مصر کے حالیہ انتخابات میں کالعدم اخوان المسلمون کے امیدواروں نے بھی حصہ لیا۔ وہ آزاد حیثیت میں الیکشن لڑے۔ مصر کی صورت حال دیکھتے ہوئے اخوان کی مقبولیت میں کمی کے بجائے اضافہ ہی ہوتا جارہا ہے۔ معیشت کا برا حال ہے۔ نوجوانوں کو روزگار نہیں مل رہا۔ صحت عامہ کی سہولتیں نہ ہونے کے برابر ہیں۔ اساتذہ کی تنخواہیں بھی ماہانہ ۲۲ امریکی ڈالر کی سطح پر آگئی ہیں۔ ایسے میں اخوان کے انتخابی امیدواروں نے پس ماندہ معاشرے کو امید دلائی کہ قوم کو جس تبدیلی کی ضرورت ہے وہ خود انہی کے ووٹوں اور اعمال سے آئے گا۔
۴۲ سالہ ڈاکٹر ہودہ غنیہ نے انتخابی جلسوں سے خطاب کے دوران کہا کہ ملک کو تعلیم اور صحت عامہ کے شعبے میں بھرپور اصلاح کی ضرورت ہے۔ اساتذہ کی تنخواہیں زیادہ ہونی چاہئیں تاکہ وہ نئی نسل کو ملک کے بہتر نظم و نسق کے لیے اچھی طرح تیار کرسکیں۔ ان کی باتوں میں دم تھا۔
مصر میں اخوان اگرچہ کالعدم ہے تاہم اس کی مقبولیت میں دن بہ دن اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ ۲۰۰۵ء کے عام انتخابات میں اخوان نے پارلیمنٹ میں بیس فیصد نشستیں حاصل کی تھیں۔ یہ دیکھتے ہوئے حکمراں نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی نے اخوان کے ارکان پر مزید سختیاں کیں تاکہ وہ ابھر نہ سکے۔ مسئلہ یہ ہے کہ این ڈی پی کی کرپشن سے سب واقف ہیں۔ اس پارٹی میں اقربا پروری کوٹ کوٹ کر بھری ہے۔ اس نے عدلیہ کو انتخابات کی نگرانی کی اجازت نہیں دی اور میڈیا کے خلاف کارروائی کے معاملے میں اپنے عزائم پوشیدہ نہیں رکھے۔
مصر میں ۲۰۱۱ء میں صدارتی انتخاب ہوگا۔ حسنی مبارک مسلسل چھٹی مدت کے لیے بھی امیدوار ہوں گے۔ ان کے مقابل جو بھی آنا چاہتا ہے اسے پارلیمنٹ اور میونسپل کونسلوں کے ۲۵۰ ارکان کی حمایت حاصل ہونی چاہیے۔ حکومت یہ کہتے نہیں تھکتی کہ اخوان پر پابندی اس لیے عائد کی گئی ہے کہ مصر میں مذہب کو سیاست کا حصہ نہیں ہونا چاہیے مگر لوگ کیا کریں۔ ان کے نزدیک اخوان کے سیاسی فلسفے سے زیادہ خطرناک چیز اقتدار پر این ڈی پی کی گرفت ہے۔ عوام اخوان کو این ڈی پی کے مقابلے میں خاصا چھوٹا خطرہ تصور کرتے ہیں۔
مصر میں اخوان المسلمون کا قیام ۱۹۲۸ء میں عمل میں آیا تھا اور ۱۹۵۴ء میں اس پر پابندی عائد کردی گئی۔ تب سے اب تک یہ جماعت کسی نہ کسی طرح نمایاں ہی رہی ہے اور حکمرانوں نے اسے برداشت ہی کیا ہے۔ ۱۹۷۰ء میں اخوان نے تشدد کو باضابطہ طور پر خیرباد کہا۔ فلسطینی تنظیم حماس، القاعدہ کے قائد اسامہ بن لادن اور ان کے نائب ایمن الظواہری کے لیے اخوان ترغیب و تحریک کا ذریعہ رہی ہے۔ ۱۹۸۰ء کے عشرے سے اب تک اخوان نے مصر میں فعال اپوزیشن کا کردار ادا کیا ہے۔
حکومت نے مختلف مراحل میں مختلف مواقع پر اخوان کے خلاف کریک ڈاؤن کرکے ایک عشرے کے دوران ہزاروں کارکنوں کو گرفتار کیا ہے، اخوان کی زیر نگرانی قائم خیراتی اداروں پر پابندی عائد کی ہے۔ مگر ان ہتھکنڈوں سے اخوان کی مقبولیت بڑھی ہے، کم نہیں ہوئی۔ قید و بند کی صعوبتیں اخوان کے کارکنوں کے لیے سرمایہ افتخار ہیں۔
