یہ مقالہ ۲۷ فروری ۲۰۱۱ء کو اسٹڈی اینڈ ریسرچ سینٹر، دہلی کی نشست میں پڑھا گیا تھا۔ اس کی افادیت کے پیش نظر ہم اسے ’’معارف فیچر‘‘ میں شائع کر رہے ہیں۔ (ادارہ)
حروف کو ایک خاص ترتیب سے یکجا کیا جائے تو الفاظ بنتے ہیں۔ اسی نہج پر الفاظ اکٹھا ہوں تو جملے بنتے ہیں۔ پھر جملوں کی عمدہ ترتیب سے مضامین اور کتابیں وجود میں آتی ہیں۔ یہ سارے قواعد اس لیے ہیں کہ لکھنے والا اپنے خیالات کو دوسروں تک پہنچانا چاہتا ہے۔ تحریر بھی تقریر کی طرح اظہارِ خیال اور ترسیلِ پیام کا ایک ذریعہ ہے۔ لیکن تقریر کے بالمقابل تحریر کو صدیوں سے یہ شرف حاصل ہے کہ اسے محفوظ کیا جاسکتا ہے۔ چنانچہ ہزاروں سال قبل کے تحریری دفاتر آج بھی ان گزری ہوئی تہذیبوں اور اس دور کے افکارو خیالات کے ترجمان ہیں۔ جبکہ آواز کو محفوظ کرلینے کا فن ابھی پچھلی صدی کی ہی پیداوار ہے۔ پرانے زمانے کی جتنی تقریریں بھی آج موجود ہیں، وہ تحریریں ذرائع سے ہی ہم تک پہنچی ہیں اور جو چیزیں تحریر نہیں کی گئیں وہ یا تو مٹ گئیں یا ان کی صورت کچھ ایسی مسخ ہو گئی کہ وہ کیا سے کیا ہوگئیں اس کے بارے میں وثوق سے کچھ نہیں کہا جاسکتا۔
کسی کلاسیکی تحریر (Classical Tex) سے معلومات اخذ کرنا، اس کی تفسیر و توضیح کرنا آج علم و تحقیق کے میدان میں باقاعدہ ایک فن کی حیثیت رکھتا ہے، جسے Hermeneutics کہتے ہیں۔ کسی کلاسیکی تحریر سے معنی اخذ کرنے، اسے interpret کرنے کے کئی طریقے سماجی علوم میں رائج ہیں، لیکن ان میں سے تین بنیادی اہمیت کے حامل ہیں (بقیہ اسی کی شاخیں ہیں یا انہی میں معمولی ردو بدل کا نتیجہ)۔ یہ تین طریقے درج ذیل ہیں:
پہلا اور آسان طریقہ یہ ہے کہ مصنف نے اپنی کتاب میں جو کچھ لکھا ہے اس پر غور کیا جائے اور اس سے معنی اخذ کیے جائیں۔ اس اپروچ کو Textualism کہتے ہیں۔ Sabine Plamenatz Haeckerوغیرہ اسی طریقے پر عامل ہیں۔
مثال کے طور پر جان اسٹوارٹ مل کہتا ہے کہ: ’’شخص اپنے جسم اور اپنی سوچ پر آپ حکمراں (sovereign) ہے‘‘ تو اس کا سیدھا سادہ مطلب یہ ہے کہ وہ شخصی آزادی کی کھل کر حمایت کر رہا ہے۔ پھر اگر وہ کہتا ہے کہ عورتوں کو مردوں کے برابر کا درجہ ملنا چاہیے لیکن مردوں اور عورتوں کی ذمہ داریوں میں فرق ہے لہٰذا عورت کو آزادی ہونی چاہیے کہ وہ اپنے لیے گھریلو یا کاروباری کوئی بھی زندگی پسند کرلے تو اس کا صاف مطلب یہی ہو سکتا ہے کہ وہ خاتونِ خانہ کے سبھا کی پری بننے کے خلاف تھا۔ ہاں! وہ عورتوں کو یہ آزادی ضرور دینا چاہتا تھا کہ انہیں خاتونِ خانہ بننا ہے یا سبھا کی پری، اس کا وہ خود فیصلہ کرلیں۔
