
سابق مشرقی پاکستان کے آخری اور بنگلہ دیش بن جانے کے بعد کے ابتدائی برسوں میں جو کچھ ہوا، اس کا کوئی درست، مکمل، آزادانہ اور منصفانہ ریکارڈ نہ محفوظ ہے، نہ آئندہ اس کا امکان ہے۔
پاکستان سے وفاداری اور تحفظِ پاکستان کے نام پر جان و مال اور عزت و آبرو قربان کرنے والے لاکھوں انسانوں کا اب نہ کوئی وارث ہے نہ ترجمان۔ بلکہ اب تو باقی ماندہ پاکستان میں بھی یہ ادائے وفاداری، جرم قرار دی جانے لگی ہے۔ بھارت کے ایجنٹوں ’’عوامی لیگ‘‘ اور (قاتلوں پر مشتمل) اس کی ’’مکتی باہنی‘‘ کی زبان پاکستان کے اخبارات میں بھی چھپنے اور نصابی کتب میں بھی جگہ پانے لگی ہے۔ جبکہ اُدھر بنگلہ دیش میں سارا سیاسی، انتظامی، دستوری، قانونی اور ابلاغی نقشہ استوار ہی یک طرفہ پروپیگنڈے پر کیا جارہا ہے۔ پاکستان کے خلاف بھارتی سازشوں اور ہمارے داخلی معاملات میں اس کی مداخلت کی مزاحمت کرنے یا اس کا آلۂ کار نہ بننے کے جرم ِ محض پر ہی افراد اور جماعتوں کو ’’غدار‘‘ قرار دے کر تختے پر کھینچ دینے کی کارروائی شروع ہو چکی ہے۔ جھوٹ پر جھوٹ، شدید مبالغہ آرائی اور پاکستان سے نفرت پر مبنی بالکل یک طرفہ تاریخ تیار کر دی گئی ہے۔
اس کے مقابل دو لاکھ سے زائد غیر بنگالی مسلمانوں اور خود بنگلہ زبان بولنے والے ہزارہا محبّانِ اسلام و پاکستان کا بے دردی سے بہایا ہوا خون بُھلا دیا گیا ہے۔ اسے تاریخ کے صفحات پر جگہ پانے سے روک دیا گیا ہے۔ گویا بقول فیض:
یہ خونِ خاک نشیناں تھا، رزقِ خاک ہوا
حُسنِ اتفاق سے پچھلے دنوں ہمارے ہاتھ “The Wastes of Time” نامی ایک کتاب آگئی۔ یہ کتاب بنگلہ زبان بولنے والے، ڈھاکا یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر سید سجاد حسین نے ڈھاکا جیل میں لکھی تھی۔ پروفیسر سید سجاد حسین مرحوم سابق مشرقی پاکستان میں راجشاہی یونیورسٹی اور بعد میں ڈھاکا یونیورسٹی کے (متحدہ پاکستان کے آخری) وائس چانسلر رہے۔ ۱۹۷۳ء میں لکھی جانے والی ان کی یہ آپ بیتی اُس ہنگامہ خیز دور کی مکمل تاریخ سے کچھ پردہ اٹھاتی ہے۔ ہم اس کتاب کے بعض ابواب کا ترجمہ اپنے پندرہ روزہ ’’معارف فیچر‘‘ میں شائع کر رہے ہیں۔ ان شاء اﷲ عنقریب یہ کتاب اردو میں بھی آپ کو دستیاب ہو گی۔ (مدیر)
اہل خانہ نے مجھے مردہ سمجھ لیا تھا۔ جب انہوں نے مجھے دیکھا تو ان کی خوشی کا تو کوئی ٹھکانہ نہ رہا۔ مگر جب مجھے رکشہ سے اتار کر گھر میں لے جایا جارہا تھا تب میری حالت ناگفتہ بہ تھی۔ میں تقریباً مکمل تباہ ہوچکا تھا۔ میرے سینے اور پیٹھ پر چھریوں کے چھ زخم لگے تھے اور ان سے خون بہہ رہا تھا۔ ٹانگوں کی حالت ایسی نہ تھی کہ میں ٹھیک سے کھڑا ہو پاتا۔ مجھے چٹائی پر لٹاکر کوئی گرم مشروب دیا گیا اور پھر مجھے کمبل میں لپیٹ دیا گیا۔ پاس پڑوس کے لوگ مجھے دیکھنے کے لیے امڈے چلے آئے۔ جو اجنبی کبھی ہمارے گھر میں داخل ہونے کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتے تھے وہ بھی اندر آگئے اور مجھے دیکھتے رہے۔
بھارتی فوجی افسران کو گزشتہ شام میرے اغوا کی خبر دی گئی تھی اور انہوں نے میری تلاش میں چند اہلکاروں کو روانہ بھی کیا تھا۔ جب انہیں معلوم ہوا کہ میں گھر واپس آگیا ہوں تو وہ مجھے دیکھنے آئے۔ مقامی اسپتال کے ڈاکٹر کو بلایا گیا۔ مگر وہ آنے میں آنا کانی کرتا رہا اور اسی وقت آیا جب اسے بتایا گیا کہ بھارتی فوجی افسر بھی آئے ہوئے ہیں۔ وہ آیا ضرور مگر اس نے ایکس رے کے بغیر میرے زخموں کی مرہم پٹی کرنے سے انکار کیا اور اس بات پر اصرار کیا کہ پہلے ایکس رے کرانا زیادہ سود مند ثابت ہوگا۔ وہ در اصل اس لیے انکار کر رہا تھا کہ وہ نہیں چاہتا تھا کہ کوئی یہ کہے کہ اس نے کسی ایسے شخص کی مرہم پٹی کی ہے جسے مکتی باہنی والوں نے زخمی کیا تھا۔ اس کی ہچکچاہٹ سے کوئی بڑا مسئلہ کھڑا نہیں ہوا کیونکہ انڈین آرمی کی میڈیکل کور سے تعلق رکھنے والا ایک ڈاکٹر بھی آچکا تھا۔ اس نے میرے زخم دھوکر مرہم پٹی کردی۔ اور پھر نصف گھنٹے کے اندر میرے لیے ایک ایمبولنس کا بھی اہتمام کیا تاکہ مجھے علاج کے لیے ڈھاکہ میڈیکل کالج ہاسپٹل لے جایا جاسکے۔ مجھے کیبن نمبر دس اور گیارہ میں رکھا گیا۔ چار بھارتی فوجیوں کو میری حفاظت پر مامور کیا گیا۔ یہ فوجی میرے ساتھ ایک ہفتہ رہے۔ اس کے بعد بابو پورہ پولیس آؤٹ پوسٹ کے ایک دستے نے ان کی جگہ فرائض سنبھالے۔ مجھے ۲۰؍ دسمبر سے ۳۰؍ جنوری تک اسپتال میں رکھا گیا اور اس کے بعد ڈھاکہ سینٹرل جیل منتقل کردیا گیا۔
میں نے اسپتال میں جو زمانہ گزارا اس میں سوائے چند ایک چھوٹی موٹی باتوںکے کوئی بڑی گڑبڑ نہیں ہوئی۔ ان میں ایک معاملہ تو کیبن نمبر دس سے کیبن نمبر انیس میں میرے تبادلے سے متعلق تھا۔ یہ تبدیلی اس لیے رونما ہوئی کہ بنگلہ دیش کے ایک وزیر خوندکر مشتاق نے بعض وجوہ کی بنیاد پر سرگرم سیاست سے عارضی ریٹائرمنٹ لینے کا فیصلہ کیا۔ مختصر نوٹس پر مجھے رات آٹھ بجے کیبن نمبر انیس میں منتقل کردیا گیا۔ میں چلنے کے قابل نہیں ہو پایا تھا اس لیے انہوں نے مجھے ایک ٹرالی میں ڈالا۔
ایک یا دو دن کے بعد چند عسکریت پسند طلبا کو جب کسی کے لیے کیبن کی ضرورت پڑی تو انہوں نے میرے گارڈز سے کہا کہ کمرہ خالی کردیں۔ اس کے بعد سے پولیس پارٹی کے سپاہی میرے کیبن کے باہر کھلی جگہ پر بیٹھ کر حفاظت کے فرائض انجام دیتے رہے۔
جب بھارتی گارڈز رخصت ہوگئے تب اس بات سے کچھ فرق نہیں پڑتا تھا کہ میری حفاظت پر کون مامور ہے اور کون نہیں۔ ان کی نگرانی سخت نہیں تھی۔ کوئی بھی واضح روک ٹوک کے بغیر میرے کیبن میں آسکتا تھا۔ جن پولیس اہلکاروں کو میری حفاظت پر مامور کیا گیا تھا وہ بیشتر اوقات غائب رہتے تھے۔ میں نے دو ایک مرتبہ احتجاج بھی کیا مگر پھر اندازہ ہوا کہ ’’دشمنوں کا ساتھ دینے والے‘‘ کی جانب سے احتجاج، خود اسی کے لیے خطرناک بھی ثابت ہوسکتا تھا! ۲۱؍ دسمبر کو ایک اخبار میں شائع ہونے والے اعلان سے مجھے معلوم ہوچکا تھا کہ مجھے ’’دشمنوں کے ساتھی‘‘ کی حیثیت میں گرفتار کیا گیا تھا۔ اس اخباری اعلان میں یہ بات شامل نہیں تھی کہ مجھ پر حملہ کیا گیا تھا اور یہ کہ میں علاج کے سلسلے میں اسپتال میں ہوں۔ اخباری اعلان پڑھنے والوں کو ایسا محسوس ہوا جیسے میں جیل میں ہوں۔
اسپتال میں پہلے ہفتے کے دوران میں شدید درد کی لپیٹ میں تھا۔ میرے کاندھوں، سینے، کمر اور پیٹھ کے آس پاس شدید درد تھا۔ میرے تلوئوں سے رہ رہ کر درد کی ٹیس سی اٹھتی تھی اور یہ حالت آج بھی برقرار ہے۔ جسم کے زیریں حصے کی حالت زیادہ خراب تھی۔ میں بائیں ٹانگ ہلا نہیں سکتا تھا اور بائیں ٹخنے سے نیچے تو حس نام کی کوئی چیز نہ تھی۔ رات کے وقت درد کی شدت میں اضافہ ہو جاتا تھا۔ پیٹھ کے بَل سونے کے لیے مجھے خاصی محنت کرنی پڑتی تھی۔ ٹانگیں اتنی بھاری ہوگئی تھیں کہ میں انہیں ہلانے سے بھی قاصر تھا اور اگر کوئی اس سلسلے میں میری مدد بھی کرتا تھا تو جسم کے زیریں حصے میں درد ناقابل برداشت ہو جاتا تھا۔
