لیبیا کے صدر معمر قذافی بھی اپنے انجام کو پہنچ گئے۔ آبائی شہر سرت میں انہیں عبوری نیشنل کونسل کے جنگجوؤں نے ڈھونڈ نکالا اور گولی مار کر ہلاک کردیا۔ معمر قذافی کا بیالیس سالہ دورِ حکمرانی مختلف تنازعات سے عبارت اور مرصع رہا۔ قذافی نے مخالفین کو کچلنے کے معاملے میں کبھی بخل کا مظاہرہ نہیں کیا۔ عرب دنیا میں قوم پرستانہ اور سیکولر نظریات کو فروغ دینے میں جمال عبدالناصر جیسے رہنماؤں کے ساتھ ساتھ معمر قذافی کا متنازع بلکہ گھناؤنا کردار ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔
قذافی نے ملک کے ساتھ جس قدر تجربات کیے ان کی مثال نہیں ملتی۔ معاشی، معاشرتی اور نظریاتی سطح پر انہیں تجربات کرنے کا شوق تھا۔ وہ ابتدا میں عرب قوم پرستی کے داعی تھے۔ اس حوالے سے انہوں نے عرب اتحاد کے قیام کی کوشش بھی کی۔ عرب لیگ جیسے رسمی نوعیت کے اداروں سے کہیں بڑھ کر وہ جارحانہ انداز سے اداروں کے قیام کے حق میں تھے تاکہ قوم پرستی اپنے تمام کمالات کے ساتھ جلوہ گر ہو اور اپنی جغرافیائی حدود سے نکل کر دوسروں کو بھی لپیٹ میں لے۔
کمیونسٹ بلاک سے متاثر ہونے کے بعد معمر قذافی نے لیبیا میں سوشلسٹ طرز حکمرانی رائج کرنے کی کوشش کی۔ شخصی آزادی پر غیر معمولی قدغن لگائی گئی۔ لیبیا کے باشندوں کو ایک ایسی طرز حکمرانی قبول کرنے پر مجبور کیا گیا جو ان کے مزاج سے بالکل مطابقت نہیں رکھتی تھی۔ کمیونسٹ ممالک میں لوگوں کو جس قدر جبر میں رکھا جاتا تھا وہی جبر لیبیا میں بھی متعارف کرایا گیا۔ ریاستی مشینری نے لوگوں کے لیے ڈھنگ سے جینا ناممکن بنادیا۔ تیل کی دولت نے معاشی امکانات پیدا تو کیے مگر ان پر بھی آمرانہ سوچ سانپ بن کر بیٹھ گئی۔
قذافی اور ان کے اہل خانہ نے قومی وسائل کو خاصی بے رحمی سے لوٹا۔ تمام اہم عہدوں پر ان کے رشتہ دار قابض رہے۔ قذافی نے کسی بھی مرحلے پر اپوزیشن کو قبول اور برداشت نہیں کیا۔ وہ اپنی پالیسیوں پر معمولی سی تنقید برداشت کرنے کے بھی قائل نہ تھے۔ ان کی حکمرانی کا تقریباً پورا ہی دور شدید جبر سے عبارت رہا۔ عوام کو ایک مخصوص سطح پر رہتے ہوئے زندگی بسر کرنے کی اجازت تھی۔ انہیں سوچنے کے عمل سے دور رکھا جاتا تھا۔ میڈیا پر سرکاری مشینری کا کنٹرول تھا۔ اس کا نتیجہ یہ برآمد ہوا کہ ملک میں سوچنے والوں کے لیے پنپنے کی کوئی گنجائش نہ رہی۔ تعلیم کا فروغ ممکن نہ ہوسکا۔ ملک کو تربیت یافتہ افرادی قوت کی ضرورت تھی۔ لوگ اپنے طور پر کچھ کرلیں تو الگ بات تھی، حکومتی سطح پر ایسی کوئی کوشش نہیں کی گئی کہ لوگوں میں تعلیم و تعلم عام ہو۔ حکومت نے اعلیٰ تعلیم کے حوالے سے کوئی اہم کردار ادا کرنے کی شعوری کوشش نہیں کی۔
لیبیا عشروں سے جس ماحول کا شکار تھا اس کا تقاضا تھا کہ لوگ اٹھ کھڑے ہوتے اور اپنی بات منوانے کے لیے حکومت پر شدید دباؤ ڈالتے۔ حالات کسی بھی نوعیت کے احتجاج کے لیے موزوں تھے۔ اگر کوئی رہبری کرنے والا میسر ہوتا تو لوگ کسی بھی حد سے گزرنے کے لیے تیار تھے۔
فروری ۲۰۱۱ء میں عرب دنیا میں عوامی بیداری کی لہر اٹھی۔ پہلے مرحلے میں تیونس کے عوام جابر حکمرانوں کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے۔ تیونس کے صدر زین العابدین بن علی نے زیادہ مزاحمت نہیں کی اور جلا وطن ہوکر سعودی عرب جانا قبول کرلیا۔ ان پر غیر معمولی کرپشن کے الزامات تھے۔ ان کے خاندان نے قومی خزانے کو بے دردی سے لوٹا۔ یہی حال مصر کا تھا جہاں حسنی مبارک تیس سال سے اقتدار پر قابض تھے اور قومی وسائل کی لوٹ مار میں اپنے اہل خانہ کے ساتھ شریک تھے۔ جب تیونس میں زین العابدین بن علی کا تختہ الٹ دیا گیا تب حسنی مبارک کے خلاف بھی لوگ اٹھ کھڑے ہوئے۔ مصر کے عوام نے جب سڑکوں پر آکر حکومت کے خلاف احتجاج کیا تب سرکاری افواج حرکت میں آئیں اور مظالم ڈھانا شروع کیے۔ حسنی مبارک نے ریاستی مشینری کو عوام کے خلاف خاصے منظم انداز اور پوری ’’دریا دلی‘‘ کے ساتھ استعمال کیا مگر پھر انہیں پسپا ہونا پڑا۔ حسنی مبارک کے پاس بھی زین العابدین بن علی کی طرح عوام کی طاقت کے سامنے سر تسلیم خم کرنے کے سوا چارہ نہ تھا۔ فوج نے عبوری سیٹ اپ قائم کیا اور حسنی مبارک کو اقتدار سے ہٹاکر شرم الشیخ میں نظر بند کردیا۔ اب ان پر مقدمہ چلایا جارہا ہے۔ ان کے دونوں بیٹوں کو بھی کرپشن کے الزام میں مقدمات کا سامنا ہے۔
عوامی بیداری کی لہر نے تیونس کے بعد مصر میں حکومت کا تختہ الٹا تو لیبیا، شام، یمن اور بحرین میں بھی احتجاج کا سلسلہ شروع ہوا۔ لیبیا میں صورت حال خاصی پیچیدہ رہی ہے۔ کئی ماہ تک شہریوں کو فورسز کے مظالم کا سامنا کرنا پڑا۔ جب حکومت کے مخالفین پر قذافی کی حامی فورسز کا جبر بڑھا تو برطانیہ اور فرانس نے موقع غنیمت جان کر آپریشن شروع کیا۔ کئی ماہ تک عبوری قومی کونسل کو نیٹو کی مدد بھی حاصل رہی۔ جب معاملات عبوری کونسل کے حق میں ہوئے تب نیٹو نے پس منظر میں جاکر معاملات کو کنٹرول کرنا شروع کیا۔ اس دوران معمر قذافی اور ان کی حامی فورسز کو کئی محاذوں پر پسپائی اختیار کرنا پڑی۔ قذافی کا اقتدار سمٹ کر طرابلس اور بنی ولید تک رہ گیا۔ جب ان دونوں مراکز پر بھی ان کی گرفت باقی نہ رہی تو انہوں نے آبائی شہر سرت میں پناہ لی اور لڑتے رہے۔
اب معمر قذافی اس دنیا میں نہیں رہے۔ ان کے اہل خانہ بھی تتر بتر ہیں۔ چار بیٹے مارے جاچکے ہیں۔ سیف الاسلام کے بارے میں کچھ معلوم نہیں کہ وہ کس حال میں ہیں۔ اہلیہ اور بیٹی نے الجزائر میں پناہ لے رکھی ہے۔
لیبیا کے عوام معمر قذافی سے نجات پانے کے خواہش مند تھے۔ یہ خواہش پوری ہوئی۔ اب قذافی خاندان اقتدار کے منظرنامے میں کہیں بھی نہیں ہے۔ عبوری قومی کونسل نے عبوری سیٹ اپ قائم کر رکھا ہے۔ بدلی ہوئی صورت حال میں ملک کو نئی حکومت کی ضرورت ہے۔ نئی پالیسیاں مرتب کرنا ہوں گی۔ ملک کو نئی راہ پر ڈالنا ناگزیر ہے تاکہ تعمیر نو اور استحکام کی راہ ہموار ہو۔ مگر یہ سب کچھ ایسا آسان نہیں جیسا دکھائی دیتا ہے۔ قذافی سے نجات پانے کے ایجنڈے پر تو سب متفق تھے۔ مسئلہ اِس کے بعد کے مرحلے کا ہے۔
لیبیا کی آئل انڈسٹری اب تک اپنے پیروں پر دوبارہ کھڑی نہیں ہوسکی ہے۔ انفر اسٹرکچر کو غیر معمولی نقصان پہنچ چکا ہے۔ آٹھ ماہ سے معیشت کا پہیہ تقریباً رکا ہوا ہے۔ کئی غیر ملکی کمپنیاں اپنی بساط لپیٹ چکی ہیں۔ چین سمیت کئی ممالک نے سرمایہ کاری منجمد کردی تھی۔ اب فرانس کی بڑی آئل کمپنیوں نے لیبیا میں تیس ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کا منصوبہ بنایا ہے۔ چین کی مجموعی سرمایہ کاری پندرہ ارب ڈالر ہے جسے وہ کسی بھی طور داؤ پر نہیں لگا سکتا۔
لیبیا میں سبھی کچھ نئے سرے سے کرنے کی ضرورت ہے۔ نیا آئین تیار کیا جائے گا۔ نیا حکومتی نظام طے کیا جائے گا تاکہ دور جدید کے تقاضوں کے مطابق معاملات کو بہتر انداز سے نمٹانا ممکن ہو۔ معمر قذافی کے ون مین شو نے بہت سے باصلاحیت افراد کو پنپنے کا موقع نہیں دیا تھا۔ اب وقت آگیا ہے کہ ان کی موت کا جشن منانے سے زیادہ ملک کی تعمیر نو اور استحکام پر توجہ دی جائے۔ ملک میں سیاسی انتقام کا سلسلہ بھی شروع ہوسکتا ہے۔ قذافی دور میں بہت سے لوگوں نے جبر کے باعث حکومت کا ساتھ دیا۔ اگر ان سب سے انتقام لینے کا سلسلہ شروع ہوگیا تو قتل و غارت کا نیا سلسلہ شروع ہوگا۔ عبوری انتظامیہ کو مفاہمت کی راہ پر گامزن ہونا پڑے گا تاکہ دلوں سے کدورتیں مٹائی جاسکیں۔
☼☼☼
Leave a Reply