
مصری صدر عبدالفتح السیسی نے گزشتہ نومبر میں بی بی سی کے نمائندے لائیس ڈوسیٹ سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’’جمہوریت کے ساتھ ہمارے اپنے تجربے کے بارے میں ہم بہت بات کر چکے ہیں۔۔۔ اگر لوگ میرے خلاف بھی احتجاج کریں تو میں ان کے احتجاج کے حق کا انکار نہیں کرتا۔۔۔ لیکن آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ ہم مغرب سے مختلف ہیں۔۔۔عام مصری لوگ خطے کے دیگر ملکوں جیسی قسمت سے دوچار ہونے سے خوفزدہ ہیں‘‘۔
اسی تناظر میں بات کرتے ہوئے اپنی سخت گیر پالیسیوں اور اپنے ساتھیوں کی طرف سے انسانی حقوق کی کھلم کھلا خلاف ورزیوں کا دفاع کرتے ہوئے سیسی نے ایک بار پھر کہا تھا کہ ’’ہم مصری تاریخ کے ایک غیر معمولی دور میں جی رہے ہیں۔ پچھلے ۴۰سال سے مصر میں ایمرجنسی نافذ تھی اوراب ایسا نہیں ہے‘‘۔
سزائے موت، ماورائے عدالت قتل، جبری گمشدگیاں اور تشدد سیسی کی موعودجمہوریت میں گونجنے والے الفاظ ہیں۔جبکہ وہ سرِ عام یہ اعلان کیا کرتے تھے کہ ’’مصر دنیا کی ماں ہے اور اتنا ہی عظیم بنے گا جتنی یہ دنیا ہے‘‘۔
معزول مرسی حکومت کے وزیرِبرائے رسدباسم اودا اور اخوان المسلمون کے ترجمان احمد عارف فوجی حکومت آنے کے بعد سے زیرِ حراست ہیں۔ اب پہلی دفعہ ان کو ایک مصری عدالت میں بِنا کسی الزام کے اپنی نظربندی اور تفتیش پرسرِعام احتجاج کرتے سنا گیا ہے۔
اودا نے جج سے کہا ’’میں نہیں جانتا کہ میں اب تک حراست میں کیوں ہوں۔ کیا یہ کوئی جرم ہے کہ میں نے تیل کی قیمت کم کی؟‘‘ انہوں نے حیرت سے کہا کہ ’’میں یہاں کیوں ہوں۔ میں نے کسی مصری جزیرے کو کبھی فروخت نہیں کیا‘‘۔
ستم ظریفی یہ ہے کہ اودا واحد وزیر ہیں جنہیں فوجی حکومت نے اقتدار پر قبضہ کرتے ہی کابینہ میں شمولیت کی دعوت دی تھی کیونکہ اپنے دور میں انہوں نے بطور وزیرِ رسد کارہائے نمایاں انجام دیے تھے۔ لیکن جب انہوں نے شمولیت سے انکار کیا تو انہیں بنا کوئی واضح الزام عائد کیے تین سال کے لیے قید کر دیا گیا۔ حال میں انہوں نے عدالت کو چیلنج کیا کہ وہ کسی عدالتی سندِ ا رجاع پر ان کے دستخط دکھائے۔ اسی طرح احمد عارف نے بتا یا کہ انہیں ناقابلِ بر داشت تشدد کا نشانہ بنایا گیا ہے، جس کی وجہ سے فوجی جیل کے بند ڈبے میں ان کا ۴۹ کلوگرام وزن کم ہو چکا ہے۔ تاہم جج نے سرعت کے ساتھ عارف کو خاموش کر ا دیا اور کہا ’’کوئی کسی پر تشدد نہیں کر رہا‘‘۔
حیرت انگیز بات یہ ہے کہ بین الاقوامی برادری نہ صرف انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں بلکہ لوگوں کے حقوق سے متعلق السیسی کے اہانت آمیز تصور کی طرف سے بھی آنکھیں بند کیے ہوئے ہے۔یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں کہ مصر کی جیلیں اس وقت لوگوں سے بھری ہوئی ہیں۔ ۲۰۱۳ء کے فوجی قبضے کے بعد سیاسی کارکنوں کی استبدادی گرفتاریوں نے عرب دنیا کی آمرانہ حکومتوں کے پچھلے سارے ریکارڈ توڑ دیے ہیں۔
