
خلیجی ریاستیں اب تک تقریبا ۱۰۰ملین ڈالر اس مہم جوئی پر خرچ کر چکی ہیں، جو انہوں نے سفارتی تعلقات کے خراب ہونے کے بعد ۳ سال سے شروع کی ہوئی ہے۔ امریکا کے وزیر خارجہ مائک پومپیو نے امریکا قطر اسٹریٹیجک مذاکرات کا افتتاح کرتے ہوئے اس بات کا اعلان کیا کہ خلیجی ریاستوں کے تنازعات اب ماضی کا حصہ ہیں، یہ ریاستیں ایک دوسرے کے خلاف نفرتوں کو دفن کر کے سفارتی تعلقات کا نئے سرے سے آغازکر چکی ہیں لیکن پومپیو کے بیان کے برعکس ۱۰۰ ملین ڈالر کی رقم یہ ظاہر کرتی ہے کہ سفارتی تعلقات کی تجدید میں ابھی مزید وقت لگے گا۔ اصل موضوع یہ ہے کہ ۳ سال پہلے دو خلیجی ریاستوں کے سفارتی تعلقات ختم ہونے کے بعد سے قطر اور متحدہ عرب امارات نے مہم جوئی کے لیے واشنگٹن میں کتنی رقم خرچ کی ہے۔ رقم کا زیادہ حصہ ایک دوسرے کے خلاف لڑائی میں خرچ ہوا۔ ابوظہبی نے دنیا کے سامنے قطر کو ایک دہشت گرد بدمعاش ریاست کے طور پر پیش کیا، جبکہ دوحہ نے خود کوایک بھروسے کے قابل مغربی اتحادی کے طور پر پیش کرتے ہوئے اپنا دفاع کیا۔
فلاحی بین الا قوامی پالیسی مرکز کے ڈائریکٹر فارن انفلوئینس بن فرامین نے ’’مڈل ایسٹ آئی‘‘ کو بتایا کہ موجودہ حالات میں جتنا میں سمجھ سکا ہوں یہ ایک بڑی جنگ ہے، یہ جنگ جون ۲۰۱۷ء سے اب تک جاری ہے۔ ۲۰۱۷ء میں سعودی عرب، بحرین اور دبئی نے قطر پر اخوان المسلمون کی مدد کا الزام لگاتے ہوئے اس پر پابندی عائدکردی تھی۔
مرکز برائے ذمہ دار سیاست کے مطابق متحدہ عرب امارات اپنا اثر ورسوخ استعمال کرتے ہوئے اس جنگ میں قائدانہ کردار ادا کر رہاہے، ۲۰۱۶ء سے ۲۰۱۷ء تک با لترتیب ۴ء۱۰ملین سے ۴ء۲۱ ملین قطر مخالف مہم جوئی میں خرچ کیے گئے ہیں۔ قطر نے بھی اپنے مخالفین کی طرف پیش قدمی کرتے ہوئے ٹھیک انہی کی طرح اس مہم جوئی کے لیے اسی مدت کے دوران اپنا بجٹ تین گنا کر دیا، یعنی ۴ ملین سے ۱۲ ملین تک لابنگ میں خرچ ہوئے۔ مرکز برائے ذمہ دار سیاست کے مطابق اثرورسوخ کی یہ جنگ اس وقت اپنے عروج پر ہے، قطری حکومت نے ۱۶ کمپنیوں کی خدمات حاصل کی ہوئی ہیں، جبکہ متحدہ عرب امارات نے ۸۔ان دونوں ریاستوں نے ۲۰۱۶ء کے بعد سے ۵ مزید کمپنیوں کو شامل کیا ہے۔
واشنگٹن کے تجزیہ نگار اور فاؤنڈیشن فور ڈیفنس ڈیموکریز کے سینئر نائب صدر نے کہا کہ امریکا کی حد تک جب سے میں دیکھ رہا ہوں تب سے ابھی تک اس جنگ میں مسلسل رقم خرچ کی جارہی ہے۔ یہ بات یقینی ہے کہ ساری رقم محض اس مہم جوئی میں خرچ نہیں ہورہی بلکہ اس کا ہدف ایک دوسرے کی مخالفت ہے اور یہ صورتحال مستقبل کی اچھی پیشگوئی نہیں کرتی۔
فرامین جنہوں نے تین ملکوں کی لابنگ پر ایک تفصیلی رپورٹ لکھی ہے، ان کے مطابق اس جنگ میں تیزی ٹرمپ کے الیکشن جیتنے کے بعد آئی ہے، ان ملکوں کی کوشش کی وجہ سے بین الاقوامی طور پر قطر اکیلا رہ گیا اس کا بائیکاٹ کیا گیا اور قطر بے آسراکر دیا گیا۔ فرامین نے مزید کہا کہ وہ ایک لمحہ تھا جب ہم نے دیکھا کہ قطر نے اس حقیقت کو جان لیا کہ ان کے لیے امریکا میں مشکلات ہیں، وہ سعودی اور متحدہ عرب امارات سے اثر و رسوخ میں بہت پیچھے ہے، اس کے بعد قطر نے آگے بڑھنا شروع کیا اور زیادہ سے زیادہ طاقتور فرمز کو مخالفین کے خلاف لابنگ کے لیے اپنی طاقت اور اپنا ہتھیار بنایا۔ ان ملکوں کا اثرورسوخ ٹرمپ انتظامیہ کے ساتھ واضح نظر آیا، جب انہوں نے قطر کا بائیکاٹ کیا اور ٹرمپ نے قطر کو کنارے لگاتے ہوئے سعودی عرب کا دورہ کیا تاہم ایک سال سے بھی کم عرصے میں وائٹ ہاؤس میں قطر کی ایک اہم شخصیت کی امریکا کے دوست کی حیثیت سے میزبانی کی گئی، وائٹ ہاؤس تک راستہ ہموار کرنے میں قطر لابی نے بہت محنت کی تھی۔
