نیوز ویک کے مدیر جناب فرید زکریا امر یکیوں سے بڑھ کر امریکی مفادات کے لیے فکر مند رہتے ہیں۔ عراق کے حوالے سے یہ امریکی انتظامیہ کو کبھی شیعیوں پر مہربان ہونے کی تو کبھی سنیوں پر مہر بانی فرمانے کی تلقین کرتے رہے ہیں۔ فرید ذکریا کا کنفیوژن دراصل امریکی انتظامیہ کے کنفیوژن کا آئینہ دار ہے۔
بہر حال ایک بات بالکل واضح ہے کہ مسلمانوں کی تقسیم کے ذریعہ ہی امریکا اپنے مفادات کے تحفظ کو یقینی بنا سکتا ہے اور یہ اداریہ اس مقصد میں پوری طرح ممد و معاون ہے اگرچہ اسی ادارے میں مدیر موصوف امریکا پر تنقید بھی کرتے ہیں کہ اس نے عراق کی مختلف برادریوں کو باہم منقسم کرکے اچھا نہیں کیا۔(ادارہ)
ہر شخص یہ یقین کرتا دیکھائی دیتا ہے کہ عراق کے لیے جارج بش کا نیا منصوبہ حتماً ناکامی سے دوچار ہوگا۔ لیکن مجھے اسکا یقین نہیں ہے۔عسکری سطح پریہ حکمت عملی بعض کامیابیوں پر منتج ہو سکتی ہے۔ امریکی افواج نے وہ جنگ جیت لی ہے جو اس نے عراق میں لڑی ہے مزید افواج اور نئے مشن کے ذریعہ پورے ہمسایہ ممالک کو قابو میں کرنے کا خیال ایک اچھا خیال ہے مگر چار سال کی تاخیر سے ہے جو بہر حال کبھی نہیں سے تو بہتر ہے۔ لیکن ایک اہم سوال یہ ہے کہ کیا فوجی پیش رفت سیاسی پیش رفت کی جانب لے جائے گی؟ یہ منطق جو کہ صدر کے منصوبے کی جان کی حیثیت رکھتی ہے مجھے انتہائی مشکوک معلوم ہوتی ہے۔ انتظامیہ کے افسران نے بغداد کے حائفہ اسٹریٹ کے گردو پیش سنی مزاحمت کاروں کی جس لڑائی کی نشاندہی کی ہے وہ نئی حکمت عملی کا بہت ہی واضح نمونہ ہے۔ عراقی افواج نے پیش قدمی کی، امریکی افراج نے ان کی حمایت کی اور حکومت نے کوئی رکاوٹ نہیں کھڑی کی وال اسٹریٹ جرنل کےDaniel Henninger کا تجزیہ ہے کہ جنگ (امریکی عراقی) متحدہ کوششوں کا ایک کامیاب تجربہ دیکھائی دیتی ہے۔ لیکن کیا ایسا ہی ہے ؟
نیوز ویک کے Michael Hastingsجن کا اس امریکی مشاورتی کونسل کے ساتھ گہرا ارتباط ہے جو فوجی کاروائی میں شریک رہی ہے, کی رپورٹ کے مطابق ۶ جنوری کوابھی لڑائی شروع ہوئے ۲۴ گھنٹے بھی نہیں گزرے تھے بریگیڈ کے سنی کمانڈر جنرل رزّاق حمزہ سے کمان واپس لے لی گئی .اس کو معزول کرنے کے لیے فون کال براہ راست وزیراعظم نورالمالکی کے دفتر سے تھی جو کہ شیعہ ہیں۔ لیفٹیننٹ کرنل Steven Dukeجو ایک ایسی امریکی مشاروتی ٹیم کے کمانڈر ہیں جو عراقیوں کے ساتھ مل کر کام کرتی ہے اور وہ ایک ۲۰ سالہ آرمی Veteranہیں. ان کا کہنا ہے کہ ’’حمزہ ایک سچا محب وطن ہے اور وہ شیعہ و سنی دونوں گروہ کے غلط عناصر کا تعاقب کیا کرتاتھا۔‘‘ حمزہ کی جگہ ایک شیعہ نے لی۔ شیعہ مزاحمت کاروں کے خلاف مشترکہ آپریشن کاا مکان بہت ہی کم ہے اور ایسا صرف اس لیے نہیں ہے کہ اوپری سطح سے مداخلت ہوئی ہے۔ مقتدیٰ صدر کی مہدی ملیشیا جیسے گروپ عموماً امریکیوں یا عراقی فوجیوں کے ساتھ اپنی لڑائیوں کے ذریعہ اپنی کاروائی کا آغاز نہیں کرتے ہیں ان کے مقاصد مختلف اور قدرے رازدارانہ ہیں۔ ایک دوسرا امریکی مشیر Maj. Mark Bradyایسی رپورٹوں کی تصدیق کرتا جن میں کیا گیا ہے کہ مہدی آرمی منظم طریقے سے اپنے ہمسایہ سنی علاقوں کو اپنے قابو میں لے رہی ہے، لوگوں کا قتل کرتے ہوئے، انہیں دہشت میں مبتلا کرتے ہوئے اور انہیں اپنے گھروں سے نکلنے پر مجبور کرتے ہوئے۔ اس نے Hastingsکو بتایا کہ وہ لوگ آہستگی سے دریا کے پار منتقل ہو رہے ہیں یعنی مشرقی بغداد سے جو کہ شیعہ اکثریت کا علاقہ ہے سنی اکثریت کے حامل مغربی علاقے میں اگر بغداد کو روانہ کی جانے والی ۲۰ ہزار اضافی امریکی افواج کی توجہ سنی مزاحمت کاروں پر ہوتی ہے تو اس کا امکان ہے کہ شیعہ مزاحمت کا ر مزید جری ہو جائیں گے۔ کرنل ڈئیوک اسے بڑے بھونڈے طریقے سے یوں بیان کرتا ہے کہ مہدی آرمی ۵۰ گزکے فاصلے پر بیٹھے پاپ کارن کھا رہے ہیں اور ہمیں دیکھ رہے ہیں کہ ہم ان کا کام کس طرح انجام دے رہے ہیں چنانچہ کیا ہو گا اگر بش کا نیا منصوبہ چھ ماہ کی مدت میں عسکری لحاظ سے کامیاب ہوتا ہے۔؟ سنی مزید غیر محفوظ ہو جائیں گے کیونکہ ان کے جنگجوؤں کا قلع قمع ہو جائے گا۔شیعہ مزاحمت کار سڑکوں پر اپنی سرگرمیوں کو کم کر دیں گے اور عراقی آرمی اور پولیس میں شمولیت کے ساتھ جیسا کہ اس وقت ہے وہ عافیت میں رہیں گے۔ یہ صورت حال یقیناً سنیوں کو نئے عراقی منصوبہ کی حمایت سے روکے گی۔ دوسری جانب شیعہ سیاسی رہنمائوں کی حوصلہ افزائی ہوگی۔ انہوں نے وفا قیت، بعشیوں کے قلع قمع ، تیل کے محصولات اور ملازمتوں پر کسی قسم کی کوئی لچک دیکھانے سے انکار کر دیا ہے۔ ان کارویہ ۲۰۰۳ میں بھی یہی تھا جب کہ امریکا حاوی تھا، ۲۰۰۵ میں یہی رہا جب کہ مزاحمت عروج پر تھی اور ۲۰۰۶ میں بھی یہی ہے جب کہ انہوں نے حکومت کی باگ ڈور کلّی طور پر سنبھال لی ہے۔
وہ کیوںلچک دیکھائیں گے جبکہ انہوں نے عسکری طور پر بھی فوقیت حاصل کر لی ہے۔ انتظامی افسران کا دعویٰ ہے کہ اس بار حالات مختلف ہیںمالکی حکومت اور شیعہ قیادت زائد از معمول یہ سمجھتی ہے کہ اسے مہدی ملیشیا کے خلاف کاروائی کرنی چاہئے اور سنیوں سے مفاہمت کرنی چاہیے۔ کیوں ؟ ایک سینئر امریکی افسر کے الفاظ میں جس نے نام ظاہر نہ کرنے کی درخواست کی ہے ، اس لیے کہ شیعہ رہنما یہ سمجھتے ہیں کہ انہیں اب امریکی حمایت بلا روک ٹوک حاصل نہیں ہے۔ خاص طور سے Capitol Hillکی جانب سے۔ اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ انتظامیہ حتمی طور سے یہ سمجھ چکی ہے کہ عراقی حکومت کی حمایت میں بش کی بلینک چیک والی پالیسی منفی نتائج کی حامل (Counter productive)ثابت ہوئی ہے۔ ایک اقدام جو عراقی قیادت کو کچھ مصالحت کرنے پر آمادہ کر سکتا تھا ،وہ کانگرس کی یہ دھمکی رہی ہے کہ وہ انتظامیہ کو امریکی حمایت واپس لینے پر مجبور کرے گی۔ ایک ماہ قبل وائٹ ہائوس نے کانگریس کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا تھا کہ وہ اس تجویز کے ساتھ غداری کی سرحد پر جاپہنچی ہے آج عراق میں اس کی حکمت عملی کا انحصار اسی خود اعتمادی کے ثمرات پر ہے۔ ساڑھے تین برسوں سے زائد عرصہ پر محیط عراق مسئلے سے نمٹنے میں بش انتظامیہ کی جو نمایاں غلطی رہی ہے وہ یہ ہے کہ اس نے ارادتاً اور سہواً ملک کی مختلف برادریوں کو ایک دوسرے سے بے گانہ اور جدا کر دیا ہر ظاہری جانبدارانہ قدم، مثلاً انتخابات کا انعقاد یا بیوروکریسی سے بعشیوں کا صفایا یا عراقی فوج اور پولیس کی تشکیل وغیرہ، زلزلہ خیز فرقہ وارانہ نتائج کا حامل رہا چنانچہ بش کی نئی حکمت عملی سے جو عظیم خطرہ ہے وہ یہ نہیں ہے کہ یہ موثر اور قابل عمل ثابت نہیں ہوگا بلکہ یہ ہے کہ یہ ملک کو ایک قدم مزید خانہ جنگی کی راہ پر دھکیل دے گی۔ صرف اور صرف مالکی حکومت پر مستقل دبائو کے ذریعہ اس انجام سے گریز ممکن ہے، ان تدابیر کے برعکس جو بش اب تک کرتے رہے ہیں۔ بصورت دیگر امریکی مفادات و اہداف دونوں ہی معرضِ خطر میں پڑ جائیں گے۔ عراق میں القاعدہ جسے ہم اس ملک میں سلامتی کے لیے حقیقی خطرہ خیال کرتے ہیں سنیوں کی حمایت حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائے گی۔ اس کے علاوہ جیسا کہ ڈیئوک اور بریڈی جیسے امریکی افسران نے محسوس کیا ہے کہ ہمارے مطلوبہ اہداف مسخ ہو کر رہ جائیں گے امریکی فوج بوسنیا کے واقعہ سے ہی نسل کشی کے عظیم ترین پروگراموں میںبہت سرگرمی سے مدد کرتی رہی ہے۔ کیا یہ نمونہ بش مشرق وسطیٰ کے لیے بھی چاہتے ہیں۔
(اداریہ نیوزویک، ۲۲ جنوری ۲۰۰۷ء)
Leave a Reply