
چینی ہونے کا مطلب کیا ہے؟ قدیم چینی نظریے کے مطابق آسمانی بندشوں اور اصولوں میں جکڑے ہوئے معاشرے کے اندر رہتے ہوئے سوچنا، برتنا اور رہنا، اور یوں انسان ہونے کا بہترین نمونہ پیش کرنا۔ اس نظریے کے مطابق غیر بھی چینیت سیکھ سکتے تھے اور یوں تہذیب یافتہ ہو سکتے تھے، لیکن شائستگی کیا ہے اور انسانوں کو اس سے کیسے آراستہ کیا جاتا ہے، یہ بیان کرنے میں وہ کبھی چین کے ہم پلّہ نہ ہو سکتے تھے۔
صدیوں تک یہ طرزِ فکر یوں ہی رہا، بلکہ اس کے بنیادی تصورات تو آج تک راسخ ہیں۔ چینی ہونے کا مطلب آج بھی یہی ہے کہ بایَد و شایَد رویہ رکھا جائے اور اس تہذیب سے جڑے رہا جائے جسے دنیا میں فضیلت حاصل ہے۔ جدید چینی بھی صریحاً یا ضمناً اس سے اتفاق کرتے ہیں۔ انہیں اگر اختلاف ہے، جو کہ عموماً شدید ہوتا ہے، تو صرف اس بات سے کہ چینیت کو آج کن اقدار کے ساتھ کھڑا ہونا چاہیے۔ کیا زمانۂ قدیم کا اخلاقی نمونہ جدید سیاسی تناظر میں بھی کارآمد ہے یا اسے سیاسی اخلاقیات کے نئے تصورات سے بدل ڈالنا چاہیے؟ چینی صدر شی جن پنگ کا ’چینی خواب‘ اس سوال کا ماضی پرستانہ جواب ہے۔ لیکن اُن کی خواہشات کے باوجودیہ بحث جاری رہے گی اور ممکن ہے آنے والی دہائیوں میں عدم استحکام، یہاں تک کہ تشدد کو بھی فروغ دے۔
قدیم مکتبۂ فکر
چین کی روایتی خاندانی اقدار، جنہیں اکثر کنفیوشس بھی کہا جاتا ہے، انسانی مساوات تو نہیں، لیکن گہرے اخلاقی نظریات پر استادہ تھیں۔ باپ کو بیٹے پر اختیار حاصل تھا اور بیٹے پر لازم تھا کہ باپ کا کہا مانے۔ لیکن ساتھ ہی باپ اس بات کا پابند تھا کہ ایک اچھا باپ بنے اور بیٹے کے ساتھ ایسا سلوک رَوا رکھے جو اس کے شایانِ شان ہو۔ اگر باپ اچھا رویہ نہ رکھتا تو اسے معاشرے کی سرزنش کا سامنا کرنا پڑتا۔
سیاسی روایات بھی خاندانی روایات کے نمونے پر قائم تھیں۔ حاکم کو رعایا پر مکمل اختیار حاصل تھا لیکن وہ ان کے ساتھ مناسب سلوک کرنے کا پابند تھا۔ اگر حاکم اچھا رویہ نہ رکھتا تو رعایا فرار ہوسکتی یا بغاوت کر سکتی تھی اور یوں حکمران کے حکمرانی کرنے کے ’’آسمانی حق‘‘سے محروم ہونے کا امکان پیدا ہو جاتا۔ لیکن حکمرانوں کو کیسے پتا چلتا کہ رعایا کے ساتھ حسنِ سلوک ہے کیا؟ حسنِ سلوک کا فہم کنفیوشس صحیفوں کو پڑھنے اور انہیں اپنے اندر جذب کر لینے سے آتا۔ ہر سطح کے عہدیدار قدیم کنفیوشس صحائف کے امتحانات سے گزرنے کے بعد منتخب ہوتے۔ یہ سمجھا جاتا تھا کہ ان صحائف کو یاد کرنے سے اخلاقیات قطرہ قطرہ کرکے ان کے اندر اتر گئی ہیں اور اب وہ صحیح حکمران بننے کی صلاحیتوں سے بہرہ مند ہیں۔
