
موجودہ دور میں عزت و ذلت، بلندی و پستی اور شرافت و رذالت کے معیار بالکل الٹ کر رہ گئے ہیں، حقائق کو مسخ کرنے اور سچائی کو مشتبہ کرنے کا جو کام عصرِ حاضر کے نام نہاد ترقی پسندوں کی وجہ سے ہوا ہے، وہ تاریخِ عالم کا ایک ایسا تاریک ترین اور شرمناک باب ہے جس کے سامنے تمام سیاہیاں ماند پڑ جاتی ہیں۔
اس کا ایک نمایاں مظہر یہ بھی ہے کہ بے شمار مشرقی مسلم خواتین کا اس وقت یہ تصور اور خیال ہے کہ مغرب میں خواتین کو معاشرے میں نمایاں ترین مقام حاصل ہے، آزادی کی دولتِ بے بہا میسر ہے، تمام حقوق ملے ہوئے ہیں، تمام شعبہ ہائے حیات میں ان کے کارنامے ہیں، ہر مرحلے پر ان کا اہم رول ہے اور زندگی کی تمام نعمتوں اور رونقوں سے وہ مالا مال ہیں۔ مشرقی خواتین کا مغربی خواتین کے بارے میں یہ تصور دراصل مشاہدہ و تجربہ نہیں بلکہ میڈیا کی فراہم کردہ اطلاعات، خبر رسانیوں، منظر کشی اور پروگراموں پر مبنی ہے، میڈیا کے ذریعہ آزادیٔ نسواں کی پُرفریب صدا عرصۂ دراز سے لگائی جاتی رہی ہے اور آزادی کے نتیجہ میں حاصل ہونے والے فوائد اور مغربی خواتین کی پُرعیش زندگی کے نمونے مختلف شکلوں میں سنائے، دکھائے اور پیش کیے جاتے ہیں، مختلف عالمی تنظیموں اور تحریکوں کی طرف سے مساواتِ مرد و زن کی صدا بھی لگائی جاتی ہے۔
مقصد یہ ہوتا ہے کہ مسلمان خواتین تہذیب مغرب کی تجلیات سے خیرہ ہو کر اسی کی پیروکار بن جائیں اور اسلامی اعلیٰ اقدار و اخلاق سے دستکش ہو جائیں، اپنی مذہبی و تہذیبی ذمہ داریوں سے غافل ہو جائیں، اپنے فطری کاموں اور فرائض کو چھوڑ کر یورپ کی بے حجابانہ اور عریاں آزادی کے حصول کے لیے پوری طرح سے سرگرم ہو جائیں۔ اس طرح ان کی پاکیزگی داغدار ہو جائے، ان کی عزت کی چادر تار تار ہو جائے، ان کی کرامت و شرافت گدلی ہو جائے، بے حجابی اور اختلاطِ مرد و زن والے ماحول کے اثرات سے اُن کے دیدوں کا پانی اُتر جائے، وہ حیا چھوڑ کر بے حیائی کو اختیار کر لیں اور خواہش پرست انسانوں کے دامِ فریب میں آجائیں اور انہی کا نشانہ بن جائیں اور اس طرح اپنے دین و مذہب سے مکمل بیگانہ و بیزار ہو کر یورپین کلچر میں اس طرح ضم ہو جائیں کہ اسلام کا کوئی اثر ان کے کردار، باطن، سیرت اور صورت و ظاہر اور قول و عمل میں نظر ہی نہ آئے اور پھر یہ سب کچھ وہ اس طرح کہ وہ اپنے کو ذلت سے نکل کر عزت میں اور پستی و رذالت سے نکل کر بلندی و شرافت میں آنے والا باور کریں اور ان کے ذہنوں میں یہ راسخ ہو چکا ہو کہ اسلام میں عزت و شرافت نہیں، وہ تو دقیانوس، رجعت پسند، شدت پسند اور آئوٹ آف ڈیٹ مذہب ہے جبکہ مغربی کلچر میں عزت و شرافت ہے، بلندی و کمال ہے اور وہ ہر لحاظ سے نئے دور سے ہم آہنگ ہے، فطری تقاضوں کے موافق ہے، اپ ٹو ڈیت ہے اور اس میں تمام مشکلات کا حل اور تمام مسائل کا مداوا ہے۔ ظاہر ہے کہ جب تصورات اس رخ پر آجائیں کہ حقائق مسخ ہو جائیں اور معیارِ عزت و ذلت معکوس ہو جائے تو پھر درستی اور اصلاح کے مواقع بے حد کم ہو جاتے ہیں۔
