
فرانس میں اگر کوئی شخص دوسری جنگِ عظیم کے دوران یہودیوں پر ڈھائے جانے والے نازی مظالم کی حقیقت سے انکار کرے یا ان پر شبہ ظاہر کرے تو اسے نسل پرستی پر مبنی جرم قرار دے کر قانونی کارروائی کی جاتی ہے، مگر اسی ’’فراخ دل‘‘ اور ’’وسیع النظر‘‘ فرانس میں اہانت پر مبنی کارٹون اور خاکے شائع کرنا اظہار رائے کی آزادی کا بامِ بلند قرار دے کر اس کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے۔ فرانس کے سیاست دان پریس کی آزادی کا ہر حال میں دفاع کرنے کے عزم کا اعادہ کرتے رہتے ہیں، اور یہ آزادی دراصل اس بات کی ہے کہ کسی کے مذہب پر وار کرتے وقت کچھ بھی نہ سوچا جائے۔ فرانسیسی اخبار ’’چارلی ہیبڈو‘‘ نے امریکی فلم ساز کی شیطانی فلم کے ساتھ ساتھ اپنے متنازع خاکے شائع کیے تو گویا مغرب کی اس سازش کو آگے بڑھایا کہ کسی نہ کسی طور تہذیبوں کے تصادم کا نظریہ زندہ رکھا جائے۔ اس کا ایک مقصد تو بدیہی طور پر یہی ہے کہ اسلامی دنیا میں تشدد کی نئی لہر پیدا ہو اور پھر معاملات درست کرنے کے نام پر مغرب جنگ میں کود پڑے اور تصرف کو مزید مستحکم کرے۔
اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ لیبیا سے شام تک فرانسیسی حکومت نے دہشت گردی کو ریاستی سطح پر مدد اور تحفظ فراہم کیا ہے۔ مغربی سفارت خانوں، راہ گیروں اور سفارت کاروں پر حملے کرنے والوں کو کھل کر امداد فراہم کی گئی ہے تاکہ وہ معاملات کو زیادہ سے زیادہ خراب کریں اور مغربی قوتوں کے لیے مداخلت کی راہ ہموار کریں۔ یہ تو دونوں طرف کھیلا جانے والا معاملہ ہوا۔ ایک طرف تو مسلم معاشروں کے باغیوں اور شر پسندوں کو آگے بڑھنے اور حکومتوں کے خلاف بہت کچھ کرنے کا حوصلہ اور سامان دیا جارہا ہے، اور پھر جب معاملات قابو میں نہ رہیں تو مداخلت کے نام پر اپنا تصرف قائم کرنے کے لیے آگے بڑھنے کی منصوبہ بندی بھی ہے۔ گزشتہ برس لیبیا میں لیبین اسلامک فائٹنگ گروپ کو بھی فرانس نے حمایت سے نوازا جبکہ اقوام متحدہ نے اس گروپ کو دہشت گرد قرار دے رکھا ہے۔
یو ایس آرمی ویسٹ پوائنٹ کومبیٹنگ ٹیرر ازم سینٹر کی ۲۰۰۷ء کی رپورٹ کے مطابق لیبین اسلامک فائٹنگ گروپ نے القاعدہ سے ہاتھ ملا رکھا ہے۔ دونوں گروپ مل کر لیبیا میں دہشت گردی کے مرتکب ہوتے رہے ہیں۔ فرانس نے ان دونوں گروپوں کو بھرپور مدد فراہم کی ہے۔ شام میں بھی حکومت کے خلاف لڑنے والے گروپوں کو فنڈ، ہتھیار اور مواصلاتی آلات فراہم کیے گئے ہیں۔ شام میں بہت سے گروپ محض اس لیے میدان میں ہیں کہ حالات کو زیادہ سے زیادہ خراب کرکے مغربی طاقتوں کو مداخلت کی دعوت دینے کا جواز پیدا کیا جاسکے۔ لیبیا سے بہت سے رضاکاروں نے عراق اور شام جاکر فورسز کے خلاف لڑائی میں حصہ لیا ہے۔