میرے سینے پر چار اور پیٹھ پر دو زخم تھے۔ خوش قسمتی سے یہ زخم گہرے نہیں تھے اور ایک ہفتے میں مندمل ہوگئے۔ حملے کے دوران بچنے کی کوشش میں بایاں گھٹنا کچھ اس طرح مُڑا تھا کہ فریکچر نہ ہونے کے باوجود میں کھڑا نہیں ہوسکتا تھا۔ زیادہ اذیت کا سامنا اندرونی چوٹوں کے باعث تھا۔ ایسے میں پیشاب کرنا بھی ایک اذیت ناک مرحلے سے گزرنے کے مترادف تھا۔ کبھی کبھی تکلیف اس قدر بڑھ جاتی تھی کہ میں اللہ سے موت کا طلبگار ہونے لگتا تھا۔
تین ہفتوں کے بعد میں اس قابل ہوسکا کہ کچھ دیر کے لیے اپنے پیروں پر کھڑا ہوسکوں۔ جس طرح بچے چلنا سیکھتے ہیں بالکل اسی طرح میں نے خود کو چلنا سکھایا، ابتدا میں اپنے طور پر اور بعد میں دوسروں کی مدد سے۔ صحیح طریقے سے کھڑا ہوکر چلنا میرے لیے ممکن نہیں ہو پا رہا تھا۔ تب کی کمزوری اب بھی پائی جاتی ہے۔ باقاعدہ مشق کرنے سے اپنے چھوٹے سے کیبن کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک جانے کے قابل ہو پایا۔ تین ہفتوںکے بعد میں کسی کی مدد کے بغیر باتھ روم تک جانے کے قابل ہوا۔
بہت سے نوجوان، جن میں سے بیشتر کا تعلق مکتی باہنی سے تھا، وقتاً فوقتاً میرے کیبن میں آدھمکتے تھے۔ یہ بھی ایک بڑا مسئلہ تھا۔ وہ گارڈز کو دھکیل کر میری طرف آتے، مجھ پر ایک نظر ڈالتے اور چلے جاتے۔ یہ بات تو واضح تھی کہ وہ اپنے ان ساتھیوں سے کچھ خوش نہیں تھے جو مجھے ختم کرنے میں ناکام رہے تھے۔ خطرہ یہ تھا کہ کہیں ان میں سے کوئی ادھورے کام کو مکمل کرنے پر نہ تُل جائے! میرے لیے لازم تھا کہ کیبن کا دروازہ بیشتر اوقات بند ہی رکھوں۔
میری اہلیہ اور بچے روزانہ سہ پہر کے وقت مجھ سے ملنے آتے تھے۔ چند رشتہ دار، یونیورسٹی کے ایک ساتھی ڈاکٹر عزیزالحق اور اسلامیہ کالج، کلکتہ کے زمانے کے ایک شناسا سعید الرحمٰن بھی مجھ سے ملنے آیا کرتے تھے۔ میں نے محسوس کیا کہ میرے بیشتر رشتہ دار میری عیادت کے لیے آتے ہوئے خوفزدہ رہتے تھے۔
میں کیبن نمبر دس ہی میں تھا کہ ایک دن گھنے بالوں والا ایک نوجوان آیا اور میرے پیر چھولیے۔ اس نے تعارف کراتے ہوئے بتایا کہ وہ میرا شاگرد تھا۔ میں اب اس کا نام بھول گیا ہوں۔ اس نے بتایا کہ خانہ جنگی کے دوران اسے حکم دیا گیا تھا کہ مجھے ختم کردے۔ اس نے میرے گھر کے آس پاس کے ماحول کا جائزہ بھی لیا تھا مگر بعد میں ارادہ بدل دیا۔ وہ خاصا شائستہ مگر مضبوط ارادے کا مالک دکھائی دیتا تھا۔ اس نے بتایا کہ ان تمام لوگوں کو ختم کرنے کا منصوبہ تیار کیا گیا تھا جنہوں نے ۲۳ سال کے دوران مغربی پاکستان سے کسی بھی سطح پر تعاون کیا تھا۔ میں نے اس سے بحث کرنا مناسب نہیں سمجھا تاہم اتنا ضرور کہا کہ اپنے پروگرام پر عمل کرنا ان کے لیے آسان نہیں۔ اس پر وہ بولا ’’خانہ جنگی میں ۲۰ ہزار سے زائد افراد مارے گئے ہیں۔ یہ سب مکتی باہنی کے ارکان تھے۔ ہم ’غداروں‘ کے ساتھ نہیں جی سکتے۔‘‘
مجھ سے ملنے آنے والوں میں ایک نوجوان ایسا بھی تھا جس کی آمد پر مجھے اپنے جسم میں خوف کی لہر محسوس ہوئی۔ اس کی آنکھوں میں خون اترا ہوا محسوس ہوتا تھا، جیسا کہ جنونی قاتلوں کی آنکھوں کو دیکھ کر محسوس ہوتا ہے! ایک بار وہ چند خواتین کے ساتھ آیا اور جب میں نے پوچھا کہ خواتین کون ہیں تو اس نے کہا ’’یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اس ملک کو آزادی دلائی ہے۔‘‘
۱۶؍ دسمبر ۱۹۷۱ء کو جو کچھ ہوا اس کے بارے میں اس وقت بھی تمام نوجوانوں کے خیالات یکساں نہیں تھے۔ دسمبر کے آخر میں ایک شرمیلا سا نوجوان مجھ سے ملنے آیا۔ اس کی عمر سترہ سال ہوگی۔ وہ انگریزی ادب پڑھنے کا خواہش مند تھا تاہم اب اس کا خیال یہ تھا کہ اس سے کچھ بھی حاصل نہ ہوگا۔ وہ کہہ رہا تھا ’’ہم اپنی آزادی سے محروم ہوگئے ہیں۔‘‘ جب میں نے آزمانے کے لیے اسے دوسرے بہت سے نوجوانوں کے خیالات کے بارے میں بتایا تو وہ بولا ’’چاروں طرف بھارتی فوجیوں کی موجودگی میں، پاکستانی فوج کی جانب سے ہتھیار ڈالنے سے بھی بنگلہ دیش کو آزادی نہیں ملی۔ ہم نے اپنے قومی وجود کو غلامی کے گڑھے میں دھکیل دیا ہے۔‘‘