دوسرا طریقہ یہ فرض کرتا ہے کہ مفکرین اپنے زمانے سے آگے کی سوچتے ہیں۔ سماج ایسے لوگوں کی کبھی تائید نہیں کرتا جو مروجہ رسوم، رواج پر تنقید کریں اور اصلاح کی بات کریں۔ پھر رائج الوقت نظام پر تنقید اربابِ اقتدار مثلاً چرچ یا بادشاہ کے عتاب کو بھی دعوت دے سکتی ہے۔ لیکن اپنی بات کہنی بھی ضروری ہے، کہ یہ ایک اخلاقی فریضہ ہے۔ اس لیے مفکرین اپنی باتیں ایک قسم کی خفیہ زبان میں لکھتے ہیں۔ کئی بار جو کچھ ان کی کتابوں میں لکھا ہوتا ہے وہ سرے سے ان کا مطلب نہیں ہوتا۔ اصل مطلب اخذ کرنے کے لیے ان کی تحریروں میں موجود ’’کوڈس‘‘ کو ’’ڈی کوڈ‘‘ کرنا ضروری ہے۔ مفکرین ایسا اس لیے کرتے ہیں کہ کتاب کی صورت میں ان کے خیالات کی عام اشاعت تو ہو جائے لیکن اس کی کنہ تک وہی لوگ پہنچیں جو عقلِ سلیم رکھتے ہوں، ان کی کتابیں نہ سنسر کی نذر ہوں، نہ اربابِ اقتدار کی ناراضی کا سبب بنیں۔ پھر جب آنے والا زمانہ ان کے خیالات کے لیے ساز گار ہو تو اس وقت ان کے خیالات لوگوں میں عام ہوں۔ یہ اپروچ Esotericism کہلاتا ہے اور اس کے موئدین میں اور Leo Strauss اور Wolin جیسے مفکرین شامل ہیں۔ مثال کے طور پر جان اسٹوارٹ مل کا اصل پیغام شخصی آزادی ہے لیکن جب وہ یہ کہتا ہے کہ مردوں اور عورتوں کی ذمہ داریوں میں فرق ہے لہٰذا عورت کو آزادی ہونی چاہیے کہ وہ اپنے لیے گھریلو یا کاروباری کوئی بھی زندگی پسند کرلے تو اس کی وجہ یہ نہیں ہے کہ وہ عورتوں کی آزادی کے خلاف تھا۔ بلکہ وجہ یہ ہے کہ اس وقت کا سماج عورتوں کی اس قسم کی برابری پر کبھی تیار نہیں ہوسکتا تھا۔ لہٰذا مل نے شخصی آزادی کے تصور پر اپنی بحث کو مرکوز رکھا اور عورتوں کے تعلق سے وہیں تک باتیں کیں جہاں تک زمانہ برداشت کرسکتا تھا۔
تیسرا طریقہ یہ دعویٰ کرتا ہے کہ ہر مفکر اپنے دور کی پیداوار ہوتا ہے۔ وہ زمانے سے کتنا ہی آگے کیوں نہ سوچ لے اس کی پرواز کی ایک حد ہوتی ہے، اس دائرے سے باہر اس کی سوچ کا پرندہ اڑان نہیں بھر سکتا۔ اس لیے کسی بھی فکر کو مفکر کی ذاتی زندگی اور مفکر کے ماحول سے الگ کر کے نہیں دیکھا جاسکتا۔ اس اپروچ کو Contextualism کہتے ہیں۔ Quentin Skinner اور JGA Pocock نے interpretation کے اس طریقے کو باقاعدہ ایک سائنس کی شکل دی ہے۔ مثال کے طور پر جان اسٹوارٹ مل نے اگر شخصی آزادی پر زور دیا ہے تو اس نے ایسا اس لیے کیا ہے کہ اپنی ذاتی زندگی میں اسے کسی قسم کی کوئی آزادی حاصل نہیں تھی۔ اس کا باپ اس پر طرح طرح کی پابندیاں عائد کیے ہوئے تھا۔ اس کے کھانے، پینے، اٹھنے، بیٹھنے حتیٰ کہ پڑھنے پر بھی پہرے تھے۔ ان پابندیوں سے وہ اتنا دل برداشتہ تھا کہ بیس سال کی عمر میں ہی اسے دماغی شکایتیں لاحق ہو گئی تھیں۔ ذاتی زندگی کے یہ تلخ تجربات اسے شخصی آزادی کی اہمیت سمجھا گئے۔ عورتوں سے متعلق اس کے جو خیالات تھے وہ اس لیے تھے کہ اس وقت کے سماج میں جان اسٹوارٹ مل جیسا ذہین مفکر بھی اس کے آگے کی نہیں سوچ سکتا تھا۔ اس کی مثال بالکل ایسی ہی ہے جیسے ارسطو نے کئی یونانی ڈھکوسلوں کے خلاف احتجاج کیا اور یونانی سماج کے کئی پہلوئوں پر تنقید کی، اس کا استاد افلاطون بھی اس کی زَد سے بچ نہیں سکا۔ لیکن اس کے باوجود اس نے یونانی قوم کی دیگر اقوام پر فوقیت اور دیگر اقوام کا قدرتی طور پر یونانیوں کا غلام ہونا جیسی باتوں سے اتفاق کیا۔ کیونکہ اس وقت کے سماج میں اس کا ذہن غلاموں کے ساتھ حسنِ سلوک کی طرف تو جاسکتا تھا اور گیا، لیکن غلاموں کی آزادی کی طرف نہیں جاسکتا تھا اور نہیں گیا۔
ان تینوں میں سے تیسرا طریقہ متعدد وجوہ کی بنا پر قابل ترجیح ہے۔ لیکن تینوں کی اپنی اپنی افادیت ہے۔ لہٰذا یہاں ہم تحریر کے ساتھ ساتھ مصنف کے ذاتی حالات اور ماحول پر بھی نظر رکھیں گے اور یہ بھی دیکھیں گے کہ اس کی تحریر میں اگر کوئی خفیہ پیغام پنہاں ہے تو وہ کیا ہے؟
سی ای ایم جوڈ نے ایک مرتبہ سوشلزم کی تعریف کچھ یوں بیان کی: سوشلزم ایک ایسی ٹوپی ہے جو اپنی اصل شکل کھوچکی ہے کیونکہ اسے ہر کوئی پہنتا ہے۔مراد اس سے یہ تھی کہ سوشلزم کا مطلب اس بات پر منحصر ہے کہ کون اس لفظ کا استعمال کر رہا ہے۔ سماجی علوم کی اکثر اصطلاحات کا یہی حال ہے۔ لہذا آگے بڑھنے سے پہلے بہتر ہوگا کہ ہم لفظ ’’مادیت‘‘ یا Materialism پر ٹھہر کر غور کرلیں۔ مادیت سماجی علوم میں عموماً دو معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔
روحانیت کا ایک تصور یہ ہے کہ اس دنیا میں مادہ نام کی کوئی شئے نہیں ہے۔ صرف روح ہے۔ دنیا میں جو کچھ ہو رہا ہے (خوشی، غم، درد وغیرہ) یہ سب ویسا ہی ہے جیسا احساس ہمیں خواب میں ہوتا ہے۔ لیکن ان سب کی اس سے زیادہ کوئی حقیقت نہیں جتنی خوابوں کی ہوتی ہے۔ روحانیت کے اس تصور کے بر خلاف کہ مادہ کچھ نہیں بلکہ ’’مایا‘‘ ہے، مادیت کے ایک معنی یہ ہیں کہ مادہ فی الواقع ایک حقیقت ہے۔
