
سن ۲۰۱۶ء کا صدارتی انتخاب نزدیک آرہا ہے، ایسے میں امریکا کو اپنی ناکارہ خارجہ پالیسی اب درست کرلینی چاہیے۔
یہاں ایک سوال ہے: صدر براک اوباما کے نزدیک امریکا کو دنیا میں کیا کردار ادا کرنا چاہیے؟ ان کے الفاظ اور ان کے افعال الگ الگ کہانیاں سناتے ہیں۔ کبھی کبھی ان کی تقریریں رونالڈ ریگن کے جیسے عظیم تصورات کی نشاندہی کرتی ہیں جن میں امریکا کی دائمی عظمت اور دنیا کی رہنمائی کے نکات شامل تھے۔ کچھ مواقع پر اوباما حقیقت پسندی اور مشکل ترجیحات اپنانے کی ضرورت پر توجہ مرکوز کرتے ہیں۔ کچھ دیگر مواقع پر وہ اتنی پُرعزم خارجہ پالیسی کے بوجھ بنتے اخراجات سے متعلق ایسی عجلت پسندی کا ثبوت دیتے ہیں جو واشنگٹن کی جانب سے ۱۹۳۰ء کی دہائی کے بعد نہیں دیکھی گئی۔
الفاظ کا گورکھ دھندہ ایک طرف، اوباما کے افعال بتاتے ہیں کہ وہ عالمی سطح پر اقدامات کرنے سے زیادہ نئے پیدا ہونے والے بحرانوں پر محض ردعمل دے رہے ہیں۔ مثال کے طور پر ۲۰۱۱ء کی عرب بہار کے موقع پر وائٹ ہاؤس کی حیثیت نہ جائے رفتن نہ پائے ماندن کی تھی۔ مصر میں جمہوریت نواز مظاہروں کی حمایت سے اور تو کچھ نہیں ہوا مگر عربوں میں سب سے قریبی حلیف سعودی عرب کے ساتھ خلیج پیدا ہوگئی جسے پاٹنے کی اوباما آج تک کوشش کررہے ہیں۔ شام کا معاملہ لیجیے، اوباما نے دھمکی دی کہ اگر صدر بشار الاسد نے اپنے ملک کے جنگی میدانوں میں کیمیائی ہتھیار استعمال کیے تو ’’سنگین نتائج‘‘ بھگتنے ہوں گے۔ مگر نتیجتاً اسد نے آگے بڑھ کر اپنے ہی لوگوں کے خلاف وہ ہتھیار استعمال کر ڈالے اور امریکا کو گھٹنے ٹیک کر روس کی مدد سے ایک سمجھوتا کرنا پڑا۔ یوکرین کے بحران نے اوباما کو روس کے ساتھ محاذ آرائی کی جانب دھکیل دیا جس سے ایک تقریباً لاحاصل تنازع پیدا ہوگیا۔ بات ایک اصول کی پاسداری سے کہیں آگے چلی گئی بلکہ اس اصول کا بھی کوئی بہتر دفاع نہیں کیا گیا۔
مگر امریکی خارجہ پالیسی براک اوباما کے دور میں غیرمربوط ہونا شروع نہیں ہوئی۔ دانشورانہ تبدیلی اور اقوال و افعال میں بڑھتے تضاد کے ڈانڈے سرد جنگ کے خاتمے سے جاملتے ہیں۔ صومالیہ میں جارج بُش سینئر اور بل کلنٹن کی ناکام مہم جوئی، عراق اور افغانستان میں جارج بُش کی بے سوچی سمجھی جنگیں، روس کے ساتھ تعلقات کو سنبھالنے میں ناکامی اور ابھرتے ہوئے چین کی حدبندی کے نیم دلانہ اقدامات امریکی خزانے، ساکھ اور خود اعتمادی کے لیے تباہ کن ثابت ہوئے۔
