برطانیہ انتخابات کے بعد سب سے اہم کام بریگزٹ کا اپنے انجام تک پہنچنا ہے۔ بریگزٹ کے لیے ریفرنڈم سے اب تک یعنی تین ساڑھے تین برس کے دوران غیر یقینی کی صورتحال رہی ہے جہاں ہر نتیجہ ممکن تھا،ہم یہ جانتے ہیں کہ ۳۱ جنوری کے بعد بریگزٹ کے عمل کو پیچھے کی طرف لے جانا ممکن نہیں ہے۔
یہ ایک بڑا کام ہے کیوں کہ بریگزٹ نے برطانیہ اور یورپ دونوں طرف سیاست پر ایک گہرا نفسیاتی اثر ڈالا ہے۔یورپ ایک غیریقینی شراکت دار کے ساتھ کام کررہا ہے، جس کی کوئی سمت متعین نہیں ہے۔کچھ کو ابھی تک امید تھی کہ شاید بریگزٹ کی واپسی کی کوئی راہ نکل آئے لیکن اب سب کچھ با لکل واضح ہے۔
یہ ایک لازمی امر ہے کہ کاروبار کے کسی بھی حکم نامے سے پہلے واپسی کا معاہدہ منظور کیا جائے گا، جو اکثریت قدامت پسندوں نے حاصل کی ہے اس لحاظ سے بریگزٹ کا عمل مکمل ہوچکا ہے، اب محض ایک رسمی کارروائی رہ گئی ہے۔
سوال یہ ہے کہ اگلے سال کے اہداف کیا ہیں؟ دسمبر ۲۰۲۰ء اور منتقلی کے دورانیے کے اختتام سے پہلے ہی مذاکرات کے نئے طریقے اور نئے عزم کے ساتھ نئے انداز میں تعلقات استوار کیے جائیں گے، دیکھنا یہ ہے کہ اگلے برس طے کردہ اہداف کا حصول کس حد تک ممکن ہے؟
یہاں تین ممکنہ نتائج ہوسکتے ہیں پہلا یہ کہ متعین مدت کو نظر انداز کیا جائے،بورس جانسن اپنے وعدے پر عمل کرتے ہوئے منتقلی کے دورانیے کو گزرنے دیں اورنتیجے کے طور پر کوئی تجارتی معاہدہ طے نہ کیا جائے۔ دوسرا حل یہ ہے کہ مذاکرات کے ذریعے ۲۰۲۰ء کے اختتام تک کچھ نتیجہ خیز کام کرنے کی کوشش کی جائے۔شاید یہ مذاکرات بغیر گرم جوشی اور خیر سگالی کی وجہ سے پائیدارنہ ہوں یا شاید معاہدے کے ساتھ سا تھ سمجھوتے کی شرائط بھی ہوں، جس میں توسیع شامل نہیں ہوگی۔ لیکن ایک عارضی معاہدہ طے پانے کے امکانات ہیں جس پر عمل درآمد کی مدت بھی طے کی جائے گی۔
ایک صورتحال یہ بھی بن سکتی ہے کہ اہم موضوعات کا حل تلاش کرنے کے لیے مذاکرات کی مدت میں توسیع کے ساتھ منتقلی کے دورانیے کے اختتام تک ایک بنیادی معاہدہ طے کیا جائے،یورپ معاہدے کے ایک فریق کی حیثیت سے ممکنہ طور پر زراعت کے شعبے تک رسائی پانے کے لیے اصرار کرے اورماہی گیری کے حقوق بھی مانگے۔
ایک تیسرا حل یہ بھی نکل سکتا ہے کہ بورس منتقلی میں توسیع کرتے ہوئے اپنے وعدہ سے انحراف کریں، ان کی ساری توجہ یورپ سے بغیر کسی معاہدے کے جلد از جلد علیحدگی پر مرکوز ہے۔ انہوں نے ایک سیاسی فیصلہ کیا ہے،مذاکرات کے لیے سیاسی فیصلہ اہم سمجھوتوں سے بہتر ہے یہی مذاکرات بغیر کسی معاہدے کے معاملات کو حل کریں گے ممکن ہے کہ بورس پہلے جیسا ہی کوئی سیاسی فیصلہ کریں۔
کوئی بھی حل مثالی نہیں ہے پہلے میں شدید معاشی بگاڑ پیدا ہوگا، دوسرا حل یورپ کی حیثیت مستحکم کرے گا، جبکہ تیسرا حل وعدے کی خلاف ورزی ہے۔منتقلی کی آخری تاریخ اس وقت کتنی اہم ہے؟یہی موضوع بریگزٹ کے طرفداروں اور یورپین ریسرچ گروپ کے قدامت پسند ارکان کے لیے اہم تھا، لیکن بورس کو ملی اکثریت کی وجہ سے انہیں پریشان ہونے کی ضرورت نہیں کیوں کہ ووٹروں کے لیے یہ موضوع اہم نہیں تھا، بورس نے ان سے پہلے ہی کہہ رکھا ہے کہ جنوری کے اختتام تک برطانیہ یورپ سے علیحدہ ہوجائے گا۔