یہ نظام یوں ہی چلتا رہا لیکن دشواریاں بھی پیش آئیں۔ کبھی امتحانات میں بدعنوانی ہوتی اور کبھی سرکاری راہداریوں میں معمول سے زیادہ رشوت کا زور چلتا۔ انیسویں صدی کے وسط میں یہ مسائل عام تھے۔ لیکن اس وقت بھی جب یہ نظام زوال کا شکار تھا، نظام کی ساخت کے بارے میں مفروضات بڑے پائیدار تھے۔ عہدیداروں کے جوازِ حکمرانی کی اساس ان کی اخلاقیات پر تھی۔ جیسے جیسے عہدہ بڑھتا جاتا، نیکی کا معیار بھی بڑھتا جاتا۔ سب سے اونچے درجے پر متمکن بادشاہ ’آسمان کا بیٹا‘ کہلاتا، جس سے برتر بس خدائی طاقت ہی ہوتی۔ غیر چینی اس نظام سے باہر رہتے اور اخلاقی طور پر کمتر خیال کیے جاتے۔ ان کا کردار صرف اتنا ہوتا کہ مرکز سے راہنمائی قبول کریں اور جزیہ دیں۔
لفظ چینی کا درپردہ مطلب تھا ’’ہان‘‘، جو چین میں موجود غالب نسل کی طرف اشارہ تھا۔ پچھلی صدی کے دوران قومی اور اشتراکی، دونوں طرح کی حکومتوں نے کوشش کی کہ اس نسلیت پرستی کا رَد کریں، چنانچہ ’’قومی شہری‘‘ کی اصطلاح اپنانے کی کوشش کی گئی جو غیر ہان لوگوں کو بھی شمولیت بخشتی تھی۔ اس نئی اصطلاح کو مقتدر حلقوں میں کچھ پذیرائی نصیب ہوئی، مگر روز مرہ زندگی میں ’چینی‘ سے مراد ابھی بھی ہان ہی سمجھی جاتی ہے۔ سنگاپور یا سان فرانسسکو میں آباد ہان خاندان کئی نسلوں بعد بھی ’ہوکیاو‘ یعنی ’غیر وطن میں آباد چینی‘ ہی کہلاتا ہے۔ لیکن سنکیانگ کے کسی ایغور کے لیے جو سمرقند، ازبکستان میں جاکر بس گیا ہو، یہ لفظ استعمال کرنے کا کوئی تصور بھی نہیں کر سکتا۔ بالفرضِ محال کبھی کسی چینی والدین نے کوئی قفقازی بچہ گود لے لیا تو مقامی باشندے آسانی سے اسے چینی تسلیم کرنے پر کبھی راضی نہ ہوں گے۔ مگر کوئی ہان بچہ اگر امریکا میں گود لیا گیا اور وہیں پلا بڑھا، تب بھی چینی اور امریکا کی چینی برادری دونوں اسے ’’اپنوں میں سے ایک‘‘ ہی تصور کریں گے۔
چینی تاریخ کے بیشتر عرصے میں روایتی سیاسی اخلاقی نظام اپنی جگہ قائم رہا یا پھر بیرونی اثرات کو ضم کرتا گیا۔ بھارت کی جانب سے بدھ مت آیا، وسط ایشیا سے منگول اور مانچو حملہ آوروں نے دھاوا بولا، سمندر اور جادہ ابریشم کے راستے مشرقِ قریب کے تاجر آئے، مگر یہ نظام مضبوطی سے جما رہا۔ چینیت بڑی سخت جان ثابت ہوئی۔ آنے والوں کو چینی رنگ میں رنگنا پڑا۔
تاہم صنعت زدہ مغرب کی آمد نے اس اسلوب کو توڑا۔ انیسویں صدی کے وسط میں جب برطانوی جدید توپ خانوں کے ساتھ مزین ہو کر آئے اور چینی ساحل کے قریب یکے بعد دیگرے یکسر یکطرفہ جنگیں جیتیں تو چینی ہکا بکا رہ گئے۔ احساسِ ہزیمت تب اور بڑھا جب صدی کے آخر میں جاپان کے ہاتھوں ایک دوسری یکطرفہ اور مختصر جنگ میں شکست کھانا پڑی۔ جاپان روایتی کنفیوشس دنیا میں ’چھوٹا بھائی‘ تھا، مگر ایسا چھوٹا بھائی جس نے کمال ہوشیاری سے مغربی چالیں سیکھ لی تھیں۔ چینی راہنماوں نے بادلِ نخواستہ ہی سہی، تبدیل ہونے کی ضرورت کو پہچانا۔ اس وقت سے آج تک ان کا آہنگ یہی ہے کہ ’’وہ کچھ کرو جو غیروں کو پرے رکھنے کے لیے ضروری ہو، مگر بس وہی جو ضروری ہو‘‘، وگرنہ چینیت کو قائم و دائم رکھو۔