یہ تباہ کاری بڑھتی ہی رہے گی۔ تاریخ کا سب سے زیادہ مالدار اور مسلح دہشت گرد گروہ اب بھی عراق اور شام کے بڑے حصوں پر قابض ہے۔ ۱۷؍مئی کو عراقی شہر رمادی پر قبضہ کرنے کے بعد یہ گروہ اب مغربی افریقا سے لے کر جنوب مشرقی ایشیا تک حامیوں کی توجہ سمیٹ رہا ہے۔ روس کا سرکش رہنما بظاہر یوکرین کے تنازع کو ہوا دیتا رہے گا۔ امریکا کے قریب ترین اتحادیوں میں شامل اسرائیل کے وزیراعظم ایران کے معاملے پر وائٹ ہاؤس سے نبرد آزما رہیں گے۔ چین بحیرئہ جنوبی چین میں امریکی بحری بالادستی اور دیگر تمام خطوں میں اس کی معاشی برتری کو چیلنج کر رہا ہے۔
اسی کے ساتھ ساتھ امریکا بذاتِ خود بھی بدل گیا ہے۔ اگلے صدر کے پاس کلنٹن، جارج ڈبلیو بُش اور یہاں تک کہ اوباما سے بھی کم آپشنز ہوں گے۔ کیونکہ عراق اور افغانستان کی جنگوں کے بعد امریکی عوام بیرونِ ملک فوجی کارروائی کے لیے طویل مدت تک امریکی فوجی تعینات کرنے کی حمایت سے کترا رہے ہیں۔ اگر عسکری وابستگی کا کوئی واضح امکان نہ ہو تو امریکی خارجہ پالیسی کے باقی عناصر کافی غیر مؤثر ہوجاتے ہیں۔
دنیا بھی بدل گئی ہے۔ برطانیہ، جرمنی، جاپان اور جنوبی کوریا جیسے طاقتور اتحادی امریکی خواہشات کو اب بھی اہمیت دیتے ہیں مگر وہ چین کے ساتھ وسیع اور گہرے تجارتی تعلقات کے بغیر نہ تو روزگار پیدا کرسکتے ہیں اور نہ معیشتوں کو ترقی دے سکتے ہیں۔ ابھرتے ہوئے ممالک اتنے مضبوط تو نہیں کہ امریکی اثر و رسوخ ختم کردیں مگر اتنی صلاحیت اور اعتماد ضرور رکھتے ہیں کہ واشنگٹن کے نقشِ قدم پر چلنے سے انکار کردیں۔ امریکا بلاشبہ دنیا کی اکلوتی سپر پاور ہے، وہ واحد ملک جو کسی بھی خطے میں عسکری قوت کا مظاہرہ کرسکتا ہے۔ اس کی جدید ترین صنعتوں اور جامعات کا مقابل کوئی نہیں۔ مگر اب دنیا میں چین وہ واحد ملک ہے جس کے پاس بہت سوچی سمجھی عالمی حکمتِ عملی ہے۔
نئے صدارتی امیدواروں کی باتیں سنیں تو شاید آپ کو لگے گا کہ کچھ بھی نہیں بدلا ہے۔ ہلیری کلنٹن کہتی ہیں، ’’ہمیں دنیا میں زیادہ اتحادی اور کم دشمن بنانے کی خاطر امریکا کی ساری تونائیاں صَرف کرنی ہوں گی‘‘۔ جَیب بُش (Jeb Bush) کہتے ہیں، ’’اگر ہم کسی بھی جگہ آزادی کا دفاع کرنے میں ناکام ہوتے ہیں تو جنگ لامحالہ ہمارے گھر تک آجائے گی‘‘۔ مارکو رُوبیو (Marco Rubio) دونوں سے آگے بڑھ کر کہتے ہیں: ’’مشترکہ تصورات کے تحفظ کے لیے دنیا کی آزاد اقوام اب بھی امریکا کی طرف دیکھتی ہیں۔ کمزور اقوام بڑے ہمسایوں کی جارحیت سے بچنے کی خاطر اب بھی ہم پہ انحصار کرتی ہیں اور ظلم کا شکار لوگ اب بھی آس بھری نظریں ہماری طرف لگاتے ہیں کہ آیا ہم ان کی چیخیں سن رہے ہیں اور ان کی تکالیف کا احساس کر رہے ہیں یا نہیں‘‘۔
