
اسرائیل اور فلسطین مصرکے مصالحتی تعاون کے نتیجے میں ۲۶؍اگست کو غزہ میں ۵۰ روز سے جاری جنگ روکنے پر آمادہ ہوگئے ہیں۔ اس جنگ میں۲۱ سو فلسطینی شہیدجب کہ ۶۴؍اسرائیلی فوجی اور ۵؍اسرائیلی شہری ہلاک ہوئے۔ شہید ہونے والے فلسطینیوں میں اکثریت عام شہریوں کی تھی۔
گزشتہ چند ہفتوں سے قاہرہ میں جاری باالواسطہ بات چیت میں دونوں فریقین نے فلسطینی قیدیوں کی رہائی اور غزہ میں بندر گاہ کی تعمیر کے مطالبے سمیت اُن پیچیدہ مسائل پر مذاکرات کرنے پر آمادگی ظاہر کی ہے جس نے ان دونوں کو تقسیم کیا ہوا ہے۔ ان امور پر بات چیت بھی باالواسطہ ہی ہوگی جو ایک ماہ کے دوران شروع ہو گی۔
حالیہ بات چیت میں اسرائیلی اور فلسطینی مذاکرات کاروں نے معاہدے کے درج ذیل نکات پر اتفاق کرلیا ہے:
فوری اقدا مات:
٭ حماس اور دیگر عسکری گروپس اسرائیل میں راکٹ اور مارٹر حملے بند کریں گے۔
اسرائیل تمام عسکری حملے بشمول فضائی اور زمینی بند کرے گا۔
٭ اسرائیل غزہ کے ساتھ ملحقہ بارڈر کراسنگ کھولے گا تاکہ انسانی ہمدردی کی بنیاد پر آنے والی امداد، عام ضرورت کی اشیا اور تعمیرات کے لیے ضروری سازو سامان ساحلی پٹی میں لایا جاسکے۔
٭ ایک علیحدہ دو طرفہ معاہدے میں مصر نے رفاہ کے مقام پر غزہ کے ساتھ ملحقہ ۱۴ کلو میٹر طویل سرحد کھولنے پر اتفاق کیا۔
٭ صدر محمود عباس کی سربراہی میں فلسطینی اتھارٹی حماس سے غزہ کے بارڈر کا انتظام اپنے ہاتھ میں لے لے گی۔ اسرائیل اور مصر نے امید ظاہر کی ہے کہ اس کے نتیجے میں ہتھیار اور اسلحہ غزہ میں جانے سے روکا جا سکے گا۔
بین الاقوامی عطیہ دہندگان بشمول یورپی یونین کی مدد سے فلسطینی اتھارٹی کی زیر نگرانی غزہ کی تعمیر نو کی جائے گی۔
اگر جنگ بندی جاری رہتی ہے تو اسرائیل غزہ کی سرحد کے اندر ۳۰۰ میٹر پر مشتمل سیکورٹی بفر (Security Buffer) کو محدود کرکے ۱۰۰ میٹر تک کر دے گا۔اس اقدام سے فلسطینیوں کو بارڈر کے ساتھ زمین پر کاشت کاری کی رسائی مل جائے گی۔
٭ اسرائیل غزہ کے ساحل کے ساتھ مچھلی کے شکار کی حد ۳ میل سے بڑھا کر ۶ میل کر دیگا۔ اگر جنگ بندی جاری رہتی ہے تو اس توسیع میں رفتہ رفتہ مزید اضافہ ممکن ہے۔
وہ امور جو بعد میں زیر بحث آئیں گے:
٭ حماس چاہتی ہے کہ اس کے سیکڑوں قیدیوں کو رہا کیا جائے، جنہیں مغربی کنارے سے تین یہودی مدرسے کے بچوں کے اغوا اور قتل کے بعد جون میں گرفتار کیا گیا تھا۔ اس واقعہ کے بعد جنگ شروع ہوگئی تھی۔ حماس نے ابتدائی طور پر تو اس واقعہ سے لاتعلقی کا اظہار کیا تھا، لیکن چند روز قبل ترکی میں جلا وطن حماس کے سینئر رہ نما نے تسلیم کیا کہ وہ حملہ حماس نے کیا تھا۔
٭ فتح پارٹی کے سربراہ صدر محمود عباس طویل عرصے سے اسرائیلی قید میں موجود اُن فلسطینیوں کی رہائی چاہتے ہیں، جن کی رہائی اسرائیل اور فلسطینی اتھارٹی کے درمیان سبوتاژ ہوجانے والے امن مذاکرات کے باعث تعطل کا شکار ہوگئی تھی۔
٭ اسرئیل چاہتا ہے کہ حماس اور غزہ میں موجود دیگر عسکری گروپس جنگ کے دوران مارے جانے والے اسرائیلی فوجیوں کے جسم کی باقیات اور دیگر سامان اس کے حوالے کیا جائے۔
٭ حماس چاہتی ہے کہ غزہ میں ایک بندرگاہ تعمیر کی جائے، تاکہ اس ساحلی پٹی سے لوگوں اور سامان کی آمد ور فت ممکن ہو۔
٭ حماس یہ بھی چاہتی ہے کہ اُس کے روکے ہوئے فنڈز جاری کیے جائیں تاکہ وہ ۴۰ ہزار پولیس اہلکار، سرکاری ملازمین اور دیگر انتظامی عملے کو گزشتہ سال آخر سے مئوخر تنخواہیں جاری کرے۔
٭ فلسطینی غزہ میں یاسر عرفات انٹرنیشنل ایئر پورٹ کی دوبارہ تعمیر کا بھی مطالبہ کرتے ہیں، جو ۱۹۹۸ء میں کھولا گیاتھا اور ۲۰۰۰ء میں اسرائیل کی بمباری کے نتیجے میں بند کردیا گیا۔
”What’s in the Gaza peace deal?”
(”reuters.com” August 27, 2014)
Leave a Reply