
مصر میں شروع ہونے والی سیاسی فعالیت کی لہر جو ۲۰۱۱ء کے انقلاب کے دوران اپنے عروج پر تھی، ۲۰۱۳ء کی فوجی بغاوت کے بعد ماند پڑتی جارہی ہے۔مخالفین پر سخت حکومتی کریک ڈاؤن کے باعث سیاسی کارکنان سیسی حکومت کا مقابلہ کرنے سے کترا رہے ہیں۔’’ہیومن رائٹس واچ‘‘کے مطابق انسانی حقوق کے لیے کام والے افراد کو بھی حکومت کی طرف سے جبری گمشدگیوں،گرفتاریوں اور تشد کا سامنا ہے۔
ان سخت حالات کے باوجود ایک حیران کن واقعہ پیش آیا۔ مصر میں ۶ فروری کو سماجی رابطے کی ویب گاہوں پر مختصر دورانیے کی ویڈیو شیئر کی گئیں۔ ان ویڈیو میں لوگ ایک ہی بات کہہ رہے تھے اور وہ یہ کہ ’’میں مصر کا ایک عام شہری ہوں اور میں آئینی ترامیم کو مسترد کرتا ہوں‘‘۔ ویڈیو میں اُن آئینی ترامیم کا حوالہ دیا گیا جن کے منظور ہونے کے بعد صدر سیسی کے لیے ۲۰۳۴ء تک ملک کا صدر رہنے کی راہ ہموار ہوجائے گی۔
مصر کا موجودہ آئین فوجی بغاوت کے بعد ۲۰۱۴ء میں نافذ ہوا تھا۔اس آئین میں صدارت کی مدت چار سال مقرر ہے اور کوئی شخص دو بار سے زیادہ صدر منتخب نہیں ہو سکتا۔سیسی کی حامی قوتیں اسی شق میں ترمیم کرنا چاہتی ہیں۔ان ترامیم کو پارلیمان سے عارضی منظوری بھی حاصل ہو چکی ہے۔
ان ترامیم پر اب ایک پارلیمانی کمیٹی غور کرے گی، جس کے بعد ان کو حتمی ووٹنگ کے لیے پارلیمان میں پیش کیا جائے گا ۔پارلیمان سے منظوری کی صورت میں ایک قومی ریفرنڈم کروایا جائے گا۔بد قسمتی سے جمہوریت اور انسانی حقوق کا درس دینے والے مغربی حکمرا ن صدر سیسی کے اقدامات پر خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں۔
مصر کے شہری سماجی رابطے کی ویب گاہ پر ویڈیو شیئر کر کے ان ترامیم کی مخالفت کر چکے ہیں۔ ان ویڈیو میں نظر آنے والے اکثر افراد عام شہری ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ کئی معروف سیاسی و سماجی افراد یا تو قید میں ہیں یا پھر جلاوطن ہیں۔ جو لوگ ملک میں موجود بھی ہیں وہ بھی حکومتی اداروں سے بچنے کے لیے اپنی سرگرمیاں محدود کیے ہوئے ہیں۔
ایک نامعلوم فیس بک پیج پر شئیر کی گئی ان ویڈیو میں ہر طبقے کے مرد و خواتین آئینی ترامیم کی مخالفت کرتے ہوئے نظر آرہے ہیں۔کچھ لوگوں نے اپنی شناخت چھپانے اور حکومتی ردِ عمل سے بچنے کے لیے صرف اپنی آواز ریکارڈ کی ہے۔ صارفین نے ان ویڈیو پر تبصرہ کرتے ہوئے ان میں نظر آنے والے افرادکی حفاظت کی دعا کی ہے۔
ویڈیو میں نظر آنے والے افراد کے خلاف اب تک کوئی کارروائی نہیں ہوئی ہے، تاہم ان کی حفاظت کے حوالے سے خدشات موجود ہیں۔سیسی حکومت اپنے ہر مخالف کے خلاف کارروائی نہیں کرتی۔ لیکن جو لوگ حکومت کی انتقامی کارروائی کا شکار ہوتے ہیں انھیں بدترین تشدد اور بے رحمی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ فوجی بغاوت کے بعد سے اب تک تقریباََ ۶۰ ہزار افراد کو سیاسی بنیادوں پر گرفتار کیا جاچکا ہے۔