قطر بمقابلہ امارات
دیکھنے میں آیا ہے کہ سعودی عرب سے کہیں چھوٹے ملک امارات نے قطر کے خلاف لابنگ میں سعودی عرب سے بہت زیادہ کامیابی حاصل کی، اس کی وجہ سعودی عرب میں پھیلی افراتفری تھی، جس میں سعودی عرب صحافی جمال خاشقجی کے قتل میں اپنا دفاع کرتا رہا، یا یمن کی جنگ میں پھنسا رہا۔ واشنگٹن انسٹیٹیوٹ میں خلیج ریاست کے ایک سینئر اسکالر حسین ایبش نے بتایا کہ ان ملکوں کے درمیان جنگ کا بنیادی سبب عرب ریاستوں میں سیاسی اسلام کو فروغ دینا یا اس کی حمایت کرنا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ قطر کے لیے اخوان المسلمون اور حماس جیسے گروپ انتہا پسندوں کی روک تھام کرتے ہیں، جبکہ امارات کے لیے یہ انتہا پسندوں کو طاقت فراہم کرتے ہیں۔ حسین ابیش کے مطابق یہ قطراور امارات کے درمیان نظریاتی جنگ ہے، یہ ایک بڑی جنگ ہے جو کہ سیاسی کلچر کو واضح کرے گی، جبکہ سعودی عرب کے نزدیک یہ جنگ قطر کے رویے کو واضح کرے گی۔
اگر مہم جوئی کی بات کی جائے تو دونوں جانب مکمل طاقت استعمال کی جارہی ہے، امارات کے سفیر یوسف الثیبہ کے نمائندے جن کے واشنگٹن میں کافی تعلقات ہیں، انہوں نے اس جنگ میں امریکی کانگریس اور ٹرمپ کی انتظامی برانچ پر کام کیا، اہم شخصیات کے ساتھ تعلقات قائم کیے، جن میں ایلیٹ براڈے اور ایڈریس شامل ہیں۔ایلیٹ براڈے ٹرمپ کے قریب ہیں، انہوں نے ریپبلکن کے لیے فنڈ اکٹھا کیا۔ ۲۰۱۷ء میں ہونے والی پریس کانفرنس میں ایلیٹ نے قطر اور اخوان المسلمون کے تعلقات کی نشاندہی کی اور اسی کانفرنس میں ایڈریس نے ایک بل پیش کیا، جس میں انہوں نے بتایا کہ قطر اخوان المسلمون کودہشت گردی کے لیے رقم فراہم کر رہا ہے۔ ابیش نے مختلف تقاریب اور کانفرنسز میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ قطر نے بھی کانگریس اور انتظامیہ میں تعلقات بنائے لیکن قطر نے گفتگو کا رخ ایک نئے زاویے کی طرف پھیرا ہے، قطر یہ چاہتا ہے کہ دانشور،تجزیہ نگار اور میڈیا اس بات پر بحث کریں کہ خطے کی موزوں ترین پالیسی کون سی ہے۔
قطر، امریکا انسٹیٹیوٹ کے ذریعے قطر امریکا کی اہم شخصیات کے لیے دوحہ کے سفر پر رقم خرچ کررہا ہے۔ واشنگٹن میں قطر پر پابندی لگنے کے صرف ایک مہینے بعد قطری سفارتخانے سے تھنک ٹینک نے ۲ء۵ ملین ڈالر وصول کیے ہیں، اس کے بدلے میں محکمہ انصاف نے اس سال کے اوائل میں دوحہ کا غیر ملکی ایجنٹ کے طور پر اندرا ج کیا ہے۔
پینٹاگون میں دوحہ نے بھی اپنے اتحادیوں سے تعلقات بڑھانے شروع کر دیے ہیں، ابیش کے مطابق دوحہ میں ال۔اودید ہوائی اڈا ہے، جو خطے میں غیر مساوی بنیادی ڈھانچا ہے، جیسے B-52s کا رن وے۔ابیش نے مزید بتایا کہ قطر اور امارات دونوں ممالک اس جنگ میں پیسے خرچ کررہے ہیں لیکن دونوں الگ الگ طریقے سے کھیل رہے ہیں۔
