
مالدیپ جنوبی ایشیاء کا برادر اسلامی ملک ہے۔ اس کے صدر مامون عبدالقیوم نے ایک آرڈی نینس جاری کیا ہے جو اسلام کی روح اور اس کی تعلیمات کچلنے کی سازش ہے۔
آرڈی نینس میں درج ذیل نکات شامل ہیں:
۱) ڈاڑھی رکھنا ممنوع قرار دیا گیا۔
۲) برقعہ پہننے پر پابندی ہو گی۔
۳) غیرملکی دینی اسلامی مبلغ مالدیپ میں داخل نہیں ہو سکیں گے۔
۴) جس شخص کے بارے میں مذہبی انتہا پسند ہونے کا شبہ ہو، اس کے خلاف کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔
۵) اسکولوں اور کالجوں میں ماڈریٹ خیالات (روشن خیالی) کو فروغ دیا جائے گا۔
اسلام پسند جماعتوں کے قائدین اور کارکنوں کو اس آرڈی نینس پر شدید اعتراضات اور تحفظات ہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ مالدیپ میں ایک ہزار سے زائد جزائر ہیں جس میں دو سو خوبصورت بستیاں آباد ہیں۔ مختلف ممالک کے سیاح یہاں چھٹیاں گزارنے آتے ہیں جس سے مالدیپ کو سالانہ تین سو ملین ڈالر آمدنی ہوتی ہے۔ ان سیاحوں کی آمد سے مالدیپ میں شراب پانی کی طرح عام ہوتی جا رہی ہے۔ جوئے کے اڈوں کو فروغ مل رہا ہے۔ غیرملکی سیاح ناپسندیدہ سرگرمیوں میں ملوث ہیں۔ معاشرے میں بے راہ روی پھیلتی جا رہی ہے۔ غیرملکی خواتین مغربی کلچر عام کرنے کا ذریعہ بن رہی ہیں۔ نوجوان طلبہ و طالبات میں مغربی کلچر فروغ پا رہا ہے۔ سیاحوں کو حکومتی آزادی اور مراعات سے مالدیپ کا اسلامی کلچر متاثر ہو رہا ہے۔ ان جماعتوں کے قائدین کا نقطۂ نظر یہ ہے کہ ان سیاحوں کو مخصوص دائرے میں رہنے کا پابند بنایا جائے تاکہ ان سیاحوں کے برے اثرات سے معاشرہ محفوظ رہے۔
گزشتہ دنوں مالدیپ کے جزیرہ حماندو میں ان سیاحوں کے مرکز کے قریب ایک بم دھماکے میں ایک برطانوی جوڑا اور ایک فوجی زخمی ہوا۔ دارالحکومت مالے میں دھماکے سے بارہ سیاح زخمی ہوئے۔ ان میں دو برطانوی، دو جاپانی اور چین کے آٹھ سیاح شامل تھے۔
ایک سروے کے مطابق رواں مالی سال ۲۰۰۸ء میں مالدیپ میں ساڑھے چھ لاکھ غیرملکی سیاحوں نے چھٹیاں گزارنے کا پروگرام ترتیب دیا ہے لیکن ان حملوں کے بعد مالدیپ کی سیاحت کا رخ بدلنے لگا ہے۔ جس کی بنا پر صدر مامون عبدالقیوم نے غیرملکی سیاحوں کی خوشنودی کے لیے یہ آرڈیننس جاری کیا۔ مالدیپ جنوبی ایشیاء کا ملک ہے۔ اس کا کل رقبہ ۲۹۸ مربع کلومیٹر یا ۱۱۵ مربع میل ہے۔ اس کی کرنسی کا نام روفیہ (Ruffiya) ہے۔ آبادی تین لاکھ نفوس پر مشتمل ہے۔ سو فیصد مسلمان رہتے ہیں، دارالحکومت مالے کی آبادی ساٹھ ہزار ہے۔ مالدیپ بھارت کے لکشدیپ جزائر کے جنوب اور سری لنکا سے سات سو کلومیٹر دور جنوب مغرب میں واقع ہے۔ مالدیپ کا نام گالی دیوی راجی یعنی ’’جزائر کا راج‘‘ سے نکلا ہے۔ سنسکرت لفظ مالا دیو کا معنی ’’جزائر کا بار‘‘ ہے۔ اسے مہیلا دیپا یعنی ’’خواتین کے جزائر‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔ مالدیپ دنیا کا سب سے چھوٹا اسلامی ملک ہے۔ مامون عبدالقیوم ۱۹۷۸ء سے صدر مملکت کے عہدے پر فائز ہیں۔
