
گزشتہ جولائی سے ترک بحری افواج کا ایک تیل بردار بحری جہاز جو یونان کے ایک چھوٹے سے جزیرے ’’کاستیلوریزو‘‘ میں ہائیڈرو کاربن کی تلاش کررہا تھا، بارہا اس کا یونان کے بحری ادارے کے حکام سے تنازع ہوا۔ یاد رہے یونان اور ترکی کی آپس میں دیرینہ مخاصمت ہے اور دونوں کے درمیان بحیرۂ روم کی بحری سرحدوں پر کشیدگی رہتی ہے۔
جب کبھی یونان اور ترکی اس مسئلے پرتنازع کا شکار ہوتے ہیں، اس کی شدت کو کو کم کرنے کے لیے ثالثی کی ضرورت پیش آتی ہے۔ درحقیت ’’کیستیلوریزو تنازع‘‘ ترکی کے جارحانہ عزائم، غلبے کی جنگ اور برسوں پر محیط چپقلش کا شاخسانہ ہے۔ اس دیرینہ لڑائی میں شدت آنے کی بنیادی وجہ ترکی کا اپنی محتاط اور محاذ آرائی سے گریز پالیسی سے انحراف ہے۔
بحیرہ روم میں رونما ہونے والے کسی بھی واقعے کو خطے کی مجموعی حرکیات سے الگ نہیں دیکھا جاسکتا۔یہ خطہ ہمیشہ سے عالمی سیاست کا ایک اہم مرکز رہا ہے۔امریکا کی مسلط کردہ عراق جنگ کے بعد اس خطے کی اہمیت میں مزید اضافہ ہوگیا تھا، جس کے نتیجے میں امریکا کو اپنی خارجہ پالیسی کی ترجیحات کو از سر نو ترتیب دینا پڑا۔ اس کی کوشش ہے کہ دوسری طاقتوں کو اپنے مخصوص ایجنڈے کی تکمیل کا موقع فراہم کیا جائے۔ اس طرح امریکا اپنے اثر ورسوخ کو زیادہ بہترانداز سے استعمال کررہا ہے۔
اس پورے منظر نامے میں ترکی اپنے مقاصد کے حصول کے لیے بڑے تندہی سے کام کر رہا ہے، اس کی کوشش ہے اپنے ایجنڈے کو زیادہ سے زیادہ حاصل کر سکے۔ ترکی امریکا کی خواہشات کے برخلاف اب ان کوششوں کو تقویت دینے کے لیے اسلامک پاپولرازم، نیشنل ازم اور اپنی بالادستی کو فروغ دے رہا ہے۔ ایک وقت تھا امریکا ترکی کی آزادانہ معیشت، مغرب نواز پالیسی کو عرب ممالک کے لیے بطور مثال پیش کرتا تھا۔ تاہم،انقرہ مغرب کو یکسر نظرانداز کیے بغیر اپنے مفادات اور لبرل ازم کو بر قرار رکھتے ہوئے مغرب سے تجارتی اور دفاعی تعلقات بھی استوار کیے ہوئے ہے۔
۲۰۱۵ء سے طیب ایردوان اپنی ’’تاریخ کی بازیافت‘‘ کے لیے غیرمعمولی اقدامات کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔اس طرح وہ مشرقی یورپ،مشرق وسطیٰ اور وسط ایشیا میں اپنے اثرو نفوذ میں اضافے کو اپنی روحانی سرحدوں اور اپنے جغرافیہ کی بحالی اور واپسی جیسے خوشنما نعروں سے تعبیر کررہے ہیں۔لیکن حقیقتاً یہ اپنے ماضی اور سلطنت عثمانیہ کو دوبارہ حاصل کرنے کی خواہش ہی ہے جس کے نتیجے میں ایردوان کی قیادت میں جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی یہ سارے اقدامات کر رہی ہے۔
ترکی ایک عالمی طاقت بننے کا خواہش مند ہے تاکہ وہ برابری کی بنیاد پر دوسری طاقتوں سے بات کر سکے اور جہاں ممکن ہو اپنی بات منواسکے۔ ان مقاصد کو حاصل کرنے کے لیے ترکی اپنی دفاعی صلاحیتوں میں اضافے کے لیے سرمایہ لگا رہا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ دنیا کے سامنے اپنا مثبت چہرہ پیش کرنے کے لیے معیشت، مذہب اور تفریحی و ثقافتی سرگرمیوں میں بھی سرمایہ لگا رہا ہے۔ لیکن یاد رکھنا چاہیے کہ ایردوان کے مقاصد دفاع اور استحکام سے زیادہ جغرافیائی سیاسی حرکیات کو ترکی کے لیے زیادہ سے زیادہ استعمال کرنا ہے۔ ترکی اس وقت نظریاتی تبدیلی کی جانب گامزن ہے۔ ترکی نے عراق اور شام میں اپنے مقاصد کے لیے فوجی مداخلت سے بھی گریز نہیں کیا۔ اسی طرح یونان اور قبرص کے ساتھ بحری سرحدوں اور کچھ اہم علاقوں کے حصول کے لیے سیاسی اثر و رسوخ اور طاقت کا استعمال کر رہا ہے۔ ترکی نے صومالیہ، قطر، لیبیا، نگورنو کاراباخ، شمالی شام اور شمالی قبرص میں بھی مقاصد کو حاصل کرنے کے لیے اپنی تزویراتی موجودگی کو برقراررکھا ہوا ہے۔
Milli Gorus کے نظریات میں یہ بات شامل ہے کہ مغرب کے ساتھ محاذ آرائی رکھنا ہے۔
ترکی اپنے خود ساختہ اسلامی نظریات جو اسے ۱۹۷۰ء میں ابھرنے والی تحریک (ملی گورس) سے ورثے میں ملے ہیں اس کو مسلط کرنے کے درپے ہے۔ ایردوان اسی جماعت کی حمایت سے استنبول کے میئر بنے تھے۔ ۲۰۰۱ء میں ایردوان کے نظریات سے کچھ مختلف تھے۔ایردوان یورپی یونین میں شامل ہونے کے خواہش مند جب کہ اربکان اسلامی ممالک کے ساتھ تعلقات استوار رکھنا چاہتے تھے۔ ابتدا میں اربکان کی جماعت کو اس حوالے سے خاصی تنقید کا بھی سامنا رہا۔ ۲۰۱۵ء میں ایردوان نے ایک اتحاد بنایا جس نے کردش مزاحمت کاروں اور قبرص کے حوالے سے سخت مؤقف کو اپنایا۔
ترکی کی نظر اس وقت ۱۹۲۳ء کے ’’لوزان معاہدے‘‘ پر ہے، جس پر وہ کبھی دلی طور پر آمادہ نہیں تھے۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ مصطفی کمال اتاترک نے معاہدہ لوزان کو اہم فتح قرار دیا تھا۔ لیکن اربکان اور اس کے حامی اس کو غداری سے تعبیر کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ایردوان معاہدہ لوزان پر نظرثانی پر زور دیتے رہے ہیں۔
ایردوان کے نظریات کو سامنے رکھتے ہوئے یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ بحیرہ روم کا موجودہ تنازع محض معدنی گیس کی جنگ نہیں بلکہ کئی دہائیوں سے جاری طاقت کے حصول کی کوششوں کا حصہ ہے۔
(ترجمہ: محمود الحق صدیقی)
“What Erdogan really wants in the Eastern mediterranean”. (“Foreign Policy”. Jan.19,2021)
Leave a Reply