
امریکی صدارتی انتخاب ۲۰۱۶ نے ایک عجیب و غریب حقیقت کو پھر نمایاں کرکے پیش کردیا۔ بہت سے ماہرین نے انتخابی مہم کے دوران ایک اہم نکتہ فراموش یا نظر انداز کردیا۔ سب کا یہ خیال تھا کہ امریکا میں معاشی معاملات اچھے چل رہے ہیں۔ لوگوں کو روزگار بھی مل رہا ہے اور بہت حد تک خوش حالی بھی ہے۔ صارفین میں بھرپور اعتماد بھی پایا جاتا ہے۔ معیارِ زندگی اگرچہ مطلوبہ حد یا معیار تک بلند نہیں تاہم اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ لوگوں کو بہت حد تک وہ سب کچھ ملتا دکھائی دے رہا ہے جو انہیں درکار ہے۔ ایک اہم نکتہ البتہ نظر انداز کردیا گیا۔ امریکا میں ایسے لوگوں کی کمی نہیں جو اپنے چاروں طرف بھرپور ترقی اور خوشحالی دیکھ کر اپنی تمنّاؤں اور امیدوں کا جائزہ لیتے ہیں تو محسوس کرتے ہیں کہ وہ پیچھے رہ گئے ہیں۔ پیچھے رہ جانے کا احساس رکھنے والوں کے جذبات کی لہر پر سوار ہوکر ڈونلڈ ٹرمپ امریکی ایوان صدر تک پہنچ گئے۔
ہم نے پاکستان کے دیہی علاقوں میں ۱۵۰۰؍افراد سے ملاقات کی اور ان سے ان کے مسائل، ترجیحات، مقاصد اور توقعات معلوم کیں۔ جو کچھ انہوں نے کہا ہے وہ ہم نے ایک سروے کی شکل میں پیش کیا ہے۔ اس سروے کے مطابق دیہی پاکستان سے تعلق رکھنے والے ان ۱۵۰۰؍افراد کو تین واضح گروہوں میں بانٹا جاسکتا ہے۔ پہلا گروہ ان لوگوں کا ہے جو زندگی کی دوڑ میں پیچھے رہ گئے ہیں اور انہیں بظاہر کچھ زیادہ درکار بھی نہیں مگر انہیں اس بات کا یقین ہے کہ مستقبل بعید میں ملک ضرور ترقی کرے گا اور افلاس کا گراف گرے گا۔ دوسرا گروہ ان لوگوں کا ہے جو قومی معیشت کی تیز رفتار ترقی اور خوشحالی کے معترف ہیں اور انہیں امید ہے کہ ملک آگے جائے گا۔ اور تیسرا گروہ ان لوگوں کا ہے جو یہ تو مانتے ہیں کہ قومی معیشت تیزی سے ترقی کر رہی ہے، ملک میں عمومی طور پر خوشحالی پائی جاتی ہے، مگر ساتھ ہی ساتھ ان لوگوں کو یہ بھی محسوس ہوتا ہے کہ ان کی اپنی توقعات بارآور ثابت نہیں ہوئیں۔ یعنی انہیں یہ غم ستاتا رہتا ہے کہ ملک تو ترقی کر رہا ہے مگر ان کی زندگی میں کوئی بڑی مثبت تبدیلی رونما نہیں ہوئی۔ یہی وہ لوگ ہیں جو حکومت کے حوالے سے شدید بیزاری کا اظہار کرتے ہیں۔