کوئی بھی شخص جو سیسی حکومت کے خلاف بولنے کی کوشش کرے، منصفانہ سماعت کے بغیر سلاخوں کے پیچھے بھیج دیا جاتا ہے۔ اخوان المسلمون کے ارکان، سابق وزرا، سیاسی کارکنان، صحافی، مجلسِ شوریٰ کے ارکان اور ملک کے پہلے جمہوری صدر محمد مرسی ابھی تک فوجیوں کے نرغے میں ہیں۔ درجنوں سیاسی کارکن دورانِ حراست جان سے ہاتھ دھو چکے ہیں۔جبکہ باقی بدنام ترین جیلوں میں غیر انسانی حالات کا عذاب برداشت کر رہے ہیں۔
عرب کے سماجی میڈیاکے سرگرم کارکنوں نے عرب ممالک کی جیلوں کی درجہ بندی کرنے کی کوشش کی ہے۔ اردن کی جیلیں جرم قبول کروانے میں سب سے آگے ہیں، جبکہ شام کے عقوبت خانے تحقیر اور بے رحمانہ ماورائے عدالت قتل میں سرِفہرست ہیں۔ مصر وہ واحد ملک تھا جس کی جیلوں میں بلاشک و شبہ یہ دونوں خصوصیات پائی گئیں اور انہیں ’زندہ جہنم‘ کا عنوان دیا گیا۔
اس جہنم میں اذیت کا سفر تب شروع ہوتا ہے، جب ہتھکڑیوں میں جکڑے قیدیوں کو برہنہ کرکے صرف زیرِ جامہ میں ایک ’خوش آمدیدی تقریب‘ کی طرف ہانکا جاتا ہے۔ جہاں انہیں کوڑے مارنے کی روایتی رسم ادا کی جا تی ہے اور قید خانے کے داخلی جانب سے نظارہ کرتے محافظ سیاسی قیدیوں کی جان بوجھ کر توہین کرتے ہیں۔ کچھ سیاسی قیدیوں کو زیرِ زمین جیلوں کے تفتیشی کمروں میں خصوصی استقبال کے لیے لے جایا جاتا ہے، جہاں ان کی آنکھوں پہ پٹی باندھ کر اور دیوار کی طرف منہ کرا کر کئی گھنٹوں، یہاں تک کہ کئی دنوں تک تیز آوازوں سے اذیت دی جاتی ہے۔
زیرِ حراست دیگر لوگوں کو انتہائی چھوٹے اور گنجائش سے زیادہ بھرے ہوئے ڈبوں یا کھڑکی کے بغیر کمروں میں زبر دستی دھکیلا جاتا ہے، جن کا درجہ حرارت گرمیوں میں ناقابلِ برداشت حد تک گرم اور سردیوں میں منجمد کر دینے والا ہوتا ہے۔ زیادہ بدتر صورتحال اس وقت ہوتی ہے، جب قیدیوں کو قلیل تعداد میں موجود ہونے کی وجہ سے گدے اور لحاف مہیا نہیں کیے جاتے اور خاص طور پر تب جب ان کے گھر والوں اور وکلا کو بھی ان سے نہیں ملنے دیا جاتا۔ اس طرح ان کے خاندان بھی اشد ضرورت کے وقت انہیں کھانا، دوائی یا کپڑے مہیا نہیں کر پاتے۔
مصر کی جیلوں کی خاصیت یہ ہے کہ یہاں مبینہ طور پر ڈاکٹر قیدیوں کو بجلی کے تار دکھا کر اور انہیں پکڑنے کے طریقے بتا کر یہ سمجھا تے ہیں کہ خودکشی کس طرح کی جاسکتی ہے۔ نفسیاتی طور پر قیدیوں کی گردش بھی ایک حکمتِ عملی ہے، جس کے تحت ان کے ہم نشین قیدیوں اور ساتھیوں کو بدل کر ان کا حوصلہ توڑا جاتا ہے۔ جبکہ قیدِ تنہائی قیدی کی نفسیات کو تباہ کرنے کا سب سے نفرت انگیز طریقہ ہے، جس میں قیدی کو ایک تاریک ڈبے میں رکھا جاتا ہے جو بیرونی ماحول سے بالکل الگ ہوتا ہے، جہاں ہوا کا کوئی گزر اور وقت کا کوئی تعین نہیں ہوتا۔