مادیت کا دوسرا تصور یہ ہے کہ مادہ ہی فی الواقع حقیقت ہے۔ دوسرے الفاظ میں مادہ کے علاوہ کوئی حقیقت نہیں ہے۔ اس تصور سے جہاں خوشی، غم اور درد جیسے احساسات کو مختلف ہارمون اور پروٹین سے جوڑ دیا جاتا ہے، وہیںخوابوں کو انسان کی خواہشوں، مذہب اور خدا کے تصور کو عہد ماضی کے باقیاتِ غیر صالحات قرار دیا جاتا ہے۔
پہلی قسم کی مادیت ایک حقیقت ہے، جسے اسلام تسلیم کرتا ہے۔ جبکہ دوسری قسم کی مادیت جسے بجا طور پر مادہ پرستی کہنا درست ہے اسلام اس کا مخالف ہے کہ مادہ سے ماوراء روح کی حقیقت بھی اسی دنیا میں پائی جاتی ہے۔ جذبات کی مادی تشریح پر بھی سوالیہ نشان لگائے جاسکتے ہیں، لیکن فی الحال یہاں اس کا موقع نہیں ہے۔ مادیت کی یہی دوسری قسم یہاں ہمارے لیے موضوعِ بحث ہے۔
پرانے زمانے سے روحانیت میں غلو اگر رہبانیت اور شرک کی صورت میں موجود رہا ہے تو مادیت میں غلو خدا اور آخرت کے انکار کی صورت میں بھی موجود رہا ہے۔ یعنی یہ رجحان کہ اس دنیا میں مادہ ہی اصل ہے اور اس کے علاوہ کوئی اور حقیقت نہیں پائی جاتی کوئی نیا نظریہ نہیں ہے۔ بلکہ ہر جاہلیت کی طرح یہ بھی پرانی جاہلیتوں کا ایک نیا ایڈیشن ہے۔ یونانی، رومی، ایرانی جاہلیتوں سے لے کر مکی جاہلیت تک میں اس کے اثرات پائے جاتے ہیں۔ اس نظریے یعنی خدا کے انکار، کائنات کا اتفاق سے وجود میں آجانا، مر کر مٹی ہوجانے کے بعد دوبارہ زندہ ہونے پر تعجب کا اظہار کرنا وغیرہ پر قرآن میں بھی جابجا تنقیدیں ملتی ہیں۔
لیکن مادیت کے موجودہ ایڈیشن کے ساتھ ایک بات ضرور خاص ہے اور وہ یہ کہ موجودہ زمانے میں مادہ پرستی ایک مسلک (School of thought) اور ایک Discipline کی شکل اختیار کر چکی ہے۔ پہلے اگر مادہ پرست خال خال پائے جاتے تھے تو اب اکثریت اس مرض میں مبتلا ہے۔ اسکولوں اور کالجوں سے تھوک کے حساب سے مادہ پرست سماجی بازار میں اتارے جا رہے ہیں۔ اب مادہ پرستی انفرادی طور پر خدا کے انکار یا تشکیک کی حدود سے آگے بڑھ کر سماجی، معاشی اور سیاسی دائرے کو اپنی لپیٹ میں لے چکی ہے۔ سیاست میں سیکولرزم اور جمہوریت اسی کے شاخسانے ہیں۔ معیشت میں سود اور استحصال کا جواز یہیں سے برآمد ہوتا ہے۔ سماج میں عریانیت اور بدکاری سے لے کر ہم جنس پرستی کے مظاہر اسی بیج سے پھوٹتے ہیں۔ سائنس میں نظریۂ ارتقاء اور تاریخ کی جدلیاتی مادی تعبیر اسی کا نتیجہ ہے۔ الغرض آنکھیں کھول اگر ہم اپنے چاروں طرف دیکھیں تو مادہ پرستی کی آگ کی لپٹوں میں خود کو جھلستا ہوا پائیں گے۔ مسلمانوں میں یہ مادہ پرستی الوہیت میں تشکیک کی بجائے جہیز، کریرزم، کنزیومرزم اور ایسے ہی دیگر راستوں کے ذریعے نفوذ کر رہی ہے۔ لیکن مادہ پرستی کی اس آگ سے دنیا کو نجات دلانے کا نسخہ بھی ہمارے ہی پاس ہے۔
مادہ پرستی کے اس غلبے کا سبب کیا ہے؟ یوں تو اس کے مختلف اسباب گنائے جاسکتے ہیں، لیکن میری نظر میں اس کے بنیادی سبب صرف دو ہیں:
چرچ کی سیادت میں عیسائیت کا مذہبی تصور فرسودہ ہوچکا تھا۔ مثال کے طور پر تثلیث کا عقیدہ، روٹی خون، اور کفارے وغیرہ کے عقیدے اب لوگوں خصوصاً ذہین اور تعلیم یافتہ طبقے کو مطمئن کرنے کے لیے کافی نہ تھے۔خدا کی لمبائی چوڑائی کے عقیدے، زمین کی پیدائش سے متعلق بائبل کی تصریحات، نسل انسانی سے متعلق بائبل کے بیانات، مادی حقائق کی غیر ضروری تفصیلات مثال کے طور پر زمین کا کائنات کا مرکز ہونا وغیرہ ایسے تصورات تھے، جنہیں سائنس نے تجرباتی بنیادوں پر جھٹلادیا تھا۔
مذہب کے اس فرسودہ تصور کے خلاف جس گلے نے آواز بلند کی اسے دبا دیا گیا۔ گلیلیو، برونو اور نہ جانے کتنوں کو چرچ نے تعذیب کا شکار بنایا۔ زیادہ تفصیل میں جائے بغیر میں ول ڈورانٹ کی کتاب The Story of Civilisation سے کچھ اعدادو شمار پیش کرتا ہوں: ۱۴۸۸۔۱۴۸۰ء کے درمیان چرچ نے ۸۸۰۰ افراد کھمبوں سے باندھ کر جلادیے اور ۹۶۴۹۴ افراد کو دردناک سزائیں دیں۔ ۱۴۸۰ء سے۱۸۰۸ء کے مکمل عہد کا اندازہ لگا یا جائے تو یہ تعداد ۳۱۹۱۲ دردناک اموات اور ۴۵۰،۹۱،۲ افراد کو تعذیب و تشدد اور قید کی سزائوں تک پہنچ جاتی ہے۔ اہلِ عقل، اہلِ علم اور اہلِ سائنس کو چرچ کے اس ظلم و ستم پر چرچ سے جو مخاصمت تھی وہ فطری تھی۔ چرچ کے مذہبی تصور نے انھیں دین سے بیگانہ کردیا، تو چرچ کے ذمہ داران کی اخلاقی بدحالی، بدکاری، اور مغفرت کے سرٹیفکیٹ بیچنے جیسی حرکات نے پادریوں کا تقدس بھی ختم کردیا۔ چرچ کے ظلم و ستم نے مذہب کو برداشت کرنے کی قوت بھی سلب کرلی۔ تعذیب کی زنجیروں میں جکڑا ہوا انسان جب آزاد ہوا تو اس نے اخلاقی قدروں کا زیور بھی اتار پھینکا۔ دین و دنیا اور قیصر اور خدا کے حقوق میں تقسیم کردی گئی۔ دودھ کا جلا ہوا چھاچھ بھی پھونک پھونک کر پینے لگا اور آج تک پیے چلا جارہا ہے۔ قصہ مختصر یہ کہ اہل سائنس نے مذہب اور ہر اخلاقی قدر سے رشتہ توڑ کر مادیت کے سایے میں پناہ لی۔ یقینا یہ ایک بڑا قدم تھا اور اس کے لیے مفکرین نے عوام کو دلائل فراہم کیے۔ آج بھی ان دلائل و افکار کا سماج میں بول بالا ہے۔ اور انھی میں سے کچھ افکار کا ہم یہاں مطالعہ کرنے جارہے ہیں۔یہاں میں یہ بات واضح کردوں کہ چند مخصوص مفکرین کے ان خیالات کا مطالعہ مقصود ہے جن پر مادہ پرستی کی گہری چھاپ ہے۔ ان کے مکمل افکار اور قابل تعریف باتوں کا تذکرہ (جو یقینا ان میں پائی جاتی ہیں) اگر موقع کی مناسبت سے ہوجائے تو فبہا ورنہ وہ ہمارا موضوع نہیں ہے۔
میکیاولی(۱۵۲۷۔ ۱۴۶۹ء)
میکیاولی اٹلی کے شہر فلورنس کا رہنے والا تھا۔ جہاں ایک مدت تک میڈیسی خاندان کی بادشاہت قائم تھی۔لیکن ۱۴۹۸ء میں وہاں ایک عوامی جمہوریت کی بنا ڈالی گئی۔ میکیاولی اسی جمہوری دور میں فلورنس کی وزارتِ خارجہ سے وابستہ ہوا۔ لگاتار ترقی کرتے ہوئے اور کئی سفارتی خدمات انجام دینے کے بعد اس کے کیریئر کا نازک موڑ تب آیا جب ۱۵۱۲ء میں میڈیسی خاندان نے دوبارہ اقتدار پر قبضہ کرلیا۔ میکیاولی کو باغیوں میں شمار کیا گیا، اسے گرفتار کیا گیا، پھر بے گناہی کے ثابت ہوجانے پر رہا کردیا گیا۔ رہائی کے بعد خالی ایام میں میکیاولی نے اپنی مشہور زمانہ کتاب The Prince لکھی، جس میں اس نے اپنے تجربات کی روشنی میں اٹلی کے استحکام سے متعلق بادشاہِ وقت کو متعددمشورے دیے ہیں۔ اور یہی میکیاولی کے افکار کا خلاصہ ہے۔
Esotericist طریقے سے اگر میکیاولی کے افکار کا جائزہ لیا جائے جیسا کہ کچھ مفکرین نے کوشش کی ہے تو یہ باتیں سامنے آتی ہیں کہ میکیاولی جمہوری قدروں کا حامی تھا اور اس نے یہ ساری باتیں بادشاہِ وقت کی خوشنودی کے لیے لکھی تھیں۔ اس لیے اس نے اپنی کتاب میں بادشاہ کو بار بار عوام کے تئیں حساس رہنے کی بات کہی ہے۔ کچھ مفکرین یہ کہتے ہیں کہ پرنس میں میکیاولی نے بے رحمی کی تائید اس لیے کی ہے کہ بادشاہ اس کے مشورے پر عامل ہو اور عوام اس کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں۔ لیکن ان گمانوں کے ثبوت کے لیے ان مفکرین کے پاس دوردراز تاویلات کے سوا کچھ اور نہیں ہے۔