یہ نوجوان اس دور کے نوجوانوں کی عمومی سوچ سے متصادم خیالات رکھتا تھا۔ بھارتی پروپیگنڈا اس قدر مستحکم تھا کہ میرے بعض رشتہ داروں کے ذہن بھی زہر آلود ہوگئے تھے۔ ان کے لیے میری زندگی کھلی کتاب کی مانند تھی۔ میں رات دن ان سے رابطے میں تھا مگر اس کے باوجود انہوں نے میرے بارے میں بیان کی جانے والی باتیں بڑی سادگی سے قبول کرلیں۔ ایک دن میرے ایک کزن کا بیٹا میرے پاس آیا اور بتایا کہ کس طرح میری رضامندی سے آرمی کو لڑکیاں فراہم کی جاتی تھیں! اس نے کہا کہ وہ اس کہانی پر یقین کرنے کے لیے تیار نہیں، تاہم اس کے لہجے سے اندازہ ہوتا تھا کہ وہ اس بات کو مکمل طور پر بے بنیاد قرار دینے کے لیے بھی ذہنی طور پر آمادہ نہیں! میں اس کی سادہ لوحی پر صرف حیرت کا اظہار کرسکتا تھا۔ اس نے یونیورسٹی میں معاشیات پڑھی تھی اور اعداد و شمار کی مدد سے بتایا کہ کس طرح مغربی پاکستان کے سرمایہ دار مشرقی پاکستان کا شدید استحصال کرتے تھے۔ اس کا کہنا تھا ’’جو مظالم ڈھائے جاتے رہے ہیں ان کا آپ اور میرے والد جیسے لوگوں کو یقین دلانے کے لیے خانہ جنگی تک کرنی پڑی ہے۔ اب جبکہ مغربی پاکستان کا طوق گلے سے اتار پھینکا گیا ہے، آپ لوگ دیکھیں گے کہ بنگلہ دیش کس تیزی سے ترقی اور استحکام کی منازل طے کرتا ہے۔‘‘ میں نے اسے بتایا کہ ملک جس بحران سے گزر رہا ہے اس کا جلد از جلد خاتمہ ہی قوم کے حق میں بہتر ہے تاہم میں اس کی کھوکلی رجائیت کا ساتھ نہیں دے سکتا۔ اُسے یہ دیکھ کر بہت دکھ ہوا کہ جس اذیت سے میں دوچار ہوں اس نے بھی میرے خیالات اور عقائد کو متزلزل نہیں کیا!
متحدہ پاکستان پر یقین رکھنے والوں پر مظالم اور ان کے قتل سے متعلق خبریں مجھ تک پہنچتی رہیں۔ مہنگائی غیر معمولی حد تک بڑھ گئی تھی۔ اندھا دھند گرفتاریاں کی گئیں اور قانون نام کی چیز ناپید سی ہوکر رہ گئی۔ ہم جیسے چند لوگوں کے سوا حالات کی خرابی سے کوئی بھی بدگمان اور مایوس نہ تھا۔ سب کا خیال یہ تھا کہ بنگلہ دیش جن حالات سے دوچار ہے اور جو طویل خانہ جنگی ہوئی ہے اس کے باعث کچھ مدت کے لیے نراجیت تو پھیلتی ہی ہے۔ اور یہ کہ رفتہ رفتہ سب کچھ خود بخود درست ہو جائے گا۔ خانہ جنگی کی اصطلاح کم کم ہی استعمال ہوتی تھی۔ ۱۹۷۱ء کے مارچ سے دسمبر تک جو کچھ ہوا اسے آزادی کی جنگ قرار دیا جاتا رہا۔ پاکستانی فوج کو قابض فوج قرار دیا گیا اور جو سیدھے سادے نوجوان اس کے خلاف لڑے انہیں آزادی کے سپاہی کہا گیا۔ عوامی لیگ کے جو حمایتی خانہ جنگی کے دوران کم کم منظر عام پر آئے تھے اب بڑی تعداد میں گھروں سے نکلے، پاکستانی فوج سے لڑنے والوں کا استقبال کیا اور مرنے والوں کو شہید قرار دے کر ان کی یادگاریں تعمیر کرنے میں مصروف ہوگئے۔ مارچ سے دسمبر تک جو نوجوان بھی مارا گیا وہ خواہ کسی بھی پس منظر کا حامل رہا ہو، خواہ اس کا مجرمانہ ریکارڈ بھی موجود ہو، ذاتی کردار چاہے کچھ بھی ہو، اگر اس کا تعلق کسی بھی مرحلے پر پاکستانی فوج کے خلاف جاری لڑائی سے رہا ہو تو یہی بات اُسے شہید قرار دینے کے لیے کافی تھی۔ اور اہل وطن کا فرض تھا کہ اسے ہمیشہ یاد رکھیں۔ یہ سب بہت عجیب تھا۔ مگر جس سرزمین پر جنون کی حکومت قائم ہوچکی تھی وہاں کون تھا جو ہوش اور عقلِ سلیم کی بات کرتا؟
