
فلسطین اور اسرائیل کے درمیان پہلی جنگ بندی جولائی کے وسط میں ناکام ہوئی تھی تو اسرائیل نے حماس کے اہم رہنماؤں کے گھروں پر فضائی حملے کیے تھے، ۷۲ گھنٹے کی تازہ جنگ بندی ختم ہونے پر بھی ایسے ہی حملوں کا خدشہ ہے۔ دراصل اسرائیل حماس کے قائدین کو ہدف بنا کر قتل کرنے کے منصوبوں پر عرصے سے عمل پیرا ہے۔
حماس کے ترجمان سامی ابو زہری نے مشرق وسطیٰ کے اخبار کی رپورٹر امیلیا اسمتھ کو انٹرویو میں بتایا کہ ’’ہم پرامن حل سمیت تمام راہیں اختیار کرنے پر تیار ہیں، پر امن حل جو ثالثوں کے ذریعے انجام پائے، خواہ ثالث مصری ہوں یا کوئی اور۔ ہم مزاحمت جاری رکھنے کے لیے بھی تیار ہیں، ہماری مزاحمت کا مقصد قابض اسرائیلی قوتوں کو تھکا کر ختم کرنا اور اُس وقت تک انہیں دباؤ میں رکھنا ہے، جب تک وہ ہمارے مطالبات کو پورا نہیں کرتیں‘‘۔
جب امیلیا نے ان سے پوچھا کہ حماس کی اعلیٰ قیادت میں تو آپ بھی شامل ہیں اور اسرائیل آپ کو بھی ختم کرنے کے درپے ہو گا، آپ ترجمانی کا یہ فریضہ کس طرح انجام دیتے ہیں؟ تو ابو زہری نے کہا کہ ’’میں عام انداز میں نقل و حرکت کی پوری کوشش کرتا ہوں اور عام لوگوں کے درمیان رہتا ہوں، شہادت سے نہیں ڈرتا۔ وجہ یہ ہے کہ ہم بھی اسی طرح شہادت کے لیے تیار ہیں جس طرح عام فلسطینی، بلکہ ان سے بڑھ کر قربانیاں دینے کو تیار ہیں۔ ہمیں پہلی صف میں رہنا ہوتا ہے، اور ہم یہیں رہیں گے، خود میں بھی ایسا ہی کرتا رہوں گا۔ میں بھی اپنے (فلسطینی) بھائیوں کی طرح رہوں گا خواہ اس کی قیمت کچھ بھی ہو‘‘۔
ترجمان نے کہا ’’میرا گھر بار اور میرا خون دیگر فلسطینی عوام سے زیادہ قیمتی نہیں ہے، اسی طرح ہمارے بچوں کا خون دوسرے فلسطینی بچوں کے خون سے زیادہ قیمتی نہیں ہے‘‘۔
اسرائیلی حملوں کا ایک ماہ پورا ہونے پر ۱۰؍اگست کو غزہ میں بے گناہوں کی اموات ۱۹۰۰ تک جا پہنچیں، اب ہزاروں فلسطینی بے گھر ہیں، بہت سوں نے اقوام متحدہ کے اسکولوں میں پناہ لے رکھی ہے۔ مجموعی طور پر تقریباً ۵ لاکھ فلسطینی بے گھر کر دیے گئے ہیں۔ پانی کی فراہمی، بجلی کی پیداوار اور شہری سہولتوں کا بنیادی ڈھانچا اس جنگ سے بری طرح متاثر ہوا ہے۔
جہاں تک اسرائیل کا تعلق ہے وہ غزہ پر حملوں کا جواز پیش کرتے ہوئے یہ دعویٰ کر رہا ہے کہ یہ حملے اپنے دفاع میں کیے جا رہے ہیں کیونکہ غزہ کی پٹی سے اس پر راکٹ داغے جاتے ہیں۔ ’’دفاعی حملوں‘‘ کے باوجود اسرائیل نے غزہ میں اقوام متحدہ کے زیر اہتمام ۲۴۵ میں سے چھ اسکولوں پر فضائی حملے کیے جن میں بہت سے بچے شہید ہو گئے۔ تاہم اقوام متحدہ کے منتظمین کا کہنا ہے کہ انہیں اپنی عمارات میں سے فلسطینی اسلحہ بھی ملا۔
اس بارے میں سوال کرنے پر حماس ترجمان ابو زہری نے کہا ’’ان کا (یو این ریلیف اینڈ ورکس ایجنسی کا) کہنا ہے کہ وہ اس بارے میں یقین سے نہیں کہہ سکتے۔ انہوں نے اس مسئلے پر ہم (حماس) سے یا کسی اور فلسطینی گروپ سے کوئی رابطہ نہیں کیا، ہمیں اس سلسلے میں ذرائع ابلاغ سے معلوم ہوا، یو این آر ڈبلیو اے کو ذرائع ابلاغ سے بات کرنے سے پہلے ہم سے رابطہ کرنا چاہیے تھا تاکہ معاملے سے باضابطہ نمٹ لیا جاتا۔ بدقسمتی سے ایسا نہ ہو سکا‘‘۔ ترجمان نے مزید کہا کہ ’’اسرائیل کے جنگی جرائم کے بارے میں یو این ریلیف اینڈ ورکس ایجنسی نے شروع سے اب تک ایک لفظ نہیں کہا حالانکہ اسرائیل ان کی حدود میں بہت سے جرائم کر رہا ہے۔ جب اسرائیلی جرائم بہت کھل کر سامنے آ گئے اور چھپے نہ رہ سکے تب اقوام متحدہ کا ردعمل سامنے آیا‘‘۔
