
گزارش ہے کہ ’’تفہیم مغرب‘‘ کے حوالے سے کچھ معروضات تمہیداً ضروری ہیں۔ کسی بھی علمی سرگرمی کا آغاز موضوع اور اسلوبِ استدلال پر اتفاق کے بعد ہی ممکن ہوتا ہے۔ ذیل کی گزارشات کسی حتمی نتیجے کی بجائے تجویز کے طور پر پیش کی جا رہی ہیں:
(۱) مغرب سے مراد اولاً وہ معاشرہ اور تہذیب ہے جو یورپی قرونِ وسطیٰ کے بعد یورپی جغرافیے میں ایک نئے نظام افکار کے ساتھ بتدریج ظاہر ہوئی۔ ثانیاً، امریکا اس مراد میں شامل ہے جو اس تہذیب ہی کی توسیع ہے اور جہاں بیسیویں صدی میں مغربی تہذیب مکمل ثمر آور ہوئی اور اس تہذیب کا قائدانہ رول منتقل ہوا۔ ثالثاً، کولمبیائی عہد سے آغاز کردہ یورپی استعماری مہم جوئی، سرمایہ داری نظام کی حربی توسیع، اور یورپ کا عالمگیر سیاسی، معاشی اور ثقافتی غلبہ بھی ’’مغرب‘‘ کے زیر بحث تصور میں شامل ہے۔ ’’عصر حاضر‘‘، ’’عہد جدید‘‘، ’’ہم عصر دنیا‘‘، ’’دور حاضر‘‘، ’’دور جدید‘‘ اور ’’جدید دنیا‘‘ وغیرہ کے تصورات بھی مغرب کی اس مراد میں متضمن ہیں۔ ہمارے ہاں گفتگو میں کچھ بے ترتیب اور الل ٹپ انداز میں ان پہلوؤں کی معمولی رعایت رکھی جاتی ہے۔
(۲) مغربی تہذیب نہ صرف اپنا ایک پورا self-statement رکھتی ہے جو مرقوم، معلوم اور قابل رسائی ہے، بلکہ وہ ثقہ علم کی معروف منہج پر ایک پورے نظامِ استدلال، علمی مقاصد اور تہذیبی شناخت سمیت فراہم ہے۔ مغربی تہذیب کا اپنے بارے میں بیان کسی منافقت، بددیانتی یا ابہام کا نتیجہ نہیں ہے بلکہ ایک نارمل تہذیبی سرگرمی سے پیدا ہوا ہے، اور مغربی تہذیب کی تفہیم کے تمام بنیادی اور فکری وسائل فراہم کرتا ہے۔ جو تہذیب اپنے تعارف کے علمی، فکری اور عملی وسائل سے محروم ہو وہ تہذیب ہونے کی تعریف پر پورا نہیں اتر سکتی۔ علمی دیانت کا تقاضا یہ ہے کہ تفہیمِ مغرب کی بنیاد اسی self-statement پر استوار کی جانی چاہیے۔ مغربی تہذیب کے خود فراہم کردہ ان تمام وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے، اور اس کی طرف کوئی غلط اور ناجائز بات منسوب کیے بغیر، مغربی تہذیب اور معاشرے کے تمام پہلوؤں کی تفہیم ممکن ہے۔ یہاں تفہیم سے مراد تسلیم نہیں ہے۔ ان دونوں میں ضروری امتیازات کو قائم رکھنا علمی دیانت کا اولین تقاضا ہے۔ ہمارے ہاں علمی گفتگو میں اس پہلو کو کسی بھی سطح پر درخور اعتنا نہیں سمجھا گیا۔ اس کی ایک مثال جمہوریت اور ریاست کی بحث ہے جو مکمل طور پر بددیانتی پر مبنی ہے۔ ہم مغرب کے اداروں اور مغربی فکر کی طرف ایسی باتیں منسوب کرتے ہیں جو امرِ واقعہ کے خلاف ہوتی ہیں اور علمی دیانت کی جڑ کاٹ دیتی ہیں۔ یہ نکتہ نظر نہ صرف ہم عصر دنیا کی تفہیم کو ممکن نہیں رہنے دیتا بلکہ جعلی تعبیرات سے ہمارے دینی علوم کو بھی مسخ کر دیتا ہے۔