برطانوی توپ خانوں کے جواب میں چینیوں کا پہلا ردِعمل یہ تھا کہ اپنے ہتھیاروں میں جدت لائی جائے۔ مگر اس کے لیے چین کو مغربی سائنس کی ضرورت تھی اور اسے حاصل کرنے کے لیے مغربی تعلیم کی، جس کا مطلب تھا کہ مغربی زبانیں سیکھی جائیں اور باہر کا رُخ کیا جائے۔ یہ معاملہ نازک تھا، کیونکہ اس طرح چینیت کے ماند پڑ جانے کا خدشہ تھا۔ یہ خدشہ کسی قدر درست بھی ثابت ہوا۔ چنانچہ بیسویں صدی کی ابتدا میں کچھ چینی مفکرین تو اس حد تک آگے چلے گئے کہ انہوں نے روایتی نظام پر خطِ تنسیخ پھیرنے اور سر تا پا مغربیت اپنانے کا مشورہ دے ڈالا۔ لیکن بیشتر اس خیال سے ذرا دور ہی رہے۔ جیسے ماؤزے تنگ نے ’’غیر ملکی اشیا چین کے لیے‘‘ کا نعرہ استعمال کیا اور یوں چین نے اپنی بنیادی شناخت کو برقرار رکھا۔
اس دوران جدید دنیا چین میں اپنا راستہ بناتی گئی۔ بجلی، کپڑے کے کارخانے، ریل اور ہوائی سفر، سرمایہ، سفارت کاری، کمپیوٹر، انٹرنیٹ اور بہت کچھ رائج ہوتا گیا۔ چین کے پاس ان چیزوں کو روکنے یا نہ روکنے کا کوئی اختیار نہ تھا، گرچہ کہ ان میں سے بعض نے معاشرے میں قائم رجحانات کو کمزور کیا۔ جمہوریت جیسے الفاظ پر زبانی جمع خرچ، جبکہ عملاً ان کی مزاحمت کی کوشش نے منافقت کو جنم دیا۔ ماؤ نے اپنی حکمرانی کو ’’عوامی جمہوری آمریت‘‘ قرار دیا اور دعویٰ کیا کہ وہ ’’جمہوری مرکزیت‘‘ کے تحت منظم ہوتی ہے۔
ایسی اصطلاحات کے استعمال کا مقصد یہ تھا کہ روایتی آمرانہ نظام کو ایک جدید قبولِ عام عنوان دے کر جاری و ساری رکھا جائے۔ مگر عام چینی نئے الفاظ و تصورات کے ظاہر پر ہی گئے۔ اوائل بیسویں صدی کے مفکرین جیسے ہوشی اور لو لونگ جی نے جمہوریت اور شہری حقوق کے مغربی افکار کو اپنایا، اسی طرح جیسے چین کی بعض حالیہ شخصیات مثلاً آنجہانی ماہرِ فلکیات و طبیعات فانگ لزہی اور امن کے نوبل انعام یافتہ لیو شیاؤ بو نے انہیں قبول کیا۔
عام چینی بھی ان افکار کی طرف راغب ہوئے۔ یہ فکر کہ ہر شخص حقوق رکھتا ہے، حالیہ برسوں میں وسیع پیمانے پر پھیلی۔ ماؤ کے زمانے میں مجمع میں کھڑے ہو کر ’’عوام کے حقوق‘‘ کا فقرہ کہہ دینا ہی بڑے دل گردے کا کام تھا، آج یہ حال ہے کہ چھوٹی بستیوں کے کسان بھی اپنے حقوق کے حصول کے لیے منظم ہوتے ہیں۔ یہ تبدیلی تدریجی مگر حقیقی ہے۔
ماضی سے واپس مستقبل کی طرف؟
