
نگورنو کاراباخ کے حوالے سے آذر بائیجان اور آرمینیا کے درمیان تنازع نہ تو دائمی نوعیت کا ہے اور نہ ہی قدیم دشمنی کی بنیاد پر ہے۔ روسی سلطنت کی آمد سے قبل دونوں ریاستیں صدیوں تک پُرامن بقائے باہمی کے اصول کے تحت زندہ رہی ہیں۔ اس وقت نگورنو کاراباخ کے حوالے سے جو تنازع دونوں ممالک کے درمیان پایا جاتا ہے وہ اس وقت شروع ہوا جب آرمینیا کی افواج نے آذر بائیجان کی زمین پر قبضہ کیا۔ آرمینیا نے آذر بائیجان سے اپنے تنازع کو تہذیبوں کا تصادم قرار دینے کی کوشش کرتے ہوئے کرسچین کارڈ کھیلنے کی کوشش کی ہے۔ آرمینیا کا پروپیگنڈا زیادہ کارگر ثابت نہیں ہوا۔ اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ اس وقت آذر بائیجان اُتنا ہی مسلم ہے جتنا ہالینڈ کرسچین ہے۔ اس تنازع کا تعلق کسی بھی اعتبار سے مذہبی اختلافات سے نہیں ہے۔ اس حوالے سے آرمینیا کا پروپیگنڈا سراسر بے بنیاد ہے۔
بیسویں صدی کے اوائل میں آرمینیا اور آذر بائیجان کے درمیان چند مناقشے ہوئے۔ ان مناقشوں ہی نے دونوں ممالک کے درمیان موجودہ تنازع اور کشیدگی کی راہ ہموار کی۔ یہ مناقشے ۱۹۰۵ء سے ۱۹۰۷ء میں شروع ہوئے اور ۱۹۱۷ء میں کمیونسٹ انقلاب تک جاری رہے۔ جب سوویت یونین قائم ہوا تو آرمینیا اور آذر بائیجان سوویت سوشلسٹ ری پبلک میں تبدیل ہوگئے۔ ۱۹۲۰ء کے اوائل میں آذر بائیجان کی حدود میں آرمینیائی مسیحیوں کی اکثریت پر مبنی نگورنو کاراباخ خود مختار علاقہ (NKAO) قائم کیا گیا۔ کہا جاتا ہے کہ سوویت کاکیسس کمیٹی کے سربراہ کی حیثیت سے جوزف اسٹالن نے نگورنو کاراباخ کا علاقہ آذر بائیجان کے حوالے کیا تھا۔ تاریخی دستاویزات سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ علاقہ آذر بائیجان ہی کا تھا اور اس کی حدود میں شامل رکھ کر کوئی نئی بات نہیں کی گئی۔
۱۹۸۸ء میں، یعنی سوویت یونین کی تحلیل سے تین سال قبل، NKAO کونسل نے آرمینیا میں شمولیت کے حق میں فیصلہ دیا۔ یہ فیصلہ بالکل غلط تھا جیسا کہ ۱۹۹۱ء میں آزادی و خود مختاری کے نام پر کرایا جانے والا ریفرنڈم غلط تھا۔ سوویت قانون کے مطابق نگورنو کاراباخ میں ریفرنڈم صرف اس نکتے پر ہوسکتا تھا کہ وہ سوویت یونین میں رہے گا یا آذر بائیجان کا حصہ بنے گا۔ آزادی کے نام پر ریفرنڈم کی کوئی گنجائش تھی نہ آرمینیا کا حصہ بننے کے لیے۔
سوویت یونین کی تحلیل کے بعد آرمینیا اور آذر بائیجان کو سوویت دور کی حدبندی کے مطابق آزاد و خود مختار ریاست کی حیثیت دے دی گئی۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ بین الاقوامی قانون نگورنو کاراباخ کو آذر بائیجان کا حصہ گردانتا ہے اور وہاں تعینات آرمینیائی افواج کو قابض ہی تصور کیا جائے گا۔ اقوام متحدہ کے منشور کے آرٹیکل ۵۱ کے مطابق آذر بائیجان کو اپنے دفاع کے لیے عسکری کارروائی کا حق حاصل ہے۔