ایک بہت بڑا مخمصہ یہ ہے کہ لوگ اگر ماحول میں بھاگ دوڑ دیکھ رہے ہوں اور قومی معیشت کی تیز رفتاری بھی محسوس کرلیں تو وہ اپنے مقاصد اور توقعات کا بھی جائزہ لیتے ہیں اور جب انہیں یہ محسوس ہوتا ہے کہ معاشرے کی مجموعی ترقی سے انہیں کچھ نہیں مل پارہا تو حکومت یا قیادت سے بیزاری محسوس ہوتی ہے اور اس کا اظہار انتخابات میں ہوتا ہے۔ کلاسیکی علم الاقتصاد کا یہ اصول یکسر غلط ثابت ہوچکا ہے کہ حکومت کی کارکردگی اچھی ہو تو لوگ نوازتے ہیں یعنی برسراقتدار پارٹی کو تسلسل سے ہمکنار رکھتے ہیں اور یہ کہ اگر کسی سیاسی جماعت کی بنائی ہوئی حکومت خراب کارکردگی کا مظاہرہ کرے تو لوگ اس جماعت کو دوبارہ اقتدار سونپنے سے گریز کرتے ہیں۔
سیاسیات کے معروف فرانسیسی ماہر الیگزز ڈی ٹیکوِل نے کہا تھا کہ معاشرے میں بھرپور ترقی دکھائی دے رہی ہو تو لوگ اپنی آرزوؤں اور امیدوں کا جائزہ لیتے ہیں۔ اگر معاشرے کی مجموعی ترقی سے انہیں کچھ زیادہ حاصل نہ ہو رہا ہو تو انہیں محسوس ہوتا ہے کہ یہ سب کچھ ان کے کسی کام کا نہیں۔ جب افلاس پھیلا ہوا ہو تب بھی لوگ اپنے ماحول کی ترقی اور اپنی خواہشات کا موازنہ کرتے ہیں۔ یہ صورتِ حال زیادہ خطرناک نہیں ہوتی۔ جب پورا معاشرہ مجموعی طور پر خوشحالی کی راہ پر گامزن ہو اور ایک خاص طبقہ محروم رہ جائے اور اس محرومی کو شدت سے محسوس بھی کرے تو زیادہ خرابیاں پیدا ہوتی ہیں۔ ترقی کرتے ہوئے معاشرے میں پیچھے رہ جانے کا احساس رکھنے والے سیاسی قیادت سے شدید بیزاری کا اظہار کرتے ہیں۔ جب لوگ دیکھتے ہیں کہ معاشرے میں ہلچل ہے، تحرک ہے اور امکانات بڑھتے جارہے ہیں تو وہ بھی زیادہ امیدوں کے حامل ہوتے ہیں اور ان میں کام کرنے کی سکت بھی بڑھتی جاتی ہے۔ مگر جب انہیں اپنے امکانات سے مستفید ہونے کا موقع نہیں دیا جاتا اور وہ زندگی کی دوڑ میں پیچھے رہ جاتے ہیں تب قیادت سے بیزاری جنم لیتی ہے۔ خواہشات اور حقائق کے درمیان پایا جانے والا فرق بہت سے معاملات کو جنم دیتا ہے۔ ترقی کی دوڑ میں پیچھے رہ جانے کا شدید احساس رکھنے والے انتخابات میں اپوزیشن کو نواز سکتے ہیں، احتجاج پر تُل سکتے ہیں اور بغاوت کی راہ پر بھی چل پڑنے کا امکان بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔
معیشت مستحکم، معیارِ زندگی پست
ہم نے پاکستان کے دیہی علاقوں میں جن ۱۵۰۰؍ افراد کا براہِ راست انٹرویو کیا ان سے بہت سے بنیادی مسائل (صحت، تعلیم، توانائی) وغیرہ کے حوالے سے سوالات کیے گئے۔ حکومت اور معاشرے پر اعتماد کے علاوہ امنِ عامہ کے حوالے سے بھی آراء لی گئیں۔ قومی معیشت کا تحرک دیکھ کر اپنی امنگوں اور امیدوں کا جائزہ لینے والے اور پیچھے رہ جانے کا احساس رکھنے والے والوں نے اپنی رائے کا کھل کر اظہار کیا۔