اگر اخوان پر سے پابندی اٹھائی جائے تو کیا ہوگا؟ عشروں تک اخوان پر نظر رکھنے والے جنرل فواد عالم کہتے ہیں ’’اخوان اشتراکیت کی تحریک کی مانند ہے۔ دنیا بھر میں اس کے اثرات پائے جاتے ہیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ پہلے سے زیادہ منظم ہوکر ابھری ہے۔ سیاست میں بھی یہ زیادہ فعال ہوئی ہے۔ اگر اخوان پر سے پابندی ہٹائی گئی تو شاید امریکا اپنے ایک اہم اتحادی سے ہاتھ دھو بیٹھے گا۔‘‘
اخوان ایسے دعووں کو مسترد کرتی ہے۔ مصر کی اپوزیشن کا بھی یہی کہنا ہے کہ حکومت در اصل ملک میں حقیقی جمہوریت کی راہ روکنے کے لیے اخوان کو قربانی کے بکرے کی حیثیت سے استعمال کرنا چاہتی ہے۔ روزنامہ الدستور کے سابق ایڈیٹر ابراہیم عیسیٰ کہتے ہیں ’’حسنی مبارک نے تیس سال سے اخوان کا ہوّا دکھاکر اپنے اقتدار کو طول دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اخوان اور اقتدار کے درمیان وہ حائل ہیں یعنی وہی نہیں ہوں گے تو جہادی اقتدار میں آ جائیں گے۔‘‘
اخوان کے اثرات کا دائرہ مصر تک محدود نہیں۔ پوری عرب دنیا میں اس کی سوچ سے متاثر ہونے والے پائے جاتے ہیں۔ شام میں بھی اخوان سے ہم خیال عناصر ابھرے اور حکمراں بعث پارٹی سے ٹکرائے۔ کریک ڈاؤن کے بعد اب اخوان وہاں زیرِزمین کام کرنے پر مجبور ہے۔ امریکی تھنک ٹینک کارنیگی اینڈومنٹ فار پیس کے مچل ڈیون کہتے ہیں کہ اخوان کو کسی طور دہشت گرد قرار نہیں دیا جاسکتا تاہم آج بھی وہ حماس کو سیاسی اور مالی مدد فراہم کر رہی ہے۔
مصر میں اخوان کی قوت اب بھی زیادہ نہیں۔ اس کے ارکان کی تعداد بھی قابل رشک قرار نہیں دی جاسکتی۔ ۲۰۰۵ء کے انتخابات میں اخوان کو صرف تین فیصد ووٹ ملے تھے۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ اخوان کو ووٹ اس لیے بھی ملے کہ لوگ حکمراں جماعت سے نالاں ہیں۔ انسانی حقوق کے سرگرم کارکن حسام بہگت کا کہنا ہے کہ اخوان کو باضابطہ سیاسی جماعت کے طور پر کام کرنے کی اجازت دی جائے تو اس کی مقبولیت میں شاید کمی واقع ہو جائے۔ اگر اخوان کے ارکان کو سیاست دان کی حیثیت مل جائے تو وہ حکومت کی جانب سے کسی بھی دباؤ یا ظلم کی بات کرکے مظلومیت کا تاثر نہیں دے سکیں گے۔ اخوان کے رکن پارلیمنٹ محسن رضی کا کہنا ہے کہ اخوان اگر الیکشن لڑ رہی ہے تو اس کا مقصد حکومت تشکیل دینا نہیں بلکہ گراس روٹ لیول پر کام کرنا ہے۔ عملی سیاست میں حصہ لینا بنیادی مقصد ہے۔
پارلیمنٹ میں اخوان کا حصہ بہت کم ہے تاہم وہ آج بھی ایک بڑی اسٹریٹ پاور ہے۔ مصر میں اپوزیشن کی ۲۰ جماعتیں کام کر رہی ہیں تاہم ان میں سے بیشتر کو محض کٹھ پتلی سمجھا جاتا ہے۔ جو سیاسی جماعت حکمراں جماعت کے لیے خطرہ محسوس ہوتی ہے اسے کچل دیا جاتا ہے۔ ۲۰۰۵ء کے انتخابات میں لبرل غاد پارٹی نے ۷ فیصد ووٹ لیے تو اس کے قائد ایمن نور کو دھوکا دہی کے الزام میں گرفتار کرلیا گیا۔ ۲۰۰۹ء میں رہائی پانے پر ایمن نور نے کہا کہ ان کی جماعت ملک میں تیسری قوت کے طور پر ابھری ہے۔ لازم نہیں کہ ملک میں آمریت نہ ہو تو اسلامی حکومت ہو۔ عوام کے پاس لبرل حکومت کی تشکیل کا آپشن ہونا چاہیے۔
