
پوپ بینڈکٹ شازدہم (XVI) نے کیتھولک عیسائی اور مسلمانوں کے لیے جو موروثی طور پر ایک دوسرے کے دشمن چلے آرہے ہیں اور جو صدیوں تک اسپین، فلسطین اور دوسرے مقامات پر لڑتے رہے ہیں کم ازکم ایک مشترکہ کلمۂ سواء کی تلاش کی خاطر برطانیہ کا دورہ کیا تھا۔ انہوں نے اس امر پر اتفاق کیا کہ تہذیب و تمدن کو جس خطرے کا سامنا ہے وہ اس بات سے نہیں ہے کہ مذہبی بنیاد پرستی دہشت گردی کو فروغ دے رہی ہے بلکہ اصل خطرہ ’’جارحانہ سیکولرازم‘‘ سے ہے جو پوری دنیا کے لیے خطرہ بنا ہوا ہے۔ مسلم برائے برطانیہ نامی تنظیم کے ایک برطانوی مسلم رہنما عنایت بنگلہ والا نے مسلمانوں کی طرف سے ان الفاظ میں ردعمل ظاہر کیا۔ ’’جارحانہ سیکولرازم کے سلسلے میں پوپ کے ریمارکس بہت سے مسلمانوں کے نظریات سے ہم آہنگی رکھتے ہیں۔ سارے یورپ میں ہم مسلمانوں کو اپنی پسند کا مذہبی لباس پہننے کے حق سے محروم کرنے کی ایک مہم دیکھ رہے ہیں۔ ان کی پندرہ سو سے زیادہ مساجد ہیں وہ برطانیہ میں چوبیس لاکھ، کل آبادی کا تین فیصد ہیں جو محسوس کرتے ہیں کہ سفید فام عیسائی سوسائٹی انہیں نشانہ بنا رہی ہے‘‘۔
جی شمالی افریقا کے کلینر پوپ کو قتل کرنے کی سازش کے شک میں گرفتار کیے گئے تو بین الاقوامی مسلم میڈیا نے اس حرکت کو ’’اسلام فوبیا کا کھیل‘‘ قرار دے کر اس کی مذمت کی۔ تاہم برطانوی مسلمانوں نے اس پر مکمل خاموشی اختیار کی۔ ان کے قانون کو اپنے ہاتھوں میں لینے یا دہشت گردوں کی مذمت کرنے سے انکار نیز اردن جیسے اعتدال پسند مسلم ملکوں کی خصوصیات دورُخے پن کے تاثرات سے مرکب رہیں۔ مسٹر بنگلہ والا توقع کر سکتے ہیں کہ جب سیکولرازم غائب ہو جائے گا یورپ ایک اسلامی جنت بن جائے گا جہاں چلتے پھرتے سیاہ ٹینٹ کی شکل میں عورتیں نظر آئیں گی۔ شرعی عدالتیں لوگوں کو درجنوں کوڑے لگائیں گی اور ایران کی سکینہ محمدی اشتیانی جیسی عورتوں کو ناجائز جنسی تعلقات پر سنگسار کیا جائے گا۔ اسکول اتوار کو نہیں جمعہ کو بند ہوں گے۔ اس بہشت بریں میں سور کا گوشت گھروں اور مارکیٹوں سے غائب ہو جائے گا۔ صرف حلال گوشت ملے گا۔ بچوں کی نرسری کی کتابوں سے دی تھری لٹل پگ (تین چھوٹے سور) جیسی غیر اسلامی کہانیاں غائب ہو جائیں گی۔
بھگواجوش رکھنے والوں کے سیکولرازم کی غیر موجودگی کا مطلب ہے گئوکشی پر پابندی، بے شمار مندروں کی بحالی، آئین میں اس طرح کی ترمیم کہ ’’ہندو‘‘ کامطلب ’’انڈین‘‘ ہو اور اس صورتحال کا خاتمہ جسے بعض قوتیں ’’اقلیت کی ناز برداری‘‘ قرار دیتی ہیں۔ بلاشبہ صہیونی عناصر اسرائیل کو غیر سیکولر مغربی ایشیا میں پورے مغربی کنارے پر قبضہ کرتا دیکھنا چاہتے ہیں۔ سکھ، بودھ، زرتشت کے پیروکار اور بہائی و سبد کے پیروکار سیکولرازم کو کس طرح دیکھتے ہیں یہ پوری طرح واضح نہیں ہے لیکن تاریخ ہمارے لیے اس بارے میں کوئی شک و شبہ نہیں چھوٹی بلکہ بہت سے اندیشے روم کے اس تصور کے بارے میں پیدا ہوتے ہیں جو اس عیسائی مملکت کے سلسلے میں بلڈی میری (خونیں مریم) کے نام سے معروف ملکہ کے تحت برطانیہ میں پائے جاتے ہیں۔