ہدف الجزیرہ
پینٹاگون نے طالبان کے ساتھ امن مذاکرات کی وجہ سے قطر اور امریکا کے تعلقات خراب کرنے سے انکار کر دیاجبکہ متحدہ عرب امارات، ری پبلکن پارٹی میں اپنے نظریاتی اتحادیوں کو بڑھا رہا ہے، ان کی مددسے وہ اپنے مشترکہ دشمن الجزیرہ کو ہدف بنا سکے گا۔
فارن ہاؤس کمیٹی کی سابقہ چیئرپرسن ایلینا رس لیتینن جو کہ تاحال متحدہ عرب امارات کی اتحادی ہیں نے اکن گمپ سٹرس اور فلڈ کے ساتھ مل کر کیپٹل ہل پر ایک رپورٹ تقسیم کی، جس کا مقصد امریکی شعبہ انصاف پر کانگریس کا دباؤ بڑھانا تھا تاکہ وہ قطر کے غیر ملکی ایجنٹ بننے کے لیے شرائط کو سخت کردے۔ تاہم الجزیرہ نے اس کا زوردار جواب دیتے ہوئے اس جنگ میں انٹر نیشنل لاء فرم ڈی ایل اے پائیپر کوجون ۲۰۱۹ سے اب تک ۶۶ء۱ ؍ملین ڈالر کی ادائیگی کی ہے، یہ ادائیگی لابنگ ریکارڈ کا حصہ ہے۔
امریکا کے شعبہ انصاف نے الجزیرہ کو یہ حکم جاری کیا ہے کہ امریکی لابنگ قانون کے تحت وہ خود کو امریکا کی موجودگی میں غیر ملکی ایجنٹ درج کرائے، امریکی شعبہ انصاف نے یہ کام اس وقت کیا جب انہیں یہ محسوس ہوا کہ الجزیرہ سوشل میڈیا پر مسلسل سیاسی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہے جیسا کہ غیر ملکی ایجنٹ رجسٹریشن ایکٹ میں درج کیا گیا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ الجزیرہ قطری حکومتی عہدیداروں کو ہدایات جاری کرتا ہے اور انہیں کنٹرول کرتا ہے، امریکی شعبہ انصاف نے یہ بھی کہا کہ ادارتی آزادی اور اظہار رائے کی آزادی کے دعوؤں کے باوجود قطری حکومت الجزیرہ اور اس سے وابستہ لوگوں کو فنڈ فراہم کرتی ہے۔
متحدہ عرب امارات اور بحرین نے اسرائیل کے ساتھ تعلقا ت قائم کرنے کے لیے واشنگٹن میں ایک تاریخی معاہدہ کیا، کچھ تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ قطر اس دباؤ میں آکر حماس کی حمایت سے ہاتھ اٹھا لے گا۔
ایف ڈی ڈی کے نائب صدر نے کہا کہ میں یہ کہنا چاہوں گا کہ خلیج کے بنیادی اصول تبدیل نہیں ہوئے ہیں لیکن اس کے ساتھ میں یہ بھی کہنا چاہتا ہوں کہ ہم اس خطے میں حالیہ معاہدے کے سبب تبدیلی دیکھ رہے ہیں، ممکن ہے کہ اس معاہدے میں عمان، سوڈان اور موراکو بھی شامل ہوجائیں اور اس وجہ سے خطے کے نظریات میں اصلاح ممکن ہوسکے، انہوں نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے مزید کہا کہ اس صورتحال نے قطر کے اوپر دباؤ بڑھا دیاہے کہ آیا وہ معاہدے میں شامل ہوتا ہے یا نہیں۔
تاہم اب تین سالہ خلیجی جھگڑے کا فاتح لابنگ ماحولیاتی مرکز ہے جو ’’کے اسٹریٹ‘‘ میں واقع ہے،واشنگٹن ڈی سی کے ایریا میں وکلا اور ایڈوکیٹ کے آفس موجود ہیں، اب اس ایریا کو ’’لابنگ صنعتی ایریا‘‘ کہا جاتاہے۔
فرامین نے کہا کہ اگر کوئی مجھ سے پوچھے کہ خلیج کی یہ جنگ کون جیتے گا تو میں کہوں گا کہ ’’کے اسٹریٹ‘‘۔ ’’کے اسٹریٹ‘‘ نے قطر پر عائد پابندیوں کے خلاف جنگ جیت لی ہے۔
(ترجمہ: سمیہ اختر)
“Washington lobbyists continue to cash in on dispute between Qatar and UAE”. (“middleeasteye.net”. Sep. 16, 2020)
Leave a Reply