زیرِ حراست قیدیوں کی اموات جن کی تحقیقات بھی نہیں ہوتیں یقینی طور پر شدید ناامیدی کو جنم دیتی ہیں۔ معصوم لوگ جیلوں میں داخل ہوتے ہیں اور پھر کبھی واپس نہیں آتے۔ ان کا واحد جرم یہ ہے کہ وہ پُرامن طور پر اپنے انسانی حقوق استعمال کر رہے ہیں۔
ان ناقابلِ برداشت حالات میں صحت کی مناسب دیکھ بھال نہ ہونے کی وجہ سے خدشہ ہے کہ زیادہ تر لوگ موت کے منہ میں چلے جائیں گے۔ یہ اس سیاسی نظام کا جزوِ لازم نظر آتا ہے، جو درحقیقت جنوری ۲۰۱۱ء کے انقلاب اور اس کے رہنماؤں پر ردِ انقلاب کا عذاب لاگو کرنا چاہتاہے۔
مخالف کارکنوں پر سیسی کے کریک ڈاؤن نے سیکولر اور بائیں بازو کے لوگوں کو بھی نہیں بخشا، نہ ہی اپنے فوجی اقتدار کے حامیوں کو۔ الا عبدالفتح جو جنوری ۲۰۱۱ء کے انقلاب کی ایک نمایاں شخصیت ہیں، ۲۰۱۳ء سے جیل میں ہیں، جب انہوں نے شہریوں کے فوجی ٹرائل پر احتجاج کرنے کے لیے مظاہروں کی دعوت دی تھی۔
۶؍اپریل کی تحریک کے بانیوں احمد ماہر اور محمد عادل کو بھی تین سال قید اور ۵۰،۰۰۰ مصری پاؤنڈ کی سخت سزا دی گئی ہے۔ ان کے خلاف لوٹ مار اور پولیس افسران کی توہین کے مضحکہ خیز الزامات لگائے گئے ہیں۔
احمد ماہر کا کہنا ہے کہ’جنوری کا انقلاب حسنی مبارک کے استبدادی اور ظالم طریقوں کے خلاف تھا۔‘ مصر کی گلیوں میں فوجی حکومت کے جبر اور ظلم کے خلاف پنپنے والے غصے اور ایک اور انقلاب کی پیش گوئی کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا’آج کی حکومت مبارک کی حکومت سے کہیں بد تر ہے‘۔ یاد رہے کہ اول اول ماہر نے سیسی کی فوجی حکومت کی حمایت کی تھی۔
نئی جیلوں کی تعمیر وہ واحد کام ہے، جس میں سیسی حکومت طاق ہے۔ سیسی نے اقتدار میں آنے کے بعد درجنوں قید خانے تعمیر کرائے ہیں جہاں مصریوں کو زندہ درگور کیا ہوا ہے، جبکہ کچھ اور قید خانے سات ستارہ ہوٹل کی طرح ہیں جہاں مبارک اور ان کے بچے معزز مہمانوں کی طرح سکونت پذیر ہیں۔
کڑوی حقیقت انسانی حقوق کی مسلسل خلاف ورزی پر بین الاقوامی برادری کی خاموشی ہے۔ سیسی کے لیے مغرب کی حمایت بٹ چکی ہے کیونکہ مصری حکومت استحکام برقرار رکھنے میں مسلسل ناکام ہوئی ہے، جس کا مغرب بہت زیادہ مشتاق ہے۔ عجیب بات ہے کہ جماسا میں ایک جیل کا بجٹ ۱۰۰ ملین ڈالر ہے جو صحت اور تعلیم کے مجموعی بجٹ سے بھی پانچ گنا زائد ہے۔
(ترجمہ: طاہرہ فردوس)
“What does it mean to be a political prisoner in Egypt?” (“middleeasteye.net”. May 25, 2016)
Leave a Reply