
مصر کے صحرائے سینائی کے علاقے میں روسی طیارہ گرا۔ بیروت میں دھماکا ہوا۔ اور آخر میں پیرس میں حملے ہوئے۔ ان تمام واقعات میں مارے جانے والے بے قصور لوگ تھے، جن کی موت پر دکھ محسوس کرنا فطری امر ہے۔ مگر مجھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہم بھی اب ویسے ہی بے حس ہوتے جارہے ہیں، جیسے ان واقعات کے ذمہ داران ہیں۔ کسی بھی وجہ سے جو لوگ تشدد کی انتہا پر اتر آتے ہیں، اُن میں حد درجہ بے رحمی اور سنگ دلی پائی جاتی ہے۔ مگر اب ایسی ہی کیفیت ہمارے دلوں کی بھی تو ہوچلی ہے۔
برائن کینان نے لبنان میں حزب اللہ سے نظریاتی ہم آہنگی رکھنے والوں کے ہاتھوں یرغمالی کی حیثیت سے ساڑھے چار سال گزارے۔ پیرس میں جو کچھ ہوا، وہ میرے لیے بھی اتنا ہی حیرت انگیز اور المناک تھا جتنا کسی اور کے لیے ہوسکتا تھا۔ ایسے میں میرے لیے لازم ہوگیا کہ برائن کینان سے رابطہ کرکے اس سے ان لوگوں کی ذہنیت کے بارے میں کچھ معلوم کروں جو بے قصور لوگوں پر ستم ڈھاتے ہیں، انہیں موت کے گھاٹ اتارتے ہیں۔ کینان کو لبنان میں حزب اللہ سے قربت رکھنے والوں نے یرغمال بنایا تھا۔ اگر اسے عراق یا شام میں دولۃ اسلامیہ عراق و شام یعنی داعش والوں نے پکڑا ہوتا تو اب تک ہم اس کا سر قلم کیے جانے کی وڈیو دیکھ رہے ہوتے۔ ۱۹۸۰ء کے عشرے میں جن لوگوں کو یرغمالی کی حیثیت سے طویل مدت تک غیر یقینی کیفیت سے دوچار رہنا پڑتا تھا، ان میں برائن کینان واحد شخص ہے جس نے قلم سنبھالا اور اپنے حالات و واقعات کی روشنی میں پورے عہد کا تجزیہ کیا اور “An Evil Cradling” کے عنوان سے ایسی کتاب لکھی جو سو سال زندہ رہے گی۔ اس کتاب میں انہوں نے یہ بیان کرنے کی کوشش کی ہے کہ جہاں ہر طرف ظلم اور ناانصافی ہو، وہاں بھی اپنے اندر کی انسانیت کو کس طور زندہ رکھا جاسکتا ہے۔
کینان، شمالی آئر لینڈ کے دارالحکومت بلفاسٹ میں پیدا ہوا تھا۔ اس نے آئر لینڈ کے علاقے ویسٹ پورٹ میں اپنے کمرے میں بیٹھے بیٹھے کافی کی چند چُسکیاں لیں اور بہت دھیمے لہجے میں بولنا شروع کیا۔ کینان انٹرویو دینے کا شوقین نہیں۔ اسے زیادہ بات کرنا بھی پسند نہیں۔ وہ کہہ رہا تھا: ’’جو کچھ پیرس میں ہوا وہ ایسا نہیں ہے کہ راتوں رات ہو جائے یا کردیا جائے۔ ایسے کام کے لیے بھرپور منصوبہ تیار کرنا پڑتا ہے اور وہ بھی ایک خاص ٹائم فریم میں۔ مگر میں یہ بات بھی جانتا ہوں کہ قتل عام کے لیے کسی کمٹمنٹ کی ضرورت نہیں پڑتی۔ پیرس میں قتل عام سے مجھے ذرا حیرت نہ ہوئی۔ حیرت تو اس بات پر ہوئی کہ قتل و غارت کا جو کلچر مشرقِ وسطیٰ میں پختہ ہوچکا ہے، وہ اب یورپ کی سرزمین تک آپہنچا ہے۔ جو کچھ پیرس میں ہوا ویسا ہی کچھ بیروت میں چوبیس گھنٹے قبل ہوا تھا۔ اور اس سے بھی زیادہ دکھ کی بات یہ ہے کہ بعض دائروں میں اس قتلِ عام کو انتہائی درست قرار دینے کی کوشش کی جارہی ہے اور اس حوالے سے دلائل بھی دیے جارہے ہیں۔‘‘
کینان نے جو وقت بیروت میں یرغمالی کی حیثیت سے گزارا تھا، وہ اب تک اس کے دل و دماغ سے نکلا نہیں۔ وہ آج بھی بات کرتا ہے تو اس کے لہجے سے یہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے جیسے وہ اب بھی خود کو یرغمالی ہی سمجھتا ہے۔