مغربی میڈیا اپنے ان مقاصد میں کافی کامیاب بھی ہوا ہے، بے شمار مشرقی گھرانوں میں اس نے شب خون مارے ہیں، کج فکر اور بے حجابانہ آزادی کے طالب اور دین سے محروم افراد اس کا نشانہ بنے ہیں، مشرقی خواتین مغربی خواتین کے شانہ بشانہ ہر کام میں شریک ہوئیں، آزادی کی تلاش میں ان کا دامنِ عصمت تار تار ہوا، وہ نشہ آور اشیا کی عادی ہوئیں، وہ اخلاق سے عاری ہوئیں، مادی زیب و زینت اور چمک دمک نے ان کو اپنا اسیر بنایا، اس طرح وہ ذلت اور پستی کی آخری حدوں کو جا پہنچیں اور پھر ان میں سے بہتوں کو اپنی نادانی کا احساس بھی ہوا اور پھر وہ راہِ راست پر آئیں۔
مشہور اسلامی مفکر و اسکالر ڈاکٹر مصطفی سباعی نے اپنی کتاب ’’المراۃ بین الفقہ والقانون‘‘ میں اپنے المناک مشاہدات کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ’’میں نے یورپ کا چار بار دورہ کیا ہے اور ہر بار مجھے سب سے زیادہ دکھ اور رونا اس پر آیا کہ مغربی عورت بڑی حرماں نصیبی کی زندگی گزار رہی ہے، آزادی کے نام پر اسے رسوا کیا جارہا ہے، وہ ہر ایک کے لیے نوالۂ تر بنی ہوئی ہے، مغربی مرد عورت کی کمزوری کی قیمت وصول کر رہا ہے، اسے ہر طرح ذلیل کر رہا ہے، اس کا استحصال ہو رہا ہے، مادی منافع اور جنسی خواہشات کی تکمیل کے لیے عورتیں استعمال کی جارہی ہیں، سنیما، ٹی وی، رنگین میگزین اور نمائشوں اور ان میں مغربی خواتین کا کردار دیکھ کر جو لوگ دھوکا کھاجاتے ہیں اور اسے آزادی اور بلندی باور کرتے ہیں، درحقیقت وہ بہت کوتاہ بیں ہیں، اگر یورپ میں دس عورتیں اونچے مناصب پر فائز اور بلند مرتبہ ہیں تو دوسری طرف وہی دسیوں ملین عورتیں غلاموں جیسی پابند اور ذلت آمیز شرمناک زندگی گزارنے پر مجبور ہیں‘‘۔
وہاں کی معاشی تنگ حالی نے عورتوں کو مختلف شعبوں میں مختلف سطحوں پر ملازمت اور کام کرنے پر بھی مجبور کر دیا ہے، ڈاکٹر سباعی لکھتے ہیں ’’لڑکی جب سترہ سال کی ہو جاتی ہے تو عموماً اس کے باپ اور اہلِ خانہ اس کے مصارف برداشت کرنے کے پابند نہیں ہوتے بلکہ اسے خود اپنے لیے کام ڈھونڈنا پڑتا ہے، شادی کے بعد اسے اپنے گھر اور بچوں کی کفالت کے لیے شوہر کی طرح ملازمت کرنی پڑتی ہے، بڑھاپے میں ناتوانی کے باوجود اسے اپنے گزارہ کے لیے کام کرنا پڑتا ہے، اس کے بیٹے خواہ کتنے ہی مالدار اور صاحبِ ثروت کیوں نہ ہوں، اس کا خرچ بالکل نہیں سنبھالتے‘‘۔
اس ابتر صورتحال کے اصل سبب کا ذکر کرتے ہوئے شیخ سباعی نے لکھا ہے کہ ’’اس مادی فلسفہ کا سب سے اہم سبب اور اثر یہ ہے کہ وہاں عورتوں کے تئیں انسانیت، اکرام، محبت اور مودت کا کوئی تصور ہی نہیں ہے، وہاں عورتوں کو صرف تکمیلِ شہوات کا ذریعہ باور کیا جاتا ہے، اس کا نتیجہ یہ ہے کہ نہ اولاد کی صحیح تربیت ہے اور نہ اولاد کے نزدیک والدین کا احترام بلکہ پورا خاندنی نظام مفلوج و منتشر ہے، صورتحال ہر لحاظ سے قابلِ تشویش ہے‘‘۔
