فارنزک سائنس کیا ہے؟

فارنزک سائنس (Forensic Science) یا فارنزکس (Forensics) دراصل کسی بھی وقوع پذیر ہونے والے مجرمانہ واقعے کے مختلف ثبوت اور شواہد کو جمع کرنے کے ایسے جدید ترین سائنسی تفتیشی طریقہ ٔ کار کو کہتے ہیں جس میں متاثر ہ شخص اور اس کے گردوپیش کے ماحول میں موجود انسانی آنکھ سے پوشیدہ عوامل اور عناصر کا باریک بینی سے سائنسی بنیادوں پر معائنہ کیا جا تا ہے۔ اس دوران حاصل شدہ نتائج پر ماہرین بحث و مباحثے کی صورت میں واقعہ کے اصل محرکات تک پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں۔

تاریخی پس منظراور ارتقا:

فارنزک (Forensic) لاطینی زبان کی اصطلاح Fornensis سے اخذ کردہ ہے۔ جس کے معنی ہیں’’عدالت کے سامنے‘‘ اس اصطلاح کے تانے بانے سلطنت روما کے زمانے میں ملزم، عدالتی اراکین، متاثرہ شخص اور عوام الناس کے درمیان جرم کی تفتیش کے کھلے اجلاس میں ہونے والے بحث اور مباحثے سے جا ملتے ہیں۔ اس اجلاس میں ہر دو جانب سے اپنے حق میں دلائل دیے جاتے تھے اور واردات کی تہہ تک پہنچ کر سزا یا بریت کا تعین کیا جاتا تھا۔ ماضی کی اس روایت کو مد نظر رکھتے ہوئے موجودہ عہد میں جرم کی تہہ تک پہنچے کے لیے اَن دیکھے شواہد کو جمع کرنے کے عمل اور اس پر ماہرین کے بحث و مباحثے کو سائنس کا درجہ دے کر شعبہ سراغ رسانی میں با قاعدہ Forensic Science کی شاخ بنا دی گئی ہے۔ اگر ہم Forensic Science کے حوالے سے ماضی پر نظر ڈالیں تو اس کے ابتدائی شواہد ۲۸۷ قبل مسیح کے مشہور یونانی سائنسدان اور ماہر ریاضیات ارشمیدس کی تحقیقی کاوشوں میں ملتے ہیں۔ انہوں نے سونے سے بنے تاج میں کی گئی ملاوٹ کو تیزابی عمل کے تجربے سے ثابت کیا تھا۔ اس کے علاوہ حشرات کی مدد سے قتل کے سراغ کے حوالے سے پہلا تحریری ثبوت ۱۲۴۷ء میں چین کی سانگ شہنشاہیت کے دور میں سانگ سی کی لکھی ہوئی کتاب( جس کا انگریزی ترجمہ Colletec Cases of Injustice Rectified کے نام سے کیا گیا ) میں ایک واقعے کی صورت میں درج ہے۔ یہ واقعہ کچھ یوں ہے کہ ایک سرکاری اہلکار نے ایک ایسے کسان کے قتل کا سراغ لگالیا تھا جسے سر پر درانتی کے وار کے ذریعے ہلاک کیا گیا تھا۔ اس اہلکار نے علاقے کے تمام لوگوں کو ایک ہال میں جمع کیا اور ان سب کے گھر سے درانتیاں منگوا کر انہیں ایک جگہ رکھ دیا۔ اگرچہ قاتل نے درانتی کو دھویا تھا مگر مکھیوں نے خون کی بو سونگھتے ہوئے اس درانتی پر جمع ہونا شروع کر دیا جو آلۂ قتل تھی۔ یوں واضح ہو گیا۔ کہ قتل اس درانتی کے مالک نے کیا ہے۔ واضح رہے کہ اس کتاب میں پہلی مرتبہ جرم کی تہہ تک پہنچنے کے لیے ان طریقوں کی بھی وضاحت کی گئی جن کے ذریعے ڈوب کر مرنے اور ڈبو کر مارنے، خودکشی، قتل اور حادثاتی موت کا سائنسی بنیادوں پر پتا لگایا جا سکتا ہے۔ بعد ازاں ۱۶ ویںصدی میں فرانس کے بادشاہوں ہنری اول، ہنری سوئم، فرانس دوئم اور کنگ چارلس کے شاہی معالج اور سرجن Ambroise Pare نے آپریشن کے حوالے سے نہایت عرق ریزی کے بعد تشدد یازبردستی موت کے منہ میں پہنچانے کے حوالے سے انسانی جسم میں ہونے والی اندرونی تبدیلیوں کو جانچنے کے قابل قدر پیمانے (Examine) وضع کیے۔ اس کے علاوہ ۱۷ویں صدی میں اٹلی سے تعلق رکھنے والے سرجن Fortunato Fidelis اور ان کے ساتھی سرجن Paolo Zacchia نے دوائوں کے مضر اثرات سے انسانی جسم میں ہونے والی تبدیلیوں اور بیماریوں پر تحقیق کی، جو ۱۷ویں صدی کے آخر میں A Treatise on Forensic Medicine and Public Health کے نام سے شائع ہوئی جس نے زہر کے ذریعے ہونے والی ہلاکتوں کے معموں کو حل کرنے میں اہم کردارادا کیا۔

