مغربی استعمار کا مکروہ چہرہ

مغربی استعمار عالم اسلامی کی اینٹ سے اینٹ بجانے کے لیے ہر ممکن حربہ کو استعمال کرتا رہا ہے۔ صہیونی جنگوں کی شکست کا انتقام لینے کے لیے اس نے عالمِ اسلام کے ساتھ دو محاذ کھولے۔ ایک ثقافتی یلغار کا محاذ اور دوسرا عالم اسلام پر پے درپے جنگ مسلط کرنے کی پالیسی۔ اسی وقت مغربی طاقتوں کی جانب سے ان دونوں راستوں سے عالمِ اسلام کے خلاف محاذ آرائی کا سلسلہ جاری ہے۔ ثقافتی یلغار کے لیے یہودی میڈیا ایڑی چوٹی کا زور لگا رہا ہے۔ میڈیا اور تعلیم کے راستہ سے عالمِ اسلام میں مغربی تہذیب کو فروغ دینے کے لیے ہر ممکن کوشش کی جارہی ہے۔ لیکن اس کے ساتھ مسلم ممالک کے قدرتی وسائل کو ہتھیانے اور انہیں مادّی ترقیات سے روکنے کے لیے جنگوں کا سلسلہ جاری رکھا گیا ہے۔ اب تک مختلف مسلم ملکوں میں امریکا اور اس کے حلیف مغربی ممالک کی جانب سے خونریز جنگیں کی جا چکی ہیں۔ جن میں لاکھوں مسلمان شہید، لاکھوں معذور اور بے شمار افراد بے گھر ہو چکے ہیں اور انسانی تباہی کے ایسے مناظر سامنے آئے کہ چشمِ فلک نے کبھی ایسے نظارے نہیں دیکھے۔ ان جنگوں کا سب سے خطرناک پہلو یہ ہے کہ پورے عالم اسلام میں بارودی سرنگوں کاایک جال پھیل گیا۔ قابض افواج کی جانب سے بنائی گئی ان بارودی سرنگوں کے پھٹ پڑنے سے ہزاروں افراد لقمۂ اجل ہو رہے ہیں۔ یہ بارودی سرنگیں ہزاروں میل کی مسافتوں پر پھیلی ہوئی ہیں۔ مسلم ممالک کے وہ اراضی جنہیں ملکی ترقی کے لیے استعمال کیا جا سکتا تھا بارودی سرنگوں کی نذر ہو چکی ہیں اور ہر تھوڑے دنوں میں تباہی کا منظر پیش کر رہی ہیں۔ ظالم افواج کی جانب سے بنائی گئیں ان سرنگوں سے آئے دن ہلاکتوں کا سلسلہ جاری ہے۔ ذیل کی سطروں میں عالم اسلام میں پھیلی ہوئی وہ بارودی سرنگوں کا سرسری جائزہ پیش کیا جا رہا ہے۔

افغانستان میں بارودی سرنگیں

افغانستان جو کافی عرصہ سے استعماری طاقتوں کی آماجگاہ بنا ہوا ہے اور اب تک یہ سلسلہ جاری ہے۔ یہاں بارودی سرنگوں کی بھاری تعداد پائی جاتی ہے ان وہ سرنگوں کے پھٹنے سے کافی تعداد میں ہلاکتیں ہو رہی ہیں۔ سرنگوں کے پھٹ پڑنے کے کئی ایک واقعات رونما ہو چکے ہیں۔ ۲۰۰۷ء میں سرنگوں کے پھٹنے سے ۶۰۰ سے زائد افغانی ہلاک ہوئے۔ گویا ہر ماہ ۵۰ افراد ہلاک ہوتے رہے۔ ۴اپریل ۲۰۰۸ء میں اقوام متحدہ کے بارودی سرنگوں سے زمین کو پاک کرنے کے پروگرام کے تحت افغانستان کی ایک ارب مربع میٹر زمین کو ان سرنگوں سے پاک کیا گیا۔ افغانستان دنیا کا نمبر ایک ملک ہے جہاں بارودی سرنگیں سب سے زیادہ ہیں۔ اقوام متحدہ کے تحت ۳۵۰ سے زائد سرنگیں تباہ کر دی گئیں۔ اس طرح ذرّہ پوش موٹروں کو ختم کرنے والی ۱۹ ہزار سرنگیں تباہ کر دی گئیں۔ اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ سرنگوں کا مسئلہ افغانستان میں کس قدر پیچیدہ ہو گیا ہے۔