قوم کی جانب سے مرنے والوں سے تشکر کے اظہار کا ایک سستا (آسان) اور مقبول طریقہ یہ تھا کہ سڑکوں، پارکوں، اسکولوں، کالجوں اور دیگر اداروں کو ان سے موسوم کردیا جائے۔ اس معاملے میں عقلِ سلیم سے کام لینے یا روایت کا احترام کرنے کی ذرا سی بھی زحمت گوارا نہیں کی گئی۔ جناح، اقبال اور ایوب خان جیسے نام نئی نسل کے لیے زہر کا درجہ رکھتے تھے اس لیے ان ناموں سے چھٹکارا پانے میں تاخیر نہیں کی گئی۔ ڈھاکہ یونیورسٹی کے طلبا اس معاملے میں سب پر بازی لے گئے۔ جناح ہال اور اقبال ہال کو سارجنٹ ظہورالحق اور سوریہ سین سے موسوم کیا گیا۔ سارجنٹ ظہورالحق نوجوان تھا اور اگرتلہ سازش کیس میں گرفتار ہونے کے بعد سماعت کے دوران ہلاک کردیا گیا تھا۔ سوریہ سین وہ دہشت گرد تھا جس نے ۱۹۳۰ء کے عشرے میں چاٹگام کی آرمری پر حملے کی منصوبہ بندی کی تھی۔ اس کا نام نوجوانوں میں جوش پیدا کرنے کے لیے استعمال کیا گیا۔ سب سے زیادہ تکلیف دہ بات یہ تھی کہ لفظ اسلام اور اس سے مشتق دیگر الفاظ سے بھی گلوخلاصی کی کوشش کی گئی۔ اسلامک انٹرمیڈیٹ کالج کو (جس سے وہ ہائی مدرسہ بھی ملحق تھا جس میں مجھے تعلیم حاصل کرنے کا موقع ملا تھا) راتوں رات ’’کَوِی نذرل کالج‘‘ میں تبدیل کردیا گیا۔ ایک عظیم ادبی شخصیت (قاضی نذرالاسلام) کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے ایک ایسے تعلیمی ادارے کا انتخاب کیا گیا جس کے نام میں اسلام بھی تھا اور مدرسہ بھی۔ ایمانی سوچ رکھنے والوں کے لیے یہ سب کس قدر سوہانِ روح رہا ہوگا، اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔ یہ نئی اشرافیہ کی ثقافت کی پستی کا آئینہ دار تھا۔
اداروں کے نام تبدیل کرنے سے متعلق اعلانات روزانہ کیے جاتے تھے۔ میں جب اس قسم کی خبریں پڑھتا تو بہت دکھ ہوتا تھا۔ ایک تو اس بات پر کہ روایات کا احترام نہیں کیا جا رہا تھا اور دوسرے یہ کہ غیر معمولی عجلت کا مظاہرہ کیا جا رہا تھا۔ یہ سوچ کس قدر احمقانہ تھی کہ چند نام تبدیل کرنے سے لوگوں کے جذبے اور روح کو تبدیل کیا جاسکے گا!
یہ بات قابل غور تھی کہ کہیں بھی ہندو اور عیسائی نام تبدیل نہیں کیے جارہے تھے۔ ناٹرے ڈیم کالج، سینٹ گریگوریز اسکول اور رام کرشنا کے نام سے قائم تعلیمی اداروں کو فرقہ واریت کی ہوا بھی نہیں لگنے دی گئی۔ اسلام کے خلاف امتیاز اس حد تک برتا گیا کہ بعد میں اس پر خود عوامی لیگ کے حلقوں نے احتجاج کیا!
مشکل وقت میں میرے خاندان کے لوگ میرے ساتھ رہے اور ان کے خیالات میں کوئی بدگمانی پیدا نہیں ہوئی۔ ان کے علاوہ جن چند لوگوں نے غیر معمولی حد تک میرا ساتھ دیا ان میں ہماری ایک سابق گھریلو ملازمہ کا بیٹا مختار بھی تھا۔ مختار کو میں بچپن ہی سے جانتا تھا۔ میں نے اس بات پر توجہ دی کہ وہ کچھ بن جائے، کچھ کر دکھائے۔ جب وہ بیس اکیس سال کا ہوا تو میں نے اسے راج شاہی یونیورسٹی میں نوکری دلادی۔ جب اُسے معلوم ہوا کہ مجھ پر حملہ ہوا ہے تو وہ دوڑا چلا آیا اور نوکری کی پروا کیے بغیر ایک ماہ تک میرے پاس رہا اور میرا پورا خیال رکھا۔ یہ سب میری توقع سے کہیں بڑھ کر تھا۔ مختار مضبوط جسم کا مالک تھا۔ اس کے مضبوط کاندھوں ہی کا سہارا لیکر میں نے دوبارہ چلنے کی مشق کی۔
