تہران اجلاس کو نظرانداز کرنے کی مغرب کی طرف سے دانستہ کوشش کے باوجود عالمی امن کے لیے اقوام کے مابین باہمی احترام و محبت پر مبنی تعلقات ہی وہ موثر وسیلہ ہے جس کی عالمی برادری کو جستجو کرنی چاہیے۔ اسی سے ایک نیا کثیرالقطبی عالمی نظام وجود میں آسکتا ہے جس میںہر ایک قوم و ملک کے مفادات کا عادلانہ طور سے خیال رکھا جاسکے گا اور چند طاقتوں کی باقی دنیا پر تسلط پسندی اور بالادستی کی روش کو یکسر مسترد کیا جاسکے گا ۔تہران اجلاس اس حقیقت کا آئینہ دار ہے کہ ایسے عالمی نظام کے آثار ظاہر ہونا شروع ہوگئے ہیں جو واشنگٹن اور اسرائیل کے لیے انتہائی تشویش ناک اور پریشان کن ہے۔
تہران میں ناوابستہ تحریک کے اجلاس کے افتتاح سے ٹھیک ایک دن پہلے اسرائیلی وزیراعظم نے اپنے ایک بیان میں اس اجلاس کوانسانیت پر ایک بدنماداغ بتایا۔اس اجلاس میں ۱۲۰؍ممالک کے اعلیٰ مناصب کے حامل نمائندوں نے شرکت کی تھی لہٰذا نیتن یاہو کا اس اجلاس کے حوالے سے اظہارِ غیظ وغضب واضح طور سے قابل فہم ہے۔ NAM (Non-Aligned Movement) کا یہ سولہواں اجلاس ۳۱؍اگست ۲۰۱۲ کو سات سو سے زائد شقوں پر مشتمل ایک قرارداد کی منظوری کے ساتھ ختم ہوا۔وہ حتمی قرارداد جسے ایرانی صدر محمود احمدی نژادنے پڑھ کر سنایا، ایران کے جوہری پروگرام کی حمایت کرتی ہے اور اسلامی جمہوریہ ایران پر امریکا کی یکطرفہ پابندیوں کو مسترد کرتی ہے۔اس کے ساتھ ہی یہ قرارداد مسئلہ فلسطین کے حل کے لیے عظیم تر کوششوں کی طرف متوجہ کرتی ہے اور پوری دنیا میں نسلی تفریق وامتیازکے خاتمہ پر تاکید کرتی ہے۔
ناوابستہ تحریک کے اس اجلاس میں کئی ایسے پریشان کن مسائل کو موضوعِ بحث بنایا گیا جنہیں مغرب غلط رنگ دینے کی کوشش کررہا ہے۔مثلاً ایران کا جوہری پروگرام یا مسئلہ فلسطین سے چشم پوشی اور پاکستان ، افغانستان،صومالیہ اور یمن میں ڈرون حملوں کا مسئلہ جن کے شکار بیشتر معصوم شہری ہورہے ہیں۔یہ اجلاس شرکا کے لیے ایک بہترین موقع ثابت ہوا کہ وہ اپنے مسائل کو اچھی طرح نمایاں کریں جن میں ان اقوام کی گردنیں جکڑی ہوئی ہیں۔ چنانچہ پاکستانی وزیر خارجہ حناربّانی کھر نے پاکستان میں غیر قانونی ڈرون حملوں پر اپنے ملک کی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے واشنگٹن کو تاکید کی کہ وہ فوری طور سے پاکستان میں اس بھیانک آلۂ قتل کا استعمال بند کرے۔
حنا ربّانی کھر نے ۲۹؍ اگست کو نامہ نگاروں سے بات کرتے ہوئے کہاکہ پاکستان کا موقف آج بھی واضح ہے اورماضی میں بھی واضح تھا۔ہمارا موقف یہ ہے کہ ڈرون حملوں کا الٹا نتیجہ نکل رہا ہے اور یہ سراسر غیر قانونی اور ناجائز ہے۔ لہٰذا اسے بند ہونا چاہیے ۔ اس موقف کا واضح اظہار پاکستان کی پارلیمان بھی کر چکی ہے۔