امریکا کے بعض اداروں نے یہ سروے بھی کرایا ہے کہ کتنی خواتین ملازمت کرنی چاہتی ہیں اور کتنی خواتین ملازمت چھوڑ کر اپنی خانگی و داخلی ذمہ داریاں نبھانا چاہتی ہیں؟ محتاط اندازہ کے مطابق امریکا کی ۶۵ فیصد خواتین ملازمت سے تنگ ہیں، وہ مجبوراً ملازمت کر رہی ہیں اور ان کی دلی خواہش یہ ہے کہ وہ ملازمت کی ذلت سے خلاصی حاصل کر کے خانگی کام سنبھالیں۔
اس صورتحال کے پس منظر میں مشرقی مسلم خواتین کا یہ فرض بنتا ہے کہ وہ اسلامی تہذیب کو اپنی آخری پناہ گاہ سمجھیں اور یہ یقین کر لیں کہ اس کے مقابلہ میں کوئی تہذیب نہیں، وہ بلندی، رفعت، حیا، پاکدامنی، عزت، کرامت و شرافت، تقدس اور اخلاقی قوت نہیں دے سکتی جو اسلام نے ان کو عطا کی ہے۔
دعوتی کام کرنے والوں کی یہ بھی ذمہ داری ہے کہ وہ اسلام کی ان مقدس تعلیمات سے خواتین کو روشناس کرائیں جن میں خواتین کے حقوق کا ذکر ہے اور مغربی تہذیب کے نقصانات سے بھی آگاہ کرائیں۔
اسلام کا خاندانی نظامِ معاشرت اگر پوری طرح سے اپنا لیا جائے تو تمام مسائل حل ہو سکتے ہیں، اسلامی نظامِ معاشرت اور مغربی نظامِ معاشرت کا سب سے واضح فرق یہی ہے کہ مغرب میں خاندانی نظام ٹوٹ رہا ہے، منتشر ہو رہا ہے، میاں بیوی میں اعتماد و محبت کا فقدان ہے، مغربی مفکرین و فلاسفہ مضطرب ہیں کہ مغربی معاشرتی نظام کس تدبیر سے بکھرنے اور ٹوٹنے سے بچ سکتا ہے۔
جبکہ اسلامی نظامِ معاشرت اتحاد، اعتماد، محبت اور خوفِ خدا کی ناقابلِ شکست بنیادوں پر استوار ہے جسے کبھی توڑ اور بکھیرا نہیں جاسکتا، خواتین اسلامی سوسائٹی کی عظیم رکن اور موثر و فعال عضو ہیں، ان کی ذمہ داری ہے کہ وہ مغربی تہذیب کا سایہ بھی اپنے اوپر نہ پڑنے دیں، خواتین فضائل بشری میں مردوں سے پیچھے نہیں ہیں۔ دینی معاملات میں وہ مردوں کے ساتھ برابر کی شریک ہیں، ہر جگہ ان کی خدمات ہیں، علم و ادب، حدیث و تفسیر، جہاد و استقامت ہر میدان میں ان کے قابلِ رشک کارنامے ہیں، اﷲ کی رحمت و بخشش میں بھی کامل مساوات ہے، وہاں مرد و زن میں تفاوت نہیں ہے۔
اس وقت ضرورت اسلامی نظامِ معاشرت کو عام کرنے اور مغربی نظام کا بائیکاٹ کرنے کی ہے، مغربی نظامِ زندگی حقیقی لذت و سرور و سکون سے خالی اور محروم ہے، وہاں تیز رفتار ترقیات ضرور ہوئی ہیں، محیر العقول سائنسی کارنامے ضرور ہیں مگر اپنی زندگی اور خاندان میں کوئی اصلاح اور سدھار ان سے نہ ہو سکا۔ بقول علامہ اقبال:
جس نے سورج کی شعائوں کو گرفتار کیا
زندگی کی شبِ تاریک سحر کر نہ سکا
ڈھونڈنے والا ستاروں کی گزر گاہوں کا
اپنے افکار کی دنیا میں سفر کر نہ سکا
اپنی حکمت کے خم و پیچ میں الجھا ایسا
آج تک فیصلۂ نفع و ضرر کر نہ سکا
مغرب کا دلفریب نعرہ ’’آزادی اور جدت‘‘
کسی بھی معاشرہ کے بگاڑ اور زوال کی علامت یہ ہوتی ہے کہ وہ اپنی قدروں، اصول اور طریقِ کار کو پسِ پشت ڈال کر دوسروں کی دریوزہ گری کرے اور اپنی سماجی و مذہبی خصوصیات و امتیازات سے دستکش ہو کر دوسرے سماجوں اور تہذیبوں کی چاکری کرے۔
