
دنیا کی دوسری ریاستوں کی طرح سعودی عرب بھی بے چینی سے ٹرمپ انتظامیہ کی مشرق وسطیٰ کی پالیسی کی سمت واضح ہونے کا انتظار کررہا ہے،اس میں کوئی شک نہیں کہ سعودیہ نے اوباما کی صدارت کے خاتمے کا خیر مقدم کیا ہے، اپنے دورِ صدارت میں اوباما نے سعودی حکومت کی مایوسی میں دن بدن اضافہ کیا تھا، اسی لیے انہوں نے واشنگٹن میں نئی انتظامیہ کی آمد کو خوش آمدید کہا۔ ۹نومبر کو سعودی شاہ سلمان نے ٹرمپ کو کامیابی پر مبارکباد کاخیرمقدمی پیغام بھیجا، شاہ سلمان نے پیغام دیا کہ ’’آپ کے مشن کی کامیابی ہی دنیا اور خصوصاً مشرق وسطیٰ میں سلامتی اور استحکام کی ضمانت ہے‘‘۔ ٹرمپ کی جانب سے اپنی انتخابی مہم میں دیے گئے بیانات کی وجہ سے سعودی یقین رکھتے ہیں کہ نئی امریکی انتظامیہ کی آمدکے ساتھ امریکا اور سعودیہ کے تعلقات بہت بہتر ہوجائیں گے۔ سعودی عرب یقینی طور پر خطے میں ایران کے خلاف امریکا کے ہر اقدام کی حمایت کرے گا۔ اوباما کے دورِ صدارت میں مشرق وسطیٰ میں ایران کی مداخلت اور امریکا اور ایران کے بہتر تعلقات نے سعودیہ کو پریشان کردیا تھا۔ اسی لیے سعودی شہزادے ترکی الفیصل نے مطالبہ کیا ہے کہ ایران کے ساتھ ہونے والا جوہری معاہدہ ختم کردیا جائے۔ ایران پر دباؤ ڈالنے کے ساتھ سعودی عرب کی یقینی طور پرکوشش ہوگی کہ خطہ مزید عدم استحکام کاشکار نہ ہو، مصر اور سعودی عرب کے درمیان اختلافات کے باوجو ٹرمپ کی طرف سے جنرل سیسی کی حکومت کوگلے لگانے کے فیصلے سے بھی سعودیہ خوش ہے۔
سعودی عرب سنی دنیا اور امریکا کے درمیان وسیع تعلقات کا خواہشمند ہے، ان تعلقات کی بنیاد صرف عالمی دہشت گردی اور تشدد کے خلاف جنگ ہو، نہ کہ جمہوریت، انسانی حقوق اور شہری آزادی کے خلاف۔ امریکا کی نئی انتظامیہ کے کچھ اقدامات سعودی عرب کے لیے مشکلات کا سبب بھی بن سکتے ہیں، صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے مشرق وسطیٰ میں روسی پالیسی کی حمایت کا فیصلہ سعودی عرب کے لیے بُری خبر ہوگی۔ سعودی عرب کی نظر میں اسد حکومت کا قائم رہنا ایران کے لیے ایک تحفہ ہوگا، جومشرق وسطیٰ میں ایرانی گرفت مزید مضبوط کرے گا۔ شام میں اسد حکومت کو مضبوط اور حزب اختلاف کو کمزور کرنے پر سعودی عرب کو شدید پریشانی لاحق ہوگی۔ اپنی انتخابی مہم کے دوران ٹرمپ نے سعودی عرب کو امریکا کی جانب سے دی جانے والی دفاعی سہولیات کے بدلے اربوں ڈالر لینے کا مطالبہ کیا تھا، جو غیر حقیقی تھا۔ کیونکہ سعودی عرب، امریکا اور چین کے بعد دنیا میں سب زیادہ رقم اپنے دفاع پر خرچ کررہا ہے، بہرحال نئے امریکی وزیردفاع جنرل جیمزمیٹس سعودی اور امریکا کے دفاعی تعلقات کی باریکیوں کو سمجھتے ہیں، ایک اور مشکل ٹرمپ کے کیمپ کی جانب سے سعودی سلفی مسلک کو القاعدہ اور دولت اسلامیہ سے جوڑنا بھی ہے، اگر امریکا میں سعودیوں کے خلاف بیان بازی کی مہم جاری رہتی ہے تو یہ ۳۵ہزار سعودی طلبہ کے مستقبل کے لیے بڑا خطرہ ہے۔ مگر سعودیوں کو امید ہے کہ مستقبل میں یہ مسئلہ پس منظر میں چلا جائے گا کیونکہ ٹرمپ انتظامیہ کی زیادہ توجہ امریکا کے اندرونی معاملات بہتر کرنے پر ہوگی،سابق صدر اوباما کی طرف سے ویٹو کیاگیا دہشت گردی سے متعلق ایکٹ سعودی عرب اور امریکا کے درمیان سب سے بڑا مسئلہ ہے،سعودی عرب یہ جاننا چاہے گا کہ مستقبل میں ٹرمپ کی اس ایکٹ کے حوالے سے کیا حکمت عملی ہوگی؟ ٹرمپ اس قانون کو ختم یا اس میں ترمیم کردیں گے۔ انتخابی مہم کے دوران ری پبلکن پارٹی نے صدر اوباما کے ایکٹ کو ویٹو کرنے کی مخالفت کی تھی مگر ٹرمپ کا موقف اس ایکٹ کے حوالے سے واضح نہیں ہے، ہوسکتاہے صدر ٹرمپ ایک کاروباری ہونے کی وجہ سے ’’جسٹا‘‘ ایکٹ کو امریکا اور سعودیہ کے تعلقات کے لیے مناسب نہ سمجھتے ہوں، مگر صدر ٹرمپ ا سلامی انتہا پسندی کے خلاف سخت موقف کی وجہ سے اس ایکٹ کو بحال بھی کر سکتے ہیں، جو سعودی عرب کے لیے بڑا مسئلہ ہوگا۔ ٹرمپ نے ماحولیاتی تحفظ کے اقدامات ختم کرنے کے ساتھ امریکا میں مقامی تیل اور گیس کی پیداوار بڑھانے کااعلان کیا ہے،ٹرمپ کے اس اقدام سے عالمی سطح پر تیل کی قیمتوںمیں کمی ہوگی جو سعودی عرب کی معیشت کو متاثر کرے گی۔ بہرحال سعودی عرب انتظار کررہا ہے کہ ٹرمپ کی خارجہ پالیسی کیارخ اختیار کرتی ہے اور بیانات میں کتنی حقیقت ہے۔
(ترجمہ: سید طالوت اختر)
(“What the Saudi Monarchy wants from the US”. (“realclearworld.com”. Jan. 24, 2017)
Leave a Reply