Contextualist طریقے سے البتہ اگر میکیاولی کے افکار کا جائزہ لیا جائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ میکیاولی اٹلی کی مختلف ریاستوں کی باہمی خانہ جنگی سے نالاں تھا۔ وہ ایک متحد اور طاقتور اٹلی کا خواب دیکھتا تھا۔ وہ اٹلی میں ایک بار پھر رومی سلطنت جیسی قوت دیکھنے کا خواہاں تھا۔ اس لحاظ سے اپنے تجربات کی روشنی میں اس نے کچھ باتیں لکھیں۔ فلورنس کے جمہوری دور میں عدم استحکام دیکھ کر وہ جمہوریت سے مایوس ہوگیا تھا، چرچ کی صورتحال نے اسے مذہب اور اخلاق سے برگشتہ کردیا۔ عیسائیت کو اس نے اٹلی کے زوال کا ایک اہم سبب قرار دیا۔ ان سب کے باوجود اس کتاب کے لکھنے سے وہ اپنا ایک ذاتی مفاد بھی حاصل کرنا چاہتا تھا۔ کتاب کے شروع اور آخر کا خوشامد بھرا حصہ اس بات کا غماز ہے کہ وہ بادشاہِ وقت کو اپنی وفاداری اور خیر خواہی کا یقین دلانا چاہتا تھا۔ تاکہ اسے اس کے پرانے عہدے پر بحال کردیا جائے۔ میکیاولی کو نشاۃ ثانیہ کے دور کا اہم ترین مفکر قرار دیا جاتا ہے۔ اپنے افکار کی وجہ سے جتنا بدنام میکیاولی رہا ہے شاید ہی ویسی بدنامی کسی اور مفکر کے حصے میں آئی ہو۔ لیکن حق بات یہ ہے کہ اسے گالیاں دینے والوں اور اس کی تعریف کرنے والوں میں ایک بات مشترک ہے اور وہ یہ کہ دونوں عمل اسی کے فلسفے پر کرتے ہیں۔ اب ہم اس کی کتاب کی طرف رجوع کرتے ہیں۔مختصراً اس کے افکار درج ذیل ہیں:
٭ میکیاولی اپنی کتاب کے آغاز میں بذریعہ جنگ بادشاہ کو اپنی سرحدیں پھیلانے کا مشورہ دیتا ہے۔ یہاں وہ اس بات پر زور دیتا ہے کہ نئے علاقوں پر قبضہ کرلینا کچھ بھی مشکل نہیں ہے، لیکن ان پر قبضہ برقرار رکھنا خصوصاً جبکہ ان کی زبان، رسم و رواج اور رہن سہن کے طور طریقے الگ ہوںانتہائی مشکل ہے۔ ایسے میں ایک بادشاہ کو کیا کرنا چاہیے ، اس سلسلے کا ایک مشورہ یہ بھی ہے کہ ’’بادشاہ کو نئے علاقے میں اپنی نوآبادی قائم کرلینی چاہیے۔ یہ کوئی مہنگاکام نہیں ہے۔ زمینوں اور مکانوں کے مالکان معمولی یا بغیر کسی معاوضے کے بھگائے جا سکتے ہیں۔ یہ لوگ تعداد میں اتنے کم ہوں گے کہ کسی مزاحمت کے لائق نہ ہوں گے‘‘۔ سلسلۂ کلام کو آگے بڑھاتے ہوئے وہ کہتا ہے ’’عوام کو یا تو چمکارلینا چاہیے یا برباد کردینا چاہیے۔ کیونکہ اگر انہیں صرف معمولی نقصان پہنچا کر چھوڑ دیا گیا تو وہ بدلہ لینے پر آمادہ ہوجائیں گے۔ لہٰذا اگر نقصان پہنچانا ہی ہے تو کچھ ایسا پہنچانا چاہیے کہ دوبارہ ان کی طرف سے کسی مزاحمت اور بدلے کا خدشہ نہ رہے‘‘۔