میری اہلیہ اور بچے روزانہ ملنے آتے تھے۔ یہ میرے لیے بڑی حوصلہ افزا بات تھی۔ ہم نے ایک دوسرے کو نئے سرے سے دریافت کیا۔ ایسا نہیں تھا کہ بچے صرف رسمی طور پر ملنے آتے تھے یا ان کا فرض تھا کہ وہ آتے رہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ میری عیادت کو آنا ان کی جانب سے بھرپور محبت کا مظہر تھا۔ اس حوالے سے اپنے جذبات کا اظہار کرنے کے لیے میرے پاس موزوں ترین الفاظ نہیں۔ میں اس سے زیادہ کیا کہہ سکتا ہوں کہ ان کا آنا میرے اعصاب، روح اور قلب کو سکون کی دولت فراہم کرتا تھا۔ ان کی آمد سے مجھ میں ایسے جذبات بیدار ہو جاتے تھے جو کبھی کبھی میرے لیے اذیت کا باعث بھی بن جایا کرتے تھے۔ میں یہ محسوس کرتا تھا کہ اس قدر محبت کے قابل ہونے کے لیے جو کچھ مجھے کرنا چاہیے تھا وہ میں نے نہیں کیا تھا۔ میں نے ماضی میں بارہا نمایاں خود غرضی کا مظاہرہ کیا تھا اور ان پر زیادہ خرچ کرنے کے بجائے اپنی ذات پر زیادہ خرچ کیا تھا۔ میں ان لوگوں میں سے نہیں ہوں جو دکھاوا کرتے ہیں۔ مگر مجھے یقین ہے کہ جو لوگ دکھاوے پر یقین نہیں رکھتے وہ بھی مجھ سے کہیں زیادہ اپنے اہل خانہ پر خرچ کرتے ہوں گے۔ میرے اہل خانہ اپنے کام سے کام رکھتے تھے۔ وہ دوسروں سے زیادہ ملتے جلتے نہیں تھے۔ اس کا سبب تکبر نہیں تھا۔ ہم میں ایسا کیا تھا کہ تکبر کرتے؟ بات یہ ہے کہ ہمارے ارد گرد دنیا تیزی سے تبدیل ہو رہی تھی اور اس تبدیلی سے ہم آہنگ ہونا ہمارے بس کی بات نہ تھی۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اب میری اہلیہ اور ہماری بیٹیاں ایسے پودوں کی طرح تھیں جن کی نگہداشت عمدگی سے کی گئی ہو اور اب باہر کا ماحول ان کے لیے پریشان کن ثابت ہو رہا ہو۔ میں یہ سوچ کر پریشان ہو اٹھتا تھا کہ وہ ایسے ماحول میں کس طرح اپنی بقا کا اہتمام کر پائیں گی؟ زندگی کے سانچے میں انہیں اب کس نوعیت کی تطبیقِ نو کرنی پڑے گی۔ معاشرے کا تصنع ان کے لیے حیران کن تھا۔ اس دور میں ڈھنگ سے جینے کے لیے انسان کو جو چالاکی اور بازی گری درکار تھی اس سے یہ ناواقف تھیں۔ ان تمام امور کے بارے میں سوچ سوچ کر میں پریشان ہوتا رہتا تھا۔
ایک بزرگ رشتہ دار نے مجھے بتایا کہ پاکستان سے شیخ مجیب الرحمٰن کی واپسی پر شاید مجھے معافی دے دی جائے۔ شیخ مجیب اس وقت تک پاکستان میں قید تھے۔ یہ جنوری ۱۹۷۲ء کے پہلے ہفتے کی بات ہے۔ میرے بزرگ رشتے دار کمزور دل کے مالک تھے۔ میری حالت دیکھ کر وہ رو پڑے اور اپنے آنسو چھپانے کی کوشش بھی نہیں کی۔ میں بہت متاثر ہوا۔ مگر یہی وہ صاحب تھے جو میری گرفتاری یا حراست کے خلاف ہائی کورٹ میں دائر کی جانے والی درخواست پر گواہ کی حیثیت سے دستخط کرنے سے کئی ماہ تک انکار کرتے رہے! ہے نا حیرت کی بات! کیا جنوری کے اوائل میں انہوں نے جو اشک بہائے وہ اخلاص کا مظہر نہ تھے؟ میں کبھی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ میرے وہ بزرگ رشتہ دار اتنے اچھے اداکار ہوں گے! مگر خیر زندگی ان حیرت انگیز باتوں اور تضادات سے بھری پڑی ہے۔
نو زائیدہ بنگلہ دیش کے لیے شیخ مجیب الرحمٰن بابائے قوم تھے۔ انہیں راولپنڈی جیل سے ۹؍ جنوری ۱۹۷۲ء کو رہا کیا گیا اور اگلے ہی دن وہ لندن سے ہوتے ہوئے ڈھاکہ پہنچ گئے۔ رائل ایئر فورس کا طیارہ جب انہیں لے کر ڈھاکہ کے تیج گاؤں ایئر پورٹ پر اترا تو ان کا فقید المثال استقبال کیا گیا۔ پریس کا اندازہ تھا کہ ان کے استقبال کے لیے ایئر پورٹ پر پانچ لاکھ سے زائد افراد جمع ہوئے تھے۔ ایئر پورٹ سے وہ رمنا ریس کورس گراؤنڈ گئے جہاں ہزاروں افراد انہیں سننے کے لیے بے تاب تھے۔ میں نے اپنے کیبن میں ایک چھوٹے ریڈیو سیٹ کی مدد سے ان کی تقریر اور جلسے کا احوال سنا۔ لوگ نئی نئی آزادی کے نشے میں چُور تھے۔ ریڈیو پر ان کی آوازیں ان کے جذبات کا پتہ دے رہی تھیں۔ مشکل حالات کو شکست دے کر حتمی فتح پانے کی خوشی ہر شے سے جھلک رہی تھی۔
