
تاریخ کے گونا گوں ادوار میں سالہا سال گزرتے ہوئے زر سالار (سرمایہ دار) یہودیوں اور ان کے ہمراہ ان کے یہودی راہنما پوری دنیا پر الہٰی سلطنت قائم کرنے کے خواب دیکھتے رہے (کہ یہ بات ’’نسل پرستی‘‘ بذات خود اس قوم کی جڑوں میں رہی) اس تسلط کا ابتدائی اور آغاز نقطہ یہی آج کا فلسطین ہے۔
اس ہدف تک پہنچنے کے لیے دنیا بھر کے مختلف علاقوں میں بسے ہوئے یہودیوں کو یہ فکر، پیغام، رجحان اور میلان دیا گیا کہ وہ اپنے اصلی وطن (یعنی فلسطین) کی طرف پلٹیں۔
صہیونی تحریک ایک سیاسی گروپ کے طور پر ایسے گروہ کے طور پر جو تمام معنوں میں مکمل منظم ہو۔ مذکورہ ہدف تک پہنچنے کے لیے ۱۸۹۷ء میں تشکیل پائی اس کا بانی تھیوڈورھرٹزل (۱۸۶۰ء تا ۱۹۰۶ء) تھا۔ یہ مملکت ہنگری کا رہنے والا ایک یہودی تھا۔
ہرٹزل نے اپنی مشہور معرکتہ الآرا کتاب ’’یہودی حکومت‘‘ کے شائع ہونے کے بعد جو دنیا بھر میں یہودی مخالف فضا پیدا کرنے کا سبب بنی اس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ۱۸۹۷ء میں سوئٹزرلینڈ کے شہر بیسل (Basel) صہیونیوں کی پہلی باقاعدہ کانگریس کا انعقاد کیا۔ (First World Zionist Congress of 1897) ہرٹزل نے اس کانگریس کے پہلے سیشن میں اس طرح سے کہا:
’’ہم ایک ایسے گھر کا سنگِ بنیاد رکھنے جا رہے ہیں جو یہودی قوم کی پناہ گاہ ہو۔۔۔ اور صہیونزم یہودی قوم کے لیے فلسطین میں ایک آزاد وطن بنانا چاہ رہا ہے، جہاں ان کے لیے قانونی ضمانت اور بین الاقوامی شناخت ہو‘‘۔ “Zionism Seeks for The Jewish People a Publically Recognized Legally Secured Home Land in Palestine”
تنظیم بین الاقوامی صہیونزم کانگریس (World Zionism Congress Organization) درحقیقت دنیا بھر سے یہودیوں کی انجمنوں اور تنظیموں کو ایک پلیٹ فارم مہیا کرنے کا سبب بنی۔ اس کا ہدف ایک ایسی بین الاقوامی تحریک ایجاد کرنا تھا جس کے باعث یہودیوں کی تمام کی تمام (اور بشمول پوری دنیا کے مختلف یہودی آبادیوں میں) فکری و عقلی کوششوں کو منسجم کرنا تھا۔
اس تنظیم نے صرف دکھانے کے لیے اپنی تحریک کا نام صہیونزم رکھا تھا تاکہ اپنے جھوٹے پروپیگنڈے کے ذریعہ اپنے غاصبانہ اعمال پر پردہ ڈالتے ہوئے دنیا بھر کے لوگوں کو بیوقوف بنائیں۔ نیز دنیا بھر میں بٹے ہوئے یہودیوں کی توجہات کو اپنی طرف مرکوز کر لیں۔
صہیونزم دراصل لفظ صہیون (Zion) سے مشق ہے یہ ایک پہاڑی کا نام بھی ہے جو بیت المقدس (یروشلم) کے جنوب مغرب میں واقع ہے۔ صہیونیوں کا اس حوالے سے یہ دعویٰ ہے کہ ایک زمانہ میں حضرت دائودؑ اور حضرت سلیمانؑ یہیں رہا کرتے تھے اور خدا نے انہیں وعدہ دیا تھا کہ ایک بار پھر انہیں اس سرزمین کی حکومت عطا کرے گا۔
البتہ اس سرزمین کا احاطہ فقط فلسطین تک محدود نہیں بلکہ یہ سرزمین دریائے نیل سے لے کر دریائے فراط (یعنی مشرق وسطیٰ، پورے کرۂ عرض کا اسٹرٹیجک ترین اور مالا مال علاقہ) تک کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔ سلطنت خواہ صہیونیوں کے ایسے دعوئوںکی مبنی وہی تحریف شدہ توریت ہے۔ وہ توریت کہ جس کا قدیم ترین نسخہ ہجرت سے دو سے تین صدیوں بعد تحریر کیا گیا ہے۔
’’بین الاقوامی صہیونزم کی تنظیم پہلے دو مرحلے پر ایسی تنظیموں، اداروں اور گروہوں کے مجموعے کا نام ہے جو مختلف ممالک میں وہاں کی مقامی و معروضی صورتحال کو مدِنظر رکھتے ہوئے تشکیل دی گئی ہیں۔ اس کے علاوہ بین الاقوامی صہیونزم کی تنظیم نے اپنے طور پر یہی ادارے اور گروپس تشکیل دیئے ہیں جو براہ راست انہی کی راہنمائی میں کام کرتے ہیں ان کی فعالیت کے دائرہ کار میں دینی، اجتماعی و معاشرتی، سیاسی، صنفی (مہارت کی سطح تک) اور فنی و جنسیتی موضوعات شامل ہیں‘‘۔
(کتاب ’’صہیونزم کی نیرنگیاں‘‘ سے اقتباس)
کتاب ’’صہیونزم کی نیرنگیاں‘‘ I want this book for reference