ہم کو خدا سے وابستہ رہنا چاہیے!

آج ہم جس دور میں زندگی بسر کررہے ہیں اور جس کی آغوش میں تربیت پارہے ہیں اُس نے انسانیت کو اجتماعی زندگی کے ایک حیرت انگیز مرحلے میں پہنچادیاہے۔آج انسان اپنی علمی اور سائنسی صلاحیت کی بناء پر زندگی کے ہر گوشے میں عمل دخل حاصل کرچکا ہے اور تمام ضروری وسائل سے خود کو لیس کرچکا ہے۔ اس ترقی کے نتیجے میں اس کی سیکڑوں اور ہزاروں ضرورتیں آسانی کے ساتھ پوری ہورہی ہیں۔ اور وہ اپنی زندگی کے مسائل حل کرنے کے لیے عقل و فکر سے کام لیتا ہے۔

یہ بات بالکل واضح ہے کہ ا نسان نے انسانی مقاصد اور اغراض کے پورا کرنے کے لیے ہی سرکش مادی طاقت اور فطرت کو مسخر کیا ہے اور اپنے لیے یہ سارے جدید وسائل فراہم کیے ہیں اور طرح طرح کی ایجادات سے کام لیا ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ اس کا کام بھی بڑھتا رہا اور اس کی جدوجہد طرح طرح کی صورتیں اختیار کرتی رہی اور اس کی حرکت و عمل کا پہیہ برق رفتاری کے ساتھ گھومنے لگا۔

ماضی میں انسان اپنے وقت کا حساب روز و شب اور صبح و شام کے پیمانے سے لگاتا تھا‘ لیکن آج ہم وقت کا حساب لگاتے ہیں توایک ایک سیکنڈ اور ایک ایک منٹ کا شمار کرتے ہیں۔ ہمارے اس دورِ جدید میںسیکنڈ کے سویں بلکہ ہزارویں حصے میں بھی دقیق علمی و سائنسی کام انجام پاجاتے ہیں۔ آج عمل کے بازار میں سیکنڈوں اور منٹوں نے بھی اپنی قدر و قیمت حاصل کرلی ہے جبکہ ماضی میں ایک گھنٹے اور ایک پورے دن کو ایسی قدر و قیمت حاصل نہ تھی۔

یہ بات بھی بالکل واضح ہے کہ انسانی قوت و صلاحیت اور اس کا میدانِ کار خواہ کتنا ہی وسیع کیوں نہ ہو بالاخر وہ محدود ہی ہے۔ جب انسان اپنی قوت و صلاحیت کو کسی ایک رخ پر لگاتا ہے تو دوسرے رُخ پر اس کی توجہ کم ہوجاتی ہے۔

اسی حقیقت کی بنا پر آج کے دَور میں روحانیت پر مادّیت غالب آچکی ہے۔ اس دور کا انسان اپنے پورے حواس کے ساتھ مادّیت کی جانب متوجہ ہے اسی لیے…

روحانیت اور دینی معونیت کے چہرہ پر ایک دبیز پردہ پڑگیا ہے۔ اگر آپ ادیان و مذاہب کی تاریخ …

اور… ماضی کے انسان کی دینی حالت کا مطالعہ فرمائیں اورآج کے انسان کی دینی حالت سے اس کا موازنہ فرمائیں…

تو… اس بات کی سچائی آپ پر پوری طرح واضح ہوجائیگی۔

اس بات کے تسلیم کرنے میں بھی کوئی تامل نہیں ہوسکتا کہ مادّیت کی جانب بہت زیادہ جھکائو اور اعتدال کی راہ سے انحراف نے روحانیت میں کمی کردی ہے اور دل و دماغ سے دینی اثرات کو محو کردیا ہے۔

آج ہم دینی مطالب اور روحانی و معنوی اصولوں کے بارے میں مختلف زبانوں سے طرح طرح کے جو اعتراضات سنتے رہتے ہیں اور دینی تعلیمات اور خدا پرستی کے طریقوں پر اپنوں اور غیروں کے جن اعتراضات کا مطالعہ کرتے رہتے ہیں ان سب کا سرچشمہ وہی مادّہ پرستی ہے۔

