
ملالہ اور اس کی دو سہیلیوں پر کیا جانے والا حملہ یقیناً قابل مذمت تھا۔ جن لوگوں نے یہ کام کیا تھا، وہ درندے تھے۔ اس عمل کی جس قدر بھی مذمت کی جائے، کم ہے۔ سوال یہ ہے کہ ملالہ یوسف زئی کو دنیا بھر میں اس قدر شہرت کس بنیاد پر ملی یا دلائی گئی؟ آخر ملالہ یوسف زئی کی کیا حیثیت ہے جو اسے اس قدر شہرت سے ہمکنار کیا گیا؟ اس کے ساتھ دو سہیلیاں بھی تو زخمی ہوئیں۔ ان کا ذکر تو کوئی نہیں کرتا اور ان کے والدین بھی معروف نہیں۔ ملالہ پر حملے کے چند روز بعد یعنی ۱۵؍ اکتوبر کو امریکی فوجیوں نے افغانستان کے صوبے ہلمند کے نوا ضلع میں ایک حملے میں تین بچوں کو شہید کردیا۔ یہ علاقہ سوات سے بہت دُور تو نہیں۔
اس حملے کو، جیسا کہ ہوتا آیا ہے، امریکی فوج نے طالبان کمانڈر کو ہدف بنانے کی کارروائی قرار دیتے ہوئے دعویٰ کیا کہ منتخب عسکریت پسندوں کو نشانہ بنایا گیا۔ تینوں بچوں کا تعلق ایک ہی خاندان سے تھا اور وہ گھر میں ایندھن کے طور پر جلانے کے لیے مویشیوں کا فضلہ جمع کر رہے تھے۔ یہ اس غریب افغانستان کی بات ہے جہاں امریکا نے اربوں ڈالر جدید ترین ہتھیاروں کے استعمال اور افواج کی تعیناتی پر خرچ کر دیے ہیں۔ بارہ سال بورجان، دس سالہ سردار ولی اور آٹھ سالہ خان بی بی کی موت شاید اس قابل نہیں تھی کہ امریکی صدر اور ان کے ہم نوا مائکروفون پر ان کے نام لے کر حملہ آوروں اور قاتلوں کی مذمت کریں۔ یہ سب کچھ شاید امریکا کے بہترین قومی مفاد میں نہ تھا۔ ۲۰۰۴ء سے جنوبی اور شمالی وزیرستان پر کیے جانے والے ڈرون حملوں میں سیکڑوں معصوم بچے جاں بحق ہوچکے ہیں مگر ان ہلاکتوں کی مذمت کرنے کا وائٹ ہاؤس کو کبھی خیال نہیں آیا۔
۱۲؍ اکتوبر کو سی این این کی کرسٹینا امن پور نے پاکستانی وزیر خارجہ حنا ربانی کھر سے پوچھا کہ کیا پاکستان طالبان کے خلاف شمالی وزیرستان میں آپریشن کرے گا؟ اس سوال کے جواب میں حنا ربانی کھر نے کہا کہ جنوبی وزیرستان میں آپریشن شروع ہوا تو عسکریت پسندوں نے پاکستان کو چھوڑ کر افغانستان کے صوبے کنڑ میں پناہ لے لی۔ بعد میں وہ کنڑ سے پاکستان پر حملے کرتے رہے ہیں۔ حنا ربانی کھر کے اس بیان کی روشنی میں ایک اہم سوال یہ ہے کہ اگر امریکا کو دہشت گردی پر قابو پانا ہے تو کنڑ میں عسکریت پسندوں پر قابو پانے میں کیا قباحت ہے؟ افغانستان میں تو امریکی افواج بڑے پیمانے پر موجود اور تعینات ہیں۔ ایسے میں شمالی وزیرستان میں فوجی آپریشن کے لیے پاکستان پر دباؤ ڈالنے کی کیا ضرورت ہے؟ پاکستان خود وضاحت کر رہا ہے، اس کی سرزمین پر حملہ کرنے والے کنڑ سے آتے ہیں۔