آرمینیا اور آذربائیجان کے درمیان نگورونو کاراباخ کے معاملے میں موجودہ تنازع نے اس وقت شدت اختیار کی جب سوویت یونین کی تحلیل کے وقت آرمنیا کی افواج نے آذر بائیجان کی سرزمین پر چڑھائی کی، آذری شہر کھجولے کو تاراج کیا اور آذری باشندوں کو بڑے پیمانے پر موت کے گھاٹ اتارا۔ اس وقت بھی آرمینیائی افواج آذر بائیجان کے ۲۰ فیصد رقبے پر قابض ہیں۔ ۱۹۹۳ء میں اقوام متحدہ نے چار قراردادیں منظور کیں، جن میں آرمینیا سے مطالبہ کیا گیا تھا کہ وہ آذربائیجان کے علاقوں سے نکل جائیں، مگر ایسا کچھ نہ ہوا۔ آخرکار ۷ لاکھ ۸۰ ہزار افراد کو NKAO کے علاقے، اس سے ملحق آذری علاقوں اور آرمینیائی علاقوں سے نقل مکانی کرنا پڑی۔ اس کا ردِعمل آذربائیجان میں بھی ہوا۔ آرمینیائی نسل کے کم و بیش ڈھائی لاکھ باشندوں کو آذر بائیجان سے نکل کر آرمینیا جانا پڑا۔ آج بھی آذر بائیجان کے دارالحکومت باکو، گانجا اور دیگر علاقوں میں کم و بیش دس ہزار آرمینیائی باشندے سکونت پذیر ہیں۔
آذر بائیجان اور آرمینیا کے درمیان نگورونو کاراباخ کے معاملے پر مسلح مناقشے ہوتے رہے ہیں۔ یہ کہانی تین عشروں پر محیط ہے۔ جولائی ۲۰۲۰ء میں نگورنو کاراباخ سے کم و بیش ۱۰۰ کلومیٹر کے فاصلے پر آذری علاقے تووُز (Tovuz) کے علاقے میں دونوں ممالک کی افواج متصادم ہوئیں۔ روس نے آرمینیا کو فوجی امداد فراہم کی جس سے آذر بائیجان کو شدید دکھ پہنچا، کیونکہ اس نے پندرہ برس کے عرصے میں روس سے تعلقات بہتر بنانے کی بہت کوشش کی تھی۔ ۲۷ ستمبرکو ایک بار پھر لڑائی چھڑگئی اور اس بار معاملہ تیزی سے شدت اختیار کرگیا۔ روس نے جنگ بندی کرانے کی بھرپور کوشش کی، مگر اب تک لڑائی بند نہیں کرائی جاسکی ہے۔
نگورونو کاراباخ کے حوالے سے جو کچھ بھی ہو رہا ہے اس کا بنیادی طور پر آرمینیا کی اندرونی سیاست سے تعلق ہے۔ آرمینیائی تارکین وطن نے ملک کی سیاست پر غیر معمولی اثرات مرتب کیے ہیں۔ ۲۰۱۸ء میں نکول پاشنیان آرمینیا کے وزیر اعظم منتخب ہوئے۔ انہوں نے انتخابی مہم کے دوران نگورونو کاراباخ کا مسئلہ حل کرنے کے حوالے سے بلند بانگ دعوے کیے تھے۔ جب وہ انتخابی وعدوں پر عمل کرنے میں ناکام رہے تب ان پر دباؤ بڑھنے لگا۔ جب ہر طرف سے شدید تنقید ہونے لگی تب انہوں نے غیر معمولی نوعیت کی قوم پرستی کو ہوا دینا شروع کی۔ اس کے نتیجے میں نوبت ایک بار پھر آذر بائیجان سے عسکری مناقشے تک جاپہنچی۔ ۲۰۱۹ء میں آرمینیا کے وزیر دفاع ڈیوڈ تونویان نے نیو یارک میں ایک آرمینیائی گروپ سے گفتگو میں کہا کہ وزیراعظم نکول پاشنیان نے ’’زمین برائے امن‘‘ کا نظریہ ترک کرکے ’’نئی جنگیں، نئی زمین‘‘ کا نظریہ اپنالیا ہے۔ اگست ۲۰۱۹ء میں نکول پاشنیان نے آذر بائیجان کے تمام مقبوضہ علاقوں کو آرمینیا کا باضابطہ حصہ بنانے کا اعلان کیا۔ ۱۹۹۰ء کے عشرے سے اب تک کسی بھی آرمینیائی سیاست دان نے اس طور بات نہیں کی۔
