
سان برنار ڈینو میں ہولناک دہشت گردی نے امریکی سرزمین پر انتہا پسند جہادیوں کی موجودگی کے خوف کو تازہ کردیا ہے۔ امریکی عوام نائن الیون کے بعد سے اسلام کے نام پر ہونے والی دہشت گردی کے مسئلے سے نبرد آزما ہیں۔ اگر ہم ایک ایسے گرم سیاسی ماحول کے بیچ نہ ہوتے، جس میں بہت سے ری پبلکن امیدار ایک دوسرے سے بڑھ کر توجہ حاصل کرنے میں کوشاں ہیں تو موجودہ بیانیہ اور امریکی عوام کے اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں تاثرات گزشتہ سالوں سے مختلف نہ ہوتے۔
ایک سروے، جو میں نے ۴ تا ۱۰؍نومبر ۲۰۱۵ء میں داعش کی طرف سے مصر کے اوپر روسی طیارہ گرانے کے بعد مگر پیرس اور سان برنار ڈینو میں حملوں سے قبل کیا، بہت سے رجحانات کو واضح کرتا ہے۔ ظاہر ہونے والے بہت سے رویے گزشتہ ڈیڑھ دہائی میں امریکیوں کے تجربے کی پیداوار ہیں۔
پہلا، امریکی ’’مسلمان لوگوں‘‘ اور ’’مسلمان مذہب‘‘ میں فرق کرتے ہیں اور وہ اسلام کو مسلمانوں سے زیادہ منفی نظر سے دیکھتے ہیں۔ اس کے کئی اسباب ہو سکتے ہیں۔ لیکن اصل بات یہ ہے کہ بہت سے امریکیوں کے لیے (جو مضبوط تعصب مخالف اخلاقیات رکھتے ہیں) ایک مجرد نظریہ کو ناپسند کرنا لوگوں سے تعصب برتنے کے مقابلے میں آسان ہے۔ حتیٰ کہ ڈونلڈ ٹرمپ بھی اپنی مسلمان مخالف یا ہسپانی مخالف بیان بازی کا آغاز ’’مجھے مسلمانوں سے محبت ہے‘‘ سے کرتے ہیں۔ جزوی طور پر اس کی وجہ واقفیت بھی ہو سکتی ہے۔ (جیسا کہ ذیل میں میرا ساتواں نکتہ واضح کرتا ہے۔)
اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں متضاد رویے کافی عرصے سے موجود ہیں۔ اگرچہ اسلام کے بارے میں نظریات نائن الیون کے بعد بے حد خراب ہو گئے تھے۔ ان میں دوبارہ بہتری نہیں آسکی، یہاں تک کہ عرب بہار کے ابتدائی دنوں میں بھی جب امریکیوں میں عربوں کے لیے کافی ہمدردی پیدا ہو گئی تھی۔
نائن الیون کے تین ہفتوں بعد، ایک اے بی سی سروے کے مطابق امریکیوں کا اسلام کے بارے میں مثبت رویہ منفی سے بڑھا ہوا تھا۔ ۴۷ فیصد مثبت اور ۳۹ فیصد منفی۔ مگر ایک دہائی بعد یہ تصویر ڈرامائی انداز میں تبدیل ہوئی۔ ایک سروے، جو میں نے اپریل ۲۰۱۱ء میں کیا، اس کے مطابق ۶۱ فیصد امریکیوں کے اسلام کے بارے میں تاثرات منفی تھے جبکہ صرف ۳۳ فیصد نے مثبت تاثرات ظاہر کیے۔ یہ عرب بغاوتوں کے پُرامید زمانے کے درمیان کی بات ہے، جب ۷۰ فیصد امریکیوں نے مصریوں کے بارے میں مثبت تاثرات دیے تھے۔ اس وقت بھی امریکی اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں فرق کرتے نظر آتے تھے اور نصف کا کہنا تھا کہ وہ مسلمانوں کے بارے میں مثبت تاثر رکھتے ہیں۔
میرا حالیہ سروے بھی کم و بیش وہی نتائج ظاہر کرتا ہے جو ۲۰۱۱ء کے پُرامید دنوں میں سامنے آئے تھے۔ ۶۱ فیصد امریکی اسلام کے بارے میں منفی تاثر رکھتے ہیں۔ مگر مسلمانوں کے بارے میں تاثر میں معمولی بہتری آئی ہے اور اب ۵۳ فیصد مثبت رائے ظاہر کرتے ہیں۔ خطے کے بارے میں مایوسی، داعش کے عروج اور پیرس اور سان برنار ڈینو حملوں سے پہلے شہ سرخیوں میں جگہ پانے والے بم دھماکے کے باوجود یہ نتائج سامنے آئے ہیں۔ ایک سال قبل ۷۰ فیصد امریکیوں نے داعش کو امریکا کے لیے سب سے بڑا خطرہ قرار دیا تھا۔ میرے اس سروے میں بھی قریب قریب یہی نتیجہ سامنے آیا ہے۔
