ہر دور کا انسان زیادہ سے زیادہ دیر تک روئے ارض پر رہنے کا خواہش مند رہا ہے۔ ابتدائی دور میں چونکہ علاج کی سہولتیں بھی نہ تھیں اور سفر کو محفوظ بنانے کے طریقے بھی ایجاد یا دریافت نہیں ہو پائے تھے، اس لیے بڑے پیمانے پر ہلاکتیں عام تھیں۔ کسی وبا کا پھوٹ پڑنا ہزاروں ہلاکتوں کی ضمانت ہوا کرتا تھا۔ دیکھتے ہی دیکھتے آبادیاں موت کے گھاٹ اتر جاتی تھیں۔ یہی حال جنگ و جدل کا تھا۔ مختلف سطحوں پر لڑائیاں جاری رہتی تھیں جن کے نتیجے میں بڑے پیمانے پر ہلاکتیں عام تھیں۔ ترقی کا پہیہ تیزی سے گھوما تو جدید ترین علوم و فنون کی مدد سے انسان کے لیے روئے ارض پر زیادہ دیر تک رہنا ممکن ہوسکا۔ اوسط عمر میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ آج ترقی یافتہ دنیا اِس معاملے میں بہت آگے ہے۔ پسماندہ معاشروں میں اوسط عمر ۵۰ اور ۶۰ سال کے درمیان ہے۔ ترقی یافتہ معاشروں میں صحتِ عامہ کے اعلیٰ معیار، علاج کی بہترین سہولتوں اور جدید ترین ٹیکنالوجیز کی مدد کردہ معیاری اشیائے خور و نوش کے دستیاب ہونے کی بدولت انسان کے لیے بہتر صحت کے ساتھ طویل عمر پانا ممکن ہوگیا ہے۔ جاپان اِس کی ایک واضح مثال ہے، جہاں ریاستی سطح پر ملنے والی جدید ترین سہولتوں اور سادہ طرزِ زندگی کی مدد سے اوسط عمر ۸۰ سال سے زائد ہوچکی ہے۔ ۲۰۱۷ء کے اعداد و شمار کے مطابق جاپان میں ۱۰۰ سال سے زائد عمر والے افراد کی تعداد ۶۷ ہزار سے زائد تھی۔ جاپان میں ۱۰۰ سال سے زائد جینے والوں کا تناسب فی لاکھ ۴۸ ہے، جو دنیا بھر میں سب سے زیادہ ہے۔
طویل عمر پانے کی خواہش فطری ہے۔ ہر انسان اِس دنیا میں زیادہ سے زیادہ جینا چاہتا ہے مگر کیا زیادہ جینا کسی کام کا ہے اگر ذہن خالی ہو اور تیاری نہ کی گئی ہو؟ یہ سوال ماہرین کو ایک زمانے سے پریشان کر رہا ہے۔ زیر نظر مضمون میں اِسی حوالے سے معاملات کا جائزہ لیا گیا ہے۔
زندگی کے بارے میں نئی سوچ درکار ہے۔ آج زندگی کو ایک نیا ڈیزائن چاہیے۔ بیسویں صدی عیسوی نے انسان پر یہ احسان کیا ہے کہ اوسط عمر میں کم و بیش ۳۰ سال کا اضافہ ہوگیا ہے۔ عمومی سطح پر زندگی کا معیار بلند ہوا ہے۔ بیماریوں سے لڑنا ممکن ہوگیا ہے۔ بیماریوں کو ٹالنا بھی بہت حد تک ممکن ہوگیا ہے۔ اوسط عمر میں غیر معمولی اضافے نے انسان کو سکون کا سانس لینے کا موقع تو فراہم کیا ہے مگر ساتھ ہی ساتھ چند الجھنیں بھی ہیں، جن سے چشم پوشی ممکن نہیں۔