یہ اور دیگر امیدوار خارجی ترجیحات کی لمبی فہرستیں تو بڑے جوش و خروش سے پیش کرتے ہیں مگر اخراجات اور خطرات کی کوئی بات نہیں کرتے۔ عوامی خواہشات کو برائے نام اہمیت دیتے یہ لوگ اس طرح بات کرتے ہیں جیسے کامیاب خارجہ پالیسی قومی عظمت پر یقین رکھنے اور امریکی طاقت کے استعمال کی خواہش پر ہی منحصر ہے۔ یہ لوگ ہمیں یہ تو بتاتے ہیں کہ امریکا کو سب سے آگے ہونا چاہیے، مگر یہ نہیں بتاتے کہ ایسا کیوں اور کیسے ہوگا۔
۱۹۴۰ء اور ۱۹۶۸ء کے سوا صدارتی مہم شاید ہی کبھی خارجہ پالیسی پر چلائی گئی ہو۔ لیکن اس انتخاب میں امریکیوں کو یہ جاننا لازم ہے کہ نیا صدر دنیا میں کیسے کام کرے گا کیونکہ اگلے ۲۵ سال بظاہر غیر معمولی طور پر افراتفری کا شکار ہوں گے۔ یہ خارجہ پالیسی کے حوالے سے فیصلہ کرلینے کا وقت ہے، اور میری نئی کتاب ’’سپر پاور‘‘ امریکی مستقبل کے حوالے سے تین الگ الگ سمتیں متعین کرتی ہے۔
ناگزیر امریکا
گزشتہ دہائی کی کچھ پسپائیوں کے باوجود چند لوگ اب بھی زور دیتے ہیں کہ امریکا بدستور دنیا کا ناگزیر رہنما ہے کیونکہ یہ ملک وہ کام کرسکتا ہے جو دوسرے نہیں کرسکتے۔ اسی نقطۂ نظر نے بل کلنٹن کو یہ سمجھنے پر مجبور کیا کہ نیٹو کو روس کی دہلیز تک بغیر کسی ردعمل کے پھیلایا جاسکتا ہے اور یہ کہ چین کے ساتھ معاشی تعلقات اس کو امریکی طرز کی جمہوریت اپنانے پر مائل کردیں گے۔ اسی کے باعث جارج ڈبلیو بُش جیسا آدمی جس کی مہم ’’قومی تعمیرِ نو‘‘ کے خلاف تھی، امریکی تاریخ کے دو سب سے پُرعزم قومی تعمیری منصوبے شروع کرنے پر تیار ہوگیا۔
عراق اور افغانستان میں ناکامی نے امریکی ناگزیریت کے تصور کو زک پہنچائی ہے، پھر بھی اس تصور کے پرچار کرنے والے اب تک کچھ مضبوط نکات پیش کرتے ہیں۔ وہ خبردار کرتے ہیں کہ موجودہ خطرات سے خود کو الگ تھلگ کرلینے کا کوئی راستہ نہیں ہے، خطرات بھی وہ جو سائبر اسپیس کے ذریعے نمودار ہوسکتے ہیں یا ایک سوٹ کیس میں ہی سرحد پار کرسکتے ہیں۔ ان کا اصرار ہے کہ امریکا تبھی محفوظ ہوگا جب دوسرے امن سے رہ رہے ہوں گے، اور تبھی خوشحال ہوگا جب دیگر ممالک اس کی تیار کردہ مصنوعات خریدنے کی سکت رکھنے والا درمیانہ طبقہ پیدا کریں گے۔ ان کے بقول امریکی ایک ایسی دنیا میں ہی محفوظ رہ سکتے ہیں جہاں جمہوریت، قانون کی بالادستی، معلومات تک رسائی، تقریر کی آزادی اور حقوقِ انسانی کو عالمی پذیرائی حاصل ہو، کیونکہ یہ اقدار اُن معاشروں کو دیرپا استحکام، سلامتی اور دولت عطا کرتی ہیں جو ان کی حفاظت کرتے ہیں اور ان کے نزدیک دنیا کو ایسا بنانے کی ذمہ داری اور طاقت صرف امریکا کے پاس ہے۔