(۳) ہر معاشرے کے سیاسی عمل اور ریاست میں فرماں روائی کی رازداری، خفیہ حربی منصوبہ بندی، مفاد پرستی، دشمن کو نقصان دہی اور خفیہ اطلاعاتی نظام معمول کے طور پر موجود ہوتے ہیں۔ سیاسی طاقت کا یہ مظہر ہر معاشرے کے سیاسی اور حربی عمل کا حصہ ہے اور اس کو بنیاد بناتے ہوئے تفہیم مغرب کو کسی نظریہ سازش پر استوار کرنا ہمارے خیال میں درست علمی طریقہ کار کے منافی ہے۔ نظریہ سازش پست ترین پروپیگنڈاتی سطح ہے، اور تفہیم مغرب میں اس کو کوئی دخل نہیں ہو سکتا اور نہ اس سے کسی علمی فائدے کا امکان ہے۔ ان پہلوؤں کو بین الاقوامی تعلقات، سفارتکاری اور طاقت کی حرکیات میں معروف معیار پر زیربحث لایا جاتا ہے، اور وہ تفہیم مغرب کا بنیادی موضوع نہیں ہے۔ ہمارے ہاں تفہیم مغرب کو نظریہ سازش کا ایک جز تصور کیا گیا ہے، اور مغرب کے بارے میں ہماری کل معلومات اسی طرح کی لغویات پر مبنی ہیں۔ ہم بھول جاتے ہیں کہ سازش طاقتور کے خلاف ہوتی ہے اور پالیسی کمزور کے بارے میں بنتی ہے۔ اس حوالے سے ہمیں مغرب کی پالیسی کو سمجھنے کی کوشش کرنی چاہیے جو خاصا محنت طلب کام ہے۔ مغرب کی کوئی تفہیم نظریہ سازش سے ممکن نہیں۔
(۴) ہر تہذیب کی طرح، مغرب نے اپنی حربی توسیع اور استعماری مہم جوئی میں دنیا کی تمام دیگر تہذیبوں اور معاشروں کی تفہیم کو ایک ضروری علمی سرگرمی خیال کیا، اور ایک غیرمعمولی علمی اور فکری ذخیرہ پیدا کیا ہے۔ اس وسیع علمی ذخیرے کی تشکیل میں مغرب کی اپنی تاریخی اور سیاسی ’’ضرورت‘‘ اور اس کے اپنے تہذیبی تناظر کو مرکزیت حاصل ہے۔ اس ذخیرے سے علمی تعرض کرتے ہوئے اس بنیادی حقیقت کو نظرانداز کرنا فکری اور علمی دیانت کے خلاف ہو گا۔ یہ علمی ذخیرہ مغرب کے self-statement سے صراحتاً الگ ہے، اور اس کی حیثیت Statement on the other ہے جس میں اپنے مقابل اور مخاصم کی طرف ایسا بہت کچھ منسوب کیا گیا ہے جو ہر طرح سے محل نظر ہے۔ یعنی مغرب کی طرح، اس کی مقابل کسی بھی تہذیب کو self-statement کے حق سے محروم نہیں کیا جا سکتا کیونکہ یہ علمی دیانت کے خلاف ہے۔ مثلاً ہماری طویل علمی روایت میں اسلام ہماری تہذیبی اساس اور ورلڈ ویو کے طور پر ہمہ قسم داخلی علمی سرگرمی کا موضوع رہا ہے، جو اپنی ایک داخلی جدلیات رکھتا ہے اور جو یقیناً monolithic نہیں ہے۔ اسلامی تہذیب سے تعامل میں مغرب نے بھی اس کے بارے میں ایک غیرمعمولی علمی ذخیرہ پیدا کیا ہے۔ اسلامی تہذیب کی داخلی اور مغربی تفہیم کے تناظر مختلف ہیں، اور ان کے مقاصد بھی متغائر ہیں۔ تفہیم مغرب میں اس امر کو ملحوظ رکھنا ضروری ہے۔ سادہ لفظوں میں استشراق کو استعمار کے طور پر دیکھنا اور سمجھنا ضروری ہے۔ ہمارے ہاں اس پہلو سے بدترین درجے کی غفلت برتی گئی اور استشراقی دباؤ میں ہم نے اپنی پوری دینی اور علمی روایت کو انتہائی پست ترین سطح پر ازسرنو منظم کیا تاکہ ’’مستشرقین کے اعتراضات کا جواب دیا جا سکے‘‘۔ اس میں ہمیں جو کامیابی ہوئی، وہ تو سب کے علم میں ہے۔ لیکن اس سے کرنے کا کام رہ گیا اور جو تباہی آئی اس پر ہم نے کبھی سوچا بھی نہیں۔ دینی ہدایت کا مستقل اور غیرمبدل ہونا ہمارا ایمان ہے۔ لیکن اس سے مراد سماجی، معاشی، ثقافتی اور تاریخی حالات کا غیرمبدل رہنا نہیں ہے۔ ان حالات کے یکسر بدلنے سے دینی ہدایت سے جڑنے کے لیے ہم نے جو علمی اور عملی ہیئتیں بنا رکھی تھیں وہ غیرمتعلق ہو کر غیر اہم ہو گئیں۔ اب ہمیں دینی ہدایت کو تبدیل کیے بغیر نئی علمی اور عملی ہیئتوں کی ضرورت تھی، اور یہ ہمارے کرنے کا کام تھا۔ ایک طرف ہم نے اس تبدیلی کے ادراک سے پہلو تہی کی اور دوسری طرف ’’مستشرقین‘‘ کا جواب دیتے دیتے اپنے ہی دین کا پورا حلیہ ہی بدل ڈالا اور یہ صورتحال ابھی تک جاری ہے۔