چین کی اشتراکی جماعت کے راہنماؤں نے حالیہ دہائیوں میں یہ کوشش کی ہے کہ چین کے روایتی اخلاقی و سیاسی نظام کو چند ایک جِدَّتوں کے ساتھ نئے سرے سے زندہ کیا جائے۔ جیسے شی جن پنگ کا ’’چینی خواب‘‘ دولت و ثروت، قومی وقار اور اطاعتِ امیر پر زور دیتا ہے۔ ذرائع ابلاغ اور تعلیمی ادارے نظریۂ حب الوطنی کا پرچار کرتے ہیں، جس میں ’’وطن کی محبت‘‘ کو ’’اشتراکی جماعت کی محبت‘‘ کے ہم معنی ہی لیا جاتا ہے۔ جمہوریت، انسانی حقوق اور جدیدیت کے نظریات کا تذکرہ بھی ہوتا ہے، مگر اکثر و بیشتر ’’چینی خصوصیات‘‘ کے ضمیمے کے ساتھ۔ اس سب کا مقصد یہ ظاہر کرنا ہوتا ہے کہ یہ تمام اقدار اشتراکی جماعت کی آمریت میں بھی سمو دی گئی ہیں۔ ساتھ ہی، تعمیر و ترقی کا ’’چینی نمونہ‘‘ دوسرے ممالک کو بھی دولت و حشمت کی طرف جانے والا ایک آمرانہ راستہ فراہم کرتا ہے۔
ان تمام اقدامات کے پیچھے یہ خیال چھپا ہوا ہے کہ چین کو واپس دنیا میں مرکزی مقام دلایا جائے اور دنیا کی راہبری و راہنمائی کا فریضہ انجام دینے کے لیے تیار کیا جائے۔ مگر اس خیال کا حقیقت میں بدل جانا یقینی نہیں، کیونکہ چینی سماج میں موجود شہادتیں اس کے خلاف ہیں۔ معاشرے میں رائج سب سے عام تصور یہ ہے کہ موجودہ نظام قوم کے بجائے ایک خاص طبقۂ اشرافیہ کو نوازتا ہے۔
چین میں امیر و غریب کے درمیان فرق حالیہ برسوں میں مزید بڑھا ہے اور عام لوگ اکثر یہ محسوس کرتے ہیں کہ سیاسی طور پر جڑی اشرافیہ نے محنت و عمل کے بجائے بددیانتی، جبر اور ذاتی تعلقات کا نتیجے میں دولت حاصل کی ہے۔ عام لوگ اپنی زمینیں ضبط ہوتے اور جمع پُونجی ضائع ہوتے دیکھتے ہیں اور اگر وہ مزاحمت کریں تو انہیں کرائے کے غنڈوں کے ذریعے ڈرایا دھمکایا جاتا ہے۔ انٹرنیٹ نے اس طرح کے واقعات کا پوشیدہ رہ جانا مشکل بنا دیا ہے، لہٰذا عوام کا غم و غصہ ہڑتالوں، مظاہروں اور سڑکوں کو بند کرنے کی صورت میں سامنے آتا ہے۔ اس قسم کے سیکڑوں احتجاج روزانہ ہوتے ہیں، چنانچہ بیجنگ سالانہ اربوں ڈالر داخلی سلامتی پر، جسے نرم الفاظ میں ’استحکام کی بحالی‘ کا نام دیا جاتا ہے، خرچ کرنے پر مجبور ہوگیا ہے۔
اسی دوران انٹرنیٹ پر ایسے کئی اشارے ملے ہیں کہ بعض چینیوں کی سوچ بدل رہی ہے، وہ اب اشتراکی جماعت اور ملک کو ایک ہی نہیں گردانتے۔ ’’حکومت‘‘ جیسے حساس الفاظ کو روکنے کے لیے چونکہ انٹرنیٹ سنسر کے فلٹر لگے ہوئے ہیں، لہٰذا باقاعدگی سے انٹرنیٹ استعمال کرنے والوں نے ایسے الفاظ کے لیے متبادل اشارے کنایے ڈھونڈ لیے ہیں۔ چینی حکمرانوں کی طرف اشارہ کرنا ہو تو آسان حل ’آسمانی بادشاہت‘ اور ’مغربی کوریا‘ (یعنی مغربی شمالی کوریا) جیسی اصطلاحات کا استعمال ہے۔ چالیس سال قبل اس قسم کی طنز آمیزی کا تصور بھی نہ تھا۔ بیس سال قبل یہ کمیاب تھی۔ آج اس کا پایا جانا اشتراکی جماعت سے ہٹ کر قومی شناخت کے تصورات کی موجودگی کو ظاہر کرتا ہے۔