کینان کہتا ہے: ’’اب اہم سوال یہ ہے کہ صورتحال کو بہتر بنانے کے حوالے سے ہم کیا کرسکتے ہیں۔ میں نے ان لوگوں کے درمیان یرغمالی کی حیثیت سے ساڑھے چار سال گزارے ہیں۔ میری ذاتی رائے یہ ہے کہ جو کچھ یہ کر رہے ہیں وہ محض انتقام ہے۔ انتقام اسی وقت لیا جاتا ہے جب کچھ غلط ہوتا ہے۔ میں نہیں سمجھتا کہ اسلامی دنیا کی طرف سے قتل عام کے جواب میں بمباری یا گولا باری کی جائے۔ انہیں انصاف چاہیے۔ ان کے مسائل پر توجہ دینے اور نرمی اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔ اس میں کیا شک ہے کہ اسلامی ممالک میں لاکھوں بے قصور افراد کو محض قانونی اور جائز کارروائی کے نام پر مارا گیا ہے۔ عراق اور شام میں جو کچھ ہوا وہ ہمارے سامنے ہے۔ وہ لوگ ناانصافی اور خونِ ناحق کے بہنے پر مشتعل ہوتے ہیں۔ اب وقت آگیا ہے کہ ان سے زیادتی بند کی جائے۔ مشرق وسطیٰ کے نقشے کو دیکھیے۔ اس میں سرحدیں کئی بار تبدیل کی گئی ہیں۔ بہت سی سرحدیں اب یکسر غیر مؤثر ہوکر رہ گئی ہیں۔ یہ سب کچھ مغربی طاقتوں نے کیا ہے۔ جو کچھ مغربی حکومتیں کرتی ہیں، اُس کا خمیازہ مغرب کے عام باشندے کو بھگتنا پڑتا ہے۔ یہ لوگ اگر مغرب کو مسترد کرتے ہیں، مغربی طرزِ زندگی کے خلاف شدید جذبات رکھتے ہیں تو اس بات کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ان پر بہت کچھ تھوپا جارہا ہے۔‘‘
کینان مزید کہتا ہے: ’’مجھے سب سے زیادہ حیرت اور دکھ اس بات پر ہے کہ پرانی سرحدیں غیر مؤثر ہوتی جارہی ہیں، انٹرنیشنل زون بھی اب کام کے نہیں رہے۔ ہاں، سکیورٹی زون ضرور موجود ہیں اور انہیں برقرار رکھنے پر بھرپور توجہ دی جارہی ہے۔ مشرق وسطیٰ میں سکیورٹی زون بڑی تعداد میں ہیں اور یورپ میں بھی یہ سلسلہ چل پڑا ہے۔ لفظ ’دہشت گردی‘ سے زیادہ مجھے ان سکیورٹی زونز سے ڈر لگتا ہے۔ سوال صرف ایک دیوار اٹھا دینے کا نہیں۔ اس ایک دیوار سے ذہنی، نظریاتی اور ثقافتی تفریق کا اندازہ ہوتا ہے۔ سکیورٹی کے نام پر اٹھائی جانے والی دیواروں سے ہماری سوچنے اور سمجھنے کی اور کچھ کر دکھانے کی صلاحیتیں بری طرح متاثر ہو رہی ہیں۔‘‘
کینان مضبوط اعصاب کا مالک ہے۔ وہ حزب اللہ سے وابستہ افراد کی طرف سے چھوڑ دیے جانے کے بعد سے چار مرتبہ بیروت جاچکا ہے۔ اس کا بنیادی مقصد وہاں رونما ہونے والی تبدیلیوں کا جائزہ لینا ہے، حالات کا اندازہ لگانا ہے۔ لبنان میں صرف اسرائیل کا مسئلہ نہیں، اور بھی بہت کچھ ہے۔ کینان نے آزادی پانے کے بعد بھی چار مرتبہ بیروت میں قدم اس لیے رکھا ہے کہ وہ لبنان میں پنپنے والی ذہنیت کو سمجھنا چاہتا تھا۔ وہ جانتا تھا کہ جو کچھ بھی ہو رہا ہے، وہ کسی نہ کسی ذہنیت ہی کا ردعمل ہے۔ وہ یہ محسوس کرتا تھا کہ لبنان کا اس پر کچھ قرض ہے جو چکانا ہی پڑے گا۔ کینان چاہتا ہے کہ لبنان سمیت پورے مشرقِ وسطیٰ کے مسائل کو سمجھے اور اس حوالے سے اگر کچھ لکھ سکتا ہے تو لکھے، بول سکتا ہے تو بولے۔‘‘