انہوں نے کہا کہ حماس غزہ میں صورتحال سے نمٹنے میں کامیاب رہی ہے اور ہے۔ ’’ہماری تحریک نے اس وقت کے لیے پہلے ہی احتیاطی اقدامات اور تیاری کر رکھی تھی۔ حماس کی سیاسی حکمت عملی کی طاقت اور میدان جنگ کو مؤثر طور پر کنٹرول کرنے کی صلاحیت کا راز یہی ہے‘‘۔ سامی ابو زہری نے کہا کہ اس سیاسی حکمت عملی کا ایک پہلو یہ ہے کہ فلسطینی عوام کے مطالبات کا معاملہ جب بھی درپیش ہو، ایک مشترکہ متحدہ قومی موقف سامنے لایا جائے۔ حماس کے قائد خالد مشعل نے فلسطینی اتھارٹی کے صدر محمود عباس سے حال ہی میں دوحہ میں اسی مقصد سے ملاقات کی تھی۔ ’’یہ ایک تاریخ ساز ملاقات تھی، جس میں اس بات پر اتفاق کیا گیا کہ فلسطین کا مشترکہ موقف دنیا کے سامنے لایا جائے گا، فلسطین کے مطالبات پیش کیے جائیں گے اور ان مطالبات کی حمایت حاصل کرنے کے لیے متحدہ فلسطینی وفد بنایا جائے گا۔ اس ملاقات کے بعد سے صورتحال ٹھیک ہے۔ موجودہ صورتحال متحدہ فلسطینی جدوجہد کے لیے ایک معمول کی طرح ہے‘‘۔
حماس کا بنیادی مطالبہ یہ ہے کہ غزہ کی فضائی اور بحری ناکہ بندی ختم کی جائے، اس مقصد کے لیے اگر ضرورت پڑی تو حماس مزید کوششیں کرے گی۔ ’’ہم اس بات میں مخلص ہیں کہ اپنے عوام پر جارحیت کا خاتمہ کرائیں اور ناکہ بندی اٹھوائیں‘‘۔
مصر غزہ کے عین پڑوس میں ہے اور Operation Protective Edge کے دوران فلسطین اور اسرائیل کے درمیان بیشتر جنگ بندیاں مصر ہی نے کروائی ہیں۔ ابو زہری نے انکشاف کیا کہ دوسری بار عارضی جنگ بندی کے دوران قاہرہ میں فلسطینی مطالبات کو کنارے لگانے کی کوشش کی گئی تھی لیکن فلسطینی وفد نے مطالبات سے دستبردار ہونے سے انکار کر دیا تھا کیونکہ وہ فلسطینی مجاہدین کے تمام مطالبات پر متحد ہے اور فلسطینی عوام کے بھی یہی مطالبات ہیں۔
واضح رہے کہ مارچ میں ایک مصری عدالت نے حماس کی تمام سرگرمیوں پر پابندی لگا کر اس کے دفاتر اور اثاثوں کی ضبطی کا حکم دیا تھا۔ اس سے تین ماہ قبل مصر نے الاخوان المسلمون کو دہشت گرد گروپ قرار دیا تھا۔ مصر کی عبوری حکومت کا خیال ہے کہ حماس کا تعلق الاخوان المسلمون کے ساتھ ہے۔
حماس کے ترجمان سامی ابو زہری کے مطابق مصری عدالت کے حکم سے حماس کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ’’ہم سب اس حکم کا حقیقی پس منظر جانتے ہیں۔ سرکاری صورتحال یہ ہے کہ مصر نے حماس کے سرکاری وفد کا استقبال کیا جو اس بات کا عملی اعتراف ہے کہ عدالتی حکم کی اب کوئی حیثیت نہیں‘‘۔
سامی ابو زہری کا کہنا ہے کہ مصر ایک بڑا ملک ہے جس کے پاس اقتدار اور اختیار ہے اور اس کی ایک اہم تاریخ ہے۔ ہم منتظر ہیں کہ مصر اس بحران سے اس انداز میں نمٹے کہ اس کی دیرینہ روایات برقرار رہیں، وہ عرب اور فلسطینی موقف کی حمایت کرے، رفح کی سرحد کھول دے اور ناکہ بندی کے اثرات کو کم کرے۔ ’’یہ جنگ ہم نے شروع نہیں کی تھی، یہ ہم پر مسلط کی گئی ہے۔ قابض اسرائیل جب تک ہم سے لڑنا چاہے گا، ہم اس وقت تک اپنا دفاع کرتے رہیں گے۔ جنگ کے حقیقی نتیجے میں انسانی ہمدردی کے وہ مطالبات شدت سے سامنے ہیں جن کا تعلق جبر و تسلط کے مکمل خاتمے اور ناکہ بندی اٹھانے سے ہے۔ ان کے علاوہ ہمارے عسکری اہداف بھی ہیں جن میں اسرائیلی طاقت کی تباہی کے علاوہ یہ ثابت کرنا بھی شامل ہے کہ اس قبضے میں اب کوئی قوت نہیں رہی، اسرائیل کو ایک طاقت سمجھنا جھوٹ پر یقین رکھنے کے برابر ہے‘‘۔
(مترجم: منصور احمد)
“Hamas spokesperson Sami Abu Zuhri on Israel’s targeted assassinations, lifting the siege on Gaza and Egypt’s role in the crisis”. (“Middle East Monitor”. August 11, 2014)
Leave a Reply