اوسط عمر میں اضافے کا ایک واضح نتیجہ یہ برآمد ہوا ہے کہ بڑھاپے کا دورانیہ بڑھ گیا ہے۔ ایک زمانے سے لوگوں کی خواہش تھی کہ ۱۰۰ سال جئیں۔ یہ خواہش پوری ہونے کو ہے۔ جدید ترین علوم و فنون کی مدد سے ایسی بہت سی اشیا تیار، ایجاد اور دریافت کی جاچکی ہیں، جو انسان کو روئے زمین پر قیام میں توسیع دینے کے قابل بناتی ہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ اوسط عمر تو بڑھ گئی ہے مگر اُس کے ساتھ ساتھ جو کچھ تبدیل ہونا چاہیے تھا، وہ تبدیل نہیں ہوسکا ہے۔ ہم آج تک اُسی کلچر کے ساتھ جی رہے ہیں جو موجودہ سے نصف اوسط عمر سے مطابقت رکھتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر کوئی ۱۰۰ سال جیے تو ریٹائرمنٹ کے بعد ۴۰ سال تک کیا کرے۔ اگر صحت کا معیار بہت بلند ہو تب بھی بڑھاپا ۷۰ سال کی عمر میں تو شروع ہوگا ہی۔ ایسے میں آخری ۳۰ سال کس طور گزارے جاسکیں گے؟ اگر کسی نے عمر کی دوسری دہائی میں تعلیم پائی ہو تو وہ تعلیم بڑھاپے میں یعنی پچاس سال بعد کس طور کارآمد رہ سکے گی؟
امریکا کے اسٹینفرڈ سینٹر فار لنگیویٹی نے ’’دی نیو میپ آف لائف‘‘ کے عنوان سے ایک منصوبہ شروع کیا ہے، جس کا بنیادی مقصد ۱۰۰ سال تک جینے والوں کو ڈھنگ سے جینے کے قابل بنانے کے حوالے سے راہ نمائی اور معاونت فراہم کرنا ہے۔ اس منصوبے سے ہر شعبے کے اعلیٰ ترین ذہن وابستہ ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ مخیّر صاحبان کو بھی شامل کیا گیا ہے۔ تعلیم کا روایتی ماڈل بدلنے، صحتِ عامہ، سماجیات، طرزِ زندگی اور مالیاتی منصوبہ سازی کے حوالے سے بہت کچھ سوچا جارہا ہے تاکہ ۱۰۰ سال جینے والوں کو بتایا جاسکے کہ اُنہیں اِتنی دور تک کس طور جانا ہے۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ اُنہیں جنریشن گیپ کے نتیجے میں پیدا ہونے والی مشکلات کا سامنا کرنے کے قابل بھی بنانا ہے۔
اوسط عمر میں اضافے کے نتیجے میں زیادہ دیر تک جینے والوں کو ڈھنگ سے جینے کے قابل بنانے کے لیے تعلیم، فیملی، کام، ریٹائرمنٹ کا ماڈل تَرک کرنے کی ضرورت ہے۔ اب سب کچھ ایک پلیٹ فارم پر لانے کی ضرورت ہے۔ بیزاری سے بچنے کی یہی ایک صورت ہے۔ زندگی کا پرانا ماڈل اب زیادہ کارآمد نہیں رہا۔ لازم ہے کہ تعلیم کے حصول کے ساتھ ساتھ کام بھی کیا جائے اور فیملی کو بھی وقت دیا جائے۔ ریٹائرمنٹ کا تصور بھی تبدیل ہونا چاہیے۔ اگر کوئی ۶۰ سال کی عمر میں ریٹائر ہو تو باقی ۴۰ سال کیا کرے گا؟ بے کاری کی زندگی تو شدید بیزاری کا ذریعہ ثابت ہوگی۔ لازم ہے کہ آج کے ترقی یافتہ معاشروں کا یعنی کم و بیش ۱۰۰ سال جینے والا انسان کسی ایک شعبے کا نہ ہو رہے بلکہ کئی شعبوں میں طبع آزمائی کرے، اپنے آپ کو زیادہ سے زیادہ بارآور ثابت کرے۔ بیزاری سے بچنے اور بھرپور لطف کے ساتھ جینے کی یہی ایک صورت ہے۔ جب بڑھاپے کا دورانیہ بڑھے گا تو جوانی کا دورانیہ بھی تو تبدیل ہوگا۔ آج انسان کی جوانی ۴۰ سال کا ہونے تک ختم ہوجاتی ہے۔ کل یہ حد ۵۰ یا ۵۵ بھی ہوسکتی ہے۔
