اعداد و شمار اور تکنیکی زبان میں جب ملک کی ترقی کے تعلق سے تعریف کا پل باندھا جاتا ہے تو واقعی تصورات کی دنیا میں محسوس ہوتا ہے کہ ملک نے ہمہ جہت ترقی کی ہے۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی سے لے کر سائبر سٹی تک‘ ایٹم بم سے لے کر میزائل اور مصنوعی سیارہ تک‘ ٹی وی‘ ٹیلیفون اور موبائل کا تو پوچھنا ہی کیا۔ روٹی اور کپڑا سے زیادہ بنیادی ضرورت کی طرح ہر فرد کے پاس ہر گھر میں موجود۔ سڑک‘ پل‘ ڈیم‘ ہائی وے‘ اوور برج وغیرہ وغیرہ کا تو جیسے جال پھیلا دیا گیا ہو۔ زرعی اور صنعتی پیداوار میں اضافہ ہی اضافہ تب ہی فیل گڈ کا نعرہ ایجاد کیا گیا۔ شہروں کی حد تک تو یہ شیخی درست ہو سکتی ہے اور کہا جاسکتا ہے کہ بعض پہلوئوں سے ملک ترقی کی راہ پر دوڑ رہا ہے لیکن گائوں‘ دیہات اور قصبات کا یہ حال نہیں ہے۔ ملک کے بہت بڑے حصہ میں تو ان اضافی ترقیوں کا عکس بھی نہیں دکھائی پڑتا۔ عوام بنیادی ضرورتوں کے لیے تڑپتے ہیں۔ غربت و افلاس کا گہرا سایہ ہے۔ بجلی نہیں‘ پانی نہیں‘ شفا خانہ نہیں‘ تعلیم گاہ نہیں‘ سڑک تک نہیں‘ کیا اس کو ترقی کہتے ہیں؟ جب بات سماجی صحت کی چھڑتی ہے تو اس کی تصویر اور زیادہ دردناک اور اذیت ناک نظر آتی ہے۔ غربت اور جہالت کے ساتھ توہمات اور ضعیف الاعتقادری کی جڑ گہری دکھائی دیتی ہے۔ ٹونا ٹونکا‘ معصوم بچوں کی دولت‘ اولاد کے لیے مندروں میں بھینٹ چڑھایا جانا‘ عورتوں کا برہنہ ہو کر ہل چلانا اور بھگوان کو خوش کرنا‘ ستّی کا رواج‘ بیوہ کی ذلت پذیر زندگی‘ تانتر کوں‘ بابائوں اور مستانوں کی شعبدہ بازی کیا کچھ اس ترقی یافتہ سائنسی دور میں اس ملک میں نہیں ہو رہا ہے۔ کیا یہ بھی ملک کی ترقی اور سماجی صحت کی علامت ہے؟ جیوتشوں کے عروج کا کیا کہنا۔ یہ ایک انتہائی ترقی یافتہ اور باوقار بزنس بن گیا ہے۔ اعلیٰ تعلیم یافتہ حضرات سے لے کر بڑے بڑے سیاستداں اور وزیر صاحبان جیوتشوں کے اسیر ہیں۔ بغیر زائچہ کے وہ کوئی شبھ کام نہیں کرتے اور یہی حضرات جب جیوتشوں اور نجومیوں کے حلقہ سحر سے باہر آتے ہیں تو دقیانوسی خیالات کا جی بھر کر مذاق اڑاتے ہیں اور سائنس اور ٹیکنالوجی کے حصول کا وعظ فرماتے ہیں۔ یہ تو سماجی بگاڑ کا ایک پہلو ہے۔ دوسرا پہلو تو اس سے بھی زیادہ بھیانک ہے۔ ہر مہذب سوسائٹی میں انسانی جان و آبرو کا احترام اولین ترجیح کا مستحق ہوتا ہے۔ ہمارے ملک میں سب سے ارزاں چیز ہی انسانی جان و آبرو ہے۔ اس کے تحفظ کے لیے تہہ دار قوانین تو موجود ہیں لیکن عملی زندگی میں اس کی کوئی قدر نہیں۔ صرف قاتل ہی قتل کا ارتکاب نہیں کرتا‘ پڑھے لکھے مہذب اور عقیدہ و نظریہ پر ایمان رکھنے والے لوگ بھی اس کا ارتکاب کرتے ہیں۔ مذہب کے نام پر نظریہ کے نام‘ علاقہ اور زبان کے نام پر‘ ذات اور برادری کے نام پر‘ اونچ اور نیچ کے نام پر اور سیاست کے نام پر یہاں قتل و غارت گری جرم نہیں جائز اور حلال عمل ہے۔ قتل و غارت گری کا ریکارڈ ہر دن بڑھتا ہی جارہا ہے۔ فرقہ ورانہ فساد تو سماجی فساد کا گھنائونا پہلو ہے ہی‘ غنڈہ گردی کی مختلف شکلیں ابھر آئی ہیں۔ پرائیویٹ سینائیں (فوجیں) تیار کی گئی ہیں جو کاسٹ کے نام پر ایک ہی حملہ میں پورے خاندان کا صفایا کر رہی ہیں۔ سیاسی پارٹیاں کھلے عام غنڈوں کی سرپرستی کر رہی ہیں۔ علیحدگی پسند اور انتہا پسند گروپوں کے ذریعہ علاقہ کا علاقہ موت کے سایہ میں زندگی گزار رہا ہے۔ چوری‘ ڈکیتی‘ اغوا‘ جوا‘ سٹہ‘ منشیات کا دھندہ خوب پروان چڑھ رہا ہے۔ زنا اور عصمت دری کا گراف ہر روز بڑھتا چلا جارہا ہے۔ معصوم بچیوں اور عمر دراز عورتوں کی عفت و آبرو محفوظ نہیں۔ رشوت‘ دھوکہ‘ فریب‘ ذخیرہ اندوزی‘ کساد بازاری‘ ملاوٹ حتیٰ کہ بچوں کے دودھ اور دوائوں میں مہلک چیزوں کی آمیزش عام بات ہے۔ کیا یہ سب ترقی کی علامتیں ہیں؟
معاشرتی بگاڑ اور فساد کا ایک بدترین پہلو یہ ہے کہ اس ملک میں جہاں عورتوں کی تقدیس و تحریم کی شاندار روایت رہی ہے بلکہ انتہا پسند طبقہ تو زندہ اور مردہ عورتوں کی پوجا تک کرتا ہے اور اسے مذہبی تقدس کا درجہ دیتا ہے۔ آج اسی ملک میں عورتوں کے ساتھ جس وحشت اور درندگی کا جس بے عزتی اور بے احترامی کا سلوک کیا جارہا ہے اور جس طرح ان کو ذہنی اور جسمانی جنسی تشدد اور اذیت کا شکار بنایا جارہا ہے اس کا تصور بھی رونگٹے کھڑے کرنے والا ہے۔ ترقی کی دوڑ میں ہندوستان کا جنس زدہ طبقہ بھول گیا کہ مغربی اور مشرقی تہذیب و ثقافت میں یکسانیت نہیں ہے۔ آم اور انگور کی کاشت کے لیے پہاڑی علاقہ ہرگز مناسب نہیں ہوتا مگر محض اندھی تقلید میں ہندوستان کا نام نہاد ترقی پسند طبقہ شور مچا کر عورتوں کو گھر کی ذمہ داریوں کے علاوہ باہر کی ذمہ داریوں کا بوجھ سونپنے کے لیے باہر نکال لایا۔ اسے بے پردہ کیا‘ دفتروں‘ اسٹوروں‘ دکانوں‘ تفریح گاہوں‘ کھیل کے میدانوں اور کلبوں‘ کوٹھروں اور قحبہ خانوں تک پہنچایا۔ ان کے سروں سے چادر اتاری پھر آہستہ آہستہ ان کا لباس اتارنا شروع کیا اور بالآخر نیم برہنہ اور برہنہ کر کے چھوڑا۔ چند برسوں کے اندر اس ملک کے اندر فحاشی‘ بے حیائی‘ عریانی اور اباحیت پسندی کا سیلاب آگیا ہے۔ اس پر بھی جی نہ بھرا تو‘ فلموں‘ ٹیلی ویژن‘ اخباروں‘ رسالوں‘ ہورڈنگوں کے ذریعہ جنسی جذبات کو بھڑکانے اور سفلی خیالات کو انگیخت کرنے کے لیے سیریلوں اور اشتہارات سے پورے ماحول کو پوری نئی نسل کو جنس زدہ بنانے کی انتہائی اشتعال انگیز اور سوقیانہ کوششیں کی جارہی ہیں۔ شہوت رانی اور جنسی تشدد کے مناظر دکھائے جارہے ہیں۔ ننگی اور ہیجان خیز تصویروں کی نمائش کے لیے اخبارات و رسائل اور الیکٹرانک میڈیا میں دوڑ لگی ہوئی ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ دولت کمانے کے لیے میڈیا نے اشتہاری قحبہ خانہ کھول رکھا ہے اور اخلاقی قدروں کا پاس لحاظ ختم کر کے پورے سماج کو جنس و جرائم کا خوگر بنانے کا ٹھیکہ لے لیا ہے۔
