
روس نے افغانستان میں طالبان کی دوبارہ آمد کو خاصے محتاط انداز سے قبول کیا ہے تاہم دہشت گردی اور علاقائی سلامتی کے حوالے سے تحفظات و خدشات برقرار ہیں۔ افغانستان کے دارالحکومت کابل پر طالبان کے متصرف ہونے کے صرف ایک دن بعد کابل میں روسی صدر ولادیمیر پیوٹن کے ایلچی ضمیر کابلوف نے طالبان کو اشرف غنی کی کٹھ پتلی حکومت کے مقابلے میں زیادہ قابلِ اعتبار شراکت دار قرار دیا۔ کابل میں روس کے سفیر دمتری زرنوف نے کہا کہ اشرف غنی کی حکومت کے مقابلے میں طالبان کے زیرِ تصرف کابل زیادہ محفوظ ہے۔
روسی حکام نے اشرف غنی کے فرار کی شدید مذمت کی اور اُن غیر مصدقہ دعووں کو دہرایا، جن کے مطابق اشرف غنی کابل سے فرار ہوتے وقت کئی کاروں اور ایک ہیلی کاپٹر میں ڈالر بھر کر لے گئے تھے۔ طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے بھی روس کو اہم پارٹنر کی حیثیت سے یاد کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ طالبان بہت جلد روس کے ساتھ مل کر کام کریں گے۔ طالبان نے عبوری حکومت کی حلف برداری کی تقریب میں (جو بوجوہ نہ ہوسکی) روسی حکام کو بھی شرکت کی دعوت دی تھی۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ روس نے مجموعی طور پر طالبان کی آمد کا خیرمقدم کیا ہے تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ وہ طالبان کی آمدِ نو کو سنہرے موقع کے ساتھ ساتھ ایک بڑے خطرے کے طور پر لیتا ہے۔ تجارت کے نقطۂ نظر سے طالبان کا دوبارہ اقتدار میں آنا روس کے لیے نیک فال ہے۔ وسطِ ایشیا کے راستے افغانستان سے تجارت میں اضافہ متوقع ہے۔
۲۵؍اگست کو کابل میں روس کے سفیر دمتری زرنوف نے اعلان کیا کہ ان کا ملک افغانستان میں معدنیات کے ذخائر میں سرمایہ کاری کا متمنی ہے۔ روس کمزور اور نازک حالات کی حامل ریاستوں میں معدنیات کے ذخائر کی تلاش اور کھدائی کے شعبے میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کرتا آیا ہے۔ سوڈان اور سینٹرل افریقن ری پبلک اس کی نمایاں ترین مثال ہیں۔ افغانستان میں معدنیات کے وسیع ذخائر موجود ہیں جن سے روس بخوبی مستفید ہوسکتا ہے۔
امریکا میں افغانستان کے زرِ مبادلہ کے ذخائر اور دیگر اثاثوں کے انجماد کی روس نے بھرپور مخالفت کی ہے اور ساتھ ہی ساتھ اس بات پر بھی زور دیا ہے کہ افغانستان میں نئی حکومت کو بہتر انداز سے کام کرنے کے قابل بنانے کے لیے بڑے پیمانے پر امداد دی جانی چاہیے۔ خیرسگالی کے اس اظہار سے روس اور طالبان کے درمیان مختلف شعبوں میں اشتراکِ عمل کے معاہدے متوقع ہیں۔ طالبان نے وسطِ ایشیا کے ممالک کے ساتھ ٹرانسپورٹ اور توانائی کے شعبوں کے منصوبوں میں دلچسپی ظاہر کی ہے۔ روس ایک زمانے سے اس بات کا خواہش مند ہے کہ یوریشیا کے خطے میں تمام ریاستیں مل کر کام کریں تاکہ علاقائی بنیاد پر ترقی و خوش حالی کا خواب عمدگی سے شرمندۂ تعبیر کیا جاسکے۔