اس دوران جرمنی کے مشہور ماہر طب Johann Peter Franck کی کتاب The Complete System of Police Medicine بھی جرائم کے پس پردہ حقائق تجزیاتی بنیادوں پر جاننے میں مدد گار ثابت ہوئی۔ اس حوالے سے سویڈن سے تعلق رکھنے والے ذہین کیمیا داں Carl Wilhelm Scheele کا کام بھی قابل تحسین ہے۔ واضح رہے ان کی پیدائش جرمنی کی تھی جو اس وقت سوئیڈن کے زیر تسلط تھا۔ انہوں نے ۱۷۷۵ء میں انسانی جسم میں بعد از مرگ زہر کی موجودگی معلوم کرنے کے مختلف طریقے دریافت کیے۔ ان طریقوں کو وسعت دیتے ہوئے جرمنی کے ماہر کیمیا Valentine Ross نے انسانی معدے میں زہر کی موجودگی سے موت واقع ہونے کا طریقہ معلوم کیا اور اس طریقے کو کامیابی سے استعمال کرتے ہوئے ۱۸۳۶ء میں پہلی مرتبہ برطانوی ماہر کیمیا James Marsh نے زہر دے کر ہلاک کیے جانے والے ایک شخص کی قتل کی گھتی سلجھائی۔اس کے علاوہ ۱۹۸۴ء میں انگلینڈ میں ایک قتل کی واردات کو جو فائرنگ سے کی گئی تھی اس میں مقتول کا خون قاتل نے جس کپڑے سے صاف کیا تھا اس کے ذرات اور مقتول کے زخم کے کنارے پر موجود ذرات کی کیمیائی مماثلت سے قاتل پر گرفت کی گئی تھی۔

فارنزک سائنس کے شعبے:

سائنس کی برق رفتار ترقی اور جدید آلات کی موجودگی کے باعث Forensic Science کو کئی شعبوں میں تقسیم کر دیا گیا ہے جن میں Criminalistics فارنزک کے ذریعے انگلیوں، پیروں اور جرم میں استعمال ہونے والی گاڑی کے پہیوں کے نشانات وغیرہ کو کیمیائی محلولوں اور جرثوموں وغیرہ کی تجربہ گاہوں میں جانچ کرنے کے بعد مجرم کی نشاندہی کی جاتی ہے۔ اسی طرح Digital فارنزک طریقہ تفتیش میں الیکٹرانک ڈیٹا اور ڈیجیٹل میڈیا سے ڈیٹا Recover کر کے DF ماہرین کی رپورٹس سے رہنمائی حاصل کی جاتی ہے۔ Anathoropology فارنزک کے تفتیشی عمل میں انسانی ڈھانچے پر تحقیق کی جاتی ہے۔ Archaelogy فارنزک کے ذریعے ماہرین جائے وقوع کے ارد گرد کے ماحول میں علمائے آثار قدیمہ کے مروجہ تحقیقی اصولوں اور Forensic سائنس کے طریقوں کے باہم ملاپ سے تفتیشی عمل سرانجام دیتے ہیں۔ Entomology فارنزک میں بنیادی طور پر حشرات کی مدد حاصل کی جاتی ہے۔ اور متوفی کے جسم کے اردگرد یا اس کے اندر موجود کیڑے مکوڑوں اور متعلقہ چیزوں میں ان کی موجودگی سے تفتیش میں مدد حاصل کی جاتی ہے۔