فلموں اور میڈیا کے ذریعہ جنسیات کو ایسا مقدم درجہ دے دیا گیا ہے جیسے یہی زندگی کی حقیقی مسرت اور کامیابی کا وسیلہ ہو اور ترقی کے بامِ عروج تک پہنچانے والا عمل ہو۔ تاجروں اور صنعت کاروں نے اپنے مال کی نکاسی کے لیے عورتوں کے جسم و جنس کا سہارا لے رکھا ہے۔ آزاد اور مخلوط سماج اور میڈیا کی جنسیاتی تحریک معاشرے کی ابتری کو دو آتشہ کر رہی ہے۔ ننھی ننھی اسکول کی بچیاں جنسی عمل کا تجربہ کرنے لگی ہیں۔ شریف خاندان کی نوخیز دوشیزائیں جسم کی نمائش کے نام پر فیشن شو اور بیوٹی کنٹسٹ میں بڑے بے باکی سے حصہ لے رہی ہیں۔ اب اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ ایک طرف شبابِ عریاں ہو‘ اختلاط مرد و زن کے دروازے کھلے ہیں‘ جنسی اشتعال کی تحریک عروج پر ہو‘ سماج اس کو انگیز کر رہا ہو تو زنا کاری اور عصمت دری کی گرم بازاری کو کون روک سکتا ہے محض قانون؟ وہ قانون جس کا نافذ کرنے والا خود مجرمانہ ذہنیت رکھتا ہو؟ ان حالات میں عصمت دری‘ جنسی تشدد‘ ہم جنسی اور جنسیاتی وحشت و درندگی کا مظاہرہ ہو رہا ہے۔ گھر گھر‘ گائوں‘ دیہات‘ قصبات اور شہر میں عصمت دری اور جنسی جرائم کی واردات میں روز افزوں ترقی ہورہی ہے تو اس میں تعجب اور حیرت کی کیا بات ہے۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ بھوکے پیاسے درندوں کے سامنے اس کا مرغوب شکار موجود ہے اور وہ تقویٰ شعاری کا مظاہرہ کرے؟ جنسی جرائم کو فروغ دینے میں اخبارات و رسائل اور الیکٹرانک میڈیا سب سے زیادہ شرمناک رول ادا کر رہے ہیں اور جب کہیں کسی جنسی تشدد کا واقعہ رونما ہوتا ہے تو یہی میڈیا اس کے خلاف ایسا طوفان کھڑا کرتے ہیں جیسے کسی غیرمعمولی حادثہ سے سماج اور ملک دوچار ہو گیا ہو۔ خوب مزہ لے کر اس کی خبر شائع کرتے‘ تبصرہ کرتے اور اداریے لکھتے ہیں اور بڑے سادھو اور سنت اور بزرگ بن کر مجرم کو سزا دلانے کا شور مچاتے ہیں۔ حالانکہ ان کے اس شمارے میں انتہائی اشتعال انگیز اور شہوت انگیز تجارتی اشتہارات‘ فلموں کے مناظر اور ننگی تصویریں دیکھی جاسکتی ہیں۔ جنسی مزاج تو اتنا بگاڑ دیا گیا ہے کہ اب اس ملک میں ہم جنسی کے تعلق سے بھی غیرفطری جنسیاتی فلمیں بنائی جارہی ہیں۔ کچھ دنوں پہلے فائر فلم بنی تھی حال میں گرل فرینڈ کی فلم بنی۔ یہاں کے نام نہاد ترقی پسند دانشوروں‘ اداکاروں اور آرٹسٹوں اور جنس کے ذہنی مریضوں نے اس کے خلاف اٹھنے والی آوازوں کو یہ کہہ کر دبانے کی کوشش کی کہ ایسا تو ہمارے سماج میں خفیہ طور پر ہی رہا ہے۔ اس کو پردہ سیمیں پر دکھانے میں کیا حرج ہے۔ ان معقول پسند لوگوں سے پوچھا جائے کہ کیا آپ جو کچھ اپنی بیوی کے ساتھ کرتے ہیں اس کو فلموں کے ذریعے دکھانا پسند کریں گے؟ اور اس قسم کی فلموں کو دیکھ کر ہم جنسیت کے غیرفطری اور قبیح فعل کے لیے تحریک حاصل ہو گی یا اس سے نفرت اور پرہیز گاری کا سبق ملے گا؟ جب فلموں کے ذریعہ اس کی تشہیر ہو رہی ہے اگر یہ جرم نہیں ہے تو اس کا اس سماج میں ارتکاب کرنے والا مجرم کیوں ہو گا؟ یہ تو منافقت ہے کہ شراب اور سگریٹ کا دلفریب اشتہار بھی دیا جائے اور صحت کے لیے مضر ہونے کا انتباہ بھی دیا جائے۔
پورے ملک کو سیلاب کی خشک سالی کی‘ قحط کی‘ زلزلہ کی‘ وبائی امراض کی‘ جنسی امراض اور ایڈز کی بڑی فکر ہے۔ عورتوں کی عزت و آبرو کی تو سب سے زیادہ فکر ہے۔ فضائی آلودگی اور صوتی کثافت کی بھی بڑی فکر ہے۔ آخر جنسی کثافت کی فکر کیوں نہیں؟ جس کثافت سے پورا سماج پوری نئی نسل‘ گھر خاندان سب متاثر ہو رہے ہیں اس کے تعلق سے بے فکری کیوں؟ اس وبائی مرض پر قابو پانے کی کوشش کیوں نہیں جس سے عورتوں کی عزت و عصمت غیرمحفوظ‘ اس کی جان غیرمحفوظ‘ جس سے ذہنی اور اعصابی تنائو پیدا ہو رہا ہے جس سے سوزاک اور ایڈز کی بیماری پھیل رہی ہے‘ جس سے انڈر ورلڈ جرائم کی دنیا اباد ہو رہی ہے جس سے گھر اور خاندان کا سکون غارت اور دنیا ویران ہو رہی ہے‘ ان کے تعلق سے فکر کیوں نہیں؟ کیا واقعی ہمارا ملک اس کے باوجود کہ ہمارا اخلاق تباہ ہو رہا ہے۔ سماجی برائیاں آکاس بیل کی طرح بڑھتی جارہی ہیں۔ نصف آبادی پر کھانے‘ لبھانے اور عصمت فروشی کا دوہرا بوجھ ڈال دیا گیا ہے۔ ہم ترقی کر رہے ہیں؟ افسوس کہ یہ ملک جو روحانی اور اخلاقی قدروں کا گہوارہ رہا ہے جس ماحول کو انگریزوں نے بھی ڈیڑھ سو سال اتنا بے حیا اور بے غیرت نہیں بنایا‘ اس سے کہیں زیادہ محض ترقی کے سراب میں گذشتہ ۵۵ برسوں میں ہمارے مغرب زدہ اور مادہ پرست حکمرانوں نے سیاست دانوں نے‘ فلم سازوں اور میڈیا والوں نے بگاڑ کر رکھ دیا‘ بے شرم بنا دیا اور جنسی آلودگی سے معاشرہ میں تعفن پیدا کر دیا۔ بلاخوف و تردید یہ کہا جائے گا کہ جنسی جرائم و تشدد کو انتہا تک پہنچانے اور حیوانیت سے بدتر جنسی لذت کی تحریک پیدا کرنے اور موجودہ معاشرہ کو آوارہ‘ فحش اور بے حس بنانے میں حکومت‘ سماج اور میڈیا‘ تینوں برابر کے مجرم ہیں۔ ہمارے سماجی مصلحین‘ ادبا‘ شعرا اور کلاکار بھی صحافی‘ تاجر اور صنعت کار بھی اس جرم میں شریک ہیں۔ اگر ملک کو اخلاقی زوال اور مکمل تباہی سے بچانا ہے اور جرائم و تشدد سے نجات دلانا ہے تو گندے اور مخربِ اخلاق اشتہارات‘ لٹریچر اور فلموں پر پابندی عائد کرنی ہو گی۔ عورتوں اور مردوں کے آزادانہ اختلاط پر روک لگانا ہو گا ورنہ جنسی جرائم اور تشدد کی سیلابی لہر سے ملک تباہ ہو جائے گا۔
مضمون نگار مغربی بنگال (بھارت) کے ایک معروف سیاسی رہنما‘ اسلامی دانشور اور کہنہ مشق صحافی ہیں۔ موصوف کی جماعت اسلامی ہند سے دیرینہ وابستگی ہے۔
(بشکریہ: ’’اخبارِ مشرق‘‘۔ کلکتہ)
Leave a Reply