٭ میکیاولی تاریخ کو بہت اہمیت دیتا ہے اور کامیابی کے لیے اس بات کو ضروری جانتا ہے کہ کامیاب لوگوں کے نقشِ قدم پر چلا جائے۔ اپنی کتاب میں وہ کچھ ایسے ہی ’’کامیاب‘‘ لوگوں کا تذکرہ کرتا ہے جن کے نقش قدم پر چل کر کوئی بادشاہ اپنی منزل مراد تک پہنچ سکتا ہے۔ ایک مثال الیگزینڈر ششم کی ہے، اس نے کیسے اپنے اقتدار کو مضبوط کیا اس کے بارے میں میکیاولی لکھتا ہے، ’’الیگزینڈر ششم نے ان تمام رئیسوں کے خاندان کے افراد کو چُن چُن کر قتل کردیا جنہیں اس نے برباد کیا تھا ’’یا اقتدار کی دوڑ میں وہ جن سے آگے نکل آیا تھا تاکہ اس سے بدلہ لینے کا دعویدار یا کوئی حریف زندہ نہ رہے۔ پھر اس نے بتایا ہے کہ کیسے کمال عیاری سے الیگزینڈر ششم نے کرائے کے Cardinals کے ذریعے پوپ کے اقتدار کو کم کرکے اپنی طاقت بڑھائی وغیرہ۔ اسی طرح ایک اور بادشاہ سیورس کا قصہ وہ تفصیل سے نقل کرتا ہے کہ کس طرح چالبازی اور دھاندلی سے اس نے اقتدار حاصل کیا۔میکیاولی لکھتا ہے: ’’سیورس نے جب یہ دیکھا کہ وہ دونوں دشمنوں سے ایک ساتھ نہیں لڑ سکتا تو اس نے یہ فیصلہ کیا کہ وہ نائجرپر حملہ کرے گا اور البائینوس کو دھوکا دے گا۔ لہٰذا اس نے البائینوس کو خط لکھا کہ گو سینیٹ نے سیورس کو ہی بادشاہ چنا ہے لیکن وہ اس شرف میں البائینوس کو بھی حصہ دار بنانا چاہتا ہے۔ اس نے سینیٹ پر دبائو ڈال کر البائینوس کو بھی برابر کا بادشاہ ڈیکلئیرکرادیا۔اس کے بعد اس نے نائجر کا صفایا کردیا ، پھر وہ روم آیا اور سینیٹ سے شکایت کی کہ البائینوس نے باوجود اس کے احسانات کی بارش کی، اسے قتل کرنے کی سازش رچی تھی۔ اس کے بعد اس نے البائینوس کو بھی قتل کردیا‘‘۔
٭ انسان کی فطرت سے متعلق بحث کرتے ہوئے میکیاولی بادشاہ کو مشورہ دیتا ہے کہ لوگوں کا بادشاہ سے ڈرنا اس سے محبت کرنے سے زیادہ بہتر ہے کیونکہ، ’’تمام ہی انسانوں کے بارے میں یہ عام اصول ہے کہ وہ ناشکرے، جھگڑالو، جھوٹے اور دھوکے باز ہوتے ہیں، خطرات سے ڈرنے والے اور فائدوں کے حریص۔ اگر آپ ان کے ساتھ حسنِ سلوک کریں گے تو وہ آپ کے ساتھ رہیں گے، جب تک آپ کے ساتھ رہنے میں کوئی خطرہ نہ ہو۔لیکن خطرے کا وقت آتے ہی وہ ساتھ چھوڑ جائیں گے۔ محبت ایک ایسی چیز ہے جسے وہ کبھی بھی اپنے فائدے کے لیے قربان کرسکتے ہیں لیکن ڈر میں چونکہ سزا کا عنصر بھی شامل ہوتا ہے اس لیے انہیں قابو میں رکھتا ہے‘‘۔ انسان کی فطرت پر ایک کڑا تبصرہ کرتے ہوئے میکیاولی یہ بھی کہتا ہے کہ، ’’انسان اپنے باپ کی موت کو جلد ہی بھلا دیتا ہے لیکن کھوئی ہوئی جائیداد کو بھلا پانا اتنا آسان نہیں ہوتا‘‘۔ (باقی آئندہ)
(بشکریہ: ماہنامہ ’’زندگی نو‘‘ دہلی۔ اپریل ۲۰۱۱ء)
Leave a Reply