انڈونیشیا، ملائیشیا، ترکی، مصر، جرمنی اور فرانس میں حالیہ عرصہ میں جو واقعات ہوئے ہیں ان کی وجہ سے ہمارے بعض لگے بندھے خیالات کو دھچکا پہنچا ہے۔ انڈونیشیا دنیا کا سب سے بڑی مسلم آبادی والا ملک ہے جہاں تقریباً ۲۳۵ ملین مسلمان رہتے ہیں۔ انڈونیشیا، ہندوستان اورامریکا کے بعد تیسری بڑی جمہوریت ہے۔
ابھی کچھ دن پہلے یہاں صدارتی انتخابات ہوئے جس میں سیکولر ذہن و فکر رکھنے والے تین امیدوار بشمول ایک خاتون نے حصہ لیا۔ یہ ایسی خاتون ہیں جو حجاب استعمال نہیں کرتی۔ ان میں سے سوسیلو بمبانگ نے جیت حاصل کی۔ انہوں نے اپنی انتخابی مہم میں سیاسی و معاشی استحکام لانے اور سرمایہ داری و بدعنوانی کو روکنے کے علاوہ اسلامی عسکریت پسندی کو ختم کرنے کا وعدہ کیا تھا۔ اس سے تین ماہ قبل پارلیمانی انتخابات ہوئے تھے لیکن انڈونیشیا کی وہ سیاسی جماعتیں جن کا اسلامی ایجنڈا تھا انہیں شکست کا سامنا کرنا پڑا اور جو سیاسی پارٹیاں ملک میں اقتدار اور مذہب کو علیحدہ کرنا چاہتے تھے انہیں کامیابی حاصل ہوئی تھی۔
انڈونیشیا کے پڑوسی ملک ملائیشیا میں بھی کئی برسوں سے جاری (اکثریتی فرقہ کے لیے) کوٹہ سسٹم ختم کیا جا رہا ہے۔ یہ کوٹہ ملیالی نژاد اکثریتی فرقہ کے لیے تھا۔ کہا جا رہا ہے کہ اس کوٹہ کی وجہ سے ہندوستانی، چینی اور دیگر باشندوں کے ساتھ امتیازی سلوک کیا جا رہا تھا۔ وزیراعظم نجیب رزاق کو سبقت حاصل ہوئی۔ سابق نائب وزیراعظم انور ابراہیم کو جو اس قسم کا کوٹہ فراہم کرنے کے حامی تھے کچھ حاصل نہ ہو سکا۔ ایک اور مسلم ملک ترکی میں بھی جمہوریت کامیاب ہورہی ہے جہاں حکومت نے اعلان کیا ہے کہ ایک نیا قانون لایا جائے گا جس میں فوجی عدالتوں کے اختیارات کو محدود کیا جائے گا۔ اسی قانون کے تحت شہری عدالتیں، فوجی عہدیداروں کے خلاف مقدمات کی سماعت کرسکیں گی۔ فوجی عدالتوں کو یہ حق نہیں دیا جائے گا کہ وہ عام شہریوں کے خلاف قانونی کارروائی کریں۔ ترکی کا یہ عمل دراصل یورپی یونین میں اس کی شمولیت کے لیے ضروری ہے۔ اسی صورت میں اس کو یونین کی رکنیت مل سکتی ہے۔
اصل اور اہم بات یہ ہے کہ ترکی کے مقبول لیڈر طیب اردغان نے ۸۰ سال سے جاری ان مراعات کو ختم کر دیا ہے جو فوج کو حاصل تھیں۔ یہ فوج ہی جو بار بار قومی حکومتوں کے تختے اُلٹ دیا کرتی تھی۔ جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے وہاں اور بنگلہ دیش میں بھی بہرحال عوام کی منتخب حکومتیں کام کر رہی ہیں۔ پاکستان کی آبادی لگ بھگ ۱۷۶ ملین اور بنگلہ دیش کی ۱۵۸ ملین ہے۔ جب کہ ہندوستان میں ۱۵۵ ملین مسلمان رہتے ہیں۔ اس طرح سے سارے علاقے میں کئی سو ملین مسلم جمہوریت کی طرف راغب ہو رہے ہیں۔
مغربی ممالک کا یہ خیال درست نہیں ہے کہ مسلم ممالک میں یا تو فوجی حکمرانی ہے یا پھر شاہی خاندانی افراد حکومت کر رہے ہیں۔ یہ بات زیادہ سے زیادہ مشرق وسطیٰ کے تعلق سے کسی حد تک صحیح کہی جا سکتی ہے۔ اس پس منظر میں یہ بات یقین کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ امریکا کی جانب سے مسلم ممالک میں جمہوریت کو مستحکم کرنے کا نعرہ بے بنیاد اور کھوکھلا ہے۔