رواں سال مارچ میں آرمینیا کے وزیر اعظم نے اعلان کیا کہ وہ دس سال قبل ہسپانوی دارالحکومت میڈرڈ میں آرمینیا اور آذر بائیجان کے درمیان بات چیت کے لیے یورپ میں تعاون و ترقی کی تنظیم کے تحت ہونے والے معاہدے کو تسلیم نہیں کرتے۔ جولائی ۲۰۲۰ء میں نکول پاشنیان نے آذر بائیجان سے مذاکرات جاری رکھنے کے لیے یک طرفہ طور پر نئی شرائط کا اعلان کیا۔ ایک شرط یہ تھی کہ دونوں ممالک کی بات چیت میں نگورنو کاراباخ کے آرمینیائی باشندوں کو بھی شریک کیا جائے جبکہ اس علاقے کے آذری باشندوں کو بات چیت کا حصہ بنانے پر وہ تیار نہ تھے۔ اس شرط کو تسلیم کرنے کی صورت میں مذاکرات کا ڈھانچا ہی تبدیل ہو جاتا۔ اب تک دو طرفہ چلے آرہے مذاکرات سہ فریقی ہو جاتے۔ آذری قیادت نے مذاکرات میں نگورنو کاراباخ کے آرمینیائی باشندوں کو شریک کرنے کی شرط مسترد کردی۔ اب دونوں ممالک ایک بار پھر مذاکرات کی میز سے بہت دور ہیں۔
سینٹر آف اینالسز آف انٹر نیشنل ریلیشنز (باکو) کے چیئرمین ڈاکٹر فرید شفیعیف کہتے ہیں ’’آرمینیا اگر بات چیت شروع کرنا چاہتا ہے تو اُسے نگورنو کاراباخ کے گرد سات علاقوں سے اپنی افواج کو واپس بلانا ہوگا۔ ۲۰۰۹ء میں میڈرڈ معاہدے کے تحت اور اس سے قبل ۱۹۹۳ء میں اقوام متحدہ کی قراردادوں کی رُو سے فریقین نے اس پر رضامندی ظاہر کردی تھی۔ ایسا ہوگا تو دونوں ممالک کے درمیان رابطے بڑھیں گے اور پناہ گزینوں کی وطن واپسی کا عمل شروع ہوسکے گا‘‘۔
آرمینیا کے وزیر اعظم اب تک اس بات کے لیے تیار نہیں کہ آرمینیائی افواج کو آذربائیجان کی سرزمین سے واپس بلایا جائے۔ ۱۷؍اکتوبر کو آذری فوج نے اسٹریٹجک اہمیت کے حامل شہر فزولی اور اس سے ملحق چند علاقوں کا کنٹرول سنبھالا۔ یہ علاقہ مقبوضہ علاقوں کے جنوب مشرق میں واقع ہے۔ فزولی آرمینیا کے لیے سب اہم دفاعی لائن کی حیثیت کا حامل رہا ہے۔
میڈرڈ میں طے پانے والے معاہدے کے تحت آرمینیا کو آذر بائیجان کے مقبوضہ علاقوں سے نکل جانا تھا۔ ایسا ہوا ہوتا تو نوبت عسکری مناقشے تک نہ پہنچتی اور فریقین کا بڑے پیمانے پر جانی نقصان نہ ہوا ہوتا۔ دونوں ممالک کے درمیان حقیقی اور پائیدار امن کے لیے اس معاہدے پر عمل ناگزیر ہے۔ یہ سب کچھ آذر بائیجان کی طرف سے نہیں ہے۔ عالمی برادری نے اس پر مہرِ تصدیق ثبت کی ہے۔ آرمینیا کے لیے اسے نظر انداز کرنا ممکن نہیں۔ آذر بائیجان کو سفارتی اعتبار سے بھی برتری حاصل ہے اور وہ عسکری اعتبار سے بھی اتنا مضبوط ہے کہ اپنے تمام مقبوضہ علاقوں کو واپس لے لے۔
اگر نکول پاشنیان نے نگورونو کاراباخ کا مسئلہ حل کرنے کے حوالے سے عالمی برادری کی طے کردہ شرائط قبول نہ کیں تو ممکن ہے کہ اُن کی جگہ روسی کیمپ کا حامی شخص وزیرِ اعظم کے منصب پر دکھائی دے۔ ایسی صورت میں کیا ہوگا یہ پورے یقین سے کہا نہیں جاسکتا۔
(ترجمہ: محمد ابراہیم خان)
“What is behind the Nagorno-Karabakh flare-up?” (“Al-Jazeera.com”. Oct. 19, 2020)
Leave a Reply