فرانس نے اب شام کے منحرفین کو کھل کر فنڈ اور ہتھیار فراہم کرنے کا اعلان کیا ہے جبکہ ہیومن رائٹس واچ نے لکھا ہے کہ شام میں حکومت کے خلاف لڑنے والے کئی گروپ انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں میں مبتلا ہیں۔ فرانس نے شام میں ہمہ گیر اور ہمہ جہت خانہ جنگی کی راہ ہموار کرنے کی بھرپور کوشش کی ہے۔
اب فرانس کی کوشش یہ ہے کہ شام کے حکومت مخالف گروپ زیادہ سے زیادہ مغرب مخالف سرگرمیوں میں ملوث ہوں تاکہ مغربی طاقتوں کو شام پر حملے کی ترغیب اور تحریک ملے۔ دمشق میں بگڑتی ہوئی صورت حال مغرب کے لیے بھی انتہائی پریشان کن ہے۔ فرانس، برطانیہ اور امریکا نے لیبیا، شام اور خطے کے دوسرے ممالک میں، جن گروپوں کو حال ہی میں غیر معمولی حد تک امداد فراہم کی ہے، ان کی نوعیت کے بارے میں سبھی جانتے تھے۔ کون نہیں جانتا تھا کہ یہ گروپ اپنے اپنے ممالک میں حالات خراب کرنے کے ذمہ دار تھے؟
سیمور ہرش نے ۲۰۰۷ء میں ’’نیو یارک ٹائمز‘‘ کے ایک مضمون میں لکھا تھا کہ ایران کو نیچا دکھانے کے لیے امریکا نے مشرقِ وسطیٰ میں اپنی ترجیحات بدلی ہیں۔ لبنانی حکومت نے ایران نواز شیعہ ملیشیا حزب اللہ کے خلاف اپنی پوزیشن مضبوط کرنے کے لیے سعودی حکومت سے اشتراکِ عمل کیا ہے۔ امریکی انتظامیہ نے ایران اور شام کے خلاف براہِ راست بھی مخاصمانہ اقدامات کی منصوبہ بندی کی ہے۔ اس کی ایک صورت تو یہ ہے کہ سُنّی گروپوں کو زیادہ سے زیادہ تقویت بہم پہنچائی جائے۔ اِسی مضمون میں سیمور ہرش نے لکھا ہے کہ امریکا اور سعودی عرب مل کر شام میں بشارالاسد کی حکومت کو زیادہ سے زیادہ کمزور کرنا چاہتے ہیں تاکہ وہ مغربی دباؤ کے سامنے زیادہ جھکنے پر مجبور ہو۔
سیمور ہرش کا استدلال ہے کہ مغربی قوتیں مشرقِ وسطیٰ میں زیادہ سے زیادہ مداخلت یقینی بنانے کے لیے مختلف گروپوں کی مدد کرتی آ رہی ہیں۔ اس معاملے میں سعودی عرب بھی ملوث رہا ہے۔ سعودی وزیرِ خارجہ اور امریکا میں سابق سفیر بندر بن سلطان کا کہنا تھا کہ جن گروپوں کو فنڈ اور ہتھیار دیے جارہے ہیں، انہیں کسی نہ کسی طور کنٹرول کرلیا جائے گا۔ اس معاملے میں پروپیگنڈا بھی بہت کیا گیا ہے۔ اہل مغرب کے ذہن میں مختلف تھنک ٹینکس کے ذریعے یہ بات ٹھونسی گئی ہے کہ تبدیلی کی لہر مشرقِ وسطیٰ کے طول و عرض پر محیط ہے اور اس کے نتیجے میں اسلام نواز عناصر اقتدار میں آسکتے ہیں۔ اہل مغرب کو اسلامو فوبیا سے ڈراکر مشرقِ وسطیٰ میں مداخلت کی راہ ہموار کرنے کی بھرپور کوشش کی جارہی ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ مشرقِ وسطیٰ میں القاعدہ کو دوبارہ قدم جمانے کا موقع فراہم کرنے میں سب سے اہم کردار خود مغربی حکومتوں نے ادا کیا ہے۔ خطے کو عوامی لہر کے ذریعے جمہوریت کی منزل تک پہنچنے سے بچانے کے لیے دہشت گردی اور تشدد کا بازار گرم کیا گیا اور حکومت مخالف گروپوں کو زیادہ سے زیادہ انتشار پھیلانے کے لیے فنڈ فراہم کیے گئے۔ پروپیگنڈے کی شکل میں زیادہ سے زیادہ جھوٹ کو آگے بڑھانے اور قابل قبول بنانے میں مغربی طاقتوں نے تھنک ٹینکس اور تجزیہ کاروں کا سہارا لیا جن میں ڈینیل پائپس، رابرٹ اسپینسر، پامیلا گیلر اور ڈیوڈ ہورووز جیسے تجزیہ کار شامل ہیں۔