طالبان کی کامیابی سے روس کے لیے سفارتی سطح پر بھی غیر معمولی کامیابیوں کی راہ ہموار ہوسکتی ہے۔ ۲۰۱۵ء میں دی ناردرن ڈسٹری بیوشن نیٹ ورک لاجسٹیکل ٹرانزٹ روٹ کے بند ہونے تک روس اور مغرب کے درمیان افغانستان واحد علاقہ تھا جو بحران سے محفوظ تھا۔ روس اور امریکا دہشت گردی اور منشیات کی اسمگلنگ سے متعلق خفیہ معلومات کا محض تبادلہ نہیں کرتے تھے بلکہ منشیات کی اسمگلنگ ناکام بنانے کے لیے مشترکہ کارروائیاں بھی کرتے تھے۔
امریکا اور یورپ سے روس کے تعلقات الیگزی نیولنی کو زہر دیے جانے، روس کے سائبر حملوں اور بحیرۂ اسود کے خطے میں عسکری کشیدگی کے باعث کشیدہ اور داغ دار رہے ہیں۔ ایسے میں روس طالبان سے اچھے تعلقات چاہتا ہے تاکہ مغربی ریاستوں کی طرف سے مثبت توجہ مل سکے۔
امریکا کے ساتھ تین طاقتوں کے مذاکرات میں روس کا کردار بھی کلیدی نوعیت کا ہے۔ علاوہ ازیں افغانستان کے معاملات پر بحث کے لیے جی سیون اور دو اضافی ریاستوں کے سربراہ اجلاس میں روس کی شرکت اس امر کی دلیل ہے کہ روس اب خطے میں اپنے لیے وسیع تر کردار کا خواہاں ہے۔ برطانوی وزیر خارجہ ڈومینک راب کہتے ہیں کہ طالبان کے تحت افغانستان کے حوالے سے روس کا معتدل کردار روس اور افغانستان کے درمیان پُل کا سا ہے۔
روسی قیادت اس خیال کی بھی حامل ہے کہ افغانستان میں طالبان کا اقتدار روس اور غیر مغربی طاقتوں کے درمیان پارٹنرشپ اور اشتراکِ عمل کی بنیاد کو وسیع کرسکتا ہے۔ روس اور چین نے حال ہی میں ننگژیا ہوئی کے خود مختار علاقے میں مشترکہ فوجی مشقیں کی ہیں۔ ۱۰؍ہزار سے زائد نفری کے ساتھ کی جانے والی ان مشقوں کا بنیادی مقصد افغانستان کی صورتِ حال سے وسطِ ایشیا کے لیے ابھرنے والے خطرات کا سامنا کرنے کی صلاحیتوں میں اضافہ کرنا تھا۔ افغانستان میں داعش (خراسان) کا تیزی سے ابھرتا ہوا خطرہ بھی دہشت گردی کے خاتمے کے حوالے سے شنگھائی تنظیمِ تعاون کے دائرۂ کار میں عمل نواز پالیسیوں کی راہ ہموار کرسکتی ہے۔ اس کے نتیجے میں روس اور چین کے درمیان ہم آہنگی اور اشتراکِ عمل کا گراف بلند ہوسکتا ہے۔
ایران کے صدر ابراہیم رئیسی نے افغانستان میں امن و استحکام یقینی بنانے کے لیے روس کے ساتھ مل کر کام کرنے کا عندیہ دیا ہے۔ بھارت میں روس کے سفیر نکولے کداشیف نے بھی افغانستان کی سلامتی کے حوالے سے روس اور بھارت کے درمیان ہم آہنگی کی بات ہے۔ دونوں کا یہ خیال ہے کہ افغانستان میں حالات کی خرابی سے وسطِ ایشیا اور جموں و کشمیر میں شورش بڑھے گی۔
چین، ایران اور بھارت سے تعلقات بہتر بنانے میں معاونت کے علاوہ افغانستان میں نئی حکومت کے قیام نے روس کے لیے پاکستان سے بھی بہتر تعلقات کی راہ ہموار کی ہے۔ ۲۷؍اگست کو پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان کے لیے روس کے صدر ولادیمیر پیوٹن کی ٹیلی فون کال کو دوطرفہ تعلقات کے حوالے سے ایک نئے اور خوشگوار دور کا آغاز قرار دیا جارہا ہے۔ اس ٹیلی فون کے ذریعے روس نے پہلی بار اپنے مفادات کی تکمیل کے حوالے سے پاکستان پر بھروسا ظاہر کیا ہے۔