ہر انصاف پسند شخص پر یہ بات پوری طرح واضح ہے کہ… یہ اعتراضا کوئی نئے نہیں ہیں… ماضی کے ہر دور میں‘ اس طرح کے اعتراضات برابر اُٹھائے جاتے رہے ہیں اور یہ بحث کا موضوع بنتے رہے ہیں۔

اور معترضین… اپنے اعتراضات کے معقول و مدلّل جوابات سُن کر خاموش ہوتے رہے ہیں اور اپنے شبہات و اعتراضات کو بھُلا دینے پر مجبور ہوگئے ہیں۔

لیکن جس کا منہ بند نہیں ہوتا اور جو ذرا بھی موقع پاکر بلا دلیل کٹ حجتی پر اُتر آتی ہے وہ یہی مادّیت کی روح ہے جو کبھی فطرت کے دلفریب مناظر کو دیکھ کر مسحور ہوجاتی ہے او رکبھی ا ندرونی جذبات و احساسات سے مغلوب ہوجاتی ہے۔ وہ اپنی مادّیت میں اس قدر گرفتار ہے کہ… عقلِ سلیم سے ذرا بھی رہنمائی حاصل کرنا اس کے لیے مشکل ہے۔

روحِ مادّیت نے انسان کے تمام اندرونی حواس کو جو شعور و ارادہ سے لیس ہیں‘مادّے کی جانب پھیر دیا ہے اور روحانیت کی تحقیر کے لیے اس نے اپنی زبان کھول دی ہے اور وہ پوری ڈھٹائی کے ساتھ کہتی ہے…

کہ… دینی تعلیمات انسان کو ماضی کے اس تاریک دور میں لے جاتی ہیں جب وہ جنگلوں اور غاروں میں وحشیانہ زندگی بسر کرتا تھا۔

ہر چیز سے تعلق توڑ کر… ایک نظر نہ آنے والے خدا سے رشتہ جوڑنے کا… آخر کیا مطلب ہے…؟

اس کا مطلب بجز اس کے اور کیا ہے کہ انسان اپنے فطری شعور اور ارادے کلا گلاگھونٹ دے… اور… کسی غیبی طاقت کے انتظار میں بیٹھ جائے… جبکہ اس غینی طاقت کا کوئی وجود ہی نہ ہو۔

اگر دینی تعلیمات پر آنکھیں بند کرکے عمل کرنے سے ہی انسان کو کھانا پینا میسر آتا ہے تو پھر دنیا کی ترقی یافتہ قوموں کو جو چاند اور ستاروں پر کمندیں ڈال رہی ہیں اور آسمان کو مسخر کررہی ہیں‘ بھوک سے مَر جانا چاہیے ۔

اس طرح کے اعتراضات صرف آج کے انسان کے ذہن کی پیداوار نہیں ہیں۔ یہ دراصل ماضی کے بے دلیل اور بے بنیاد افکار کا ورثہ ہیں اور اس امر کے گواہ ہیں کہ کسی ایک شعبے میں انسان نے جو ترقی کی ہے وہ دوسرے شعبے کے لیے نہیں ہے اور دوسرے شعبے میں اس کی لاعلمی و جہالت کو یہ ترقی دور نہیں کرسکتی۔

یہ بات درست ہے کہ طبیعی علوم ایک روشن چراغ کی حیثیت رکھتے ہیں اور اس چراغ کی روشنی نے بہت سی چیزوں کو تاریکی سے نکال کر روشنی میں لارکھا ہے اور انسان کو ان سے واقف کردیا ہے۔

لیکن یہ کوئی ایسا چراغ نہیں ہے جو ہر طرح کی تاریکی کو دور کردے۔

علم نفسیات‘ فلکیات کے مسائل کو حل نہیں کرسکتا…

کوئی ڈاکٹر کسی انجینئر کے پیچیدہ مسائل کو نہیں سُلجھا سکتا…

جو علم مادّیت سے بحث کرتا ہے وہ مادّے سے ماوراء معنوی اور روحانی مسائل سے بے خبر ہوتا ہے…

وہ ان مقاصد تک رسائی نہیں رکھتا جن تک انسان اپنی خداداد فطرت کے تقاضوں کی بنا پر پہنچنا چاہتا ہے۔