بہرحال، اجلاس کا اصل حاصل ایران کے رہبرِ معظم آیت اللہ سیّد علی خامنہ ای کی پُرمغز تقریر تھی جس میں انہوں نے بعض کلیدی مسائل پر اسلامی جمہوریہ ایران کے اُ صولی موقف کا اعادہ کیا، جن میں جوہری اسلحوں کا مسئلہ بھی شامل ہے۔آپ نے اس حوالے سے ایک بار پھر یہ وضاحت کی کہ ایران کبھی بھی جوہری اسلحہ بنانے کا ارادہ نہیں رکھتا ہے اور نہ ہی یہ کبھی اس طرح کے خوفناک راستے پر گامزن ہوگا۔ اس لیے کہ اس طرح کے اسلحوں کی تلاش،استعمال اور پیداوار ایک ناقابل معافی گناہ ہے۔اقوام متحدہ کی ناقص کارکردگی نیز عالمی مسائل میںاس ادارے کا بڑی طاقتوں کی تسلط پسندانہ پالیسی کے زیر اثر ہونے کی روش کو ایران کے رہبرِ معظم نے اپنی بھرپور تنقید کا نشانہ بنایا جبکہ مسئلہ فلسطین آپ کی گفتگو کا نقطۂ ارتکاز رہا۔واشنگٹن کی متضاد پالیسی کے حوالے سے آیت اﷲ خامنہ ای کا بیان خاص طور سے قابل توجہ ہے، انہوں نے اسے عصر حاضر کی ایک تلخ ستم ظریفی کا عنوان دیتے ہوئے اس حقیقت کو اچھی طرح نمایاں اور روشن کیا کہ’’ امریکی حکومت عام تباہی پھیلانے والے جوہری اور دیگر اسلحوں کے عظیم ترین اورہولناک ترین ذخائر کی حامل ہے اور امریکا وہ واحد ملک ہے جو اس کے استعمال کا جرم کر چکا ہے۔ اس مجرمانہ پس منظر کے ساتھ یہ ملک آج جوہری اسلحوں کی توسیع کی مخالفت کا پرچم بلند کرنے کا خواہاں ہے اور یہ کہ یہی وہ حکومت ہے جس نے غاصب صہیونی حکومت کو جوہری اسلحوں سے مسلح کیا ہے اور اسے اس حسّاس منطقہ کے لیے عظیم خطرہ میں تبدیل کردیا ہے۔
درحقیقت واشنگٹن اور تل ابیب شیطان کے ہاتھوں میں کھیل رہے ہیںاور اقوام کی تقسیم اور ان کی سرزمینوں کو اپنی نوآبادیات بنانے کی کوشش میں ہیں ۔اس مقصد کے حصول کے لیے یہ دونوں ’’عالمی دشمنوں‘‘ کو جنم دے رہے ہیں تاکہ دنیا کو اس کا جھانسہ دے کر اپنی جارحیت اور لوٹ مار کے سلسلے کو دوام بخشیںاور اس کے ساتھ ہی اقوام کوباہم ایک دوسرے کے خلاف صف آرا رکھیں تاکہ انہیں اپنے اسلحوں کے لیے نئی منڈیاں ملتی رہیں۔ اس سلسلے میں ناوابستہ تحریک کا یہ اجلاس سامراجی عزائم رکھنے والی قوتوں بالخصوص امریکی حکومت کے تباہ کن کردار کو غیر موثر بنانے میں اور ان کے خوشنما عالمی ایجنڈے کو ناوابستہ تحریک کے ارکان کی نگرانی میںحقیقی اور تعمیری مفہوم دینے میںبہت ہی اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔
اتنے گراں قدر اہمیت کے حامل اجلاس کے اثرات کو بے اثر بنانے کے لیے مغربی میڈیا نے حقیقت پر نقاب ڈالنے کی کوشش کی اور ایسے حقائق کی رپورٹنگ سے گریز کیا جو کسی بھی طور سے ان کے مخفی ایجنڈوں کا پردہ فاش کررہے تھے ۔تہران کے اجلاس سے متعلق مغربی ممالک میں میڈیا بلیک آئوٹ حق اور حقیقت کی نقاب پوشی کے مترادف ہے اور یہ ایک ایسی گھنائونی علامت ہے جو اس حقیقت پر سے پردہ اٹھاتی ہے کہ کیوں امن اور ہم آہنگی کی جانب کی جانے والی عالمی کوششیں بالآخر ناکامی کی گہری کھائی کی نذر ہوتی رہیں اور بارآور نہ ہوسکیں۔ میڈیا مافیا کی اجارہ داری اور تسلط کو توڑنے کے لیے ایرانی نشریات آئی آر آئی بی (IRIB) کے سربراہ عزّت اللہ ضرغامی نے ناوابستہ تحریک کو ایک متبادل میڈیا بلاک بنانے کی تجویز دی ہے۔اس طرح کا اقدام واقعتا قابل ستائش ہے اور اسے میڈیا کے اندھے تعصب کے توڑ کا ایک موثر ذریعہ خیال کیا جانا چاہیے۔
یہ بات افسوسناک صحیح، لیکن پورے یقین کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ متحدہ قیادت کے عنوان سے عالمی امن کے حصول کی کوششوں کو ناکام بنانے کے لیے تخریبی قوتیں برسرپیکار ہیں۔ ناوابستہ ممالک کی تحریک کے سامنے جو چیز حقیقتاً مستقبل میں پیش نظر رہنی چاہیے وہ عالمی بحران کو حل کرنے اور واشنگٹن کے سیاسی اثرات کو کم کرنے نیز خود ساختہ آمرانہ قیادت کو لگام دینے کے لیے ایک موثر طریقہ کار اور بین الاقوامی اتفاق رائے کا حصول ہے۔یہی وہ وقت ہے کہ امریکا کو چوہدری کا کردار ادا کرنے سے روکا جائے یعنی اسے دوسرے ممالک کے حوالے سے فکر کرنے اور فیصلے کرنے سے روکا جائے۔پہلے قدم کے طور پرنا وابستہ تحریک کے رکن ممالک کی یہ کوشش ہونی چاہیے کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل امریکا اور اس کے اتحادیوں کی خوشامدانہ اسیری سے آزاد ہو۔
ایک نیا عالمی نظام صورت پذیر ہے اوراس متبادل عالمی نظام میں استعمار طلب قوتیں صفحہ ہستی سے محو ہو جائیں گی اور دہشت گردی کے خلاف جنگ یا مغربی جمہوریت کے قیام کے بہانے کمزور اقوام پر فوجی مہم جوئی کا فلسفہ جلد ہی ہوا میں تحلیل ہوجائے گا۔ممکن ہے یہ خیال حقیقت سے کچھ فاصلہ رکھتا ہو لیکن نا ممکنات میں سے نہیں۔ یہ نظریہ اقوام کی اجتماعی کوششوں کے نتیجے میں پیدا ہونے والی قوت کے ذریعے حقیقت میں تبدیل ہوگا۔یہی وہ حقیقت ہے جس سے امریکا کے زیر قیادت مغربی دنیاکو بہت زیادہ خوف ہے لیکن یہ دنیا کی اہم ترین ضرورت ہے۔یہ حقیقت پیش نظررہے کہ اقوام کی قوتِ ارادی ہی نامسائد حالات میں حق کی تائید کرسکتی ہے۔
☼☼☼
Leave a Reply