کینان کو اندازہ ہے کہ پیرس کے حالیہ حملوں میں جان سے ہاتھ دھو بیٹھنے والوں کے اہل خانہ پر کیا بیتی ہوگی۔ ان کا انتہائی مشتعل ہونا بجا ہے اور ان کے غصے کے سامنے کوئی دیوار کھڑی نہیں کی جانی چاہیے مگر ساتھ ہی ساتھ وہ یہ بھی کہتا ہے کہ کسی بھی واقعے کے نتیجے میں پیدا ہونے والے شدید اشتعال کو تخلیقی طور پر بھی استعمال کیا جاسکتا ہے۔ اس معاملے میں وہ Elie Wiesel کی مثال دیتا ہے جس نے جرمن اذیت گاہوں میں انتہائی مشکل حالات کا سامنا کیا مگر پھر بھی اس کے اندر کی انسانیت نے دم نہیں توڑا، جس کے نتیجے میں وہ بہتر انسان کی حیثیت سے ابھرنے میں کامیاب رہا۔ ایلی ویزل کے اندر غصہ بھرا ہوا تھا مگر اس غصے کو اس نے کسی غلط کام کے لیے استعمال نہیں کیا۔ وہ سمجھ گیا تھا کہ شدید غصہ صرف برباد کرتا ہے۔ اگر غصے کے سامنے ہتھیار ڈال دیے تو پھر کچھ باقی نہیں رہتا۔
مگر یہ سب کچھ بہت آسان نہیں ہے۔ بہت سے حقائق کو سمجھنا پڑتا ہے۔ کوئی بھی ایسا ملک کبھی حقیقی کامیابی سے ہمکنار نہیں ہوسکتا جس کی بنیاد محبت پر نہ رکھی گئی ہو۔ اگر کوئی ملک دوسروں کو پریشان کرنے میں اپنا استحکام محسوس کرتا ہے تو جلد یا بدیر ایسا ہوگا کہ اس کی طرف سے دوسروں کی رگوں میں اتارا جانے والا زہر اُس کے اپنے وجود کو بھی چٹ کرجائے گا۔
کینان کہتا ہے کہ جو کچھ ہو رہا ہے، وہ اس قدر واضح ہے کہ سمجھنا کوئی بہت بڑا جھنجھٹ نہیں۔ پہلے مصر میں روسی طیارہ تباہ ہوا، پھر بیروت میں قتل و غارت کا بازار گرم ہوا اور پھر پیرس میں۔ جو کچھ بھی ہو رہا ہے، وہ بہت حد تک سفارتی مناقشوں کا بھی نتیجہ ہے۔ واقعات کو ایک خاص تناظر ہی میں، باہم جوڑ کر دیکھا اور سمجھا جاسکتا ہے۔ اور پھر یہ بات بھی ہے کہ ہمیں طے کرنا پڑے گا کہ جنگی مجرم کون ہے۔ اگر کوئی کسی جواز کے بغیر کوئی بڑا ظلم ڈھاتا ہے تو یقینا قابل گرفت ہے۔ اگر کسی پر مستقل ظلم ڈھایا جاتا رہے اور وہ جواب میں کچھ کرے تو ہمیں اس پر کوئی بھی لیبل لگانے سے پہلے بہت کچھ سوچنا پڑے گا۔ ۱۹۴۸ء میں ساڑھے سات لاکھ افراد کو نوزائیدہ اسرائیل سے نکال دیا گیا تھا۔ یہ معاملہ اب عالمگیر نوعیت اختیار کرچکا ہے۔ اب ہمیں مختلف اصول درکار ہیں۔ کینان کو نہیں معلوم کہ لوگ اپنے گریبان میں جھانکنے کے لیے تیار ہیں یا نہیں۔
داعش نے فلسطین کا پرچم بھی جلایا ہے کیونکہ اس کے خیال میں خلافت کے قیام کے بعد کسی بھی ملک کی کوئی حیثیت نہیں، پوری اسلامی دنیا ایک ہے۔ کینان اس معاملے میں ذرا گہری بات کرنا پسند کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ مغرب نے اب تک جو تصورات دیے ہیں، وہ بہت اچھے سہی مگر صرف انہی کو درست قرار دینا درست نہیں۔ طاقت اچھی چیز ہے مگر اس سے بڑھ کر اہمیت اس بات کی ہے کہ طاقت کو استعمال کس طور کیا جاتا ہے، بروئے کار کس طریقے سے لایا جاتا ہے۔
وقت آگیا ہے کہ یورپ اپنی آنکھوں پر بندھی ہوئی پٹی اتارے اور کچھ سوچے۔ جذبات نہیں عقل۔ یہی وقت کا تقاضا ہے۔ جب تک ایسا نہیں ہوگا تب تک داعش جیسے گروپ کامیاب ہوتے رہیں گے۔
(ترجمہ: محمد ابراہیم خان)
“Robert Fisk: ‘We remain blindfolded about Isis’ says the man who should know”. (“independent.co.uk”. Nov.15, 2015)
Leave a Reply