(۵) اپنے ہی مستند اور ثقہ بیان کے مطابق، جدید مغرب ایک خاص تصورِ انسان، ایک خاص تصور معاشرہ، ایک خاص تصورِ سیاست، ایک خاص تصور سرمایہ، ایک خاص تصور تاریخ، ایک خاص تصور علم، ایک خاص تصور عمل، ایک پوری منشائیات (originary hypotheses)، ایک پوری غائیات (Teleology)، ایک پوری فرجامیات (Eschatology) اور ایک پورا تصور کائنات رکھتا ہے، کیونکہ وہ ایک پوری تہذیب ہے، ہماری چائے کا ’’اسلامی‘‘ کھوکھا نہیں ہے۔ مغرب نہایت دوٹوک انداز میں یہ بیان کرتا ہے کہ وہ suigeneris ہے، وہ ایک uniquity رکھتا ہے، اور اس نے اپنی تشکیل خود اپنی ہی مذہبی تاریخ کے علی الرغم اور بالمقابل کی ہے، اور وہ خود اپنی ابداع اور اپنی ہی تخلیق ہے۔ یہ ممکن ہے کہ اس نے کسی کھڑکی کی کنڈی کا ڈیزائین یا قمیض کے بٹن کا نمونہ کسی سے مستعار لیا ہو، لیکن بقولِ مغرب وہ اپنی وجودی شناخت اور عمل میں کسی بھی دوسری تہذیب کا مرہون منت نہیں ہے۔ بلکہ مغرب پوری عالمی تاریخ کو اپنی تہذیب کے ایک سروس ڈیپارٹمنٹ کے طور پر دیکھتا ہے۔ تفہیم مغرب میں ان پہلوؤں کی رعایت خودآگاہی کے معیارات پر ضروری ہے۔ مغربی تہذیب کے یہی پہلو تفہیم مغرب کا جائز موضوع ہیں تاکہ انہیں اپنی تہذیب کے متوازی افکار یا اقدار کے ساتھ رکھ کر کوئی علمی اور دینی فائدہ حاصل کیا جا سکے، اور ان کے رد و قبول کو کوئی ثقہ علمی اور دینی بنیاد دی جا سکے۔ اس پہلو سے ہماری کارکردگی افسوسناک نہیں بلکہ شرمناک ہے کیونکہ ہم ابھی تک یہی ثابت کرتے پھر رہے ہیں کہ مغربی تہذیب اسلامی تعلیمات سے اخذ کی گئی ہے حالانکہ یہ بات ہم سے کوئی پوچھتا بھی نہیں، اور جب بتاتے ہیں تو کوئی سنتا بھی نہیں۔ یہ امر ہمارے تہذیبی احساس کمتری اور کسی نامعلوم guilt کا اظہار ہے۔
(۶) مغربی اور اسلامی تہذیب کا تعامل تاریخ کی بنیاد پر ہے، اور یہ کوئی تبلیغی سفر، سیاحت نامہ، اصلاحِ عامہ یا انسانی ترقی کا جذبہ وغیرہ نہیں ہے۔ اس تعامل کی بنیادی ترین حرکیات فتح و شکست اور طاقت کی جدلیات ہے۔ یعنی مغرب اور اسلام کا تعامل تلوار کی دھار پر ہے، اور جو نوک قلم پر ہے، تو وہ نوک بھی اس دھار کی انی ہے۔ اس طویل تاریخی تعامل کا نتیجہ مسلم تہذیب کی مکمل شکست اور مغربی غلبہ ہے اور جو مسلم تہذیب، معاشروں اور افراد کا روزمرہ کا تجربہ ہے۔ یہ بدیہیات میں سے ہے، اور اسے کسی منطقی یا علمی قضیے کی ضرورت نہیں۔ شکست اور غلبے کے تجربے کی معنویت ہمارے ہاں کسی فکر میں تفصیل یافتہ نہیں ہے، اس لیے یہ تجربہ ہماری شکست اور مغربی غلبے کے استمرار کا بنیادی ترین منبع ہے۔ ڈپٹی صاحب کے زیر اثر ہمارا خیال یہ ہے کہ اہل استعمار ہمیں شاعر فطرت ورڈزورتھ کی کوئی نظم پڑھانے آئے تھے یا فدوی کو انگریزی درخواست لکھنے کا فن سکھانے کے لیے یہاں تشریف لائے تھے۔