دوسرا، مسلمان لوگوں اور مسلمان مذہب کے بارے میں نظریات جماعتی بنیادوں پر تقسیم ہیں۔ ڈیموکریٹس کی بڑی تعداد یعنی ۶۷ فیصد مسلمانوں کے بارے میں مثبت سوچ رکھتی ہے۔ اس کے مقابلے میں مثبت سوچ رکھنے والے ری پبلکنز اور انڈیپنڈنٹس کی تعداد بالترتیب ۴۱ اور ۴۳ فیصد ہے اور جبکہ ڈیمو کریٹس کی معمولی اکثریت، ۵۱ فیصد، مسلمان مذہب کے بارے میں مثبت رویہ رکھتے ہیں، ۷۳ فیصد ری پبلکنز کی رائے اسلام کے بارے میں منفی ہے۔
تیسرا، وہ ری پبلکنز جو مسلمانوں کے بارے میں بہت ہی زیادہ منفی رائے ظاہر کرتے ہیں، ڈونلڈ ٹرمپ کو صدر دیکھنا چاہتے ہیں (۴۳ فیصد)۔ اس کے مقابلے میں مسلمانوں کے بارے میں بہت ہی مثبت سوچ رکھنے والے ری پبلکنز صرف بارہ فیصد ہیں۔
چوتھا، امریکی عمومی طور پر اس بات کو تسلیم نہیں کرتے کہ تہذیبوں کا تصادم ہے۔ لیکن اس مسئلے پر جماعتی بنیادوں پر تقسیم بہت واضح ہے۔ صرف ۳۹ فیصد امریکیوں کا کہنا ہے کہ مغرب اور اسلام کی مذہبی اور سماجی روایات ناقابلِ صلح ہیں۔ جبکہ ۵۷ فیصد کا کہنا ہے کہ مغربی اور اسلامی دنیا میں لوگوں کی ضروریات و خواہشات یکساں ہیں۔ ان نتائج کا میرے ۲۰۱۱ء کے سروے سے موازنہ کیا جاسکتا ہے جس میں ۳۷ فیصد اسلام اور مغربی تہذیب میں مصالحت کے امکان کے مخالف تھے اور ۵۹ فیصد حامی تھے۔ جماعتی اختلافات کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ حالیہ سروے میں ۲۶ فیصد ڈیمو کریٹس کا کہنا تھا کہ دونوں تہذیبیں ناقابلِ صلح ہیں جبکہ ری پبلکنز میں سے ۵۶ فیصد کی یہی رائے ہے۔
پانچواں، آبادیاتی لحاظ سے نوجوان اور اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگ اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں نسبتاً زیادہ مثبت رائے رکھتے ہیں اور خاص طور پر تہذیبوں کے تصادم کے نظریے کو رَد کرتے ہیں۔ ۱۸ سے ۲۴ سال کے درمیان کے ۶۰ فیصد لوگ مسلمانوں کو مثبت نظر سے دیکھتے ہیں۔ ۶۵ سال سے زائد عمر کے لوگوں میں یہ فیصد ۴۳ ہے۔ ری پبلکنز میں بھی یہی صورتحال ہے جہاں ۱۸ سے ۲۴ کے درمیان کے ۶۵ فیصد لوگ مثبت رویہ رکھتے ہیں جبکہ ۶۵ سال سے زائد عمر کے لوگوں میں یہ عدد ۳۲ ہے۔
ہائی اسکول کی سطح سے کم تعلیم رکھنے والوں کا ۴۹ فیصد جبکہ ہائی اسکول تک تعلیم رکھنے والوں کا ۴۴ فیصد مسلمانوں کے بارے میں مثبت نظریہ رکھتا ہے۔ کالج کی کچھ تعلیم رکھنے والوں میں یہ تعداد ۵۲ فیصد جبکہ کالج اور اس سے اوپر سطح کی تعلیم کے حامل افراد میں ۶۳ فیصد ہے۔