مَنی بال امریکا
اس کے بعد وہ لوگ ہیں جو اُس تصور کے حامی ہیں جسے میں مَنی بال امریکا (Moneyball America) کہتا ہوں۔ کم لاگت سے ایک کامیاب ٹیم بنانے کا امریکی بیس بال ٹیم ’’اوکلینڈ اے‘‘ کا مشقت سے بھرپور عقلیت پر مبنی نسخہ، جس نے مصنف مائیکل لوئس کو متاثر کیا۔ اس تصور کے حامی اس طرح کی خارجہ پالیسی چاہتے ہیں جو ٹیکس دہندگان کا پیسہ زیادہ سے زیادہ واپس لے آئے۔ ترکیب یہ ہے کہ امریکا کی خوبیوں اور خامیوں پر مبنی دانشمندانہ ترجیحات طے کی جائیں۔ جیسا کہ صدر جارج بُش سینئر نے سمجھا تھا کہ صدام حسین کو کویت سے نکالنے کے لیے احتیاط اور مسلسل وابستگی درکار تھی، مگر یہ منصوبہ قابلِ عمل اور قومی مفاد میں تھا۔ البتہ صدام کو بغداد سے نکالنے کی لاگت اور خطرات مختلف ہوسکتے تھے۔ یہ ایک ایسا جوا تھا جو بڑے بُش نے عاقبت اندیشی کا مظاہرہ کرتے ہوئے نہیں کھیلا تھا۔
مَنی بالرز چاہتے ہیں کہ امریکی صدر ملکی اقدار برآمد کرنے کے بجائے قومی مفادات کا تحفظ کرے، واحد قوم جس کی تعمیرِ نو ہونی چاہیے، وہ ہماری اپنی قوم ہے۔ محض جمہوریت کے فروغ یا کسی اصول کے دفاع کی خاطر صدر کو امریکی شہری مصیبت کی راہوں میں نہیں بھیجنے چاہییں۔ لیکن مَنی بالرز یہ بھی کہتے ہیں کہ واشنگٹن کو قابل، ہم خیال اور ساتھ دینے کے خواہشمند ممالک کے اتحادوں کی سربراہی کرنی چاہیے تاکہ دنیا کے خطرناک ترین ہتھیاروں کا پھیلاؤ روکا جاسکے اور دہشت گردوں کے ہاتھ وہ ہتھیار نہ لگنے دیے جائیں جن کی انہیں امریکا پر حملے کے لیے ضرورت ہے۔ اب چونکہ امریکی معیشت کا انحصار عالمی معیشت پر ہے، یہ لوگ کہتے ہیں کہ جنگ کے خطرات کم کرکے اور تجارت و سرمایہ کاری سے پیدا شدہ استحکام میں طاقتور ممالک کو زیادہ سے زیادہ حصہ دے کر امریکی خارجہ پالیسی کو عالمی معاشی ترقی کے تحفظ اور فروغ کا کام کرنا چاہیے۔
اوباما انتظامیہ ایشیا سے متعلق مَنی بال تصور کی حامل ہے۔ تاہم ایشیا پر زیادہ توجہ دینے کا مطلب یہ ہے کہ دیگر خطوں پر کم توجہ دینے کی ضرورت کا ادراک کیا گیا ہے۔ روس کے ساتھ تلخیوں کو کم کرنے کے لیے یورپ پہل کرسکتا ہے، کیونکہ جرمنی، برطانیہ، فرانس اور اٹلی کے ساتھ روس کے گہرے اقتصادی مراسم ہیں۔ مشرقِ وسطیٰ کے معاملے میں مَنی بالرز کہتے ہیں کہ امریکا کو اسرائیل کی سلامتی بہتر بنانے میں مدد کرنی چاہیے مگر یہ ضروری نہیں ہے کہ وہ فلسطینیوں کے خلاف ہر اسرائیلی کارروائی کی حمایت کرے اور اگر کسی ٹھوس فائدے کی توقع ہو تو امریکی صدر کو دشمنوں کے ساتھ بات چیت سے کترانا نہیں چاہیے، چاہے وہ دنیا کے کسی بھی خطے میں ہوں۔ جہاں کہیں ممکن ہو، ہمیں مہنگے بوجھ اتار کر مواقع تلاش کرنے چاہییں اور ہمیں یہ اصرار کرنا چاہیے کہ ہمارے منتخب رہنما ہماری اقدار کو فروغ دینے کے بجائے امریکا کی قدر بڑھائیں گے۔ مَنی بالرز کے لیے یہی کامیابی کا راستہ ہے۔
آزاد امریکا
ناگزیریت اور مَنی بال کا پرچار کرنے والوں کے دلائل مضبوط ہیں، اور گزشتہ ۲۵ برس کی غیرمربوط خارجہ پالیسی کے مقابلے میں یہ دونوں آپشنز بہتر ہیں۔ مگر میرے نزدیک یہ بہترین راستے نہیں ہیں کیونکہ میرے خیال میں کسی ایک کو بھی زیادہ عرصے تک حمایت نہیں ملے گی۔ اس کے بجائے میری رائے اس نقطۂ نظر سے مطابقت رکھتی ہے جسے میں خود مختار امریکا کہتا ہوں۔ یعنی ایک ایسی قوم جو دنیا کو ٹھیک کرنے کی ذمہ داری سے برأت کا اظہار کردے۔
امریکی عوام ان ممالک میں مداخلت کی حمایت نہیں کریں گے جن سے انہیں کوئی دلچسپی نہیں۔ صدارتی امیدوار ووٹروں کو چاہے کچھ بھی بتائیں، ایسے کوئی شواہد نہیں ہیں کہ یہ جذبات جلد دم توڑ جائیں گے۔ امریکیوں نے یہ جان لیا ہے کہ ایک ایسی دنیا میں جہاں بہت سی حکومتوں کے پاس امریکی دباؤ رَد کرنے کی طاقت ہے، اکلوتی سپر پاور سمیت کوئی بھی قوم تسلسل کے ساتھ جو چاہے وہ حاصل نہیں کرسکتی۔ ہمیں چاہیے کہ ایسے وعدے کرنا چھوڑ دیں جن کا پاس ہم نہیں رکھ سکتے اور ایسی دھمکیاں دینا چھوڑ دیں جن پر ہم جانتے ہیں کہ عمل نہیں ہوگا۔
ویتنام، افغانستان اور عراق کی جنگوں کا اصل سبق کیا تھا؟ اس سے قطع نظر کہ آپ کتنے طاقتور ہیں، ایک ایسے دشمن کو شکست دینا مشکل ہے جو نتائج کی پروا آپ سے کہیں زیادہ کرتا ہو۔ یوکرین کے معاملے پر روس سے کشیدگی نہ بڑھائیں، کیونکہ یہ قوم واشنگٹن کے مقابلے میں ماسکو کے لیے کہیں زیادہ اہم ہے۔ امریکا مخالف جذبات بھڑکاتے ولادی میر پوٹن کی ان کے ملک میں شہرت بڑھانے کے بجائے یورپ کو آگے بڑھنے دیں۔ یہ کوئی نئی سرد جنگ نہیں ہے۔ امریکی عوام کو پروا نہیں ہے۔ اس جنگ کو کیوں بڑھاوا دیں؟
اس نظریے کے حامی جانتے ہیں کہ امریکا کو اسرائیل اور فلسطین کو ایسے امن معاہدے پر مجبور نہیں کرنا چاہیے جس پر کوئی بھی فریق راضی نہیں ہے۔ اسے آزادی اور حقوقِ انسانی کے دفاع کا دعویٰ کرکے مشرقِ وسطیٰ کے آمروں کا دفاع نہیں کرنا چاہیے۔ مشرقِ وسطیٰ اور یورپ میں داعش کے خطرے کا سب سے زیادہ شکار افراد کو آگے آنے دیں۔ جرمنی اور جاپان کو ان کی سلامتی کی ذمہ داری خود اٹھانے دیں۔ تسلیم کرلیں کہ چین ڈوبے گا یا تیرے گا، اس کا انحصار واشنگٹن کے بجائے بیجنگ میں ہونے والے فیصلوں پر ہے۔