میں نے ریڈیو سے کان نہیں ہٹائے تاکہ شیخ مجیب الرحمٰن کی تقریر کا کوئی بھی لفظ سننے سے رہ نہ جاؤں۔ اس تقریر کو سن کر مجھے اندازہ ہوا کہ آنے والے دنوں میں حالات کیا رُخ اختیار کریں گے۔ یہ تقریر ایک ایسے لیڈر کی تھی جس نے اپنے دھڑے کو کامیابی سے ہمکنار کیا تھا اور اب مخالفین کو سبق سکھانے کے لیے بے تاب تھا۔ مخالفین کو عام معافی دیئے جانے کے بارے میں اس تقریر میں ایک بھی لفظ نہ تھا۔ اس کے بجائے انہوں نے پاکستان میں اپنے مقدمے کی سماعت کے دوران گواہ کی حیثیت سے سامنے آنے والوں کا ذکر کیا۔ وہ عام معافی کے موڈ میں نہ تھے۔ جو ہوا اسے بھلاکر ملک کی تعمیر نو کے بارے میں سوچنے کے رجحان کو پروان چڑھانے پر دھیان نہیں دیا جارہا تھا۔ شیخ مجیب الرحمٰن نے پاکستانی فوج کے بارے میں دل کے پھپھولے پھوڑے اور یہ کوئی حیرت انگیز بات نہ تھی۔ میں نے اپنے آپ سے یہ سوال کیا کہ شیخ مجیب الرحمٰن نے وفاق پسندوں اور علیحدگی پسندوں کے درمیان خانہ جنگی میں فتح حاصل تو کرلی مگر ان کے اندر وہ لیڈر کہاں ہے جو ماضی میں ان کے کردار کے علی الرغم نئے ملک کی تعمیر و ترقی کے لیے درکار ہے؟ ملک اور قوم نے انہیں ایک دھڑے کے سربراہ سے بلند کرکے قوم کا لیڈر بنا دیا تھا مگر وہ موقع کی مناسبت سے اپنا قد بلند کرنے میں ناکام رہے۔ انہوں نے مکتی باہنی کے چھاپہ ماروں سے ہتھیار پھینکنے کی اپیل کی مگر ساتھ ہی انہیں یقین بھی دلایا کہ دشمنوں کا صفایا کرنے کی ذمہ داری باضابطہ فورسز کے حوالے کی جائے گی۔ اس سے صاف ظاہر ہوتا تھا کہ جنہیں ملک و قوم کا دشمن سمجھا جاتا رہا ہے اُنہیں عام معافی نہیں دی جائے گی اور قومی سطح پر مصالحت اور مفاہت کے ایجنڈے کو آگے نہیں بڑھایا جائے گا۔ تقریر میں شیخ مجیب الرحمٰن نے پاکستان میں اپنے خلاف مقدمے کا حوالہ دیکر یہ اشارہ دے دیا تھا کہ عوامی لیگ اور خود ان کے خلاف جانے والوں کو معاف نہیں کیا جائے گا، کم لوگ ہی بچ پائیں گے اور بعد کے حالات سے ثابت کیا کہ کم ہی لوگ بچ پائے۔ ہزاروں افراد کو گرفتار کرکے ان پر جنگ آزادی کی راہ میں روڑے اٹکانے کے بے بنیاد الزامات عائد کیے گئے۔ جنوری میں نافذ کیے جانے والے ’’کولیبوریٹر آرڈر‘‘ کے تحت پولیس کو کسی بھی شخص کو کسی بھی الزام میں گرفتار کرنے کا اختیار مل گیا۔ کسی بھی شخص کو گرفتار کرنے کے لیے بس اتنا کافی تھا کہ اس کے بارے میں افواہ ہی کے طور پر یہ مشہور کردیا جائے کہ وہ جنگ آزادی کا مخالف اور پاکستانی فوج کا حامی تھا۔ سزائیں فوری طور پر دی جانے لگیں۔ وہ بڑے خوش قسمت تھے جنہیں ڈھاکہ جیل میں ڈال دیا گیا۔ بہت سوں کو گرفتاری کے فوراً بعد کوئی مقدمہ چلائے بغیر موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ کئی ایسے بھی تھے جنہیں مشعل ہجوم نے مار ڈالا۔
اگر کوئی یہ سمجھ رہا ہے کہ میں غلط بیانی سے کام لے رہا ہوں تو بتاتا چلوں کہ شیخ مجیب الرحمٰن نے اپنی تقریر میں یہ بھی کہا کہ ’’سونار بنگلہ‘‘ کی تعمیر و ترقی کے کام میں مصروف ہو جانے کی بھی ضرورت ہے۔ یہ گویا انتباہ تھا کہ مزید خون خرابہ ملک کے لیے تباہی لائے گا۔ مگر یہ بات کرتے وقت شیخ مجیب الرحمٰن نے بظاہر ان لوگوں کو اپنے ذہن سے نکال دیا جو ان کی مخالفت کرتے رہے تھے۔ میں مبالغہ آرائی سے کام لے رہا ہوں یا معاملات کی ذہنی تصویر پیش کر رہا ہوں؟ جب انہوں نے اپنے خلاف مقدمے کا ذکر کیا تو واضح اور دو ٹوک انداز سے جتا دیا کہ جن لوگوں نے عوامی لیگ کی مخالفت کی وہ ایک الگ طبقہ تصور کیے جائیں گے۔ بعد کی قانون سازی، گرفتاریوں اور مخالفین کو موت کے گھاٹ اتارنے کے واقعات نے ثابت کیا کہ میرے ذہن میں ابھرنے والے خدشات کسی طور بے بنیاد نہ تھے۔