چھٹا، مشرقِ وسطیٰ کی پالیسی کے حوالے سے دو اہم امریکی حلقوں، انجیلی عیسائیوں اور امریکی یہودیوں کی رائے خاص طور پر متضاد ہے۔ جو خود کو امریکی یہودی کہتے ہیں (نمونے کا ۵ فیصد) ان میں سے صرف ۲۰ فیصد کا خیال ہے کہ اسلام اور مغرب کی مذہبی اور ثقافتی روایات ناقابلِ صلح ہیں۔ اس کے برعکس انجیلی عیسائیوں میں یہ عدد ۵۵ فیصد ہے۔ ۴۳ فیصد امریکی یہودیوں کی اسلام کے بارے میں رائے مثبت ہے (جو مجموعی قوم کے ۳۷ فیصد سے زیادہ ہے)۔ صرف ۱۸؍فیصد انجیلی عیسائی اس کے ہم خیال ہیں۔ ۵۵ فیصد امریکی یہودی مسلمانوں کے بارے میں مثبت رائے رکھتے ہیں مگر انجیلی عیسائیوں میں یہ تعداد ۳۸ فیصد ہے۔
ساتواں، ان لوگوں کی اکثریت جو مسلمانوں سے جان پہچان رکھتے ہیں، اگرچہ تھوڑی ہی سہی، مسلمانوں کے بارے میں مثبت رویہ رکھتے ہیں۔ یہ بات پورے سیاسی افق کے لحاظ سے درست ہے اور اس میں جماعتی تقسیم نمایاں نہیں۔ مثال کے طور پر ۲۲ فیصد ری پبلکنز جو کسی مسلمان کو نہیں جانتے، مثبت رائے رکھتے ہیں۔ اس کے مقابلے میں مسلمانوں سے تھوڑی بہت جان پہچان رکھنے والے ری پبلکنز میں یہ تعداد ۵۱ فیصد ہے۔ مسلمانوں سے اچھی جان پہچان رکھنے والوں میں یہ تعداد ۵۹ فیصد تک ہے۔
مگر کچھ مسلمانوں سے جان پہچان بھی امریکیوں کے اسلام کے بارے میں نظریے کو زیادہ متاثر نہیں کرتی۔ اگرچہ جو مسلمانوں سے جان پہچان رکھتے ہیں، ان کے اسلام کے بارے میں نظریات تھوڑے بہتر ہیں مگر ری پبلکنز اور انڈیپنڈنٹس کی اکثریت مسلمان مذہب کے بارے میں منفی رویہ رکھتی ہے۔ یہاں تک کہ وہ امریکی بھی، جو کہتے ہیں کہ ان کی کچھ مسلمانوں سے بہت اچھی جان پہچان ہے، مسلمان مذہب کے بارے میں اپنے رویوں میں مختلف ہیں۔
آخر میں یہ سوال کہ کیا یہ واقعی اہم ہے کہ امریکی مسلمانوں کو کس طرح دیکھتے ہیں؟ اس کا جواب یہ ہے کہ ہاں، بہت زیادہ۔ اور نہ صرف پالیسی مضمرات کی وجہ سے بلکہ اس لیے بھی کہ یہ بات مسلمانوں کے اپنے آپ کو دیکھنے کے انداز پر بھی ناگزیر اثر ڈالتی ہے۔
ہماری موجودہ بحث، ظاہر ہے کہ غیر معمولی طور پر گرم سیاسی ماحول میں ہیجان انگیز مبالغہ آرائی کی وجہ سے بھی رنگین ہے۔ ہم بھول جاتے ہیں کہ مذہب اور نسل لوگوں کے لیے اکثر شناخت کا ایک چھوٹا سا حوالہ ہوتے ہیں، بعض اوقات محض ایک دور افتادہ خیال۔ نیویارک کی ایک وکیل انیقہ رحمان نے نائن الیون کے بعد کے دنوں میں اس پیچیدگی کو بہت عمدہ انداز میں پیش کیا۔ ’’نیو یارک ٹائمز‘‘ میں انہوں نے لکھا:
’’میں خود کو ایک نیو یارکر کے طور پر دیکھنے کی اتنی عادی تھی کہ مجھے اپنے آپ کو ایک اجنبی کے طور پر دیکھنے میں کئی دن لگے۔ ایک مسلمان عورت، ایک غیر ملکی، شاید ایک شہر دشمن۔ پچھلے ہفتے سے پہلے میں خود کو ایک وکیل، ایک عورت دوست، ایک بیوی، ایک بہن، ایک دوست اور سڑک پر چلنے پھرنے والی ایک عام عورت سمجھتی تھی۔‘‘
یہ ایک یاد دہانی ہے کہ شناخت ایک تعلق ہے۔ لوگ اپنے آپ کو کسی حد تک اس طرح بیان کرتے ہیں جیسے دوسرے انہیں دیکھتے ہیں۔ ہم وہ ہیں جس کا ہمیں دفاع کرنا ہے۔ سب سے زیادہ بُری چیز جو امریکی کر سکتے ہیں، وہ مسلمانوں کی غلط تصویر کشی ہے، بشمول اُن مسلمانوں کے جو ان کے ہم وطن بھی ہیں۔
(ترجمہ: طاہرہ فردوس)
“What Americans really think about Muslims and Islam”. (“brookings.edu”. Dec. 9, 2015)
Leave a Reply