مالدیپ میں اسلام پہلی صدی ہجری میں عرب تاجروں کی وساطت سے آیا۔ ۱۳۱۴ء میں مشہور مسلمان صوفی بزرگ ابوالبرکات بربری کے ہاتھ مالدیپی جزیروں کے تمام باشندوں نے اسلام قبول کیا۔ اسے مالدیپ کے لوگ اب تک ’’روحانی انقلاب‘‘ کے نام سے یاد کرتے ہیں حتیٰ کہ اس وقت کے ہندو حکمران دھرم سانت نے بھی اسلام قبول کر لیا۔ مشہور مسلمان مؤرخ ابن بطوطہ بھی مالدیپ آیا اور یہاں بطور قاضی کام کرتا رہا۔ ابن بطوطہ کا سفر نامہ مالدیپ کے قدیم احوال کے بارے میں اولین تاریخی دستاویز شمار کیا جاتا ہے۔ اس وقت سے اب تک پرتگالیوں کے مختصراً عہدِ اقتدار کے سوا مالدیپ میں اسلامی سلطنت چلی آرہی ہے۔ مالدیپ کا شمار بھی قدیم اسلامی سلطنت میں ہوتا ہے۔ ۱۵۸۱ء میں ان جزائر پر پرتگالیوں نے قبضہ کر لیا لیکن ۷۰ ویں صدی میں ولندیزیوں کی نگرانی میں آ گیا جو سری لنکا کے بھی حاکم تھے۔ ۱۸۸۷ء میں ایک معاہدے کے تحت برطانیہ کو براعظم پاک و ہند کے ساتھ مالدیپ کا بھی حکمران تسلیم کیا گیا۔ ۱۹۴۸ء میں حکومت برطانیہ سے ایک معاہدہ ہوا جس کی رو سے طے پایا کہ برطانیہ مالدیپ کے داخلی امور میں مداخلت نہیں کرے گا اور اس کے بدلے برطانیہ کو جزیرہ گان میں ہوائی اڈہ قائم کرنے کی اجازت دی جائے گی۔ یکم جنوری ۱۹۵۳ء کو مالدیپ آزاد جمہوریہ قرار پایا، امیر محمد امین کو پہلا صدر منتخب کیا گیا۔ ۱۹۶۵ء میں مالدیپ میں صدر ابراہیم ناصر نے جلا وطنی اختیار کی، ان کی جگہ مامون عبدالقیوم نے عہدۂ صدارت سنبھالا، ۱۹۹۳ء میں صدر مامون چوتھی بار پانچ سالہ میعاد کے لیے صدر منتخب ہوئے جنہوں نے ۲۰۰۷ء میں ایک ریفرنڈم کے ذریعے اپنے اقتدار کا تسلسل جاری رکھا۔ مامون عبدالقیوم ایک آمر ہیں اور آمر کے معنی ہیں ’’آئینی حدود سے متجاوز اختیارات کا مالک‘‘۔ وہ ۲۹ سال سے ملک کے مطلق العنان سربراہ چلے آرہے ہیں اور آمریت کو فروغ دینے کے لیے اسلامی احکام کو کچلنے میں ملوث رہے ہیں۔
صدر مامون کے جاری کردہ آرڈی نینس کے بارے میں مختصراً عرض ہے:
(۱) داڑھی اور برقعہ کا حکم قرآن و سنت سے ثابت ہے، کسی طرح بھی اللہ تعالیٰ کے حکم پر مامون عبدالقیوم کے حکم کو ترجیح نہیں دی جا سکتی۔ مامون عبدالقیوم نے براہ راست اللہ تعالیٰ سے بغاوت کی۔