عراق میں بارودی سرنگیں

افغانستان کے بعد عراق کا نمبر ہے۔ جہاں بارودی سرنگیں خطرناک صورتحال اختیار کر چکی ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق عراق میں ۲۵ ملین سے زائد سرنگیں اور ۲۵ ملین سے زائد دھماکو مادے ہیں۔ گویا ہر عراقی کے لیے ایک سرنگ اور دھماکو ذخیرہ کا تناسب ہے۔ ان سرنگوں کا سرا عراق، ایران جنگ سے جاملتا ہے۔ اس وقت عراقی اور ایرانی افواج نے ملک کی طویل سرحدوں پر بارودی سرنگیں بچھا دی تھیں۔ کہا جاتا ہے کہ ۱۳۵۰ کلومیٹر علاقہ پر یہ سرنگیں پھیلی ہوئی ہیں۔ الغاد علاقہ اور بصرہ کے دونوں جنوبی کناروں پر پھیلی ہوئی ہیں ان سرنگوں کا اتلاف ایک مسئلہ بنا ہوا ہے۔ اب تک ان سرنگوں کے پھٹنے کے بہت سے واقعات پیش آچکے ہیں۔ جن میں بے شمار افراد ہلاک ہوئے۔ مسئلہ صرف آٹھ سالہ عراق ایران جنگ تک محدود نہ تھا بلکہ اس کے بعد ۱۹۹۱ء میں خلیجی جنگ پیش آئی۔ اس جنگ کی وجہ سے پھر لاکھوں سرنگیں وجود میں آئیں۔ عراق کے شمالی علاقوں میں بعض ایسی سرنگیں ہیں جن کا تعلق گزشتہ صدی کی ستر کی دہائیوں سے ہے۔ جب عراقی افواج اور کردوں کے درمیان فوجی جھڑپوں کا سلسلہ جاری تھا۔ عراق کے زرعی علاقوں میں بھی کافی سرنگیں بچھائی گئی ہیں۔ کھیتوں کے کنارے اور سڑکوں کے دونوں جانب سرنگوں کا سلسلہ ہے۔ گزشتہ صدی کی ۹۰ کی دہائی میں دو کرد پارٹیوں کے درمیان جھڑپیں جاری تھیں جس نے سرنگوں کو پھیلا دیا کردستان کی لیبر پارٹی نے دھوک اربیل کے علاقوں میں لاکھوں کی تعداد میں بارودی سرنگیں بچھا دیں۔ شمالی عراق کے پہاڑی راستوں پر جگہ جگہ کتبے آویزاں ہیں جس میں آگاہ کیا گیا ہے کہ کسی بھی جگہ سرنگ ہو سکتی ہے، راہ گیر احتیاط سے چلیں۔ عراق کے شمالی علاقوں میں پائی جانے والی سرنگوں کی تعداد کے تعلق سے قطعی اعداد و شمار نہیں ملتے۔ البتہ گزشتہ چند سالوں سے عراقی افواج اس قسم کی لاکھوں سرنگوں کو تلف کر چکی ہے۔