(۷) مسلم معاشروں میں جدید اور مغربی افکار، اعمال اور ادارے استعمار کے زیر سایہ داخل ہوئے، یعنی مسلم معاشروں کی ابتدائی جدید کاری شکست، محکومی اور ثقافتی غلبے کے جبری حالات میں ہوئی۔ سادہ لفظوں میں، مسلمانوں کی ’’تحصیلِ مغرب‘‘ شکست اور غلامی سے ہم قدم ہے، اور مسلمانوں کی ارادی کاوش یا فکری سرگرمی کو اس میں دخل صرف انفعالی ہے۔ محکوم مسلم معاشروں میں بنیادی بحث جبر کے حالات میں تحصیلِ مغرب کا مسئلہ تھا، تفہیمِ مغرب کا نہیں۔ اس میں بنیادی نزاع اس تحصیل یا عدم تحصیل کا مذہبی جواز تھا۔ جدید دینی تعبیرات کی ضرورت بھی یہیں سے پیدا ہوئی تھی۔ ہمارے مذہب کی قدیم و جدید تعبیرات میں فیصلہ کن اہمیت حالات کے سیاسی جبر کو حاصل رہی ہے۔ ضرورت کے جبر نے ہر تحصیل کو کشاں کشاں مذہبی جواز عطا کیا اور ضرورت ہی نے حق و باطل کی جگہ لی ہے۔ ان حالات میں جو مغرب تحصیل ہو چکا اس کی دینی جوازسازی بھی طوعاً و کرہاً سامنے آ کر رہی ہے۔ اب تحصیل کا یہ عمل مذہبی جوازسازی سے آزاد ہو کر آٹو پر منتقل ہو گیا ہے، کیونکہ حالات کے جبر نے مذہب کو جوازسازی کی پوزیشن سے بھی بے دخل کر دیا ہے۔ اب معاش، طاقت اور ثقافت کے جبر میں تحصیلِ مغرب مذہب سے اپنا جواز ازخود پیدا کر لیتی ہے، اگر اسے ضرورت ہو، لیکن زیادہ تر اس کی ضرورت ہی ختم ہو گئی ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ بتدریج مذہب کے روایتی مواقف تاریخ کی گرد میں اوجھل ہو گئے ہیں جن میں اہم ترین حق و باطل کے دینی اور تہذیبی تصورات تھے۔ یہ مفروضہ تو ہم نے پہلے ہی قائم کیا ہوا ہے کہ تہذیبِ مغرب اسلامی تعلیمات سے اخذ ہوئی ہے، اور اس کے بعد ہر مغربی چیز پر اسلامی اسٹیکر لگانے میں کتنی دیر لگتی ہے؟
(۸) ایک امر جو غیر معمولی طور پر حیرت انگیز ہے، اور انسانی تاریخ اس کی مثال لانے سے قاصر ہے، وہ مغربی اقبال مندی اور غلبے کے روبرو اسلامی تہذیب کا ردعمل ہے۔ مغرب کے خونریز غلبے کا تجربہ صرف مسلمانوں تک محدود نہیں ہے، بلکہ عالمگیر ہے۔ مجرد حمیتِ انسانی کی بنیاد پر ہر مغلوب معاشرے نے مغربی غلبے اور اس کے پیچھے قائم ایک پوری تہذیب کو سمجھنے کی کوشش کی ہے تاکہ اپنی بقا کے وسائل اور مزاحمتی عمل کے راستے تلاش کیے جا سکیں۔ کئی افریقی، لاطینی اور ایشیائی معاشروں نے جو کوئی قابل لحاظ علمی روایت نہیں رکھتے تھے، مغربی تہذیب کی تفہیم میں غیرمعمولی ادب پیدا کیا، اور اس غلبے کو کوئی تناظر دینے کی کوشش کی ہے۔ مسلمانوں کے ہاں عمل اور ارادے کی شکست تو تاریخ اور سماجی تجربے میں بدیہی ہے۔ لیکن ایک شاندار اور طویل علمی روایت کے حاملین کی حیثیت سے ان کے ذہن کی شکست مکمل اور کائناتی تو ہے ہی، حیرت انگیز بھی ہے۔ مسلمانوں کی طرف سے جو سب سے بڑی بات سامنے آئی وہ یہ تھی کہ جدید مغرب ان کے ماضی کی خوشہ چینی سے پیدا ہوا ہے۔ ہمیں شاید ابھی تک معلوم ہی نہیں ہو سکا کہ کوئی تہذیب اپنے بنیادی اور وجودی افکار کہیں سے ادھار نہیں لیتی، اس کے خانہ زاد ہوتے ہیں۔ اس سے بڑی پستی کی کوئی مثال شاید انسانی تاریخ میں نہ ہو کہ کوئی تہذیب اپنے قاتل کو اپنا بیٹا ہونے کا تاج پہنا دے۔ تفہیم مغرب میں ہمارے پاس صرف تین نام ہیں، اور وہ بھی اب ہمارے شعور سے غیرمتعلق ہو چکے ہیں: اکبر الہ آبادی، اقبال اور عسکری۔ لیکن ان کے ادراکات جمالیاتی روایت میں ہیں، اور جو کسی قابل لحاظ اور قابلِ تعرض فکری اور نظری روایت میں منتقل ہو کر کسی بڑی فکری تشکیل میں سامنے نہیں آ سکے ہیں۔
(۹) شکست، استعماری غلبے اور محکومی و غلامی کی پیدا کردہ تحصیلِ مغرب کی جبری فضا میں ہمارے علوم نے مغرب سے بالعموم مفاہمانہ اور معاشرے میں داخلی طور پر بالمعوم مخاصمانہ رویہ اختیار کیا۔ اس رویے سے مغربی تہذیب سے ہمارے اساسی امتیازات مٹتے چلے گئے اور باہمی فرقہ جاتی امتیازات حد سے زیادہ مضبوط اور ناقابل مفاہمت ہو گئے۔ چونکہ ہم علم میں اپنا اساسی تہذیبی امتیاز باقی نہیں رکھ سکے، اس لیے موجودہ حالات میں ہمارے پیدا کردہ داخلی فرقہ وارانہ امتیازات ختم ہوئے بغیر اب غیر اہم ہو گئے ہیں۔ ہم نے مذہبی فرقہ واریت کو جن امتیازات پر قائم کیا تھا وہ گہرے ہوتے مغربی غلبے میں ہماری تاریخی اور نفسی صورت حال میں اب بالکل غیرمتعلق ہوتے دکھائی دے رہے ہیں۔ یہ دیکھنا مشکل نہیں کہ مذہب کی بنیاد پر اب صرف ایسی علمی سرگرمی بامعنی رہ گئی ہے جو بلا تامل مغرب کی ہر چیز کو فوری جواز دے سکے۔ اور حیرت یہ ہے کہ ہم اب بھی اس صورت حال پر صرف جذباتی رد عمل سے آگے نہیں بڑھ سکے ہیں۔ ہم یہ نہیں بتا پاتے کہ جدید عہد میں علم کی تشکیل کے ذرائع اور وسائل کیا ہیں، یا سرمائے اور سیاسی عمل کی قوتوں کی تشکیل کس طرح ہوتی ہے، اور وہ کس طرح عمل کرتی ہیں یا ثقافت اور تعلیم کس طرح ہراول کے طور پر معاشرے کو بدل دیتے ہیں۔ ہم تھوڑی تھوڑی دیر بعد اونگھتے ہوئے یہ اعلامیہ مذہبی ذمہ داری کے طور پر ضرور جاری کرتے ہیں کہ مغرب نے جو کچھ لیا ہے ہم سے ہی لیا ہے۔ لیکن ہم اس سوال میں اب کوئی دلچسپی نہیں رکھتے کہ ہمارے ساتھ جو ہوا ہے وہ کیا ہوا ہے اور کیسے ہوا اور کس نے کیا ہے اور کیونکر کیا ہے۔ اس پستی کی وجہ سے ہم مغربی تہذیب کے صرف ان پہلوؤں کو دیکھ سکے جن کے بارے میں کہا جا سکے کہ ’’یہ ہم سے لیے ہیں‘‘، اور مغربی تہذیب کے بنیادی اور وجودی افکار کی موجودگی ہی سے غافل ہو گئے کیونکہ ان کے بارے میں یہ کہنا مشکل تھا کہ ’’یہ ہم سے لیے گئے ہیں‘‘۔
(۱۰) تحصیلِ مغرب اب ہمارے معاشروں میں ایک خودکار عمل کے طور ہمارے ارادے اور ذہن کی دسترس سے باہر، اور فقط ضرورت کے تابع ہے۔ ایسی صورت حال میں تفہیم مغرب کا سوال اٹھانا ایک خطرناک سرگرمی ہے کیونکہ اس سوال سے مذہب کا حق و باطل کا تصور زیربحث آ سکتا ہے اور ہماری دینی ذمہ داریوں پر سوال اٹھ سکتا ہے۔ ہم تھوڑی بہت ترقی کا اسلامی جواز دیتے دیتے گھگھیا کر شدید عدم تحفظ کا شکار ہو گئے ہیں، اور علمی سوالات اس میں شدت پیدا کر دیتے ہیں۔