(۲) غیرملکی دینی مُبَلِّغوں پر پابندی خود مالدیپ کے لیے نقصان کا باعث ہے۔ ان جماعتوں کی آمد سے مالدیپ کے شہریوں کو کئی فوائد حاصل ہوتے ہیں، ان پر پابندی غیرآئینی اور غیراخلاقی ہے۔ یہ جماعتیں شہریوں کو اچھا انسان بنانے پر خصوصی توجہ دیتی ہیں اور مسلمانوں کو اللہ تبارک و تعالیٰ اور سنتِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تابعداری، والدین اور بزرگوں کا احترام، نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ پر عملدرآمد اور ملکی قوانین پر پابندی کی تلقین بھی کرتی ہیں۔ ان جماعتوں کی شب و روز محنت سے شہریوں میں مثبت تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں جو ملک و قوم کے مفاد میں ہیں۔
(۳) اس آرڈی نینس میں ایک شق یہ بھی ہے کہ جس شخص کے بارے میں مذہبی انتہا پسند ہونے کا شبہ ہو اس کے خلاف کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔ اس شق کا دوسرا مقصد یہ ہے کہ جو بھی مذہب پر عمل کرنے والے اور باشرع مسلمان ہیں وہ ان کے نزدیک انتہا پسند ہیں۔ جس کا ثبوت یہ ہے کہ مالدیپ میں تمام مساجد حکومتی کنٹرول میں ہیں۔ صرف ایک مسجد دارالخیر حکومتی کنٹرول میں نہیں تھی، جس کا حکومت نے محاصرہ کیا اور وہاں سے پچاس نمازیوں کو گرفتار کر کے ان پر عسکریت پسند ہونے کا الزام لگا کر مقدمات بنائے۔ گزشتہ سال بھی پورے ملک میں کریک ڈاؤن کر کے چار سو شہریوں کو گرفتار کیا گیا، اس کارروائی میں ایک مسجد بھی تباہ ہوئی اور مسلمانوں پر عرصہ حیات تنگ کر دیا گیا۔ اسکولوں اور کالجوں میں ماڈریٹ خیالات کا فروغ امریکی ایجنڈا ہے۔
طلبہ کسی بھی تحریک اور ملک کی ترقی میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں ان کے اذہان ایک صاف کاغذ کی مانند ہوتے ہیں جس پر جو بھی نقش بنایا جائے با آسانی بن جاتا ہے۔ ان کی جس طرح ذہن سازی کی جائے گی اسی طرح ذہن تیار ہوتا ہے اور پھر یہی طبقہ ملک کے کلیدی عہدوں پر فائز ہوتا ہے اس لیے مامون عبدالقیوم نے طلبہ میں ماڈریٹ خیالات کے فروغ کا حکم دیا ہے۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ امریکا اور غیرملکی سیاحوں کی خوشنودی کے لیے ڈاڑھی اور برقعہ پر پابندی عائد کرنا، غیرملکی اسلامی مُبَلِّغوں اور جماعتوں کی آمد روکنا، اپنے شہریوں پر عرصہ حیات تنگ کرکے انہیں پابند سلاسل کرنا، شراب اور جوئے کو عام کرنا، فحاشی و عریانی کے پھیلنے میں برابر کا حصہ دار بننا، اسکولوں اور کالجوں کے معصوم طلبہ و طالبات کے اذہان کو بگاڑنا کسی طرح بھی اچھے حکمران کی علامات نہیں ہیں۔ اس سوچ اور اقدامات کو کسی طرح بھی اچھا نہیں کہا جا سکتا۔ بحیثیت مسلمان یہ دنیا و آخرت کے خسارے کا سودا ہے اور ایسے آمروں کی دنیا میں جب اللہ تعالیٰ کی طرف سے پکڑ ہوتی ہے تو وہ رہتی دنیا تک کے لیے عبرت کا نشان بن جاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی ہدایات کے مطابق زندگی گزارنے کی توفیق عطا فرمائے۔
(بحوالہ سہ روزہ ’’دعوت‘‘ دہلی۔ شمارہ: ۴ مئی ۲۰۰۸ء)
Leave a Reply