حالیہ عرصہ میں جس انداز میں عراق اور افغانستان میں امریکا نے کٹھ پتلی حکومتوں کی جمہوریت قائم کی ہے وہ خود ایک مضحکہ خیز بات ہے۔ ان دونوں ممالک کی امریکی چھاپ والی جمہوریتوں نے ہزاروں لاکھوں انسانوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا امریکا کے اس عمل کو عالمِ اسلام کے اکثر ممالک ’’انسانیت کے خلاف امریکی جرائم‘‘ قرار دیتے ہیں۔ ایک اور خیال جو مغربی ممالک میں عام طور پر پایا جاتا ہے کہ آج بھی مسلم خواتین ذہنی پسماندگی کا شکار ہیں لیکن انڈونیشیا، پاکستان، ترکی، بنگلہ دیش وہ ممالک ہیں جہاں خواتین کی حکمرانی ہے یا خواتین کو بہتر مقام حاصل ہے۔ ایران میں بھی خواتین کو اعلیٰ سیاسی مقام حاصل ہے۔
جرمنی میں ایک حاملہ خاتون کو جو حجاب پہنے ہوئی تھیں چاقو مار کر بھری عدالت میں قتل کر دیا گیا۔ اس خاتون کے جسم پر ۱۸ زخم تھے۔ اس قتل کا ایک دردناک پہلو یہ بھی تھا کہ اس خاتون کا ۳ سال کا معصوم بچہ اپنی ماں کے قتل کا یہ نظارہ کرتا رہا۔ بجائے اس کے کہ قتل کے سلسلے میں مشکوک افراد کی گرفت کی جاتی پولیس نے ’’غلطی‘‘ سے اس مظلوم و مقتول خاتون کے شوہر کو گولی مار دی۔ حالانکہ جس عدالت میں یہ قتل کیا گیا تھا وہیں ایک شخص مقتول خاتون کو دہشت گرد قرار دے رہا تھا۔ اس جانب کسی نے توجہ نہیں دی اور خاتون کے شوہر کو گولی مار کر زخمی کر دیا بے حد تشویشناک حالت میں ہے۔ مروا شیری بینی خاتون کو ان کے وطن مصر میں دفنایا گیا جہاں برہم مصری افراد نے جرمنی کے خلاف نعرے لگائے۔ آج کل جرمنی میں بھی اسلام کے خلاف نفرت کا ماحول پیدا ہو گیا ہے جس کو اسلامو فوبیا کہا جاتا ہے۔ عرب لیگ نے بھی ان واقعات کی شدید مذمت کی ہے۔
ان واقعات پر مغربی ممالک کا میڈیا خاموش رہا لیکن کچھ مسلمانوں نے اس کے خلاف آواز اٹھائی۔ آواز اٹھانے والوں میں واحدہ نامی ایک خاتون بھی تھیں جو کینیڈا اسلامک کانفرنس کی صدر ہیں اور ہمیشہ حجاب میں رہتی ہیں۔ اس تنظیم کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر زیجاد ڈیلک نے کہا ہے کہ اگر جرمنی کی عدالت میں قتل کی جانے والی خاتون کا قاتل مسلمان ہوتا تب اس قتل کی خوب تشہیر کی جاتی۔ باقاعدہ مقدمہ چالا جاتا اور بار بار یہ کہا جاتا کہ مسلمان انتہائی ظالم ہوتے ہیں، لیکن جب ایک نسل پرست یورپی اس معصوم خاتون کا قاتل ہوتا ہے جیسا کہ اس واقعہ میں ہوا ہے تو سارا میڈیا خاموشی اختیار کر لیتا ہے۔
صدر فرانس سرکوزی بھی نقاب اور حجاب کے خلاف بہت کچھ کہہ چکے ہیں ان کا الزام ہے کہ حجاب مذہبی علامت نہیں بلکہ کسی بھی خاتون کی پسماندگی کی علامت ہے۔ سوال یہ ہے کہ کوئی جمہوری ملک جیسا کہ فرانس، کس بنیاد پر کسی مسلم خاتون کے حجاب پر پابندی لگا سکتا ہے اور ساتھ ہی ساتھ بِکنی جیسے مختصر لباس کو فروغ دیتا ہے۔
متذکرہ بالا تمام واقعات اور مثالوں سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ یورپی ممالک کے علیحدہ سیاسی اور جغرافیائی حالات کی وجہ سے یا پھر وہاں موجود نسل پرستی کے سبب یہ سب کچھ ہو رہا ہے۔ مجموعی طور پر مغربی ممالک کی اسلام اور مسلمانوں کے حوالے سے لاعلمی بھی عالمی سطح پر مسلمانوں کے لیے تکلیف دہ ہو گئی ہے۔
(بحوالہ: روزنامہ ’’المنصف‘‘۔ حیدرآباد دکن)
Leave a Reply