زمانہ بدل چکا ہے۔ نئی سوچ کا پیدا کیا جانا لازم ہے۔ آج کے بچوں کو تخلیقی انداز سے سوچنے کی تحریک دینا لازم ہے، تاکہ وہ بھرپور لطف کے ساتھ زندگی بسر کرتے ہوئے دوسروں کی خدمت کے بھی قابل ہوسکیں۔ اب محض حقائق جاننے سے کام نہیں چلے گا۔ واضح سوچ، بلکہ نظریے کا حامل ہونا لازم ٹھہرا۔ سیکھنے کا عمل زیادہ سے زیادہ لطیف ہونا چاہیے تاکہ بچے ذہن پر اضافی بوجھ محسوس کیے بغیر سیکھیں۔ کچھ نیا سیکھنے کا لطف کسی بھی حال میں کم نہیں ہونا چاہیے۔ آج کے ترقی یافتہ معاشروں میں پیدا ہونے والوں کو بہت چھوٹی عمر سے ذہن نشین کرانا لازم ہے کہ اُنہیں زندگی بھر کچھ نہ کچھ سیکھتے رہنے کا مائنڈ سیٹ اپنانا ہے۔ کل تک کلاس روم سب کچھ ہوا کرتا تھا۔ اب ایسا نہیں ہے۔ آج کلاس روم سے باہر بھی بہت کچھ سیکھا جاسکتا ہے اور سیکھا جارہا ہے۔ حقائق، معلومات اور علم فراہم کرنے کے ذرائع اِتنے زیادہ ہیں کہ ہم اُنہیں کنٹرول کرنے کی پوزیشن میں بھی نہیں۔
اب ایک ایسی ورک فورس تیار کرنا ہے، جس کی ذمہ داریاں اور فرائض متنوع ہوں۔ اوسط عمر میں اضافے کے نتیجے میں کام کرنے والوں کو بچوں کے ساتھ ساتھ والدین کی بھی دیکھ بھال کرنا ہوگی۔ اب لوگوں کو بہت بڑی عمر تک کام کرنا پڑے گا۔ اس کے لیے لچک دار طرزِ زندگی اور اُس سے بھی زیادہ لچک دار طریق ہائے کار درکار ہیں۔ وہ زمانہ زیادہ دور نہیں جب انسان کئی بار ریٹائر ہوا کرے گا۔ آج کا انسان ایک ہی شعبے میں کیریئر بناتا ہے۔ کل کو دو، تین یا اِس سے بھی زائد کیریئر ہوا کریں گے۔ اس حوالے سے فکر و عمل میں لچک کا پیدا کیا جانا لازم ٹھہرا۔
انسان کو سب سے زیادہ پریشان کون سا معاملہ کرتا ہے؟ جی ہاں، مالیات کا۔ ۱۰۰ سال کی عمر ممکن بنائے جانے پر انسان کو یہ بھی سوچنا ہے کہ مالیات کا کیا ہوگا۔ بہت چھوٹی عمر میں بچت کھاتے کھلوانے پڑیں گے تاکہ جوانی کے ڈھلنے پر پریشانیاں کم رہ جائیں۔
لمبا جینے والوں کو مشاغل کے حوالے سے باشعور ہونا پڑے گا۔ اگر مشاغل کمزور ہوں گے تو بیزاری بڑھے گی۔ تعلیم بھی معیاری ہونی چاہیے جو تادیر کارگر رہے۔ نئے تصورات اور نظریات کا احترام کرنے کا شعور بھی پیدا یا بیدار کیا جانا چاہیے تاکہ غیر ضروری فکری و عملی تصادم سے بچنا ممکن ہو۔
طویل عمر کا بہتر انداز سے خیر مقدم کرنے کے لیے سماجی تعلقات کی نوعیت بھی مطابقت رکھتی ہوئی ہونی چاہیے۔ جب روئے ارض پر گزارنے کے لیے وقت بہت ہوگا تب انسان کو دوستی اور دیگر سماجی تعلقات کے حوالے سے بھی تو معیاری انداز اختیار کرنا پڑے گا۔ مضبوط سماجی ڈھانچا اور سماجی تعلقات کی قابلِ رشک نوعیت ہی انسان کو مطمئن کرسکے گی۔ اِس حوالے سے اُنہیں تربیت دینے کی ضرورت ہے، جو ۱۰۰ سال سے زائد جینے کے خواہش مند ہیں۔
(ترجمہ: محمد ابراہیم خان)
“We need a major redesign of life”. (“Washington Post “. November 30, 2019)
Leave a Reply