ترقی کی دوڑ میں پیچھے رہ جانے والے وہ غرباء حکومت سے بیزاری ظاہر نہیں کرتے جنہیں اپنی غربت کا احساس ضرور ہے تاہم بہت زیادہ آرزوئیں اور امیدیں انہوں نے نہیں پال رکھیں۔ معیشت کو تیزی سے ترقی کرتے ہوئے دیکھ کر جو لوگ اپنے لیے زیادہ امکانات محسوس نہیں کرتے وہ مایوسی کا شکار ہو جاتے ہیں اور پھر ان میں حکومت سے بیزاری پیدا ہوتی ہے۔ اُن کے غیر معمولی رنج اور ناخوشی کا مآخذ یہی احساس ہوتا ہے کہ پورا معاشرہ ترقی کر رہا ہے مگر وہ ترقی نہیں کر پارہے۔
اب تک آپ کو اندازہ ہوگیا ہوگا کہ کسی بھی ملک میں ترقی کی رفتار سے اس بات کی ضمانت نہیں دی جاسکتی کہ متعلقہ سیاسی جماعت اپنے اقتدار کو تسلسل سے ہمکنار رکھنے میں کامیاب ہوسکے گی۔ امریکا اور پاکستان کے علاوہ بھارت بھی اس کی ایک واضح مثال ہے۔ بھارتیہ جنتا پارٹی نے سوچا تھا کہ اس کے دور میں قومی معیشت نے غیر معمولی ترقی کی ہے، اس لیے ۲۰۰۴ء کے عام انتخابات میں اسے عوام کی بھرپور حمایت ملنی ہی چاہیے مگر ایسا نہ ہوسکا۔ ’’انڈیا شائننگ‘‘ کے نعرے کے تحت لڑے جانے والے انتخاب میں بھارتیہ جنتا پارٹی کو ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔ بات یہ تھی کہ ملک چمک دمک سے ہم کنار تھا مگر کروڑوں ووٹر ایسے بھی تھے جنہیں اپنی زندگی میں کوئی خاص چمک دمک دکھائی نہیں دے رہی تھی۔
۲۰۰۱ء میں چین کی معیشت غیر معمولی استحکام سے ہمکنار تھی۔ زرمبادلہ کے ذخائر توانا سے توانا تر ہوتے جارہے تھے۔ چین کے بیشتر باشندوں کو انتہائی بنیادی سہولتیں میسر تھیں۔ معیشت تیزی سے فروغ پارہی تھی۔ مگر حیرت انگیز بات یہ تھی کہ معیشت کے بھرپور استحکام کے باوجود ملک بھر میں سیاسی سطح پر احتجاج کا دائرہ وسیع تر ہوتا گیا۔ ۲۰۰۰ء میں احتجاج پر مبنی ۴۰ ہزار واقعات رونما ہوئے۔ اگلے تین برس میں احتجاج پر مبنی واقعات کی تعداد میں ۴۵ فیصد اضافہ ہوگیا۔ اور مظاہروں کا حجم بھی بڑھتا گیا۔
برطانیہ میں بھی کچھ ایسا ہی ہوا۔ جب معیشت سنبھل گئی اور مالیاتی منڈیاں بھی کمزور نہ رہیں تب بریگزٹ کے لیے دباؤ بڑھ گیا اور حکومت کو ریفرنڈم کرانا پڑا۔
پاکستان میں معاشی شرح نمو عالمگیر شرح نمو سے تین گنا رہی ہے، یعنی معیشت تیزی سے فروغ پارہی ہے، مگر اس کے باوجود ملک بھر میں بے چینی ہے اور احتجاج کی فضا ہے۔ لوگ سسٹم سے خوش نہیں ہیں۔ پاکستان میں تشدد اور انتہا پسندی بہت بڑا ایشو ہے۔ عام مشاہدہ ہے کہ حکومت سے بیزاری عام ہے۔ لوگوں کو حکمرانوں پر زیادہ بھروسہ نہیں۔ انتہا پسندی پروان چڑھ رہی ہے۔ تشدد کا گراف بلند ہو رہا ہے۔ یہ نکتہ نظرانداز نہیں کیا جاسکتا کہ اس وقت مفلوک الحال پاکستانی، حکومت اور سسٹم سے اتنے نالاں نہیں جتنے متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے افراد ہیں۔