دسمبر ۱۹۷۱ء میں جو کچھ ہوا اس کی روشنی میں جب میں مستقبل کے بارے میں سوچتا تھا تو لرز کر رہ جاتا تھا۔ یہ بات واضح تھی کہ (مکتی باہنی کے) چھاپہ ماروں کی پیاس ابھی پوری طرح بجھی نہیں تھی۔ ملک کے ساتھ ساتھ میں اپنے لیے بھی بہت پریشان تھا۔ میرے اغوا کے دو ایک دن بعد رات کے دو بجے میرے گھر پر چھاپہ ماروں کے ایک گروہ نے پھر حملہ کیا تھا۔ مجھے اس کی تفصیلات نہیں بتائی گئیں مگر جو کچھ بتایا گیا ہے اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ چھاپہ ماروں نے میری بیوی کو فون کرکے کہا کہ انہیں یہ معلوم ہے کہ ہم لوگوں نے کچھ اور مخالفین کو چھپا رکھا ہے۔ بچے بہت خوفزدہ تھے۔ گینگ کے آنے سے قبل ہی بچوں کو پڑوسیوں کے ہاں بھیج دیا گیا۔ مجھے بتایا گیا کہ میری بیوی نے ان کا غصہ ٹھنڈا کرنے کے لیے انہیں رشوت دی۔ کتنی رقم دی گئی، یہ مجھے اب تک نہیں بتایا گیا۔
ایک پولیس پارٹی نے میرے کزن، سیاست دان اور مصنف قمرالاحسان کو گرفتار کرنے کے لیے میرے گھر پر چھاپہ مارا۔ وہ ہمارے ساتھ ہی رہتے تھے۔ انہوں نے پولیس کی آمد پر خود کو ایک چھوٹے سے اسٹور میں بند کرلیا جس میں کاٹھ کباڑ بھرا ہوا تھا۔ پولیس نے پورا گھر چھان مارا، سب الٹ پلٹ دیا۔
میرے ایک کزن منظور الاحسان کی گرفتاری کے لیے بھی پولیس نے چھاپہ مارا۔ وہ نظامِ اسلام پارٹی کے رکن تھے۔ منظور الاحسان روپوش ہوگئے تھے اس لیے پولیس نے ان کے بڑے بھائی ایس فخر الاحسان کو گرفتار کرلیا۔ ان کی عمر ساٹھ سال تھی۔ وہ وکیل تھے اور انہوں نے کبھی سیاست میں حصہ نہیں لیا تھا۔ میری گرفتاری کے بعد وہ اور ان کے اہل خانہ قانون کے ساتھ تھے اور میرے اہل خانہ کے معاملے میں انہوں نے واضح مخاصمانہ رویہ اختیار کر رکھا تھا۔ خانہ جنگی کے دوران کس طرح لوگ رشتوں کی پہچان بھی بھول گئے، یہ اس کی ایک اور نمایاں مثال ہے۔ یہ تمام افراد میرے کزن اور میری اہلیہ کے بھائی تھے۔
فخر الاحسان کو میری کار میں پولیس اسٹیشن لے جایا گیا تھا۔ یہ کار میرے استعمال میں تھی، بس پولیس کے لیے اسے ضبط کرنے کے سلسلے میں اتنا ہی کافی تھا۔ میری اہلیہ نے نصف درجن درخواستیں دیں تب ڈیڑھ دو مہینے بعد یہ کار واپس ملی۔ یہ بھی مقدر کی بات تھی کہ یہ کار میری اہلیہ کے نام پر خریدی اور رجسٹر کی گئی تھی۔
قمر الاحسان کی گرفتاری کے بعد کوئی بھی ایسا شخص نہ رہا جو مشکل گھڑی میں میرے اہل خانہ کے کام آسکتا یا میری اہلیہ مدد حاصل کرنے یا مشاورت کے لیے جس کے پاس جاسکتیں۔ ہم کس قدر خطرناک اور غیر دوستانہ ماحول میں جی رہے تھے اس کا اندازہ پریس میں شائع ہونے والی خبروں سے بھی لگایا جاسکتا تھا۔ ۱۰؍ جنوری کو شیخ مجیب الرحمٰن بنگلہ دیش آئے اور اسی دن ایک مشہور اور با اثر بنگالی اخبار ’’دینِک بنگلہ‘‘ نے یہ خبر شائع کی کہ میں نے ۱۹۷۱ء میں یورپ کے دورے کے لیے پیسے وصول کیے تھے۔ ثابت صرف یہ کرنا تھا کہ میرا تعلق ’غداروں‘ سے ہے۔ اخبار نے اس سلسلے میں ایک دستاویز کو بھی غلط انداز سے پیش کیا تھا۔ میڈیکل کے چند طلباء نے اس خبر کی بنیاد پر میرا مذاق اڑایا۔ اس نوعیت کی خبروں سے اسپتال میں میرے لیے ماحول مزید خراب ہوگیا۔ کبھی کبھی نوجوان ٹولی کی شکل میں میرے کیبن کے آس پاس منڈلاتے اور مجھے دھمکیاں دیتے۔ ایک دن میری حفاظت پر مامور پولیس افسر نے بتایا ’’ایک دن ایک شخص نے، جو نشے میں چُور دکھائی دے رہا تھا، میری رائفل چھیننے کی کوشش کی۔ وہ کیبن میں آپ کو اور آپ کے بچوں کو ختم کرنا چاہتا تھا۔‘‘
☼☼☼
Leave a Reply