خالد یوسف ایک فلم ڈائریکٹر ہیں، وہ فوجی بغاوت کے بعد سیسی کی حمایت کرنے والی پارلیمان کے رکن بھی تھے۔ اس کے علاوہ وہ آئین ساز کمیٹی کے رکن بھی تھے۔ ۳ فروری کو انھوں نے اپنے فیس بک اور ٹوئیٹر اکاؤنٹ پر آئینی ترامیم کی مخالفت کی۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ ان کے موقف کے سبب انھیں جھوٹے الزامات میں گرفتار بھی کیا جاسکتا ہے۔
ان کی یہ بات کسی حد تک درست بھی ثابت ہوئی۔ ۷فروری کو دو مصری اداکاراؤں کو بدکاری کے الزام میں گرفتار کیا گیا۔ ان اداکاراؤں کی ایک ویڈیو لیک ہوئی تھی، جس میں انھیں نیم برہنہ حالت میں رقص کرتے ہوئے دیکھا جاسکتا تھا۔ مصر کے ذرائع ابلاغ کے مطابق اُن اداکاراؤں نے تفتیش کاروں کو بتایا کہ یہ ویڈیو خالد یوسف نے اپنے گھر پر بنائی تھی۔ بی بی سی عربی کے مطابق اس واقعے کو خالد یوسف کی کردار کشی کے لیے استعمال کیا جارہا ہے۔ مصر جیسے قدامت پسند معاشرے میں ناجائز جنسی تعلقات کسی بھی شخصیت کی ساکھ کو بُری طرح متاثر کر سکتے ہیں۔خالد یوسف کو فی الحال گرفتار نہیں کیا گیا ہے لیکن ان کی گرفتاری کا امکان موجود ہے۔
ھیثم الحریری بھی اسی قسم کی صورتحال سے دوچار ہیں۔ ھیثم ایک وکیل ہیں جنھوں نے آئینی ترامیم کے خلاف آواز اٹھائی۔ ان پر ایک حکومت نواز وکیل نے اپنی خاتون آفس منیجر کو فون پر حراساں کرنے کا الزام عائد کیا ہے اور فون کال کی ریکارڈنگ بھی پیش کی ہے۔
یہ ریکارڈنگ اصلی ہے یا جعلی، اور کیا خالد یوسف اور ھیثم الحریری واقعی اس کردار کے حامل ہیں یا نہیں، ان سوالات سے زیادہ اہم ان الزامات کو عائد کرنے کا وقت ہے۔ مصر کا موجودہ عدالتی نظام اور سلامتی کے ادارے ہراسگی کا شکار ہونے والی خواتین کی مدد کرنے کے حوالے سے کوئی اچھا ریکارڈ نہیں رکھتے۔
تاہم حوصلہ افزا بات یہ ہے کہ ان کارروائیوں کے بعد بھی سوشل میڈیا پر آئینی ترامیم کے خلاف ویڈیو آنے کا سلسلہ جاری ہے۔یہ سلسلہ نہ ہی کسی فوری تبدیلی کی علامت ہے اور نہ ہی اس بات کا اشارہ کہ ملک میں جمہوریت مضبوط ہو رہی ہے۔تاہم یہ بات اہم ہے کہ نہ صرف مصری عوام کو اس بات کا ادراک ہو چکا ہے کہ وہ حکومت کو چیلنج کر سکتے ہیں بلکہ وہ اس سلسلے میں اجتماعی کوششیں بھی کر رہے ہیں۔
عوام میں غم و غصہ بڑھتا جارہا ہے اور اسی وجہ سے صدر سیسی کی مقبولیت میں خاطر خواہ کمی واقع ہوئی ہے۔مصر میں موجود سروے کے ادارے ’’بصیرۃ‘‘ کے مطابق صدر سیسی کی مقبولیت ۲۰۱۴ء میں ۵۴ فی صد سے کم ہوکر ۲۰۱۶ء میں ۲۷ فی صد رہ گئی تھی۔۲۰۱۶ء میں صدر سیسی نے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں پر برسوں سے عائد سبسڈی کو ختم کردیا اور مصری کرنسی کی قدر میں بھی کمی کردی۔اس کے نتیجے میں اشیائے ضرورت کی قیمتوں میں اضافہ ہو ا اور لوگوں کا طرز زندگی متاثر ہوا۔
سالِ رواں بحیرہ احمر میں موجود دو جزیروں کا کنٹرول سعودی عرب کو دینے کے خلاف بڑے عوامی مظاہرے ہوئے۔ حکومت نے مظاہرین کو تو کچل دیا لیکن ان مظاہروں سے یہ بات واضح ہوگئی کہ صدر سیسی کو آئندہ اپنے فیصلوں کے خلاف عوامی مزاحمت کا سامنا کرنا ہو گا۔