ازدواجی زندگی کا جو تصور اسلام نے دیا ہے، وہ مغرب کے وضع کردہ قوانین سے یکسر مختلف ہے۔ مغربی اصول میں جنسی، نسلی اور قومی فرق اور بھید بھائو کو بنیادی درجہ دیا گیا ہے، وہاں کالے گورے کا فرق ہے اور گوروں کو کالوں سے بلند مرتبہ قرار دیا جاتا ہے۔ وہاں مرد و زن کی مساوات کا جو نعرہ لگایا جاتا ہے، اس میں حقوقِ نسواں کا اعلان بھی بڑے شد و مد سے کیا جاتا ہے، اہلِ مغرب زندگی کے ہر شعبہ میں عورت کو مرد کی صف میں مساویانہ کھڑا کرتے ہیں اور اسے اپنا تہذیبی امتیاز قرار دیتے ہیں اور یہ باور کراتے ہیں کہ صدیوں کی غلامی کے بعد انھوں نے عورتوں کو آزادی دلا دی ہے اور اب عورتوں کے آلام و مصائب کا دور ختم ہو چکا ہے۔
ان دلفریب نعروں کا عورتوں نے استقبال کیا اور متاثر ہو کر اپنا وقار اور حیا تار تار کر کے میدان میں آگئیں اور اپنے آپ کو آزاد اور خودمختار باور کیا لیکن اگر بغور جائزہ لیا جائے تو آزادیٔ نسواں کے نام پر کیے جانے والے پروپیگنڈہ کا فراڈ کھل کر سامنے آتا ہے کہ ان مغربی ممالک میں تمام گھٹیا اور نچلے کام عورت کے سپرد ہیں اور بلند عہدوں تک رسائی ان میں سے ایک فیصد کی بھی نہیں ہے۔
تہذیبِ حاضر کی ہر کل ٹیڑھی ہے، عورت اپنے اہلِ خانہ کی خدمت کر لے تو یہ دقیانوسیت اور رجعت پسند قرار پائے مگر وہی عورت اگر برسرِ عام ہوٹلوں میں، ہوائی جہازوں میں، پبلک دکانوں میں ویٹر، روم اٹنڈنٹ، ایئر ہوسٹس اور سیلز گرل بن کر خدمت کرے اور لوگوں کی ہوسناک نگاہوں کا ہدف بنے تو یہ آزادی ہے، جدت و اعزاز ہے۔
ماں ساٹھ سال سے زیادہ عمر کو پہنچ جائے تو اسے معذورین کے لیے موجود خاص مکان میں منتقل کر دیا جاتا ہے، نرسیں اس کی دیکھ بھال کرتی ہیں، نتیجتاً ماں محبت، خلوص اور بے غرض خدمت سے محروم ہو جاتی ہے، وہ کسمپرسی اور بے چارگی کا شکار ہو کر موت کی منتظر رہتی ہے، کسی بیماری کا شکار ہو جانے پر اسے ہاسپٹل میں ہی شفٹ کر دیا جاتا ہے اور ہاسپٹل کا عملہ دیکھ بھال کرتا ہے، اولاد کی ذمہ داری صرف مصارف ادا کرنے کی ہی رہ جاتی ہے، غرض یہ کہ مغربی نظام نے آزادی، جدت اور مساوات کے نام پر پورا خاندانی نظام (Family System) تباہ کر دیا ہے اور اسلامی خاندانی نظام کے اصولوں پر تیشے چلانے کی کوشش کی ہے۔
اسی مغربی نظام اور پروپیگنڈہ کی کشش ہے کہ زِنا عام ہو رہا ہے، زن و شو کے تعلقات بگڑ رہے ہیں، خواتین ماں بننے سے گریزاں ہیں اور پورا معاشرہ بے حیائی کی آخری حدیں چھو رہا ہے، تبادلۂ ازدواج کی بدترین رسم بھی جاری ہے، غیرقانونی بچے بڑھتے جارہے ہیں، ناجائز رشتے بڑھتے جارہے ہیں، خواہشِ نفس کی ہر طرح تکمیل کو سب کچھ سمجھ لیا گیا ہے۔ طرفہ تماشا یہ ہے کہ مغرب زدہ افراد اپنے نظام کی تمام تر خرابیوں اور مفاسد کا اندازہ کرنے کے باوجود بھی اسلام مخالف حرکتوں سے باز نہیں آرہے ہیں اور جگہ جگہ یہ پروپیگنڈہ کر رہے ہیں کہ اسلام نے عورتوں کو قید کر دیا ہے، اسلام میں خواتین کا کوئی احترام نہیں، مساوات نہیں، وہاں عورتوں کو دوسرا درجہ دیا گیا ہے اور بہت بڑا ظلم کیا گیا ہے۔