معاملہ صرف سرنگوں کا نہیں ہے بلکہ امریکی فوج نے عراق کے مختلف علاقوں میں بموں کی چادریں بچھا دی ہیں۔ عراق کے وزیر ماحولیات نے عالمِ برادری سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ ان سرنگوں کے اتلاف میں عراق کی مدد کرے۔ انہوں نے کہا کہ یہ کام عالمی برادری کے تعاون کے بغیر ممکن نہیں۔ سرنگوں کے اتلاف کی مہارت رکھنے والی عراق کی ایک غیر سرکاری تنظیم نے کہا کہ سرنگوں کے مسئلہ کو نظر انداز کرنا غیر معمولی انسانی ہلاکتوں کا سبب بن سکتا ہے۔ اس تنظیم کے صدر نے کہا کہ تنظیم نے اب تک ۱۷۴ ہزار سرنگوں کو تباہ کر دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ عراق کو ان سرنگوں سے مکمل طور پر پاک کرنے کے لیے ۷۰ سال کا عرصہ لگ سکتا ہے۔ تنظیم کے صدر نے کام کے آغاز کے لیے حکومت کی منظوری حاصل کر لی ہے۔ انہوں نے ۲۵ ملین سرنگوں کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ صرف کردستان کے علاقہ میں دس ملین سرنگوں کا انکشاف ہوا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ۴۴۴۶ خطرناک علاقہ ہیں جہاں بھاری تعداد میں دھماکو اشیا ہیں۔ نیز ۱۲۷۱ ایسے فوجی علاقے ہیں جہاں ہزاروں سرنگیں پائی جاتی ہیں۔ گزشتہ چند سالوں کے دوران عراق ایران سرحد پر موجود سرنگوں کو تلف کرنے کا کام ہوا ہے۔

عراق جنگ کا خطرناک پہلو یہ ہے کہ اس نے ملک بھر میں زہریلے مادے پھیلائے ہیں برطانوی اخبار ٹائمز کے ایک انٹرویو میں انکشاف کیا گیا ہے کہ امریکی افواج نے عراق میں اپنی سات سالہ موجودگی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے زہریلے مادوں کے کافی ذخیرے پھیلا رکھے ہیں۔ انٹرویو میں کہا گیا ہے کہ پانچ عراقی صوبوں میں جہاں جہاں امریکی افواج کے ٹھکانے میں زہریلے مادوں کا ذخیرہ کافی مقدار میں ہے۔ ان زہریلے مادوں کو امریکا منتقل کرنے کے بجائے عراق ہی میں دفن کر دیا گیا ہے۔ ایک خاص کمپنی نے جو عراق میں امریکی افواج کے ساتھ سرگرم ہے انکشاف کیا کہ امریکی وزارت دفاع کی ایک دستاویز کے مطابق امریکی افواج نے عراق میں ۱۱ ملین رطل خطرناک زہریلا سیال مادہ چھوڑ دیا ہے۔ اس زہریلے سیال مادے کے سبب علاقہ کے افراد مختلف جسمانی شکایتوں سے دوچار ہیں۔

بوسنیا اور ہرزے گووینا میں بارودی سرنگیں

اگرچہ بوسنیا جنگ کو ۱۳ سال ہو چکے ہیں لیکن اب تک ملک کا ۴ فیصد علاقہ بارودی سرنگوں سے پٹا ہوا ہے۔ جو ۹ لاکھ افراد کی زندگیوں کے لیے خطرہ بنا ہوا ہے۔ اس وقت علاقہ کو سرنگوں سے پاک کرنے کے لیے مالیاتی کی کمی کا سامنا ہے۔ عالمی امداد کا سلسلہ موقوف ہو چکا ہے۔ عالمی امداد گھٹ کر ۴۰ ملین کو پہنچ چکی ہے۔ گزشتہ دس سالوں کے دوران سرنگوں کے پھٹنے سے ۱۶۰۰ ؍افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ جبکہ ایک بڑی تعداد ہاتھ پیر سے معذور چکی ہے۔

