
ناٹو افواج نے سلالہ چیک پوسٹ پر جو حملہ کیا وہ یقینی طور پر دانستہ رہا ہوگا۔ پاکستانی فوج کے اعلیٰ افسران نے ناٹو کمانڈروں کو تمام چیک پوسٹس کے نقشے اور مقامات کی تفصیل بہت پہلے سے فراہم کر رکھی ہیں۔ ناٹو کمانڈروں کو اچھی طرح معلوم تھا کہ سلالہ میں حملہ چیک پوسٹ ہی پر کیا جارہا ہے۔ ناٹو کا یہ کہنا سراسر غلط ہے کہ پہلے اس کے فوجیوں پر فائرنگ کی گئی، اسلام آباد نے بر وقت اور عمدگی سے اس کی تردید کی ہے۔ ماضی میں اس نوعیت کے حملوں کو محض حادثات قرار دے کر رسمی سی معذرت کرلی جاتی تھی اور یہ قبول بھی کرلی جاتی تھی۔ اس بار معاملہ سنگین ہے۔ پاکستانی پریس کے مطابق یہ حملہ پاکستان کی خود مختاری پر دیگر حملوں کے فوری بعد ہوا ہے۔ ویسے پاکستان کی خود مختاری محض ایک داستان ہے۔ فوجی ہائی کمان اور سیاسی قیادت نے قومی خود مختاری کو بہت پہلے بڑی طاقتوں کے قدموں میں رکھ دیا تھا۔ اب پاکستان کی خود مختاری کے منافی اقدامات کرنا بچوں کا کھیل ہو گیا ہے جو یقیناً انتہائی تشویش کی بات ہے۔
ناٹو حملے کے جواب میں پاکستان نے ناٹو رسد روک دی۔ اس وقت امریکا کی رسد کا نصف پاکستان سے ہوکر گزرتا ہے۔ شمسی ایئر بیس بھی خالی کرا لیا گیا جہاں سے ڈرون حملے کی امریکی فورسزکو باضابطہ اجازت حاصل تھی۔ پاکستانی حکمرانوں کی آبرو بچانے کے لیے دستاویزات میں یہ درج تھا کہ شمسی ایئر بیس متحدہ عرب امارات کو لیز پر دی گئی ہے اور اس نے یہ ایئر بیس امریکا کو استعمال کے لیے دی ہوئی ہے۔ متحدہ عرب امارات کی خود مختاری پاکستان سے زیادہ لچکدار ہے۔
ناٹو نے سلالہ چیک پوسٹ پر جو حملہ کیا اس کے محرکات اب تک ڈھکے چھپے ہیں مگر نتائج کسی بھی طور پردے میں نہیں۔ اس سے فوج میں اندرونی سطح پر اختلافات بڑھیں گے، صدر آصف علی زرداری کی کمزور حکومت مزید کمزور ہوگی، اسلامی انتہا پسندی کو فروغ ملے گا اور امریکا سے نفرت میں مزید اضافہ ہوگا۔
اب سوال یہ ہے کہ جب اس قدر سنگین نتائج برآمد ہوسکتے تھے تو پھر سلالہ چیک پوسٹ پر حملہ کیوں کیا گیا؟ کیا صدر اوباما پہلے سے کچلے ہوئے ملک میں خانہ جنگی چاہتے ہیں؟ اسلام آباد میں چند ایک مبصرین اس نکتے پر بھی بحث کر رہے ہیں مگر پاکستان پر ناٹو افواج کے کنٹرول کا امکان کم ہی ہے۔ ایسے کسی بھی اقدام کا جواز پیش کرنا ناٹو اور امریکا کے لیے انتہائی دشوار ہوگا۔ ایسا لگتا ہے کہ ناٹو حملہ دراصل چند ماہ قبل افغانستان دارالحکومت کابل کے گرین زون (محفوظ علاقے) میں امریکی سفارت خانے اور ناٹو ہیڈ کوارٹر پر حملے کا جواب تھا تاکہ پاکستانیوں کو سبق سکھایا جاسکے۔
ناٹو حملہ ایک اور، بڑے بحران کے پہلو بہ پہلو رونما ہوا۔ بے نظیر بھٹو اور آصف علی زرداری سے وفاداری ثابت کرنے اور امریکی اسٹیبلشمنٹ سے طویل مدت کے روابط رکھنے کی بدولت بہت سے معاملات میں ثالث کا کردار ادا کرنے والے حسین حقانی کو امریکا میں پاکستانی سفیر کے منصب سے دستبردار ہونا پڑا ہے۔ انہوں نے مبینہ طور پر امریکی بزنس مین اور امریکی محکمہ دفاع سے قریبی روابط رکھنے والے منصور اعجاز کو (بظاہر پاکستانی حکومت کی ایک اعلیٰ شخصیت کی جانب سے لکھا جانے والا) میمو دیا جو امریکی چیئرمین جوائنٹس چیفس آف اسٹاف ایڈمرل مائک مولن کے نام تھا۔ اس میمو میں امریکا سے پاکستانی فوج کے خلاف مدد مانگی گئی تھی اور جواب میں آئی ایس آئی کو کمزور کرنے، حقانی نیٹ ورک کو ختم کرنے اور امریکی ہدایات پر بلا تامل اور بلا چوں چرا عمل کی یقین دہانی کرائی گئی تھی۔
ابتدا میں مائک مولن نے ایسے کسی بھی میمو کی وصولی سے انکار کیا مگر جب امریکی محکمہ دفاع کے ایک اعلیٰ افسر نے بھانڈا پھوڑا تو مولن نے کہانی بدلتے ہوئے کہا کہ ہاں ایسا ایک میمو آیا تھا تاہم اسے نظر انداز کردیا گیا تھا۔ جب آئی ایس آئی نے اس غداری کا سراغ لگایا تو حسین حقانی نے، یہ کہنے کے بجائے کہ وہ آصف علی زرداری کی ایما پر یہ سب کچھ کر رہے تھے، اس بات ہی سے انکار کردیا کہ ایسا کوئی بھی میمو امریکی حکومت تک پہنچایا گیا تھا۔ حسین حقانی کی بدقسمتی یہ رہی کہ آئی ایس آئی کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل احمد شجاع پاشا نے منصور اعجاز سے ملاقات کی جنہوں نے انہیں ایک بلیک بیری دیا جس میں متعلقہ پیغامات اور گفتگو کا ریکارڈ موجود تھا۔ حقانی کے پاس مستعفی ہونے کے سوا کوئی آپشن نہ رہا۔ حسین حقانی کے خلاف مقدمے اور پھانسی کا مطالبہ زور پکڑ رہا ہے۔ پاکستان میں اگر کسی معاملے میں فوج ملوث ہو تو مقدمے اور پھانسی کا مطالبہ ساتھ ساتھ کیا جاتا ہے۔ آصف علی زرداری اب تک ان کا ساتھ دے رہے ہیں۔ فوج حسین حقانی کا سر چاہتی ہے۔ ناٹو بھی اس معاملے میں ملوث دکھائی دے رہی ہے۔ یعنی کہانی ابھی ختم نہیں ہوئی۔
(بشکریہ: ’’کاؤنٹر پنچ‘‘۔ ۲۹ نومبر ۲۰۱۱ء)
Leave a Reply