جبکہ اسلام نے تمام شعبہ ہائے زندگی میں جو جامع، متوازن اور معتدل اصول تیار کیے ہیں، ان کی پیروی ہی ہر مرض کا علاج اور ہر نقصان کی تلافی اور ہر بگاڑ کی اصلاح کا کام کر سکتی ہے، اسلام نے عورت کو جو عزت اور مرتبت عطا کی ہے، وہ بے نظیر ہے، رسول اﷲﷺ کا ارشاد ہے: ’’تم میں سب سے بہتر وہ ہے جو اپنے اہل و عیال کے لیے بہتر ہو اور میں تم میں اپنے اہل و عیال کے حق میں سب سے بہتر ہوں‘‘۔ ایک حدیث میں فرمایا گیا ہے کہ ’’خواتین کی عزت شریف ہی کرتا ہے اور بے عزتی رذیل شخص ہی کرتا ہے‘‘۔
اسلام میں نکاح و شادی ایک پاکیزہ بندھن ہے جس میں محبت، ہمدردی، پاکدامنی، پاکیزگی، صالح معاشرہ کی تشکیل، معتدل ترین خاندان کی تعمیر، اسلامی خطوط پر تعلیم و تربیت اور حقوق شناسی اور حقوق کی ادائیگی وغیرہ تمام امتیازات ہیں جبکہ مغرب میں اس طرح کا کوئی تصور نہیں ہے، وہاں ناجائز رشتوں کی بھرمار ہے اور ازدواجی زندگی حد سے زیادہ کمزور اور بے اثر ہے بلکہ وہاں ایسے اخبارات، میگزین اور کمیٹیاں ہیں جو اخلاقی بگاڑ اور ازدواجی زندگی میں خیانت کی دعوت دیتے ہیں، وہ عریانیت اور برہنگی کو تہذیبی امتیاز قرار دیتے ہیں اور پردہ و حجاب کو دقیانوسیت کہتے ہیں۔ بعض اخبارات میں اس طرح کی سرخیاں بھی آتی ہیں کہ کیا آپ اپنی شریکِ حیات کو دھوکہ دینا اور اس کے ساتھ خیانت کرنا چاہتے ہیں؟ کیا آپ اپنی بیوی کے سامنے کوئی بہانہ کرنا چاہتے ہیں؟ اس سلسلہ میں۔۔۔ سے مدد طلب کیجیے۔ اس کو کمائی کا ایک ذریعہ بھی بنا لیا گیا ہے اور خیانت کے طریقے سکھانے والوں نے لاکھوں ڈالر کما لیے ہیں۔ ابھی حال ہی میں سوڈان میں خرطوم کے گورنر ڈاکٹر مجذوب نے ایک قانون پاس کیا ہے جس میں ہوٹلوں وغیرہ میں عورتوں کو ملازمت سے روک دیا گیا ہے، اس قانون کو وہاں کے علما اور ائمہ نے پوری طرح قبول کیا ہے اور اسے خوش آئند اِقدام قرار دیا ہے، مگر اس پر مغربی میڈیا بڑے شد و مد سے جھنجھلا رہا ہے اور اسے آزادیٔ نسواں پر حملہ قرار دے رہا ہے۔
مغرب کی ازدواجی زندگی میں صرف جنسی تسکین ہی مرکزی اہمیت رکھتی ہے، وہاں آزدانہ اختلاط ترقی یافتہ ہونے کی علامت ہے اور اسی آزادی کی دعوت اہلِ مغرب ہر طرح کے وسائل استعمال کر کے دے رہے ہیں، میڈیا کا تمام تر زور اسی پر ہے اور وہ فحاشی، آوارگی، عریانیت کا سب سے بڑا ذریعہ بن چکا ہے۔
باعثِ افسوس بات ہے کہ یہ دعوت قبول عام حاصل کر رہی ہے اور اسلامی ممالک میں بھی اس وبا کی شدت کچھ کم نہیں ہے، فرزندانِ توحید جو ایسے نظام کے حامل ہیں جس میں سراپا خیر و اعتدال ہی ہے اور تمام مسائل کا حل ہے، ان کا اپنے تہذیبی و معاشرتی اَقدار سے غافل ہو کر مغربی نظام کے پیچھے دوڑنا ایک عجیب و غریب سانحہ ہے اور اسی میں ان کے زوال اور ضعف کا راز بھی مضمر ہے۔
(بشکریہ: خصوصی اشاعت سہ روزہ ’’دعوت‘‘ نئی دہلی۔ دسمبر ۲۰۰۶ء)
Leave a Reply