سوال پھر یہ ہے کہ ملالہ یوسف زئی کو عالمی سطح کی شخصیت میں کیوں تبدیل کیا گیا؟ پہلے تو اسے طالبہ کی حیثیت سے شہرت دلائی گئی۔ وکی پیڈیا پر بھی اس کی انٹری موجود ہے۔ کسی اور پاکستانی طالب علم کی انٹری وکی پیڈیا پر نہیں۔ ایسے میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ملالہ میں ایسی کیا بات ہے، ایسے کون سے گُن ہیں کہ اسے یوں توجہ کا مرکز بنادیا جائے؟ بات کچھ یوں ہے کہ پہلے تو ملالہ کا پروفائل بنایا گیا۔ پھر ایسے حالات پیدا کیے گئے کہ ملالہ پر حملہ ہو یا پھر یہ بھی ہوسکتا ہے کہ حملہ کرایا گیا ہو۔ اس حملے کا بنیادی مقصد صرف یہ تھا کہ پاکستان کی فورسز پر شمالی وزیرستان میں فوجی آپریشن کے لیے دباؤ ڈالا جائے۔ یہ آپریشن امریکی مفادات کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے ناگزیر ہے۔ امریکا طویل مدت سے شمالی وزیرستان میں آپریشن کا مطالبہ کرتا آیا ہے۔ اس مطالبے میں پیدا ہونے والی شدت سے امریکی مفادات کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
ملالہ کی کہانی بھارت کی فلم ’’کہانی‘‘ کی کہانی سے ملتی جلتی ہے۔ ودیا بالن نے اس میں ایک حاملہ خاتون کا کردار ادا کیا ہے جو اپنے گم شدہ خاوند کو ڈھونڈنے کولکتہ آتی ہے۔ ایک بھارتی انٹیلی جنس ایجنٹ مسٹر خان (نظام الدین صدیقی) ودیا بالن کو ایک قاتل کی گرفتاری کے لیے استعمال کرتا ہے۔ یہ قاتل پہلے سیکریٹ ایجنٹ تھا جس نے ایک ٹرین میں زہریلی گیس کے ذریعے ۲۰۰ مسافروں کو مار ڈالا۔ مسٹر خان کا اسسٹنٹ جب یہ ماجرا دیکھتا ہے تو حیران رہ جاتا ہے کہ قاتل کی گرفتاری کے لیے اس کا باس کس حد تک جاسکتا ہے! رانا اپنے باس سے بحث کرتا ہے کہ اگر کسی مذموم مقصد کے لیے کسی معصوم انسان کی زندگی داؤ پر لگانی پڑے تو مجرم اور اتھارٹی میں کیا فرق رہ جاتا ہے؟ اس کیس میں مسز باغچی (ودیا بالن) کی زندگی داؤ پر لگی ہوئی تھی۔ اب ہمیں یہ سوچنا ہے کہ کیا واقعی ملالہ اور مسز باغچی میں کوئی فرق ہے؟ کیا ملالہ کو بھی امریکا نے اپنے مقاصد کے لیے استعمال نہیں کیا؟
ملالہ ۱۲؍جولائی ۱۹۹۷ء کو پیدا ہوئی۔ اس کے والد ضیاء الدین یوسف زئی کے کئی اسکول ہیں جو تجارتی پیمانے پر چلائے جارہے ہیں۔ پاکستان میں اور تو سب کچھ نالی میں بہتا جارہا ہے مگر پرائیویٹ اسکول تیزی سے پھل پھول رہے ہیں۔ غیر سرکاری تنظیمیں بھی مغربی فنڈنگ سے خوب پروان چڑھ رہی ہیں۔ بی بی سی کے رپورٹر عبدالحئی کاکڑ نے ۲۰۰۹ء میں ملالہ یوسف زئی کو دریافت کیا۔ اسے اسائنمنٹ ملا تھا کہ کسی ایسی بہادر لڑکی کو تلاش کرے جو (کالعدم) تحریک طالبان پاکستان کی طرف سے ملنے والی دھمکیوں کے باوجود تعلیم جاری رکھنے پر کمر بستہ ہو۔ یاد رہے کہ وادیٔ سوات میں تحریکِ طالبان پاکستان نے لڑکیوں کے درجنوں اسکول تباہ کیے ہیں۔ عبدالحئی کاکڑ نے ضیاء الدین یوسف زئی سے رابطہ کیا تو انہوں نے اپنی بیٹی کے تجربے سے مستفید ہونے کی بخوشی منظوری دے دی۔ ملالہ نے بی بی سی ورلڈ سروس کے لیے ڈائری لکھنے کی ابتدا کی جسے ’’دی ڈائری آف اے پاکستانی اسکول گرل‘‘ کے عنوان سے بی بی سی کی ویب سائٹ پر اپ لوڈ کیا جاتا رہا۔ ملالہ کی شناخت پوشیدہ رکھنے کے لیے اسے گل مکئی کا قلمی نام دیا گیا۔ اس نے اپنی ڈائری میں طالبان کے تصرف کا ذکر کیا۔ اب بھی لوگ سمجھ نہیں پائے کہ ملالہ کے باپ نے کیوں اپنی بیٹی کو یوں منظر عام پر آنے دیا؟ کیا ان کے اسکولوں کی آمدنی میں کمی واقع ہو رہی تھی؟