خصوصیت کے ساتھ Entomology فارنزک تفتیش کے ذریعے اگر قتل کے بعد لاش کی جگہ تبدیل کی گئی ہو تو اسے شناخت کرنے میں کافی مدد مل جاتی ہے۔ Geology فارنزک کے تفتیشی عمل کو اسکاٹ لینڈ سے تعلق رکھنے والے جاسوسی ناولوں کے مشہور مصنف سر آر تھر کانن ڈائل کے ناولوں سے اخذ کیا گیا ہے اس عمل میں زمینی اجزاء، معدنیات، پیٹرولیم اور زمینی سطح سے متعلق اشیاء سے مدد لی جاتی ہے۔ Meteorology فارنزک کی تحقیق کے دوران ماہرین متوفی اور وقوعہ کی جانچ پڑتال گزرے ہوئے موسمی حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے کرتے ہیں۔ Odontology فارنس میں متوفی کے دانتوں کے اجزاء اور کیمیائی عناصر پر تحقیق کی جاتی ہے۔ Pathology فارنزک کے دوران طب کے مروجہ ٹیسٹ اور مختلف فارنزک تجزیوں کے باہم ملاپ سے نتائج اخذ کیے جاتے ہیں۔ Psychology فارنزک میں متوفی کی دماغی حالت کو لیبارٹری سطح پر پرکھنے کے بعد اس کی صحت مندانہ یا غیر صحت مندانہ کیفیات کے بارے میں بحث کی جاتی ہے۔ Toxicology فارنزک میں متوفی کے جسم کے اندر اور باہر زہریلے مادوں کی موجودگی کو پرکھ کر تجزیہ کیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ دست یاب تحریری مواد کی شناخت اور ہینڈ رائٹنگ کی بنیاد پر کیے جانے والے فارنزک تجزیے جنہیں Forensic Document Examination کہا جاتا ہے Forensic Science کی اہم ترین شاخ ہے۔

فارنزک سائنس پر تحفظات:

جہاں ایک طرف سائنسی ترقی کے ذریعے Forensic Science سے جرائم کے خلاف تحقیقی اور تفتیشی عمل میں بیش بہا فوائد حاصل ہوئے ہیں وہیں چالاک مجرموں نے بھی اپنے طریقہ واردات میں جدید طریقے استعمال کرنے شروع کر دیے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ امریکا کی نیشنل اکیڈمی آف سائنس بہت سے پرانے فارنزک تحقیقی طریقوں کو متروک قرار دے چکی ہے، جیسے FBI کی جانب سے عرصہ درواز سے رائج پستول کی گولی کے دھاتی تجزیہ کو اب قابل اعتبار نہیں سمجھا جاتا، کیونکہ ماہرین کے مطابق گولی کا خول جو پستول کے اندر اپنے نشان چھوڑتا ہے جدید تکنیک کے ذریعے اس میں اور فائر شدہ گولی کی اوپر دھات میں فائرنگ کے دوران کیمیائی فرق پیدا کیا جا سکتا ہے۔ چنانچہ ایک ہی پستول سے چلائے جانے والی گولی، اس کا خول اور پستول کے چیمبر کے دو مختلف کیمیائی تجزیے تحقیقی میں رکاوٹ ڈال سکتے ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ ۱۹۶۳ء میں امریکا کے صدر جان ایف کینیڈی کے قتل کے وقت سے رائج اس فارنزک تجزیے کو ۲۰۰۵ میں FBI نے متروک قرار دے دیا۔ اسی طرح دانتوں کے تجزیے بھی جرائم کے حوالے سے آج کل نا قابل اعتبار قرار دیے جا رہے ہیں۔ American Board of Forensic Odontology کا کہنا ہے کہ پچھلے تین سال میں ۶۳ فیصد تجزیاتی رپورٹس DNA ٹیسٹ کے بعد غلط قرار دی جا چکی ہیں۔

فارنزک سائنس، فکشن اور مستقبل:

اسکاٹ لینڈ سے تعلق رکھنے والے جاسوسی ناولوں کے مشہور مصنف سر آرتھر کانن ڈائل کے جاسوسی ناولوں کے مرکزی کردار شرلاک ہومز کے پیچیدہ کیسوں کی تفتیش کے دوران مروجہ سراغ رسانی کے طریقوں کے علاوہ فارنزک تفتیشی عمل آج سراغ رسانی کے کئی ادارے عملی شکل میں کامیابی سے استعمال کر رہے ہیں اس کے علاوہ ٹیلی ویژن پر کئی جا سوسی سیریل اور سنیما کی کئی مشہور فلموں کی کہانیاں بھی فارنزک تحقیق کے گرد گھومتی ہیں۔ فارنزک تحقیق کے حوالے سے مستقبل میں جن شعبوں پر خصوصی توجہ دی جا رہی ہے۔ ان میں اینیمیشن، کیمسٹری، انجینئرنگ اکائونٹنگ اور چہرے کے خطوط کی تبدیلی شامل ہے۔ ان شعبوں میں تحقیق کر کے فارنزک تکنیک کو جدید خطوط پر استوار کیا جا رہا ہے۔

(بحوالہ: سنڈے ایکسپریس، شمارہ:۲۰ جنوری ۲۰۰۸ء)

Be the first to comment

Leave a Reply

Your email address will not be published.


*