
حال ہی میں یہ رپورٹ سامنے آئی ہے کہ چینی حکومت نے خود مختار دولت سے متعلق فنڈ میں سالانہ اربوں ڈالر اضافے کا فیصلہ کیا ہے۔ دنیا بھر میں چینی سرمایہ کار کاروباری اداروں میں جو سرمایہ کاری کر رہے ہیں اس میں مزید اضافے کی راہ ہموار کی جارہی ہے۔ دنیا بھر میں چینی سرمایہ کاری کا خیر مقدم کیا جارہا ہے اور بہت سے ممالک اس کے لیے آپس میں مسابقت سے بھی دوچار ہیں۔ ایسے میں سوال یہ نہیں ہے کہ جب چین دنیا پر حکومت کرے گا تب کیا ہوگا بلکہ اصل مسئلہ یہ ہے کہ جب چین پوری دنیا کا مالک بن جائے گا تب کیا ہوگا؟
چین نے تجارت میں سرپلس کی بنیاد پر جو تین ہزار ارب ڈالر کمائے تھے انہیں بہتر انداز سے مختلف ممالک کے کاروباری اداروں میں کھپانے کے لیے ۲۰۰۷ء میں دی چائنا انویسٹمنٹ کارپوریشن قائم کی گئی تھی۔ مالیاتی امور کے ماہرین چین پر الزام لگاتے ہیں کہ اس نے اپنی کرنسی یوآن کی قدر میں کمی کرکے بین الاقوامی تجارت میں غیر معمولی منافع کمایا اور کئی ممالک کی معیشت کو مشکلات سے دوچار کردیا۔ اس وقت چین کا سوورین ویلتھ فنڈ دنیا کا چوتھا بڑا فنڈ ہے مگر چینی حکومت جس نوعیت کے اقدامات کر رہی ہے انہیں دیکھتے ہوئے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ بہت جلد دنیا بھر میں سب سے زیادہ نجی سرمایہ کاری چینیوںکی ہوگی۔ چین کی حکومت ایک طرف تو دنیا سے خام مال کی خریداری میں اضافے کے لیے سرمایہ کاری کر رہی ہے اور دوسری طرف امریکا کے سرکاری بونڈز میں سرمایہ کاری گھٹاتی جارہی ہے کیونکہ یہ بونڈز اب محفوظ سرمایہ کاری تصور نہیں کیے جاتے۔
اب تک چینیوں کی پرائیویٹ سرمایہ کاری افریقا اور لاطینی امریکا سے خام مال کے حصول کے لیے وہاں کی کانوں میں فنڈز لگانے تک محدود تھی تاہم اب آسٹریلیا سے کینیڈا تک چینی سرمایہ کار خام مال کے ساتھ ساتھ مشہور کمرشل برانڈز، ٹیکنالوجیز اور اسٹاک مارکیٹس میں بھی سرمایہ کاری کر رہے ہیں۔ چینیوں کی کوشش ہے کہ انہیں مختلف منڈیوں تک زیادہ سے زیادہ رسائی ملے۔ چین کی بہت سی کمپنیاں اب امریکا اور یورپ کی لگژری مارکیٹ میں قدم جمانے کے لیے بڑھ چڑھ کر اقدامات کر رہی ہیں۔ اٹلی کی لگژری ٹیکسٹائلز اور شراب کے کارخانوں، فرانس کے الیکٹرانکس مینوفیکچررز، جرمنی کی انجینئرنگ اور برطانیہ میں کاریں تیار کرنے والے کارخانے چینیوں کی جانب سے سرمایہ کاری کی محض چند عمدہ مثالیں ہیں۔
یہ سب کچھ بظاہر بے ضرر ہے اور محض کاروباری معاملہ دکھائی دیتا ہے تاہم برطانوی محقق رچرڈ میک گریگر نے چین کی کمیونسٹ پارٹی پر اپنی تازہ ترین کتاب میں لکھا ہے کہ چین کی ہر کمپنی کا ایک اندرونی، خفیہ ڈھانچا ہوتا ہے۔ کسی بھی چینی کمپنی کے ہاتھ کچھ بھی فروخت کرنے سے قبل ہمیں اس بات کا اطمینان کرلینا چاہیے کہ خریداری دراصل کون کر رہا ہے۔
برطانیہ کا شمار سب سے زیادہ اوپن معیشتوں میں ہوتا ہے۔ ۴۰۰ چینی کمپنیوں نے برطانیہ میں سرمایہ کاری کر رکھی ہے۔ یہ یورپ میں چینیوں کی مجموعی سرکایہ کاری کا ۴۰ فیصد ہے۔ امریکا اور یورپ میں چین کی سرمایہ کاری اب بھی نسبتاً کم ہے۔ یہ دونوں خطے کساد بازاری سے نمٹنے کی بھرپور کوشش کر رہے ہیں۔ ایسے میں رچرڈ میک گریگر کی بات خاصی مدلل معلوم ہوتی ہے کہ کیا چین کو بھی محض ایک سرمایہ کار ملک تصور کیا جائے یا دنیا کی ملکیت حاصل کرنے کی طرف گامزن ملک؟
برطانیہ کے ٹیلی کام سیکٹر میں بھی چین سرمایہ کاری بڑھانے کی کوشش کر رہا ہے۔ لندن کے انڈر گراؤنڈ اسٹیشنوں پر چین رعایتی نرخوں پر ٹیلی فون کی سہولت فراہم کرنا چاہتا ہے۔ اس پر سیاست دان بحث کر رہے ہیں۔ کچھ لوگ اس ڈیل کو مشکوک قرار دے رہے ہیں کیونکہ ان کے نزدیک چین کے کاروباری ادارے بھی سرکاری اداروں کی پالیسی اور رنگ ڈھنگ لیے ہوئے ہیں۔ ایک سبب یہ ہے کہ چین کے ٹیلی کام جائنٹ ہووائی جس کا قیام ۱۹۸۸ء میں عمل میں آیا کا بانی رین زینگ فی دراصل چین کی لبریشن آرمی کا سابق افسر ہے۔ ہووائی کا اندرونی انتظامی ڈھانچا واضح طور پر حکومت کی جانب جھکاؤ رکھتا ہے۔
(بشکریہ: روزنامہ ’’ڈان‘‘ کراچی۔ ۲۴ مئی ۲۰۱۱ء)
Leave a Reply