وسطی ایشیا میں آبی جنگیں

تاجکستان کے صدر امام علی رحمانوف کو ہر معاملے میں دنیا سے آگے نکلنے اور کچھ بڑا کر دکھانے کا شوق ہے۔ انہوں نے دنیا کا بلند ترین فلیگ پول تعمیر کرایا ہے۔ گزشتہ سال انہوں نے دنیا کے سب سے بڑے کتب خانے کا افتتاح کیا۔ یہ الگ بات ہے کہ اس میں کتابیں بہت کم ہیں۔ اب وہ ایک ایسے منصوبے پر کام کر رہے ہیں جس سے پڑوسی پریشان ہیں۔ وہ دنیا کا بلند ترین ہائیڈرو پاور ڈیم بنا رہے ہیں۔

ازبکستان کے صدر اسلام کریموف کا کہنا ہے کہ تاجکستان میں دریائے آمو کی ایک شاخ پر تعمیر کیا جانے والا ۳۳۵ میٹر بلند روگن ڈیم ایک طرف تو دریائے آمو کے پانی پر تاجکستان کو غیر ضروری طور پر زائد تصرف دے گا اور دوسری طرف زلزلے کی صورت میں لاکھوں افراد کی زندگی داؤ پر لگی ہوگی۔ ۷ ستمبر کو انہوں نے ایک بیان میں کہا کہ ’’روگن ڈیم جیسے منصوبے محض تنازعات نہیں بلکہ جنگ کو بھی جنم دے سکتے ہیں‘‘۔

اسلام کریموف کا شِکوہ صرف تاجکستان سے نہیں ہے بلکہ خطے کے ایک اور پڑوسی کرغیزستان سے بھی ہے جو اہم دریا یعنی ’’دریائے سِر‘‘ پر کمباراٹا (Kambarata) نامی متنازع ڈیم بنا رہا ہے۔ روگن ڈیم میں بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت ۶ئ۳ گیگا واٹ اور کرغیزستان کے کمباراٹا ڈیم میں بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت ۹ئ۱ گیگا واٹ ہوگی۔ ان دونوں ڈیمز کی تکمیل سے تاجکستان اور کرغیزستان میں بجلی کی شدید قلت دور ہوگی اور برآمدی شعبے کو تیزی سے فروغ دینے میں مدد ملے گی۔

۱۹۹۱ء میں سویت یونین کی تحلیل کے ساتھ ہی تاجکستان اور کرغیزستان کے لیے ماسکو کی طرف سے ملنے والی اعانت بند ہوگئی، جس کے نتیجے میں معیشت کے لیے بہت سی خرابیاں پیدا ہوئیں۔ سوویت دور کے روسی رہنماؤں کو اندازہ تھا کہ خطے میں اقتصادی طور پر پنپنے کی بھرپور صلاحیت ہے۔ اور روس کے موجودہ حکمران بھی خطے کے حوالے سے ایک واضح سوچ رکھتے ہیں۔ روس کے صدر ولادی میر پوٹن نے کرغیزستان کے حالیہ دورے میں یقین دلایا کہ وہ کرغیزستان کے مسائل اور بالخصوص توانائی کا مسئلہ حل کرنے میں دلچسپی لیں گے۔ اس کے عوض روس یہ چاہتا ہے کہ کرغیزستان میں اس کے فوجی اڈوں کو توسیع دے دی جائے۔ تاجکستان نے بھی روگن ڈیم کے لیے روس سے مدد مانگی ہے۔ پوٹن نے ۲۰۰۴ء میں اس منصوبے کے لیے دو ارب ڈالر فراہم کرنے کا وعدہ کیا تھا۔ مگر پھر ڈیم کی بلندی پر اتفاق رائے نہ ہونے کے باعث یہ معاملہ تین سال بعد ہی کھٹائی میں پڑگیا۔