گورننس کے لیے اسباق
ہم نے پاکستان میں جو کچھ دیکھا، سمجھا اور محسوس کیا اس کے ذریعے دوسرے خطوں میں رونما ہونے والی اہم سیاسی تبدیلیوں کو سمجھنے میں بھی مدد مل سکتی ہے۔ اگر کوئی لہر تمام کشتیوں کو ساتھ لے کر چلے تب بھی سیاسی استحکام کی خاطر خواہ ضمانت نہیں دی جاسکتی۔ اگر کسی بھی ملک میں حقیقی استحکام پیدا کرنا مقصود ہے تو معاشرے کے تمام طبقات کی خواہشات، امیدوں، مقاصد اور سکت کو سمجھنا اور ان کے درمیان پائے جانے والے فرق پر قابو پانا لازم ہے۔
ترقی یافتہ اور پسماندہ، تعلیم یافتہ اور جاہل، آگے بڑھنے کی لگن سے متصف یا محروم تمام ہی طرح کے معاشروں کی مشترکہ حقیقت یہ ہے کہ ہر معاشرے میں تمام طبقات آگے بڑھنا چاہتے ہیں اور جب انہیں آگے بڑھنے کا راستہ نہیں ملتا تب وہ خرابیوں کی طرف جاتے ہیں۔ ہر طبقے کی آگے بڑھنے کی خواہش کا احترام کرنا اور امید و حقیقت کے درمیان پائے جانے والے فرق کو کم سے کم رکھنا لازم ہے۔
کسی بھی معاشرے میں وہی لوگ انتشار پھیلانے کا باعث بنتے ہیں جو پورے معاشرے کو خوشحالی کی طرف بڑھتا ہوا دیکھتے ہیں مگر اپنے لیے امکانات محدود پاتے ہیں، یعنی انہیں آگے بڑھنے کا راستہ نہیں مل رہا ہوتا ہے۔ اس صورتِ حال پر قابو پانا ہر اس حکومت کے لیے لازم ہے جو سیاسی استحکام کی خواہش مند ہو۔ ہم ایک ایسی دنیا میں جی رہے ہیں جس میں رابطہ کوئی مسئلہ نہیں۔ انسان دنیا بھر میں کسی سے بھی کسی بھی وقت رابطہ کرسکتا ہے۔ کسی بھی صورتِ حال کے بارے میں لوگوں کو بہت تیزی سے معلوم ہو جاتی ہے۔ ملک میں اگر کہیں کچھ ہو رہا ہو تو باقی ملک کو بھی بہت تیزی سے پتا چل جاتا ہے۔ کوئی بھی حکومت اگر چاہتی ہے کہ ملک میں کہیں کوئی بڑی خرابی سر نہ اٹھائے اور مجموعی طور پر استحکام رہے تو لازم ہے کہ وہ کہیں بھی محرومی کا شدید احساس نہ ابھرنے دے۔ اس کے لیے لوگوں کو معاشی اعتبار سے پنپنے کے بھرپور مواقع فراہم کرتے رہنا لازم ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ حکومتوں کے لیے عدم مساوات دور کرنا ایک بڑے چیلنج کی شکل اختیار کرتا جارہا ہے۔
معیشت بہت تیزی سے پنپ رہی ہو تب بھی چند ایک طبقات یہ محسوس کرتے ہیں کہ ان کے لیے اس ترقی کے دامن میں کچھ بھی نہیں۔ حکومت کا فرض ہے کہ ان کی تشفّی کا سامان کرتی رہے۔ اسی صورت معاشرے میں امن اور استحکام قائم رہ سکتا ہے۔
(ترجمہ: محمد ابراہیم خان)
“When Prosperity Leads to Disaffection”. (“Foreign Affairs”. September 18, 2017)
Leave a Reply