شی جن پنگ کا ’’چینی خواب‘‘ اشتراکی جماعت کی محبت والے نظریۂ حب الوطنی اور مادیت پرستی پر زور دیتا ہے لیکن روز مرہ زندگی میں انسانوں کو انسانوں کے ساتھ کیسا اخلاقی برتاؤ کرنا چاہیے، اس بارے میں وہ کچھ نہیں کہتا۔ یہ اصل کمزوری ہے، کیونکہ کنفیوشس روایت باہمی اخلاقیات پر سخت زور دیتی ہے۔ ایسا کوئی بھی خواب جو اکیسویں صدی میں چینی ہونے کا مطلب بتائے مگر اخلاقی رویے کے تذکرے سے یکسر خالی ہو، چینی معاشرے میں قبولیت حاصل نہیں کر سکتا۔ جمہوریت نواز جب ’’حقوق‘‘ اور ’’وقار‘‘ کی بات کرتے ہیں تو وہ بیرونی اصطلاحات استعمال کر رہے ہوتے ہیں، لیکن ساتھ ہی وہ اس روایتی چینی سوال کا جواب بھی دے رہے ہوتے ہیں کہ لوگوں کے ساتھ تعلقات کیسے استوار ہونے چاہئیں۔
چینی حکمرانوں کو بھی اپنے خواب میں موجود اس خلا کا بھرپور احساس ہے۔ لیکن وہ شہریت کے تصور سے خوفزدہ ہیں کیونکہ یہ عوام الناس کو بہت زیادہ خود مختاری دے دیتا ہے۔ انہیں تابع فرمان درکار ہیں، شہری نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ مادیت پرستی اور ریاستی قوت کے نظریات کو پھیلانے پر اتنی محنت و سرمایہ صَرف کرتے ہیں۔ ان نظریات کی سطحی اپیل کو قابلِ ذکر کامیابی بھی ملی ہے۔ کئی چینیوں، بالخصوص نوجوان شہریوں نے اس فکر کو فروغ دیا ہے کہ اکیسویں صدی میں چینی ہونے کا مطلب ہے مادیت پرست، قوم پرست اور جارح ہونا۔ جبکہ ایک پشت قبل چینی طالبِ علم مغربی طرزِ زندگی اور اقدار کو اس حد تک سراہتے تھے کہ انہوں نے تیان من چوک پر ’’جمہوریت کی دیوی‘‘ کا مجسمہ تعمیر کیا تھا۔ حکومتی نگرانی میں برسوں سے جاری مغرب مخالف تعلیم و تلقین کے بعد آج یہ حال ہے کہ بیشتر لوگ مغرب کو دوست کے بجائے معاندانہ حریف سمجھتے ہیں۔
مشترکات و اختلافات
داخلی سلامتی کے سلسلے میں چین کی بے پناہ کوششوں کا بنیادی مقصد نچلے طبقات کی جانب سے ہونے والے احتجاجات کو قابو میں رکھنا ہے۔ لیکن عصرِ حاضر میں عدم استحکام کے تمام ہی اسباب کا تعلق معاشی عدم مساوات سے نہیں۔ اشرافیہ کے اپنے اندر طاقت کے لیے رسہّ کشی ایک دائمی مسئلہ ہے۔ اشتراکی جماعت میں موجود دھڑوں، یوتھ لیگ فیکشن (سابق صدر ہو جن تاؤ کے اتحادی) اور شنگھائی گینگ (سابق صدر جیانگ ژی من کے ساتھی) کے درمیان حالیہ لڑائی جھگڑا دراصل نام نہاد شہزادوں (جو ممتاز انقلابیوں کی اولادیں ہیں) کی آپس میں چپقلش کا نتیجہ ہے۔
اشرافیہ کے گروہوں کی باہمی کشمکش، اشرافیہ اور غیر اشرافیہ کی لڑائی سے الگ ہے۔ لیکن اشرافیہ کے کسی گروہ کو یہ احساس ہو جائے کہ عوامی بے اطمینانی کو استعمال کر کے طاقت کی بازی اپنے حق میں پلٹی جاسکتی ہے، تو وہ عوام کو ساتھ ملانے کی کوشش سے دریغ نہیں کرے گا۔ ۲۰۰۹۔۲۰۱۱ء میں یہی ہوا تھا، جب چونگ کینگ کے شہزادے بوشیلائی نے بدعنوانی کے اوپر عوامی غم و غصہ کو اپنے حق میں استعمال کرنے کی کوشش کی، تاکہ اپنے حریف شہزادے شی جن پنگ کو کنارے لگایا جاسکے اور ملک کے اگلے حکمران کے طور پر اپنی حیثیت مستحکم کی جاسکے۔ بوشیلائی یہ بازی ہار گئے۔ وہ اب جیل میں ہیں۔ جبکہ شی جن پنگ اقتدار کی مسند پر پہنچ کر بدعنوانی کے خلاف مہم چلا رہے ہیں، بڑی حد تک جس کا مقصد اپنی مقبولیت بڑھانا اور مخالفین کو کمزور کرنا ہے۔