خیال یہ ہے کہ جانسن کی سیاست کے لیے کچھ وقت دیا جائے گا، اس دوران اس کو حاصل کردہ اکثریت کے زور پر بریگزٹ کا پہلا مرحلہ مکمل ہوچکا ہوگا، اس کے ساتھ علیحدگی سے متعلق تمام بحث بھی ہوچکی ہوگی۔
تما موضوعات سے متعلق مذاکرات تکنیکی نوعیت کے ساتھ ساتھ دشوار بھی ہوں گے، ان کی نوعیت تلخ بھی ہوگی لیکن ایسے مذاکرات اخبار کی شہ سرخی نہیں بنیں گے یہ مذاکرات کا پہلا دور ہوگا اور کمزور پالیمان کے ہوتے ہوئے یہ کوئی تماشا نہیں کر سکیں گے۔
امید کی جاسکتی ہے کہ معاہدے کے تمام پہلوؤں پر غور ہوگا، بحث کا موضوع اور اس کے نتائج یورپ کے ساتھ علیحدگی بمقابلہ وابستگی سے بڑھ کر مستقبل کے تعلقات پر مشتمل ہوگا اور یہی بنیادی سوال بھی ہے۔
برطانیہ کے وزیراعظم مذاکرات کے لیے کوئی طے شدہ تاریخ نہیں دیں گے بلکہ غیر متوقع یا فوری طور پر دی گئی تاریخوں پر مذاکرات کریں گے لیکن اس دوران سیاسی وعدوں کو بھی ان میں شامل کیا جائے گا، حقیقت میں یہ سب کچھ برطانیہ کی پوزیشن کو کمزور کرے گا۔برطانیہ کے حق میں اس وقت سخت موقف دکھانے سے بہترلچک دکھانا ہوگا۔
یہاں ایک بڑا موضوع ابھی تک زیر بحث نہیں آیا، ایس این پی نے اسکاٹ لینڈ میں ۵۹ میں ۴۸ سیٹیں جیتی ہیں، ان مذاکرات میں کیا اسکاٹ لینڈ کا مستقبل بھی زیر بحث آئے گا۔
ایس این پی نے غیر متوقع طور پر اپنی پوزیشن مستحکم کی ہے، یہ صورتحال مستقبل میں برطانیہ کے لیے ایک آئینی جدوجہد کا راستہ کھول دے گی۔
یہاں پر سب سے بڑا مسئلہ آزاد اسکوٹش کے حامیوں کو درپیش ہے ایک طرف بریگزٹ نے سیاسی طور پر اسکوٹش آزادی کو مضبوط کیا ہے اور یہی موضوع اسکوٹش اور باقی برطانیہ کی سیاسی ترجیحات کی مکمل عکاسی بھی کرتا ہے۔
برطانیہ کے یورپ سے علیحدگی کے بعد اسکوٹش آزادی تکنیکی اور معاشی لحاظ سے مزید مشکلات میں گھر جائے گی، ماضی میں جو مشکلات شمالی آئی لینڈ اور ریپبلک آئی لینڈ کے درمیان پیش آئیں ویسی ہی مشکلات یہاں متوقع ہیں۔ برطانیہ اور اسکاٹ لینڈ کے درمیان کرنسی کا مسئلہ بھی درپیش ہے اس کے علاوہ مختلف چیلنج جیسے تجارت اور سرحدوں کا انتظام وغیرہ جیسے مسائل بھی بحث طلب ہیں، یہ ایک حقیقت ہے کہ اگر برطانیہ کے لیے بریگزٹ مشکل ہوا تو وہ بڑی انتظامی صف بندی کے بغیر ہی یورپی یونین سے نکل جائے گا۔
آزادی کے لیے دوسرے ریفرنڈم کا مطالبہ بورس جونسن مسترد کردیں گے، مختصر دورانیے میں یہ ممکن نہیں ہے۔ تھریسامے نے ۲۰۱۷ میں اس بارے میں بار بار یہی کہا تھا کہ یہ مسئلے کو حل کرنے کا وقت نہیں ہے۔ بالکل اسی طرح بورس جونسن بھی دباؤ سے باہر آنے کی کوشش کریں گے، وہ یورپی یونین سے باہر آنے کے بعد ہی اس مسئلے کی طرف توجہ دیں گے۔ یورپ سے علیحدگی کے بعد اگلا مرحلہ ۲۰۲۱ میں اسکوٹش پارلیمان کے انتخابات کا ہوگا۔ اگر اسکاٹ لینڈ کے لوگ اسکاٹش نیشنل پارٹی کوووٹ دیتے رہے تویہ جمہوری طور پر غیر مستحکم صورتحال ہوگی اور دوسرا متوقع ریفرنڈم کروانے سے ان کے آزادی کے جذبات کو تقویت ملے گی۔
(مترجم: سمیہ اختر)
“What Boris Johnson’s big win means for Brexit and Scotland”.(“chathamhouse.org”. December 13 2019)
Leave a Reply