ایران اور شام میں حکومت کو کمزور کرنے کے لیے فرقہ وارانہ بنیاد پر ایک مضبوط محاذ قائم کرنے کا آغاز جارج واکر بش نے ۲۰۰۷ء میں کیا۔ ڈینیل پائپس اور اسی قبیل کے دوسرے نیو کونز یعنی مذہبی بنیاد پر انتہا پسندی کو فروغ دینے والے عیسائی تجزیہ کار ایک مدت سے اس بات پر زور دیتے آئے ہیں کہ ایران اور شام سے جنگ لڑی جائے۔ پہلے تو انہوں نے انتہا پسندی اور اسلامو فوبیا کا راگ الاپ کر چند گروپ کھڑے کیے اور اب یہ راگ الاپ رہے ہیں کہ ان گروپوں کو تقویت اسلام نواز اوباما سے ملی ہے۔
مغرب کے عوام بھی اس بات کو سمجھتے ہیں کہ ان کی حکومتیں جو کچھ کر رہی ہیں وہ تہذیبوں کے درمیان تصادم کے نام پر اسلامی حکومتوں سے زیادہ سے زیادہ کشمکش کی راہ ہموار کرنے اور ٹکرانے کی پالیسی کے سوا کچھ نہیں۔ جس القاعدہ کو سابق سوویت یونین کے خلاف بھرپور انداز سے استعمال کیا گیا تھا، اسے بعد میں نظر انداز کردیا گیا۔ پھر جب ضرورت پڑی تو اسے مشرق وسطیٰ میں نئی زندگی بخشی گئی اور حکومتوں کا تختہ الٹنے کے لیے عمدگی سے استعمال کیا گیا۔ اور اب پھر القاعدہ کو ایسے حالات پیدا کرنے کے لیے دیدہ دلیری سے استعمال کیا جارہا ہے جو مشرق وسطیٰ میں مغربی حکومتوں کی مداخلت کی راہ ہموار کرنے میں اہم ترین کردار ادا کریں گے۔
بارک اوباما کا دوبارہ صدر منتخب ہونا چین، روس، شام اور ایران کی حکومتوں کے خلاف سرگرم گروپوں کے لیے مزید فنڈنگ اور ہتھیاروں کی راہ ہموار کرے گا۔ امریکا کسی نہ کسی طور اپنی استعماری حیثیت کو محفوظ رکھنا چاہتا ہے۔ اس کی خواہش اور کوشش ہے کہ عالمی امور میں اس کی فیصلہ کن حیثیت برقرار رہے۔ ان چاروں حکومتوں کو مختلف محاذوں پر مخالف گروپوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔
امریکا اور برطانیہ نے مل کر جو بین الاقوامی مالیاتی نظام تیار کیا ہے، اس پر وہ پوری طرح متصرف رہنا چاہتے ہیں۔ اس معاملے میں وہ چین، روس یا کسی اور ملک کے بڑھتے ہوئے اثرات کسی بھی حال میں برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں۔ امریکا میں حکومت خواہ کسی پارٹی کی ہو، قومی ایجنڈا وہی رہتا ہے، جو رہتا آیا ہے۔ امریکی بالا دستی کو ہر حال میں یقینی بنایا جائے اور عالمی امور میں امریکا کی بات توجہ سے صرف سنی نہ جائے بلکہ اس پر عمل بھی کیا جائے۔
(“West Attempts to Trigger Clash of Civilizations”… “Global Research”)
Leave a Reply