بدقسمتی سے بین الاقوامی برادری مصری عوام کی مرضی کے خلاف صدر سیسی کا ساتھ دے رہی ہے۔اس حمایت کا مظاہرہ فرانسیسی صدر کے دورہ مصر میں بھی نظر آیا۔فرانسیسی صدر مصر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے بارے میں بات کرتے رہے ہیں۔لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ گزشتہ چند سالوں سے مصر کو اسلحہ فراہم کرنے والے ممالک میں فرانس سر فہرست ہے ۔مصر نے فرانس سے رافئیل جنگی جہاز، بحری جہاز اور فوجی سیٹلائیٹ خریدی ہیں۔ فرانس نے مصر کو بکتر بند گاڑیاں بھی فراہم کی ہیں۔ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطابق ان گاڑیوں کو اسکندریہ اور قاہرہ میں مخالفین کو کچلنے کے لیے استعمال کیا گیا ۔
امریکی صدر ٹرمپ نے ستمبر ۲۰۱۸ء میں صدر سیسی سے ملاقات کے دوران کہا تھا کہ ’’مصر اور امریکا کے تعلقات آج جتنے مضبوط ہیں اتنے ماضی میں کبھی نہیں رہے۔ہم مصر کے ساتھ دفاعی اور تجارتی شعبوں کے علاوہ دیگر کئی شعبوں میں بھی تعاون کر رہے ہیں،ہمیں دوبار مصر کے ساتھ کام کرنے پر فخر ہے۔‘‘
۱۰ فروری کو صدر سیسی افریقی یونین کے سربراہ بنے۔ ۲۰۰۲ء میں افریقی یونین کے قیام کے بعد مصر کو پہلی مرتبہ اس کی قیادت ملی ہے۔افریقی یونین کے سربراہ بننے کے بعد خطاب کرتے ہوئے صدر سیسی کا کہنا تھا کہ افریقا کو دہشت گردی سے خطرہ لاحق ہے۔ لیکن دوسری طرف اپنے پانچ سالہ اقتدار کے باوجود بھی وہ جزیرہ نما سینا سے دولت اسلامیہ اور اس کے اتحادیوں کو شکست دینے میں ناکام رہے ہیں۔ اس کے علاوہ وہ بار بار دنیا کو دھوکا دیتے ہوئے اپنے تمام مخالفین پر اسلامی شدت پسند ہونے کا الزام لگاتے ہیں تاکہ ان کی گرفتاریوں کا جواز موجود رہے۔حقیقت میں صدر سیسی کے کئی مخالفین سیکولر اور لبرل نظریے کے لوگ ہیں۔
اس کے علاوہ اخوان المسلمون کے کارکنان کو بھی دہشت گرد قرار نہیں دیا جاسکتا۔ اخوان ہمیشہ پر امن سیاسی مخالفت کی بات کرتی آئی ہے۔۲۰۱۳ء کی فوجی بغاوت اور اس کے نتیجے میں اس کے سیکڑوں کارکنا ن کی گرفتاری کی وجہ سے اخوان اب حکومت کے لیے کسی قسم کا خطرہ نہیں ہے۔ صرف اس کے نوجوان کارکنان کی بہت قلیل تعداد انتہا پسندی کی طرف مائل ہوئی ہے۔یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ ظلم اور ناانصافی ناراضی کو جنم دیتی ہے، جو کہ بالآخر انتہا پسندی پر منتج ہوتی ہے۔
مصر کی موجودہ صورت حال ۲۰۱۱ء کے بعد کی صورت حال سے بہت مختلف ہے۔ مصر ی عوام کی حکومت سے ناراضی اور تلخی بڑھتی جارہی ہے۔صدر سیسی کی مخالفت کرنے والے اکثر افراد وہ ہیں، جن کا کوئی خاص سیاسی تجربہ یا نظریہ نہیں ہے۔دیکھنا یہ ہے کہ امریکا اور یورپ کے حکمران مصری عوام کا ساتھ دیتے ہیں یا حکومت کا۔ اور کیا مغربی قوتیں مصر میں انصاف اورانسانی حقوق کے تحفظ کے لیے اقدامات کریں گی یا وہ اپنے اتحادی کو ان اقدار کی پامالی کی اجازت دیں گی۔
(ترجمہ: محمد عمید فاروقی)
”Western leaders are promoting dictatorship, not democracy, in Egypt”.(“Foreign Policy”. February 14, 2019)
Leave a Reply