اخوان نے عوام میں جڑیں مضبوط کرنے کے لیے عشروں تک محنت کی ہے۔ رکنیت کا دائرہ وسیع کرنے کے لیے گراس روٹ لیول پر کام کیا گیا ہے۔ تعلیمی اداروں میں بھی رکنیت بڑھائی گئی ہے۔ کئی خیراتی ادارے چلائے جارہے ہیں۔ جو نہ صرف قابل ستائش ہے بلکہ قاہرہ میں ۱۹۹۲ء کے زلزلے کے بعد اخوان کے خیراتی ادارے نے دو ہزار سے زائد لوگوں کو امدادی سامان اور خیمے دیے، جو اپنے گھروں اور اپنے پیاروں کو کھو بیٹھے تھے۔ اخوان سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹروں اور فارمیسی کا علم رکھنے والے لوگوں نے حکومت کی صحت کے حوالے سے خراب پالیسی اور عدم توجہی کا خلاء بڑی خوبصورتی سے پُر کیا ہے۔ اخوان کے تحت اسلامک میڈیکل ایسوسی ایشن ملک بھر میں ۲۹؍ اسپتال چلا رہی ہے جن میں برائے نام فیس لے کر نادار افراد کا علاج کیا جاتا ہے۔ یہ عوام کے دل جیتنے کی اچھی کوشش ہے۔ دوسری سیاسی جماعتیں بھی اسی طریق کار کو اپنا رہی ہیں۔ مئی میں وفد پارٹی کی قیادت جب کامیاب بزنس مین السید البرادعی نے سنبھالی تب انہوں نے ذاتی خرچ پر فلاحی کام شروع کیے۔ انہوں نے عوام میں جڑیں گہری کرنے کے لیے اخوان کا طریق کار اپنایا اور اس کا اعتراف کرنے میں بھی بخل سے کام نہیں لیا۔
امریکا میں اخوان کو اب بھی پسندیدگی کی نظر سے نہیں دیکھا جاتا۔ سابق امریکی صدر جارک واکر بش نے مصر میں جمہوریت کے لیے فروغ کے لیے چند ایک اقدامات کیے مگر جب فلسطینی انتخابات میں اخوان کی حمایت یافتہ حماس جیتی تو انہوں نے مشرق وسطیٰ میں جمہوریت کو فروغ دینے کا مشن ختم کردیا۔ اوباما کے معاونین مصر میں صدر حسنی مبارک ہی کا اقتدار دیکھنا چاہتے ہیں۔ یہ صورت حال اعتدال پسند اور سیکولر جماعتوں کو نقصان پہنچا رہی ہے۔ معروف ایڈیٹر اور پبلشر ہشام قاسم کہتے ہیں کہ ہم مصر میں جمہوریت کا نفاذ نہیں چاہتے مگر خیر آمریت کا نفاذ بھی روکا جانا چاہیے۔
مصر کے مشہور ناول نگار اعلیٰ الاسوانی کا کہنا ہے کہ اخوان کے اقتدار میں آنے کی صورت میں خواتین، اقلیتوں اور بالخصوص قبطی عیسائیوں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ مگر دوسری جانب اخوان کے ارکان کہتے ہیں کہ اقلیتوں کے حوالے سے اخوان کی سوچ کو خواہ مخواہ غلط رنگ دے کر پیش کیا جاتا رہا ہے۔ آج بھی اخوان کے خیراتی اسپتالوں میں عیسائی بھی علاج کراتے ہیں اور ان پر بھی پوری توجہ دی جاتی ہے۔ نومبر میں جب القاعدہ نے مصر کے عیسائیوں کو خطرناک نتائج کی دھمکی دی تھی تب اخوان نے اس کی فوری مذمت کی تھی۔
اخوان اسرائیل کی شدید مخالف ہے اور اس بات کی حامی ہے کہ اسرائیلی حکومت سے مذاکرات ختم کرکے مسلح مزاحمت کی جائے۔ اس معاملے میں وہ فلسطینیوں کو بین الاقوامی سطح پر امداد فراہم کرنے کے حق میں ہے۔ ان خیالات کی بنیاد ہی پر اسرائیل بھی اخوان کو تشویش کی نظر سے دیکھتا ہے۔
اخوان کے ارکان اس تاثر کو بے بنیاد قرار دیتے ہیں کہ ان کی جماعت عالمگیر اسلامی حکومت قائم کرنا چاہتی ہے۔ ایک سرکردہ رکن کا کہنا ہے ’’ہم مصر میں اسلامی حکومت چاہتے ہیں، آئر لینڈ میں نہیں! ہمارے عزائم مصر کی حدود تک ہیں۔ کسی کو خواہ مخواہ پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔‘‘
(بشکریہ: ’’ٹائم‘‘۔ ۲۹ نومبر ۲۰۱۰ء)
Leave a Reply