
دہشت گرد گروپوں کے ساتھ میڈیا، خاص طور پر مغربی میڈیا کا رویہ بہت عجیب ہے۔ کچھ دہشت گرد گروپوں کی سرگرمیوں کو میڈیا میں بہت زیادہ توجہ دی جاتی ہے جبکہ کچھ دوسرے گروپ، جو شاید زیادہ توجہ پانے والے گروپوں سے کہیں زیادہ خطرناک ہوتے ہیں، کی کارروائیوں کو بہت معمولی یا پھر نہ ہونے کے برابر توجہ ملتی ہے۔
مثال کے طور پر تمام بڑے میڈیا ادارے داعش کی سرگرمیوں پر بہت زیادہ توجہ دیتے ہیں، لیکن ایران کی پروردہ شیعہ انتہا پسند ملیشیاؤں کو، جو اُسی طرح کی دہشت گرد کارروائیاں کرتی ہیں، بالکل نظرانداز کر دیتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ داعش اور عالمی میڈیا ایک دوسرے کے ساتھ مفادات کے تحفظ کے ایک عجیب و غریب رشتہ میں منسلک ہیں۔ داعش شہرت حاصل کرنے کی لامتناہی بھوک میں مبتلا ہے اور اپنی سرگرمیوں کی درست اور غلط تشہیر کے لیے ہر حد کو پار کرنا چاہتی ہے۔ مغربی میڈیا اسے شہرت حاصل کرنے کے ہر ممکن مواقع فراہم کر دیتا ہے، بدلے میں اپنے ناظرین اور مشتہرین کی تعداد، اور منافع میں بے پناہ اضافہ کرتا ہے کیونکہ میڈیا نے دنیا بھر کو داعش کے خوف میں مبتلا کر کے اس کی خبروں کا مشتاق بنا دیا ہے۔
داعش کی رپورٹنگ آسان ہے!
یہ بھی محسوس ہوتا ہے کہ میڈیا تن آسانی میں مبتلا ہے اور سچ کی تلاش میں مشکلات اٹھانے کے بجائے آسان کام کرنا چاہتا ہے۔ داعش کے بارے میں بات کرنا بہت آسان ہے جبکہ دوسرے دہشت گرد گروپوں کے بارے میں تحقیق دقت طلب ہے۔ بدقسمتی سے صحافیوں کی اکثریت دوسری قسم کے دہشت گرد گروپوں کے خطرات کے بارے میں آگاہی نہیں رکھتی۔
داعش میڈیا کی توجہ حاصل کرنے کے لیے سخت محنت کرتی ہے اور اس کے لیے درست اور غلط ذمہ داری بھی قبول کرتی ہے، اور سوشل میڈیا پر بھی خاصی دسترس رکھتی ہے۔ مگر ایرانی حمایت یافتہ ملیشیائیں خفیہ کارروائیاں کرتی ہیں اور ذمہ داری بھی قبول نہیں کرتیں۔ ان ملیشیائوں کا ہدف ریاستوں اور سیاسی اسٹیبلشمنٹ کی اعلیٰ سطح تک رسائی حاصل کر کے فیصلہ سازی کے عمل کو متاثر کرنا ہوتا ہے۔ حزب اللہ، لبنان میں اپنے اس ہدف میں کامیاب رہی ہے جبکہ ایرانی پروردہ دیگر شیعہ ملیشیائیں عراق میں ایسے اہداف حاصل کرچکی ہیں۔
میڈیا کے کچھ ادارے ان ملیشیائوں کو اس لیے جائز سمجھتے ہیں کیونکہ ان کی مالی مدد ایران کرتا ہے۔ ان میں سے اکثر ملیشیائیں براہ راست ایرانی جنرل قاسم سلیمانی اور ایرانی سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کو جواب دہ ہیں اور یہی وجہ ہے کہ وہ جب پُرتشدد کارروائیاں کرتی ہیں تو ان کو سخت تنقید کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ میڈیا کے ادارے منافع حاصل کرنے کے لیے چلائے جاتے ہیں تاکہ اپنا وجود باقی رکھ سکیں۔ وہ ایسے ہی موضوعات پر لکھتے ہیں جن پر لوگوں کی توجہ ہوتی ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ ناظرین اور قارئین حاصل کر سکیں اور اس طرح بڑی تعداد میں مشتہرین بھی مل جائیں۔ داعش کو زیادہ میڈیا کوریج کی ایک وجہ یہ ہے کہ وہ مشرقِ وسطیٰ سے باہر کے لوگوں کو نشانہ بناتی ہے۔ امریکااور یورپ کے لوگ سوچتے ہیں کہ جو تنظیم پیرس، لندن اور سان برنارڈینو جیسے علاقے پر حملہ کر سکتی ہے، وہ ایسے حملے دنیا میں کہیں بھی کر سکتی ہے۔
اس حقیقت کے باوجود میڈیا کے لیے بہت ضروری ہے کہ وہ نسبتاً گمنام دہشت گرد گروپوں اور ان کی کاررائیوں کو بھی منظرِ عام پر لانے کے لیے زیادہ سے زیادہ کوششیں کرے۔
(بشکریہ: ’’العربیہ اردو ڈاٹ نیٹ‘‘۔ ۲۲ دسمبر ۲۰۱۵ء)
Leave a Reply