(۱۱) برصغیر میں اٹھارھویں صدی کا نصف اول داخلی اور خارجی طور پر مسلم طاقت کے لیے شدید ترین خلفشار کا عہد ہے۔ نادر شاہ ایرانی کے حملے کا پس منظر یہاں جاری شدید ترین داخلی سیاسی جدلیات تھی جس کی قوت محرکہ شیعہ سنی کشاکش سے فراہم ہو رہی تھی۔ ہمایوں سے شروع ہونے والی عہد مغلیہ کی طویل ترین داخلی فکری اور سیاسی جدلیات شیعہ سنی ہے جو ایرانی حملے کی وجہ سے سنیوں کی مراکزِ طاقت میں شکست پر منتج ہوتی ہے۔ اس شکست کی وجہ سے مذہبی اور فکری جدلیات خود سنیوں کی دینی روایت کے اندر منتقل ہو جاتی ہے اور اٹھارھویں صدی کے نصف آخر میں حنفی وہابی جدلیات شروع ہوتی ہے جو ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی تک جاری رہتی ہے۔ حنفی وہابی جدلیات میں عقیدۂ توحید کے تمام روایتی علمی تناظر منہدم ہو کر ٹکڑوں میں بکھر جاتے ہیں، اور ساتھ ہی علم کے تمام تہذیبی تصورات کا خاتمہ ہو جاتا ہے۔ جنگ آزادی میں شکست کے بعد سنی داخلیت مزید گہری اور شدید ہو جاتی ہے، اور اس میں ایک نئی جدلیات کا آغاز ہوتا ہے جو اب عقیدۂ رسالت اور تصورِ جہاد کو اپنا ایندھن بناتی ہے۔ دینی روایت کا انتشار شدت اختیار کر جاتا ہے اور حنفی وہابی کے علاوہ مزید چار گروہ ظاہر ہوتے ہیں: دیوبندی، بریلوی، متجدد اور جھوٹی نبوت۔ ۱۸۵۷ء سے ۱۹۴۷ء تک ہماری دینی روایت کا بحران شکست در شکست اور انتشار در انتشار میں ہر طرح کی تہذیبی معنویت سے خالی ہو کر اپنی فرقہ وارانہ تشکیل مکمل کر لیتا ہے۔ برصغیر کی انتہائی پیچیدہ اور خطرناک سیاسی اور تہذیبی صورت حال میں ہمارے معاشرے کی یہ داخلی جدلیات اپنی شدت میں حیرت انگیز ہے اور اپنے نتائج میں مکمل تباہ کن۔ برصغیر کا مسلم معاشرہ جس صورتحال سے دوچار ہوا، وہ قطعی unique ہے، اور اسے کل ابعادی وجودی کشمکش کی صورتِ حال کہا جا سکتا ہے۔ مسلم معاشرے کی شکست، محکومی اور غلامی کے حالات میں شدید ترین داخلی جدلیات اپنی نوعیت میں غیرمعمولی ہے۔ مکمل ادبار اور نکبت میں جس طرح کے مسلم کردار ابھرتے رہے اور جس طرح کی داخلی اور خارجی جنگوں میں داد شجاعت دیتے رہے، وہ پوری صورتِ حال کو عجوبہ روزگار بنا دیتے ہیں۔ اس میں کیا شک ہے کہ اس فیصلہ کن عہد میں علما کا رول بہت مرکزی رہا ہے۔ لیکن اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ یہ طویل جدلیات کسی کنارے نہ لگ سکی، اور دینی روایت کی مکمل فرقہ وارانہ تشکیل پر ختم ہو جاتی ہے۔ اسی دوران میں مسلم عقیدے کی روایتی تہذیبی معنویت نہ صرف ختم ہو جاتی ہے بلکہ کسی نئی تہذیبی معنویت کی تشکیل کے امکانات بھی موہوم ہو جاتے ہیں۔ یہ تمام تر جدلیات مکمل طور پر داخلی ہے، اور اس میں کوئی ایسا مقام یا لمحہ نہیں ہے جہاں ہم نے غالب تہذیب سے کسی بھی سطح پر فکر میں کوئی جدلیاتی تعامل کیا ہو۔ اس سارے منظر نامے میں ایک واحد چیز جو حوصلہ افزا ہے وہ یہ ہے کہ ہم نے غالب مغربی استعمار کے ایک ثقافتی جز یعنی مشنری عیسائیت کو غیرمعمولی بصیرت اور علمی کاوش سے مکمل شکست دی۔ لیکن اس روشن باب میں شامل مولانا رحمت اللہ کیرانوی علیہ الرحمہ جیسی شخصیات اب ہمارے مذہبی، فکری اور تہذیبی شعور کا حصہ نہیں ہیں۔