اشرافیہ کے اندر پائے جانے والے عدم تحفظ کی ایک اور علامت، اپنی دولت اور خاندان کو بیرونِ ملک منتقل کرنے کی بے پایاں خواہش ہے۔ حالیہ برسوں میں کئی صاحبِ ثروت چینی باہر منتقل ہو چکے ہیں یا کم از کم مستقبل میں اپنی منتقلی کو آسان بنانے کے لیے اقدامات کر چکے ہیں۔ آسٹریلیا، کنیڈا، ہانگ کانگ اور امریکا پسندیدہ منازل ہیں۔ نمایاں چینی خاندانوں کے چشم و چراغ زیادہ بڑی تعداد میں مغربی تعلیمی اداروں میں داخلہ لے رہے ہیں۔ شمالی امریکا کے اندر جائیداد کے کاروبار میں چینی سرمایہ کاری میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ جبکہ ہانگ کانگ کے رہائشیوں نے شکایت کی ہے کہ بچے کی پیدائش کے سلسلے میں آنے والی چینی خواتین کی وجہ سے مقامی اسپتالوں کے زچہ خانوں میں جگہ ختم ہو گئی ہے، پیدائش کے سلسلے میں چینی خواتین کی ہانگ کانگ آمد کا اصل مقصد پیدائش کے ساتھ ہی بچوں کو مقامی شہری حقوق دلانا ہے۔
چین کی فوجی بیوروکریسی، سویلین نوکر شاہی کے مقابلے میں اتنی عیاں نہیں لیکن اوپری سطح سے وہ بھی بدعنوانی اور اندرونی لڑائی جھگڑوں سے آلودہ نظر آتی ہے۔ فوجی نافرمانی کے خطرے کا اندازہ شی جن پنگ سمیت چینی حکمرانوں کے اُن بیانات سے لگایا جا سکتا ہے جس میں انہوں نے ایسا کوئی قدم اٹھانے پر فوج کو بالواسطہ تنبیہ کی ہے۔
چین کے پاس بہت سی مضبوط علاقائی وحدتیں ہیں۔ وہ گانگ ڈونگ، سچوان، شمال مشرق اور اس کے علاوہ کئی دیگر جگہوں پر موجود ہیں۔ ان وحدتوں کی جانب سے بیجنگ کے آگے سر نہ جھکانے یا محض نمائشی طور پر تابعداری کرنے کا رجحان برسوں سے جاری ہے۔ لیکن اس سے قطع نظر خود کو چینی شمار کرنے میں ان علاقوں کے رہنے والوں کو کوئی تامل نہیں، نہ ہی ان کے مقامی افعال قومی یکجہتی یا اشتراکی نظام کے لیے کسی قسم کا خطرہ ہیں۔ چنانچہ چینی مملکت کو بکھر جانے کا کوئی خطرہ نہیں، مگر تبتیوں، ایغوروں اور ہانگ کانگ و تائیوان کے رہائشیوں کی طرف سے خودمختاری کا تقاضا قومی شناخت کے سرکاری تصور کے لیے ایک چیلنج ضرور ہے۔
تبتیوں اور ایغوروں کے مطالبۂ خود حکمرانی کی جڑیں نسل، زبان، ثقافت اور مذہب کے بنیادی اختلافات میں گڑی ہیں۔ جبکہ ہانگ کانگ اور تائیوان کے ہان چینیوں کے مطالبے کی وجہ گزشتہ صدی کی تاریخ و سیاست ہے، جس نے انہیں منفرد شناخت کا احساس دلایا ہے۔ اشتراکی جماعت کا سرکاری و نظریاتی موقف چونکہ یہ رہاہے کہ اقلیتوں کے ساتھ مساوی سلوک کیا جاتا ہے اور وہ وطن سے محبت کرتی ہیں، لہٰذا تبتیوں اور ایغوروں کی علیحدگی پسند آرزوئیں بیجنگ میں حکام کو پریشان کرتی ہیں۔ ساتھ ہی وہ ان کے برحق ہونے کے دعوؤں پربھی سوالیہ نشان ہیں۔ ہانگ کانگ اور تائیوان کی معاشی و سماجی کامیابی بیجنگ کے اس سرکاری موقف کو بھی غلط ثابت کرتی ہے کہ مغربی طرز کی جمہوریت چینی معاشرے میں نہیں چل سکتی۔