مختصر یہ کہ آپ اگر کسی بھی طبیعی علم کے ذریعے مادّے سے ماوراء کسی مسئلے کے بارے میں کچھ معلوم کرنا چاہیں گے تو اس کے پاس خاموشی کے سوا اور کچھ نہ ہوگا کیونکہ اس علم کا موضوع مادّہ ہے اور مادّہ سے ماوراء ہر مسئلہ اس کے لیے ناقابلِ حل ہے۔ جب کوئی موضوع اس کی بحث سے خارج ہو تو اسے یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ ا س کے بارے میں کوئی خیال مثبت و منفی ظاہر کرے۔

دینی منطق خواہ کچھ بھی ہو‘ واضح یا غیر واضح… روشن یا تاریک‘ (یقینا وہ واضح اور روشن ہی ہے) وہ دینی علوم میں گہرائی تک پہنچنے اور عالم طبیعت اور مادّہ کے پسِ پردہ حقائق کی جستجو اور اُن کے بارے میں غور و بحث کے سوا اور کوئی راہ نہیں رکھتی۔

قرآن نے سب سے کٹ کر خدا سے جُڑنے کی تعلیم دی ہے۔ یہ قرآنی منطق مندرجہ ذیل تین حقائق پر غور کرنے سے بخوبی روشن ہوجاتی ہے:

۱۔ قُرآنِ کریم نے علت ومعلول کے قانونِ کلی کا انکار نہیں کیا ہے۔ وہ دنیا میں رونما ہونے والے ہر حادثے اور زندگی میں ظاہر ہونے والی ہر نئی چیز اور واقعہ کو ان علل اور عوامل کے ساتھ متعلق کرتا ہے جو اس سے مناسبت رکھتے ہیں۔ وہ کسی بھی حادثے کے اتفاقی اور بلاسبب ہونے کو تسلیم نہیں کرتا۔

اس جہانِ آفرینش میں تمام چیزیں ایک دوسرے سے مربوط ہیں اور علت و معلول کے ایک نظام سے بندھی ہوئی ہیں۔ یہ حقیقت آغازِ قرآن سے لے کر آخرِ قرآن تک وحی کی زبان سے بخوبی واضح ہوتی ہے۔

انسان کی حیثیت ایک ناچیز قطرے کی سی ہے جو ایک تباہ کن سیلاب کے منہ میں پڑا ہوا ہے اور انتہائی بے چارگی کے عالم میں موجوں کے ساتھ بہتا رہتا ہے اور نشیب و فراز طے کرتا ہے۔ انسان اس دنیائے فانی کے اجزاء کا ایک جز ہے اور ساری مخلوقات کے ساتھ خود بھی اس عمومی قانون کا پابند ہے جو اس دنیا پر نافذ ہے۔ وہ اس عالمِ ناپائیدار کا ہم سفر ہوکرایک اجتماعی مقصد اور اصل منزل(آخرت) کی جانب رواں دواں ہے۔ انسان اس عالمِ کا ایک جُز ہے۔ اسے کوئی ایسی مستقل بالذات حیثیت اور خودمختاری حاصل نہیں ہے کہ جس کے بل بُوتے پر وہ سب سے الگ تھلگ ہوکر اپنے مقاصد اور آرزوئوں کی تکمیل میں مصروف ہوجائے اور اس عالمِ آفرینش کی کلی طاقت سے کشمکش اور مزاحمت شروع کردے۔ انسان کے لیے بجز اس کے اور کوئی راہ کھلی ہوئی نہیں ہے کہ جو کچھ طاقت اسے دی گئی ہے اسے وہ اپنے مقاصد کے حصول میں صرف کرے۔ اس عالمِ اسباب کے دوسرے اجزاء کی جس قدر اسے موافقت حاصل ہوگی اسی قدر اس کے مقاصد کی تکمیل ہوتی چلی جائے گی۔

۲۔قرآنِ کریم نے جیسا کہ انسانی فطرت بھی یہی کہتی ہے کہ اس عالمِ کُل اور اس کے تمام اجزاء کو خدائے واحد کی مرضی اور ارادے کا پابند قرار دیا ہے۔ اور اس عالمِ آفرینش کے نظام کو جو اپنے عمومی اور کلّی قوانین کے ساتھ کارفرما ہے‘ خالق کائنات کی تدبیر اور اس کے ارادے کا ماتحت اور محکوم بتایا ہے۔