(۱۲) تحصیلِ مغرب کے حوالے سے ۱۸۵۷ء کے بعد صورت حال مکمل طور پر بدل جاتی ہے۔ قیامِ علی گڑھ سے تحصیلِ مغرب کو برصغیر میں مسلم تہذیبِ جدید کے اصولِ اول کی حیثیت حاصل ہو گئی۔ یہ بدیہی امر ہے کہ تحصیل بغیر تفہیم کے حاصل نہیں ہو سکتی۔ علی گڑھ ہمارے ہاں تحصیلِ مغرب کے ادارہ جاتی قیام کا مظہر ہے، جس میں تفہیم اس ’’امرِ محمود‘‘ کا ایک بنیادی وسیلہ اور ذریعہ ہے۔ علی گڑھ میں تحصیلِ مغرب کو بالعموم وہی حیثیت حاصل ہو گئی جو مسلم معاشروں میں اسوہِ حسنہ کی تحصیل کو حاصل رہی ہے۔ یہیں سے ہمارے ہاں تحصیلِ دین اور تحصیلِ مغرب کا بنیادی تضاد پیدا ہوا جو آج تک حل طلب ہے۔ یہاں تحصیلِ مغرب، تحصیل دین کے بالمقابل ہے، کیونکہ یہاں قومی بقا اور ملی شناخت بالمقابل ہیں۔ تاریخی دباؤ میں قومی بقا کو ازخود اولیت حاصل ہو جاتی ہے۔ تحصیلِ مغرب کے ایک امر محمود کے طور پر قائم ہوتے ہی تفہیمی عمل مغرب کی اساسی اقدار اور اس کے ورلڈ ویو سے مزاحم کوئی پوزیشن اختیار نہیں کر سکتا کیونکہ ایسی صورت میں تحصیل ممکن ہی نہیں ہو پاتی۔ تفہیم مغرب میں ہمارا قضیہ صرف یہ ہے کہ کیا مغربی تہذیب کی اساسی فکر اور اقدار سے منفک کوئی تحصیل ممکن ہے یا نہیں؟ تحصیل کا دائرہ علم مغرب ہے، عملِ مغرب ہے، اور ثقافتِ مغرب ہے۔ لیکن تحصیل میں یہی مسئلہ ہے اور کئی مثالیں ہیں جس سے آگاہ ہونا ضروری ہے۔ مثلاً جاپان تحصیل مغرب کے شعوری فیصلے کا نتیجہ ہے، جنوبی کوریا تحصیل مغرب کے شعوری فیصلے کا نتیجہ ہے، چین تحصیل مغرب کے شعوری فیصلے کا نتیجہ ہے۔ ان ممالک نے مغرب کو اس کے افکار، اقدار اور اداروں سمیت ایک واحد طرز حیات کے طور پر قبول کرنے کا شعوری اور قومی فیصلہ کیا ہے۔ اپنی سطحِ وجود میں یہ مغربی تہذیب ہی کی توسیع ہیں، گو کہ سیاسی طور پر ان کی ترجیحات الگ ہیں، اور وہ تو جرمنی اور برطانیہ ایک ہی تہذیب میں ہوتے ہوئے الگ سیاسی ترجیحات رکھتے ہیں۔ ہمارا سوال صرف یہ ہے کہ تحصیلِ مغرب اس کی اقدار و افکار سے منفک صرف ٹیکنالوجی اور تعلیم وغیرہ کی تحصیل کیونکر بن سکتی ہے؟ اور یہی جائز علمی سوال تفہیم مغرب کے پورے عمل کی بنیاد ہے۔ جدید تعلیم اور سائنس آج کے عہد میں قومی بقا کا بنیادی وسیلہ ہیں، اور تاریخی جبر میں ہماری قومی زندگی بھی انہی پر استوار ہوئی ہے۔ لیکن جدید تعلیم اور سائنس صرف بقا کا وسیلہ نہیں ہے، بلکہ ایک نئے اور سیکولر انسان کی تشکیل کا نام بھی ہیں، جو اس تشکیل سے مختلف ہے جس کا اسلام ہم سے مطالبہ کرتا ہے۔ اس سوال کے رد و قبول کا تعلق جہاں تاریخی جبر سے ہے، وہاں علم سے بھی ہے، اور اہم تر یہ کہ ہمارے اختیار سے بھی ہے۔ اس کے لیے تفہیم مغرب ایک بنیادی علمی مطالبے کی حیثیت رکھتی ہے۔ ناچیز کی گزارش صرف یہ ہے کہ اس پر موقف کی ضرورت ہے، ردعمل کی نہیں۔