ایک طرف تو روسی صدر نے پاکستانی وزیر اعظم کو فون کرکے اپنائیت کا ثبوت دیا اور دوسری طرف امریکی صدر جو بائیڈن نے پاکستان کو نظر انداز کرتے ہوئے ایک ٹیلی فون کال کی بھی زحمت گوارا نہیں کی۔ اس کے نتیجے میں پاکستان اور روس کے تعلقات میں انتہائی خوش گوار تبدیلی کی راہ ہموار ہوتی دکھائی دی ہے۔ پاکستان اب تک جن ممالک سے اسٹریٹجک پارٹنر شپ کو ترجیح دیتا آیا ہے اُن میں روس اب غیر معمولی مقام کا حامل ہے۔ پاکستان گیس اسٹریم پائپ لائن کے حوالے سے گفت و شنید اس بات کا مظہر ہے کہ افغانستان کی صورتِ حال نے روس اور پاکستان کو قریب تر آنے کا موقع فراہم کرتے ہوئے وسیع تر تجارت کی راہ ہموار کی ہے۔
افغانستان کی بدلی ہوئی صورتِ حال نے روس کے ساتھ معاشی اور سفارتی مواقع پیدا کیے ہیں مگر طالبان نے چند ایک ایسی باتیں بھی کہی ہیں، جو روسی مفادات اور پالیسیوں سے مطابقت نہیں رکھتیں۔ روسی حکام نے ماضی میں داعش کی روک تھام سے متعلق طالبان کے اقدامات کا سراہا ہے، مگر حال ہی میں طالبان ترجمان ذبیح اللہ مجاہد کا یہ کہنا روس کے لیے زیادہ قابلِ قبول نہیں کہ داعش کا وجود افغانستان کے لیے خطرہ نہیں۔
ایسا نہیں ہے کہ روسی قیادت طالبان کی آمد پر افغانستان کی صورتِ حال کے حوالے سے مکمل طور پر مطمئن ہوچکی ہے۔ افغانستان میں طالبان کے اقتدار کی غیر یقینی کیفیت بھانپتے ہوئے روس نے وسطِ ایشیا میں سلامتی کے امور کے حوالے سے اپنی موجودگی کو وسعت دینے پر توجہ دی ہے۔ دی رشین انٹرنیشنل افیئرز کونسل کے ڈائریکٹر جنرل آندرے کورزنوف نے حال ہی میں کہا ہے کہ شمالی افغانستان پر مکمل تصرف کے لیے طالبان کو جدوجہد جاری رکھنا پڑے گی اور اس کے نتیجے میں وہاں عدم استحکام بڑھے گا اور وسطِ ایشیا پر القاعدہ یا داعش (خراسان) کے حملوں کا خدشہ بھی ہے۔
ماسکو میں خارجہ پالیسی کی کمیونٹی کو اس صورتِ حال کا اچھی طرح احساس ہے۔ یہی سبب ہے کہ ۲۶؍اگست کو کابل ایئرپورٹ پر خود کش حملے کے بعد روس نے وسطِ ایشیا کی ریاستوں کو بڑے پیمانے پر ہتھیاروں کی فراہمی کا عمل تیز کرنے کا عہد کیا۔ روس نے کرغیزستان کے ساتھ ماسکو کی سربراہی میں قائم کلیکٹیو سیکورٹی ٹریٹی آرگنائزیشن (سی ایس ٹی او) کی چھتری تلے فوجی مشقیں بھی کی ہیں۔
روس نے طالبان کی قیادت میں افغانستان میں قائم ہونے والی حکومت سے تعاون اور اشتراکِ عمل کے حوالے سے اب تک رجائیت پر مبنی رویے کا مظاہرہ کیا ہے، مگر پھر بھی حتمی تجزیے میں اس امر کا تعین نہیں ہوسکا ہے کہ طالبان کی آمد ماسکو کے لیے رحمت ہے یا زحمت۔ یہ ابہام مستقبل میں افغانستان کے حوالے سے عمل پسند سفارت کاری اور خطرات سے نمٹنے کی حکمتِ عملی کے لیے تحریک دیتی رہے گی۔
(ترجمہ: محمد ابراہیم خان)
“What are the limits of Russia’s Taliban engagement?” (“trtworld.com”. Sep. 7, 2021)
Leave a Reply