سیمون ہوگارٹ گارجین میں ہزہولی نیس کے جارحانہ سیکولرازم کے بارے میں لکھتے ہیں کہ انتہائی جارح سیکولرازم میں بھی خونخواری اس کا نصف بھی نہیں ہو سکتی جو کیتھولک چرچ نے کی تھی کہ چند ملحدوں کو رومی کیتھولک کلیسا کی عدالت احتساب نے (جو تیرہویں صدی سے انیسویں صدی تک سرگرم عمل رہی) سخت پرتشدد باز پرس اور زندہ نذر آتش کرنے جیسی سزائیں دیں۔ یہ زیادتیاں صرف اسپین میں ہی نہیں کی گئیں اگرچہ اسپین کی یہ زیادتیاں زبان زد عام ہیں۔ پرتگالیوں نے گوا میں ملحدوں کو ستونوں سے زندہ باندھ کر جلا کرمار ڈالا۔ یہی حال پرتگال کی دوسری انڈین نو آبادیات میں بھی کیا گیا۔ فرانس اپنے زیادہ انسان نواز ماضی پر فخر کرتا ہے۔ لیکن تاریخ نے سینٹ یارتھولو مولو کی اس رات کو بھی ریکارڈ کیا ہے جب پروٹسٹنٹوں کو ذبح کیا گیا تھا۔ اس عدم رواداری کے سائے روم کے اوپر یورپی یونین کی حالیہ کانفرنس میں تند مزاجی کی شکل میں بھی دیکھے جاسکتے ہیں۔ یہ تہذیبوں کا اصل تصادم ہے۔ اس نے صرف عیسائیوں کو ہی غیر عیسائیوں کے مقابلے میں نہیں بلکہ پورے یورپ کو ایشیا کے مقابلے میں اور گوروں کو غیر گوروں کے مقابلے میں کھڑا کر دیا ہے۔ عقیدے کا تنازعہ تو اس عظیم تصادم کا صرف ایک پہلو ہے۔
پوپ کے دورۂ برطانیہ نے اس کو نمایاں کر دیا ہے کیونکہ انہو ںنے بے لچک مذہب کا خلاصہ پیش کر دیا جہاں سب کچھ کہا اور کیا گیا۔ برطانیہ ایک سیکولر سوسائٹی ہے۔ کچھ برطانوی راستے سے ہٹ کر اعلان کر سکتے ہیں کہ ’’خدا ایک تاریخی غلطی ہے‘‘ جیسا کہ آرتھر کویسٹلر نے کیا یا پوپ کی ماتحتی میں پادریوں کے جنسی جرائم کی بنیاد پر انہیں گرفتار کرنے کے لیے بحث کی اور مبینہ طور پر ویٹی کن کی طرف سے صاف کر دیا گیا جیسا کہ پروفیسر رچرڈ ڈائوکٹس نے کیا۔ لیکن چرچ آف انگلینڈ کی سپریم گورنر کی حیثیت سے ملکہ ایلزبتھ کی پوزیشن اس سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتی کہ وہ پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کے منظور کردہ بل کو ویٹو کرنے کا حق رکھی ہیں۔ ہزہولی نیس سے متعلق بہت ہی مقبول و مشہور سائنس قلم کار نے دنیا کے انتہائی گھٹیا مذہب کے سربراہ کی حیثیت سے ان کی مذمت کی۔ پروفیسر ڈائوکٹس نے جو کہ ملحد ہیں اسلام کو اس سے بھی بدتر قرار دیا۔ انہوں نے پوپ پر غیر اعتدال پسند، غیر انسانی اور غیر اخلاقی موقف اختیار کرنے کا الزام لگایا جبکہ یہ تمام امور جنس، امتناع حمل، آبادی اور پیداوار نیز بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کرنے والے پادریوں کو مجرمانہ طور پر پناہ دینے کی کوششوں سے متعلق ہیں۔ تاہم اس حملے کی زیادہ شدت پوپ اور کیتھولزم کی اہمیت میں عام حالات سے زیادہ اضافہ کرتی ہے، خود پوپ عوامی زندگی میں مذہب کو دیس نکالا دینے یا دیوار سے لگا دینے کی شکایت میں بہت زیادہ دور نہیں ہیں۔ برطانیہ کی لاتعلقی اس فقرے سے زیادہ واضح ہے جو پاپا کے ایک ممتاز معاون کارڈنال والٹر کاسپر نے ’’جارحانہ جدید الحاد‘‘ کی شکل میں استعمال کیا۔ سنسکرت کا لفظ دھرم نرپیکشتا یا مذہبی غیرجانبداری ایک ایسے ملک میں لوگوں کے رویے کو زیادہ بہتر طور پر ظاہر کرتا ہے جہاں شادی کے شعائر کو زیادہ سے زیادہ غیر ضروری اور قابل استثناء قرار دیا جاتا ہو۔
سیکولرازم انڈیا یا لبنان کے مقابلے میں برطانیہ میں زیادہ فطری اور کم صبر والا نظر آتا ہے کہ وہاں اٹھارہ مختلف فرقوں اٹھارہ مختلف قانونی ضابطوں کو تسلیم کیا جاتا ہے اور کوئی ایسا مشترک سول کوڈ نہیں ہے جو کہ سیکولرازم و عدم یکجہتی کا نسخہ
قرار دیا جائے۔ انڈیا کا سیکولر آئیڈیل یہ تسلیم کرتا ہے کہ تمام مذاہب کے مضبوط اصول پوری قوت کے ساتھ ایک دوسرے سے ٹکرائے بغیر ایک دوسرے کے شانہ بشانہ پنپ سکتے ہیں۔ ٹونی بلیئر نے برطانوی عوام کے مزاج کی اس وقت اچھی طرح ناپ تول کر لی تھی جب انہوں نے کیتھولک ازم کی طرف اپنی تبدیلی مسلک کو اس وقت تک کے لیے مؤخر کر دیا کہ جب وہ ڈائوننگ اسٹریٹ سے رخصت ہو جائیں۔ یہ ان کا کوئی نیا عقیدہ نہیں ہے جو ان کے رائے دہندگان کو اسے اپناتے ہی برافروختہ کر دے۔ یہ بالکل حقیقت ہے کہ انہوں نے مذہب کو اس قدر سنجیدگی کے ساتھ لیا کہ بہت سے ووٹروں کا اس کو ہضم کرنا مشکل ہو گیا۔ جیسا کہ کہا گیا ہے کہ لیبر پارٹی کے اس وقت کے دورِ حکمرانی میں عام نظریہ یہ تھا کہ سنکی، غیر ملکی اور اقلیتیں ہی کس مذہب میں یقین رکھنے اور عبادت کرنے کے لیے کافی وہمی ہو سکتے ہیں اب مسٹر ڈیوڈ کیمرون کی کنزرویٹو لبرل ڈیموکریٹک مخلوط حکومت نے واضح طور پر ’’اچھا کام‘‘ کیا ہے۔ وہ عقیدے کی مثبت قوت کو کھلا چھوڑ دینے میں یقین رکھتی ہے۔ نئے مشترکہ لائحہ عمل کے حلف نامے میں یہ بات پہلے ہی درج کر دی گئی تھی تاہم اس کا اعلان پاکستانی نژاد بیروینس سعیدہ وارثی برطانوی کابینہ میں پہلی مسلم خاتون ممبر نے کیا۔
(بشکریہ: ’’دی پائینیئر‘‘۔ ۲۲؍ ستمبر ۲۰۱۰ء)
Leave a Reply