لبنان میں بارودی سرنگوں کی صورتحال

۲۰۰۰ء کی صہیونی جنگ نے جنوبی لبنان پر اپنے ۲۲ سالہ قبضہ کا خاتمہ کر دیا۔ اس جنگ کے نتیجہ میں لبنان کے ۸۵۰ کلومیٹر علاقہ میں ایک لاکھ تیس ہزار سرنگیں بچھا دی گئیں۔ ان مختلف سرنگوں کے پھٹ پڑنے سے اب تک ۱۱ لبنانی ہلاک اور دیگر ۶۸ زخمی ہوئے۔ جنوبی بیروت میں ایک عمارت کی تعمیر کے دوران ایک گولہ کے پھٹ پڑنے سے ۳ شامی مزدور ہلاک ہو گئے۔ اقوام متحدہ کے اندازہ کے مطابق لبنان جنگ میں اسرائیل نے لبنان پر تقریباً ایک ملین بم پھینکے، جن میں سے ۴۰ فیصد نہیں پھٹ سکے۔ ایسے بیشتر بم جنوبی لبنان کے علاقوں میں پائے جاتے ہیں۔

یمن میں بارودی سرنگیں

۱۹۹۴ء میں چھوٹی خانہ جنگی سے بارودی سرنگوں کا سلسلہ شروع ہوا۔ حکومت کو اس صورتحال سے نمٹنے کے لیے عالمی امداد حاصل ہوئی۔ سرنگوں کے اتلاف کے قومی پروگرام کے تحت پانچ ہزار سرنگوں کو تباہ کر دیا گیا۔ ۱۹۹۴ء کی جنگ کے نتیجہ میں یمن کی جنوبی ریاستوں میں تین لاکھ سرنگیں بچھا دی گئی ہیں۔ جن میں سے ڈیڑھ لاکھ تلف کی جاچکی ہیں۔ بیسویں صدی میں ۷۰ کی دہائی سے اب تک بچھائی گئی سرنگوں کا اندازہ ایک ملین سے زیادہ لگایا گیا ہے۔

یمن میں سرنگوں کا دوسرا سرچشمہ حکومت اور حوثیوں کے درمیان چلی جنگ ہے۔ صعدہ صوبہ میں ہوئی اس جنگ سے کافی سرنگیں وجود میں آئیں۔ حکومت کے پروگرام میں اس کی وضاحت کی گئی کہ حکومت نے یمن کے ۴۲۰ ملین مربع میٹر علاقہ کو سرنگوں سے پاک کر دیا ہے۔ یمن کے پہاڑوں اور وادیوں میں موجود ۱۹۹ ہزار بارودی گولوں اور سرنگوں کو ناکارہ بنا دیا گیا ہے۔

موریطانیہ میں بارودی سرنگیں

ہر سال موریطانیہ میں بارودی سرنگوں کے سبب ہلاکتیں ہوتی رہتی ہیں۔ شمالی موریطانیہ میں سرنگ پھٹنے سے ۱۳۵ باشندے ہلاک ہوئے۔ موریطانیہ کی تین شمالی ریاستوں میں سب سے زیادہ سرنگیں ہیں۔

مصر میں بارودی سرنگیں

قدیم زمانہ کے اعتبار سے بارودی سرنگوں کی موجودگی میں مصر دوسرے نمبر کا ملک ہے۔ پہلے نمبر پر انگولا ہے۔ قدیم زمانہ میں مصر میں بھی سرنگوں کا سلسلہ رہا۔ دوسری جنگ عظیم کے دوران مصر میں سرنگوں پر امتناع عائد کر دیا گیا۔ اٹلی، جرمنی اور برطانوی فوجوں نے ایک طویل علاقہ میں سرنگیں بچھا دی تھیں۔ ۲۰۰۰ء سے ۲۰۰۸ء تک سرنگوں کے سبب ۴۶ ہلاکتیں ہوئیں۔ اس طرح جزائر بھی سرنگوں میں سرفہرست رہا ہے۔ سرنگوں کی اس تفصیل سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ کس طرح استعماری طاقتوں نے عالم اسلام میں سرنگوں کے جال بچھا دیے۔ سرنگوں کے یہ جال عالم اسلام کی ترقی میں اہم رکاوٹ ہیں۔

(بحوالہ: ’’نقوش ڈاٹ کام‘‘۔ ترجمہ: سید احمد ومیض ندوی)

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*