(۱۳) تفہیم مغرب میں رد عمل کا بنیادی حوالہ مذہب ہے۔ اگر ابتدا میں یہ فرض کر لیا جائے کہ اسلام اور مغرب مکمل عینیت رکھتے ہیں، تو تفہیم مغرب کی لغویت ازخود واضح ہو جاتی ہے۔ تحصیل مغرب کے ادارہ جاتی قیام کے ساتھ ہی دینی تعبیرات بھی تحصیلی تفہیم کے تابع ہو جاتی ہیں۔ لیکن اس میں اچنبھا یہ ہے کہ اسلام اور مغرب کی عینیت کے اصول پر تحصیل مغرب کا آغاز ہوتے ہی ایسے انفرادی، سماجی اور اجتماعی مظاہر سامنے آنا شروع ہوتے ہیں جو بداہتاً غیر دینی ہیں۔ لیکن انہیں اصول عینیت پر اثرانداز نہیں ہونے دیا جاتا کیونکہ ان کو ’’ضرورت‘‘، ’’عصری ضرورت‘‘، ’’ترقی‘‘، اور ’’جدید تقاضوں‘‘ کے ضمن میں بھگتایا جاتا ہے۔ یہ دیکھنا مشکل نہیں کہ اسلام اور مغرب میں عینیت کی جعلسازی اب ہمارے ہاں اصولِ دین کی حیثیت رکھتی ہے۔ ایسے میں بھلا کون تفہیم مغرب کی بات سننا چاہے گا؟
(۱۴) تفہیم مغرب کے پورے مسئلے میں ایک حساس مسئلہ علما کی حیثیت اور پوزیشن کا ہے۔ برصغیر کی گزشتہ تین سو سالہ المناک صورت حال میں علما نے جتنی قربانیاں دی ہیں، اور جس دلاوری سے دین کو زندہ رکھا ہے اس پر وہ ہمارے خراج تحسین اور محبت کے مستحق ہیں۔ لیکن بات یہاں سے شروع ہوتی ہے۔ برصغیر کے مسلم معاشرے میں اولی الامر کی ذمہ داری ہماری طاقت اور سیاسی عمل کی نگہبانی تھی، لیکن وہ اس میں شکست سے دوچار ہو کر مکمل طور پر ناکام ہو گئے۔ یہ ایک تاریخی عمل تھا جس میں ان کی کوشش کے باوجود نتائج برآمد نہ ہو سکے۔ یہ تشویشناک ضرور ہے لیکن اس میں ذم کا کوئی پہلو نہیں ہے۔ اس حقیقت کا ادراک نئی صف بندی کے لیے ضروری ہے۔ برصغیر کی سرزمین میں ان کی سطوت اور شانِ دلاوری کے آثار جگہ جگہ موجود ہیں، جن میں لال قلعہ اور جامع مسجد بھی شامل ہیں۔ جامع مسجد کے موجود ہونے کا یہ مطلب نہیں کہ وہ تہذیب بھی باقی ہے۔ اسی طرح دینی اور تہذیبی روایت کی نگہداری اور حفاظت اہل علم کی ذمہ داری تھی، لیکن وہ بھی شکست سے دوچار ہوئے۔ ہمیں دینی تعلیمات اچھی طرح معلوم ہیں، اور ہم ان پر عمل بھی کرتے ہیں۔ لیکن عمل نماز کی تفصیل معلوم ہونے کا مطلب یہ معلوم ہونا نہیں ہے کہ دین تہذیبی عمل کی بنیاد کیونکر بن سکتا ہے؟ تہذیب کی شکست کلی ہوتی ہے، جزئی نہیں ہوتی۔ گزارش ہے کہ ہمارے اہل علم کی شکست ہمارے حکمرانوں کی طرح مکمل ہے۔ یہ کیونکر فرض کیا جا سکتا ہے کہ ہمارے اولی الامر تو شکست کھا گئے اور ہمارے اہل علم بامراد رہے؟ ہمیں اس خوش فہمی سے باہر آنے کی ضرورت ہے کیونکہ ایسا مفروضہ تہذیبی ادراک کی موت سے پیدا ہوتا ہے۔ ہمیں مدام ایک دوسرے کو غلط ثابت کرنے کی بجائے مغرب کے بارے میں کوئی فیصلہ کرنے کی ضرورت ہے۔ اور یہ فیصلہ اس وقت تک نہیں ہو سکتا جب تک کام ازسر نو آغاز نہ کیا جائے۔
(بحوالہ: ’’دلیل ڈاٹ پی کے‘‘۔ ۱۵؍جون ۲۰۱۸ء)
Zabrdast thought provoking but conveyable to limited circle. That should be ponderable for johar sb.
بہت قابل غور باتیں ہیں