قرآنِ کریم کے اس بیان کے مطابق اس جہانِ ہستی میں اگر کسی کو مطلق استقلال حاصل ہے اور اگر کسی کو اپنی ذات اور آثارِ ذات میں باہر سے کسی مدد اور سہارے کی ضرورت نہیں ہے اور جس کے سب محتاج ہیں تو ایسی ذات صرف اس خدائے یگانہ کی ہے جس نے ہر چیز کو پیدا کیا ہے اور اسے قوت عطا کی ہے‘ تنہا اسی کی ذات ہے جو اس بات کی مستحق ہے کہ اس سے ہر طرح سے تعلق اور وابستگی پیدا کی جائے۔

۳۔قرآنِ کریم نے انسانی علم کو محدود قرار دیا ہے اور تمام اشیاء کی تمام صفات کا مطلق علم جسے علمِ غیب کا بھی نام دیا جاتا ہے صرف خدائے یگانہ سے مخصوص کیا ہے۔ اس اعتبار سے انسان کا شعور اور ادراک ایک بہت ہی چھوٹے چراغ کی مانند ہے جسے اس دنیا کے وسیع اور تاریک ماحول میں روشن کیا گیا ہے۔ لیکن اس کی روشنی اس قدر کمزور ہے کہ صرف ایک قدم کے لیے وہ زمین کی ہمواری و ناہمواری کو ظاہر کرسکتی ہے۔

انسان اپنی اس زندگی کے تنگ اور محدود دائرے میں اپنے ضعیف حواس اور کوتاہ فکر کے ذریعے حوادث و واقعات کے اسباب و علل کا جو بھی علم حاصل کرتا ہے وہ بہت ہی کم اور حقیر ہے۔ اس کی محدود معلومات کا اس لامحدود مجہولات (جو کچھ اسے معلوم نہیں ہے) کے ساتھ کوئی موازنہ نہیں کیا جاسکتا۔

ان حقائق سے یہ بات پور طرح ظاہر ہوجاتی ہے کہ اسبابِ ظاہری کے ساتھ پوری وابستگی اور پُرامیدی‘ اسی طرح ناامیدی اور مایوسی‘ یہ دونوں ہی طرح کی کیفیات جہالت اور نادانی کا نتیجہ ہیں۔

کیونکہ… انسان اپنے محدود علم و ادراک کے ذریعہ‘ اسباب و علل کے بارے میں بہت ہی محدود معلومات حاصل کرتا ہے۔

پھر اپنی محدود طاقت کی مدد سے تھوڑے سے وسائل فراہم کرکے کسی مقصد کے حصول کی کوشش کرتا ہے۔

اور بہت پُرامید ہوکر… لمبی چوڑی توقعات وابستہ کرلیتا ہے… لیکن جب بعض اسباب و تدابیر اس کے مقاصد اور آرزوئوں کے خلاف صورت اختیار کرتے ہیں تو وہ … مایوس اور ناامید ہوجاتا ہے… یہ طرزِفکر اس کی جہالت اور نادانی کا نتیجہ ہے۔

دنیا میں کسی بھی چیز کا پیدا ہونا یا فنا ہوجانا‘ کائنات کی ایک ہمہ گیر طاقت سے وابستہ ہے جس کے پیچھے لامحدود قوت اور ارادۂ غیبی کارفرما ہے اور انسان کو اس بات کا اختیار حاصل نہیں ہے کہ وہ اس طاقت کی مخالفت یا اس کے ساتھ موافقت میں سے کسی ایک چیز کو منتخب کرے۔

انسان اسباب و عوامل جمع کرتا ہے… لیکن… کسی چیز کے وجود میں لانے اور کسی چیز کو ختم کردینے کا اختیار‘ ان اسباب و عوامل کے ہاتھ میں نہیں دیا گیا ہے۔

ان فکری و نظری حقائق کی بنیاد پر جو علمی نتیجہ حاصل کیاجاسکتا ہے وہ یہ ہے کہ:

انسان کو اپنی عملی زندگی میں ان اسباب پر بالکلیہ بھروسہ نہیں کرنا چاہیے جو اس نے اپنے محدود علم کی بنیاد پر دریافت کیے اور فراہم کیے ہیں۔

وہ خود کو اس عالمِ کُل کا ایک جُزسمجھے اور ان اسباب و عوامل کے زیر اثر جانے جو ماضی اور حال سے تعلق رکھتے ہیں۔

یعنی… اسے خدائے واحد سے اپنا تعلق جوڑنا چاہیے۔

جو‘ ہر چیز کا پیدا کرنے والا… پرورش کرنے والا۔ اور تمام اسباب و علل کو منظم کرنے والا ہے۔

انسان کے لیے صحیح طرز فکر اور راہِ عمل یہی ہے کہ وہ سب سے کٹ کر پروردگارِ حقیقی سے رشتہ جوڑلے۔

لیکن اس سے یہ مراد نہیں ہے کہ انسان ان اسباب و علل کو جو اس نے اپنی فکری اور علمی صلاحیت کے ذریعہ فراہم کیے ہیں پسِ پشت ڈال کر ایک کونے میں بیٹھ جائے اور اپنے مقاصد کی تکمیل کے لیے کسی غیبی امداد کا منتظر رہے۔

کیونکہ:… پہلی بات تو یہ ہے کہ مدد کو پہنچنے والی کوئی غیبی طاقت اسباب و عِلل کے راستے ہی سے اثر انداز ہوتی ہے۔

دوسری چیز یہ پیشِ نظر رہے کہ جو بھی اسباب و عوامل انسان نے دریافت کیے ہیں وہ ایک مجموعۂ اسباب کا جُز ہیں۔ ان اسباب کی تاثیر کا انکار کرنا اور مقصد کے حصول کی توقع رکھنا خود ایک جہالت ہے۔

انسان کے لیے صحیح راہِ عمل یہ ہے کہ

وہ اُن تمام اسباب و وسائل کو اپنے حصولِ مقصد کے لیے استعمال کرے جنہیں اس نے خداداد علم و شعور کی مدد سے دریافت کیا ہے۔

لیکن… اُن پر پوری طرح بھروسہ نہ کرے۔ خود کو اس عالمِ کُل کا ایک غیر مستقل جُز سمجھے… اور… اپنا دل اس خدائے واحد سے لگائے جو تمام نتائج اور تاثیرات کا سرچشمہ ہے۔

یہ سارا مضمون اسی تعلیمِ دینی کا حصہ ہے جو اس بحث کا موضوع ہے۔ یہ دینی تعلیم ایک طرف انسان کو حقیقت بیں اور حق شناس بناتی ہے تو دوسری طرف وہ اس میں اخلاقِ فاضلہ اور وہ بہترین صفات پیدا کرتی ہے جو حق شناسی کی بنیاد پر استوار ہوتی ہیں۔

جیسے… خوش اُمیدی… بُردباری… حوصلہ مندی…اور شجاعت جیسی صفات جو بالآخر انسان میں ایک ناقابل شکست قوت پیدا کرتی ہیں…

اسی طرح یہ دینی تعلیم انسان کو بُرے اخلاق‘ جاہلانہ اور ناشائستہ صفات سے دُور رکھتی ہے جیسے تکبر‘ نخوت‘ خودپرستی اور خود ستائی جیسی صفات جو اپنے آپ کو خودمختار اور مستقل باالذات سمجھنے کا نتیجہ ہیں۔

اسی طرح رنج و حزن‘ بے تابی‘ بے چارگی‘ پست ہمتی اور نکما پن جیسی کیفیات جو مایوسی اور بے بسی کی حالت میں انسان کے اندر پیدا ہوتی ہیں۔

اگرچہ کہ اس بحث کو ہم نے ایک فلسفیانہ بحث کی صورت میں مکمل کیا ہے لیکن اس کا سارا مواد‘ ہر جملہ آیاتِ قرآنی کے مضامین پر مبنی ہے ۔ جو شخص بھی معارفِ قرآنی سے بہرہ مند ہے اس سے یہ بات مخفی نہیں ہوگی۔

(علامہ سید محمد حسینؒ طباطبائی کی کتاب ’’ولایت اور رہبری‘‘ سے ماخوذ)

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*