پھر یہ ہوا کہ ’’نیویارک ٹائمز‘‘ کے ایڈم بی ایلک (Adam B.Ellick) نے ملالہ کے بارے میں دو وڈیو عین اس وقت جاری کیں، جب پاکستانی فوج سوات میں فوجی آپریشن کرنے والی تھی۔ کیا یہ ٹائمنگ محض اتفاق قرار دی جاسکتی ہے؟ یہ ایڈم ایلک کون تھا اور اچانک کہاں سے نمودار ہوکر اس نے ملالہ کے خاندان اور اسکول کے بارے میں وڈیو بناکر دنیا بھر میں پھیلادیں! ’’امریکن ایوری مین‘‘ کے زیر عنوان کام کرنے والے بلاگ میں ایک سابق امریکی فوجی اسکاٹ کریٹن نے بتایا کہ ایڈم ایلک در اصل کونسل آن فارن ریلیشنز کا رکن ہے اور اسے ’’نیو یارک ٹائمز‘‘ میں پلانٹ کیا گیا ہے۔ اسی نے ملالہ کا باب رقم کیا اور منافع کے لیے کام کرنے والے اسکول ملک بھر میں پھیلانے کے منصوبے پر کام کر رہا ہے۔
ملالہ کی وڈیو جلد ہی دنیا بھر میں پھیل گئیں۔ پاکستانی میڈیا کے پاس امریکا سے وفاداری نبھانے اور دکھانے کا یہ اچھا موقع تھا۔ دیکھتے ہی دیکھتے ملالہ یوسف زئی میڈیا پر چھاگئی۔ ملالہ کو ملک گیر، بلکہ عالمی پیمانے پر شہرت دلانے کی بھرپور کوشش کی گئی جو کامیاب رہی۔ وکی لیکس کے مطابق پاکستان میں صحافیوں کو خریدنا کچھ دشوار نہیں۔ سب کچھ منظر عام پر آجانے کے بعد بھی پاکستان کے امریکا نواز صحافیوں کو ذرا بھی شرم نہیں اور وہ اپنا کام جاری رکھے ہوئے ہیں۔
ملالہ نے چینل، اخبارات اور جرائد کو انٹرویو دینا شروع کیا۔ ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ اس وقت وہ بارہ سال کی تھی۔ اس عمر میں اسے ڈسٹرکٹ چلڈرن اسمبلی سوات کی چیئر پرسن بنادیا گیا۔ اکتوبر ۲۰۱۱ء میں نوبل انعام یافتہ بشپ ڈیسمنڈ ٹوٹو نے اسے انٹرنیشنل چلڈرن پیس ایوارڈ کے لیے نامزد کردیا۔ پاکستان اور افغانستان کے لیے امریکا کے سابق خصوصی ایلچی آں جہانی رچرڈ ہالبروک نے بھی ملالہ اور اس کے والد سے ملاقات کی اور ان تینوں کی تصاویر بہت جلد انٹرنیٹ پر پھیل گئیں۔ رچرڈ ہالبروک ایک جہاں دیدہ سفارت کار تھے۔ انہیں ملالہ یوسف زئی میں کیا دلچسپی ہوسکتی تھی؟ یقینی طور پر ان کی ملالہ سے ملاقات بھی کسی بڑے گیم پلان کا حصہ تھی۔ پاکستانی حکومت نے بھی ملالہ یوسف زئی کو پہلا نیشنل یوتھ پرائز ایوارڈ دیا۔
ملالہ نے ٹی وی پر جو انٹرویو دیے وہ خاصے بے باک لہجے پر مبنی تھے۔ محسوس کیا جاسکتا تھا کہ ملالہ کسی کے کہنے پر ایسی باتیں کر رہی ہے، جو طالبان کو تشدد پر اکسا سکتی ہیں۔ ملالہ نے جو کچھ کہا وہ ایک حد تک درست بھی تھا، مگر اس کے باوجود حیرت انگیز اس لیے تھا کہ سیاست دان غیر معمولی سکیورٹی انتظامات کے باوجود کھل کر کچھ بھی کہنے سے گریز کرتے ہیں جبکہ ملالہ کو تو وہ سکیورٹی بھی میسر نہ تھی۔ جو لوگ دہشت پھیلا رہے ہیں ان کے خلاف بولنا ضروری ہے مگر کسی جواز کے بغیر بولنے کی کوئی اہمیت نہیں بلکہ الٹا نقصان ہے۔