معاملہ یہ نہیں ہے کہ امریکا اب دنیا میں پولیس کا کردار نبھا نہیں سکتا۔ بات یہ ہے کہ اسے کوئی حق نہیں پہنچتا کہ اختلاف کرنے والوں کو اپنے تناظر میں چیزیں دیکھنے پر مجبور کرے۔ امریکی اس بات پر یقین رکھنا پسند کرتے ہیں کہ جمہوریت ناقابلِ تردید حد تک پُرکشش ہے اور ہماری اس سے وابستگی اتنی یقینی ہے کہ دوسروں کو ہم پر اعتماد کرنا چاہیے تاکہ ہم ان کی سرحدوں میں جمہوریت قائم کردیں۔ معاملہ صرف اتنا نہیں ہے۔ کچھ ممالک اب بھی امریکی قیادت کے خواہاں ہیں مگر دنیا بھر میں بہت سے ممالک امریکی مداخلت میں کمی چاہتے ہیں، اضافہ نہیں۔ انہیں امریکی ٹیکنالوجی، سماجی میڈیا، موسیقی، فلمیں اور فیشن بہت پسند ہے۔ مگر انہیں اس کی زیادہ پروا نہیں ہے کہ امریکا اس بارے میں کیا سوچتا ہے کہ ان کا اندازِ حکمرانی کیا ہو، ان کے بین الاقوامی دوست کون ہوں اور وہ اپنے پیسے کا استعمال کیسے کریں۔
ہوسکتا ہے یہ سوچ بظاہر تنہائی پسندی لگے، ایک ایسی اصطلاح جسے دوسری جنگِ عظیم کے بعد امریکی سیاست میں موت سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ لیکن یہ لفظ خارجہ پالیسی کے نقائص اور حکومت کو مہنگے پڑنے والے غلط اندازوں سے متعلق امریکیوں کے جائز تحفظات کو نامناسب طریقے سے رد کردیتا ہے۔ جو لوگ چاہتے ہیں کہ واشنگٹن سپرمین کے کردار سے آزادی کا اعلان کرے، وہ سمجھتے ہیں کہ امریکا کے پاس بہت صلاحیتیں ہیں جنہیں بیرون ملک غلطیوں کی نذر کردیا گیا ہے۔ ایک لمحے کے لیے سوچیں کہ ہر وہ ڈالر جو گزشتہ ایک درجن برسوں کے دوران عراق اور افغانستان میں خرچ ہوا، اگر امریکیوں اور ان کی معیشت کی ترقی پر خرچ ہوتا تو کیسا ہوتا۔ وہ توانائی اور وسائل جنہیں ہم نے ناکام ’’سپر ہیرو‘‘ خارجہ پالیسی پر ضائع کردیا، اگر ان کا رخ ہمارے تصور کردہ امریکا کی جانب ہوتا تو تمام افراد مضبوط ہوتے اور اپنی صلاحیتوں کا ادراک کرلیتے۔
دستیاب اختیار کیا ہے؟
اب جبکہ نئے صدارتی امیدوار نمودار ہورہے ہیں، دنیا میں امریکی کردار کے بارے میں ان کا کہا سننا چاہیے۔ ان سے ہوشیار رہیں جو ذمہ داریوں کی بات تو کرتے ہیں مگر لاگت کی نہیں۔ انہیں مسترد کردیں جن کا دعویٰ ہے کہ امریکا یہ سب کرسکتا ہے۔ جب ٹیڈ کروُز (Ted Cruz) کہیں کہ صدر کو ’’آزادی کے لیے غیر معذرت خواہانہ انداز میں سینہ تان کر کھڑے ہونا چاہیے‘‘ اور جب ہیلری کلنٹن اصرار کریں کہ ’’کئی ملین مظلوم لوگوں کے لیے انسانی حقوق کو ایک حقیقت بنانے کے مقصد سے امریکا کی گہری وابستگی ہے‘‘ تو ان سے یہ پوچھنا نہ بھولیں کہ ان کے منصوبوں پر لاگت کتنی آئے گی۔ یہی سوال جَیب بُش سے پوچھیں جو کہتے ہیں، ’’کوئی چیز اور کوئی شخص مضبوط امریکی رہنمائی کی جگہ نہیں لے سکتا‘‘ اور مارکو رُوبیو سے بھی، جو اصرار کرتے ہیں کہ صرف امریکا ہی ’’مطلق العنانیت کے خطرے کا سامنا کرنے والے آزاد لوگوں کو یکجا کرنے کے قابل ہے‘‘۔
بیرونِ ملک، خصوصاً دہشت گردوں کی جانب سے آنے والے خطرات کو امریکی نظر انداز نہیں کرسکتے۔ ہمیں داعش کے خطرے کا شکار دیگر اقوام سے معلومات اور نتائج کا تبادلہ کرنا چاہیے لیکن اُن جنگوں میں نہیں کودنا چاہیے، جنہیں ہم مستقل لڑ نہیں سکتے۔ لیکن ہمارے رہنما ہمیں یہ بتاتے رہتے ہیں کہ امریکی فوجی ان جگہوں پہ ’’ہماری آزادی کا دفاع کررہے ہیں‘‘ جہاں امریکی آزادی کو سرے سے کوئی خطرہ ہی نہیں ہے۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے، مگر رمادی یا مستقبل میں کسی اور شہر کا داعش کے ہاتھوں میں چلے جانا امریکی سلامتی پر تھوڑا بہت ہی اثر ڈالتا ہے۔
میرے خیال میں اب وقت آگیا ہے کہ ہر کس و ناکس کے مسائل حل کرنے کی ذمہ داری سے آزادی کا اعلان کیا جائے، اور یہ صرف میری ہی سوچ نہیں ہے۔ سروے منکی (Survey Monkey) کے ساتھ کام کرتے ہوئے میری کمپنی یوریشیا گروپ نے ایک ہزار سے زائد امریکیوں کی خارجہ پالیسی ترجیحات معلوم کیں۔ رائے دہندگان اوپر بیان کردہ تین سمتوں کی جانب ہی گامزن تھے: ناگزیر امریکا کے حق میں ۶۰ سال سے زائد عمر کے افراد نے ۴۰ فیصد، ۱۸ سے ۲۹ سال کے نوجوانوں نے ۲۰ فیصد اور ۳۰ سے ۴۴ برس کے افراد نے ۲۰ فیصد رائے دی۔ نوجوانوں کی رائے زیادہ تر آزاد امریکا کے حق میں تھی۔ رائے شماری سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ امریکی ووٹرز کی نئی نسل اپنے باپ دادا کی اقدار کی پیروی نہیں کرتی۔ نوجوان نہیں مانتے کہ دنیا کو امریکی رہنمائی کی ضرورت ہے، یا یہ کہ امریکیوں پر دنیا کو رہنمائی فراہم کرنی کی خصوصی ذمہ داری ہے۔ سیاست دان اس نمایاں ہوتی حقیقت اور اس کے مضمرات کو نظر انداز کررہے ہیں۔