ڈیمز کے معاملے میں ازبکستان کا رویہ رکاوٹیں اور خرابیاں پیدا کر رہا ہے۔ ازبکستان تیل کی دولت سے مالا مال ہے اور اس دولت سے اپنی معیشت کو مستحکم بھی کر رہا ہے۔ تاجکستان اور کرغیزستان خطے کے کمزور اور غریب ترین ممالک ہیں۔ ان دونوں کے پاس تیل اور گیس کے ذخائر تو ہیں مگر ان سے مستفید ہونے کی صلاحیت نہیں۔ انہیں تیل اور گیس کے لیے ازبکستان پر منحصر رہنا پڑتا ہے۔ ازبک صدر اسلام کریموف ایندھن کی قیمتوں میں آئے دن تبدیلیاں کرتے رہتے ہیں اور سخت سردی میں وہ قیمت لازمی طور پر بڑھاتے ہیں۔ انہوں نے سوویت دور کے قائم کردہ گرڈ سے اپنے دونوں پڑوسیوں کو بجلی کی فراہمی بھی معطل کر رکھی ہے۔ انہوں نے دونوں ممالک سے ملنے والی سرحد پر کئی چیک پوائنٹس بند کردیے ہیں۔ تاجکستان سے ملحق سرحد کے بڑے حصے پر بارودی سرنگیں بچھائی جاچکی ہیں اور تجارتی قافلوں کو آئے دن روک لیا جاتا ہے۔ گزشتہ موسم خزاں میں جنوبی ازبکستان میں ریلوے کا ایک پل پراسرار طور پر تباہ ہوگیا۔ ازبکستان نے اس کا الزام تاجکستان پر عائد کیا جبکہ پل کی تباہی سے خود تاجکستان کی ریلوے ٹریفک بھی متاثر ہوئی۔ کم ہی لوگوں نے ازبکستان کے الزام پر یقین کیا۔ پل کی مرمت کے بجائے ازبک حکومت نے پل کو ختم ہی کردیا۔ تاجکستان نے اس اقدام کو محاصرے اور ناکہ بندی کے مماثل قرار دیا ہے۔

یہ سوچنا تو قبل از وقت ہے کہ اسلام کریموف فوج کو تاجکستان سے باضابطہ جنگ کے لیے کہیں گے مگر سرحدی جھڑپوں کا سلسلہ جاری ہے۔ فائرنگ کا تبادلہ عام ہے۔ اس صورت حال سے نیٹو حکام بھی پریشان ہیں۔ افغانستان سے نیٹو ممالک کے انخلا کے لیے تاجکستان، کرغیزستان اور ازبکستان متبادل روٹ ہیں۔ اگر تینوں ممالک کے درمیان اختلافات بڑھتے رہے تو انخلا کا عمل متاثر ہوگا۔

تاجکستان کی معیشت اتنی مستحکم نہیں کہ روگن ڈیم تن تنہا بناسکے۔ ڈیم کی لاگت کا تخمینہ تین ارب ڈالر ہے، جوتاجکستان کی خام قومی پیداوار کا نصف ہے۔ گزشتہ برس صدر امام علی رحمانوف نے عوام کو مجبور کیا کہ ڈیم میں شیئر خریدیں مگر لاکھ کوشش کے باوجود صرف بیس کروڑ ڈالر جمع کیے جاسکے۔ چین اور روس بھی اس منصوبے میں دلچسپی رکھتے تھے مگر ازبکستان کی مخالفت نے انہیں بھی تحفظات سے دوچار کردیا ہے۔ اگر امام علی رحمانوف سب سے بلند ڈیم بنانے کے خبط سے باہر نکلتے تو ایک اچھا ڈیم آسانی سے بن جاتا اور تاجک عوام کو اندھیروں سے باہر نکلنے کا موقع بھی مل جاتا۔

(“Water Wars in Central Asia… Dammed if They Do”… “The Economist”. Sep. 29th, 2012)

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*