ان چاروں وحدتوں کے ساتھ چین نے ایک ہی رویہ اپنایا ہوا ہے اور وہ یہ ہے کہ ہر خطے کو چین کا ہی ایک ٹکڑا قرار دینا، چاہے وہاں کے رہنے والے اسے تسلیم کریں یا نہ کریں۔ اشتراکی جماعت نے ان چاروں مسئلوں کو استعمال کر کے بقیہ چین میں قومی جذبات ابھارنے اور خود کو قومی افتخار کا محافظ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔ اشتراکی جماعت کے راہنماؤں کے الفاظ میں ’دلائی لاما، ایغور کے جلا وطن راہنما ربیعہ قدیر، سابق تائیوانی صدر چن شوئی بیان اور ہانگ کانگ کے سرگرم طالبِ علم جوشواوانگ بھلے شخصیات کے لحاظ سے الگ ہوں، لیکن ان میں ایک قدرِ مشترک ہے، اور وہ یہ تمنا ہے کہ ’مملکتِ چین کو توڑا جائے‘‘۔
ماؤ کی بہتر حکمرانی
چین کے بارے میں مغرب کا یہ عمومی نظریہ کہ چین ایک ابھرتی ہوئی خود اعتماد طاقت ہے، انتہائی سطحی ہے۔ آج یہ ملک چالیس سال پہلے کے مقابلے میں یقینا بہت زیادہ خوشحال ہے اور اس کا فوجی و سفارتی حجم اور بین الاقوامی معیشت میں اس کی موجودگی بھی بدرجہا بہتر ہے۔ معیارِ زندگی میں بہتری آئی ہے اور لاکھوں، کروڑوں چینی ایسے ہیں جو اپنی محنت کے بل پر غربت کے شکنجے سے نکل آئے ہیں۔ تاہم گہرائی میں جاکر دیکھیں تو دیہی کسانوں سے لے کر مراعات یافتہ شہری طبقے تک، ہر کسی میں ایک احساسِ عدم تحفظ جاگزیں ہے۔ لوگوں کو آلودہ غذا، پانی اور ہوا کا خوف ہے۔ روز بروز بڑھتی بدعنوانی اور سیاسی جوڑ توڑ نے عوام کو بددل کرنے کے علاوہ ان کا اعتماد بھی مجروح کیا ہے۔ ماؤ کے زمانے کے مقابلے میں آج معاشرے کو ایک ہی راستے پر کاربند رکھنا کہیں زیادہ مشکل ہے، کیونکہ انٹرنیٹ کا پھیلاؤ ہے اور حقوق کے لیے آواز اٹھانے پر عوام ہر دم تیار ہیں۔
۲۰۱۲ء میں سربراہ کے عہدے سے دست بردار ہونے والے ہو جن تاؤ اپنے دورِ حکمرانی کے آخری چند ماہ وقت گزاری کرتے رہے۔ ان کے جانشین شی جن پنگ نے جب عہدہ سنبھالا تو انہیں معلوم تھا کہ چین بحران کا شکار ہے اور یہ کہ نئی تدبیریں آزمانا ہوں گی۔ لیکن اب تک انہوں نے اپنے آبا کے زمانے کے معروف انقلابی نظریات پر ہی توکل کیا ہے۔ ۱۹۴۰ء اور ۱۹۵۰ء کی دہائیوں میں شی جن پنگ کے والد شی جونگ ژنگ، ماؤ کے مشیرِ خاص تھے۔ ان کا یقین تھا کہ متحد قیادت میں قائم سادہ اور راست باز اشتراکی جماعت ’’لوگوں کی خدمت‘‘ کر سکتی ہے اور ان کی زندگیوں میں خوشیاں لا سکتی ہے۔ بعد میں ماؤ نے شی سینئر کو ناروا سلوک کا نشانہ بنایا اور ماؤ کا نظریاتی منصوبہ ڈرامائی انداز میں ناکامی کا شکار ہو گیا۔ شی جونیئر ان ناکامیوں کا مشاہدہ کرنے کے باوجود اسی راستے پر چل پڑے ہیں۔ ۲۰۱۲ء سے اب تک انہوں نے خود کو ماؤ کا پرتو ثابت کرنے کی سعی کی ہے۔ ماؤ کی طرح ہی انہوں نے طاقت کو مرتکز رکھنے، بدعنوانی کے خلاف مہمات چلانے، حریفوں کو نشانہ بنانے، یہاں تک کہ خود نمائی کا سہارا لے کر شخصیت پرستی کو فروغ دینے کی کوشش کی ہے۔