آنے والے صدور کے لیے آسان نہیں ہوگا کہ بیرونی تنازعات میں امریکا کو پھنسانے کے لیے اندرونِ ملک عقابوں اور بیرونِ ملک دوستوں کے دباؤ کے سامنے ڈٹے رہیں۔ لیکن امریکا کے اپنے عوام اور پوری دنیا سے کیے گئے وعدوں کی سچائی اندرونِ ملک بہتری کی مثالیں قائم کرنے پر منحصر ہے۔ ناگزیریت کی بات کرتے رہنے کا مطلب یہ ظاہر کرنا ہے کہ دنیا تبدیل نہیں ہوئی ہے۔ مَنی بال طریقہ اپنانے سے مراد تبدیلی کا ساتھ دیتے دیتے اپنی اقدار کو قربان کردینا ہے۔ لیکن آزاد امریکا کے نعرے کو اپنانا اُن اقدار کے لیے نئے راستے تلاش کرنا ہے۔ جمہوریت ایک طریقۂ کار ہے اور اس کو احسن طریقے سے اندرونِ ملک رائج کرنا دیگر ممالک کے شہریوں کو جمہوریت کے مطالبے پر راضی کرنے کا سب سے بہترین طریقہ ہے۔ دنیا کو محض بتاتے ہی نہ رہیں کہ جمہوریت بہترین طریقہ ہے۔ ایسا کرکے بھی دکھائیں اور امریکا کو دوسروں کی نظر میں بہت خاص بنادیں۔
یہ تنہائی پسندانہ اقدار نہیں ہیں۔ امریکا کو مصنوعات اور افکار کی تجارت جاری رکھنی چاہیے اور قانونی طریقے سے آنے والے دیگر ممالک کے شہریوں کو خوش آمدید کہنا چاہیے، جیسا کہ ہماری آزادی سے لے کر اب تک کئی ملین افراد یہاں آچکے ہیں۔ امریکا کو دنیا کے اور زیادہ پناہ گزینوں کو اپنا لینا چاہیے کیونکہ دوسری جنگِ عظیم کے بعد اب ان کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔ شام کی خانہ جنگی نے ۴۰ لاکھ افراد کو ملک چھوڑنے پر مجبور کردیا ہے، پھر بھی امریکا نے ان میں سے ۱۰۰۰ سے بھی کم افراد کو آنے دیا۔ ’’ان بے گھر، خانماں برباد لوگوں کو میرے پاس بھیجو، میں چراغ لیے سنہرے دروازے کے ساتھ کھڑا ہوں!‘‘ یہی وہ اصول ہے جو مجسمۂ آزادی کے نیچے لکھا ہوا ہے، جس پر امریکی فخر تو کرتے ہیں مگر عمل کرنے میں اکثر خاصے ناکام رہے ہیں۔
بحرالکاہل کے اطراف شراکت داری جیسے بڑے معاہدوں سمیت تجارت ان اتحادوں کی مضبوطی کے لیے ناگزیر ہے جو اَب ہماری عسکری برتری پر مزید انحصار نہیں کرسکتے۔ لیکن دیگر ممالک میں سیاسی اور خاص طور پر فوجی مداخلت کے لیے واشنگٹن کو غیر معمولی حد تک کڑا معیار اپنانا ہوگا۔ گزشتہ ۲۵ برس سے امریکی رہنما اس انداز سے کام کررہے تھے کہ جیسے امریکا دنیا میں مزید طاقتور ہورہا ہو۔ لیکن ایسا بالکل نہیں ہے، باقی ساری دنیا تبدیل ہورہی ہے اور امریکی خارجہ پالیسی میں اس کی جھلک نظر آنی چاہیے۔
لیکن یہ میرا خیال ہے، آگے بڑھنے کا واحد راستہ نہیں ہے۔ اگر ہمارے رہنما درکار عوامی حمایت حاصل کرلیں تو مَنی بال اور ناگزیریت کی حمایت کرنے کا بھی کافی جواز موجود ہے۔ ایک نیا انتخاب اب نزدیک ہے اور امریکیوں کو اب ایک فیصلہ کرنا ہے۔ ایسا فیصلہ جو دنیا میں ان کے ملک کا کردار واضح کرے گا۔ کسی بھی سمت کے چناؤ سے مسلسل گریز کرنا بدترین چناؤ ہوگا۔
(مترجم: حارث رقیب عظیمی)
“What does America stand for?”.
(“Time” Magazine. June 1, 2015)
Leave a Reply