ملالہ کو اس بات کی خوشی تھی کہ اس کے والد لڑکیوں کی تعلیم کے حق میں ہیں، مگر ساتھ ہی اس بات کا دکھ بھی تھا کہ اس کی ماں تو گھر کی چار دیواری میں ہیں اور وہ یعنی جوان لڑکی عالمگیر شہرت پارہی ہے۔ ایڈم ایلک کے الفاظ میں ضیاء الدین یوسف زئی تھوڑا سا روایتی ہے۔
ایڈم ایلک صحافی ہے یا سی آئی اے کا ایجنٹ؟ پاکستان میں سی آئی اے کے ایجنٹوں اور ایجنٹوں کے لیے کام کرنے والوں کی کمی نہیں۔ ریمنڈ ڈیوس کیس سب کے سامنے ہے جس میں دو پاکستانیوں کو دن دیہاڑے قتل کردیا گیا اور ان کے امریکی قاتل کو کوئی سزا سنائی نہ جاسکی۔ ریمنڈ ڈیوس کے موبائل فون سے ملنے والی معلومات کے مطابق وہ ایسے ساٹھ افراد سے مستقل رابطے میں رہتا تھا جو امریکا کو مطلوب دہشت گردوں کی فہرست میں شامل تھے! سابق بلیک واٹر کے کارندے پاکستان میں جا بجا سرگرم ہیں۔ ریمنڈ ڈیوس کا معاملہ زیادہ اس لیے اچھل گیا کہ وہ دن کی روشنی میں پکڑا گیا تھا۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ پاکستان میں بہت سے ریٹائرڈ فوجی افسر، بیورو کریٹس، صحافی اور عام شہری بلیک واٹر جیسی امریکی تنظیموں کے پے رول پر ہیں۔ ایک عشرے کے دوران پاکستان مغربی خفیہ اداروں کے میدان جنگ میں تبدیل ہوچکا ہے۔ ایک زمانہ تھا کہ ہماری بیورو کریسی کے ذہنوں پر بھارتی خفیہ ایجنسی ’’را‘‘ مسلط تھی۔ اب مغربی خفیہ اداروں کی باری ہے۔ وہ مرضی کے مطابق وفاداریاں خرید لیتے ہیں۔
ملالہ کو ایک بڑے منصوبے میں استعمال کیا گیا ہے۔ یہ منصوبہ خطے میں امریکی مفادات کو تحفظ اور استحکام فراہم کرنے کا ہے۔ جس انداز سے ملالہ کو عالمگیر شہرت دلائی گئی ہے اور اب اسے امن کے نوبل انعام کے لیے نامزد کرنے کی بات کی جارہی ہے، اس سے معاملات کی گہرائی اور گیرائی کا بھرپور اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ امریکا، برطانیہ، فرانس، اسرائیل اور دیگر ممالک مل کر پاکستان کو اپنے مفادات کی جنگ کا میدان بنانا چاہتے ہیں۔ خطے میں مغرب کی بالا دستی قائم رکھنے کی بھرپور مہم میں پاکستان بھی پیادے کی حیثیت سے استعمال ہو رہا ہے۔ یہ سب کچھ حالات کو اس حد تک خراب کرنے کے لیے ہے کہ پاکستان کے ایٹمی ہتھیاروں تک رسائی اور انہیں کنٹرول کرنے کا جواز فراہم کیا جاسکے۔ امریکی میڈیا میں بھی پاکستان کے ایٹمی ہتھیاروں کو امریکی سلامتی کے لیے سب سے بڑے خطرے کے روپ میں پیش کیا جارہا ہے۔ یہ گویا اس امر کی طرف اشارہ ہے کہ ان ہتھیاروں کے حصول یا ان پر تصرف کے لیے بھی پاکستان کو نشانہ بنایا جاسکتا ہے۔ شمالی وزیرستان میں فوجی آپریشن کا مطالبہ بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے۔
(“Was Malala Used for a Larger US Plan?”… “The Crescent Int.”. November 2012)
Leave a Reply