کئی وجوہات کی بنا پر شی جن پنگ کا یہ کھیل خطرناک ہے۔ دانشوری یا کرشمہ، شی کسی بھی لحاظ سے ماؤ نہیں۔ جس معاشرے پر وہ حکمرانی کر رہے ہیں، وہ اس کے مقابلے میں کہیں زیادہ سرکش ہے، جس پر ماؤ نے حکومت کی۔ اگرچہ شی کی بدعنوانی مخالف مہم کو عوامی حمایت حاصل ہے اور اس سے ان کے کچھ دشمنوں کو نقصان پہنچا ہے، لیکن اخلاص کے ساتھ یہ مہم جاری رہی تو جلد ہی انہیں رشتہ داروں اور اعلیٰ فوجی افسران سمیت اپنے اتحادیوں کا بھی احتساب کرنا پڑے گا۔ اس کا ردِعمل اتنا شدید ہو سکتا ہے کہ ان کی حکومت کو بھی لے ڈوبے۔ دوسری طرف اگر وہ بدعنوانی مخالف مہم کا دائرہ نہ بڑھا سکے (جس کا قوی امکان ہے) تو وہ بے نقاب ہو کر ایک عام سے روایتی راہنما رہ جائیں گے۔ ان کی عوامی حمایت بھی گھٹ جائے گی۔ چنانچہ دیگر معاملات کی طرح بدعنوانی کے معاملے میں بھی ۱۹۵۰ء کی دہائی کے اسباق کی عصرِ حاضر میں افادیت محدود ہے۔
جوناتھن اسپینس نے چین کی تاریخ پر لکھی گئی اپنی بہترین کتاب کا عنوان رکھا ’’جدید چین کی تلاش‘‘۔ لفظ ’تلاش‘ ایک الہامی انتخاب تھا۔ گزشتہ دو صدیوں سے قدیم چین کی عظیم تہذیب اس راہ کی متلاشی ہے جو عہدِ جدید کے تقاضوں کا لحاظ کرتے ہوئے اسے دوبارہ زندہ کرسکے۔ یہ تلاش رک رک کر جاری ہے۔ کبھی کبھی اس میں پلٹنا بھی پڑا ہے۔ اس نے زخم بھی لگائے ہیں اور کم از کم ستر لاکھ چینیوں کی غیر طبعی اموات کا سبب بنی ہے۔
آج کلیدی سوال یہ ہے کہ کیا اشتراکی جماعت قدیم چینی طرز کی آمریت کو جدید لبادہ پہنا کر رائج کرنے میں کامیاب ہو پائے گی اور اگر وہ کامیاب ہو گئی تو اس کے چین اور باقی دنیا پر کیا اثرات ہوں گے۔ عالمی و مقامی تاریخ پر نظر رکھتے ہوئے یہ بات شرطیہ کہی جاسکتی ہے کہ اشتراکی جماعت کامیاب نہیں ہوگی۔ چند مواقعوں کے سوا، ماضی بعید سے لے کر آج تک وقت کے ساتھ سیاست میں عوام کی شمولیت مسلسل بڑھی ہے۔ لیکن چینی حکومت نے حالیہ دہائیوں میں کئی میدانوں میں غیر متوقع کامیابیاں حاصل کی ہیں، چنانچہ اس معاملے میں بھی وہ حیرت زدہ کر سکتی ہے۔ اگر وہ اپنے ملک میں فرسودہ سیاسی تصور رائج کرنے اور اسے باقی دنیا میں پھیلانے میں کامیاب ہوگئی تو چین اور باقی دنیا دونوں اس کے نتائج سہیں گے۔ انہیں چینی شناخت کے ایک ایسے تصور کے لیے مزید انتظار کرنا پڑے گا جو دورِ حاضر کے لحاظ سے موزوں تر ہو۔
(مترجم: طاہرہ فردوس)
“What it means to be Chinese?”.
(“Foreign Affairs”. May-June 2015)
Leave a Reply